انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** فضائل ومناقب کلام اللہ اورمہاجرین انسان کے لیے تھوڑے عرصہ تک مصائب برداشت کرلینا زیادہ دشوار نہیں ہے کچھ دنوں کے لیے وہ مالی نقصان بھی اٹھا سکتا ہے، جسمانی اذیتیں بھی برداشت کرسکتا ہے؛ بلکہ اس سے بڑھ کر ایک مرتبہ جان بھی دے سکتا ہے،مگر جیتے جی ہمیشہ کے لیے خویش واقارب،اہل وعیال اورمال و دولت سب چھوڑ کر جلاوطنی کی مصیبت نہیں سہہ سکتا،مہاجرین رضوان اللہ علیہم اجمعین کا سب سے بڑا ایثار،سب سے بڑی قربانی اورسب سے بڑا شرف یہی ہے کہ وہ صرف اللہ اوررسول کی خوشنودی کے لیے اپنے وطن اپنے اہل و عیال اوراپنے مال و جائیداد سب کو چھوڑ کر بے خانماں ہوئے، یہ وہ جذبہ فدویت ہے جس کی مثال مذاہب عالم کے تاریخی صفحوں میں نہیں مل سکتی، جب وہ گھر سے بے گھر ہوئے تو ان کے جیب و دامن مال ودولت سے خالی تھے،کھانے پینے تک کا سہارا نہ تھا، نہ کپڑا تھا،غرض وہ ہر قسم کی مادی دولت سے تہی دامن تھے، لیکن ان کے دل ایمان ،اللہ اور رسول کی محبت اورولولہ مذہب کی دولت سے معمور تھے اوراُس نے ان کو تمام دنیوی لذتوں سے بے نیاز کردیا تھا۔ اللہ نے ان کے یہ تمام صفات قرآن پاک میں خود بیان فرمائے ہیں؛ چنانچہ سورۂ حشر میں مہاجرین رضی اللہ علیہم اجمعین کی یہ خصوصیات شمار کرائی گئی ہیں۔ لِلْفُقَرَاءِ الْمُہٰجِرِیْنَ الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِہِمْ وَاَمْوَالِہِمْ یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللہِ وَرِضْوَانًا وَّیَنْصُرُوْنَ اللہَ وَرَسُوْلَہٗo اُولٰئِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوْنَ (الحشر:۸) (مالِ غنیمت میں) ان مھاجرین کا بھی حق ہوتا ہے جو اپنے وطن سے نکالے گئے اور اپنی جائداد، دولت سے محروم کردیئے گئے اوراللہ کے فضل اور اس کی رضا مندی کے متلاشی ہیں اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں ،یہ ہیں راست باز لوگ۔ ان کے اقوال وافعال یہ تھے: الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِہِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ اِلَّآ اَنْ یَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللہُo وَلَوْلَا دَفْعُ اللہِ النَّاسَ بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ لَّہُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَّصَلَوٰتٌ وَّمَسٰجِدُ یُذْکَرُ فِیْہَا اسْمُ اللہِ کَثِیْرًاo وَلَیَنْصُرَنَّ اللہُ مَنْ یَّنْصُرُہٗo اِنَّ اللہَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌoاَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰہُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنْکَرِo وَلِلہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ (الحج:۴۰،۴۱) وہ لوگ اپنے گھروں سے ناحق اس جرم میں نکالے گئے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے اوراگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ہاتھ سے نہ ہٹوادیتا تو کلیسے اورگرجے اورعبادت خانے اورمسجد یں جن میں کثرت سے اللہ کا نام لیا جاتا ہے، گرادیئے جاچکے ہوتے اور جو اللہ کی مدد کریگا اللہ ضرور اس کی مدد کرے گا بیشک اللہ قوت والا اورغالب ہے ،یہ لوگ (مہاجرین) اگر ہم ان کو حکومت دے کر زمین پر قادر کردیں تو یہ نمازیں پڑھیں گے، زکوٰۃ دیں گے اورلوگوں کو اچھے کام کے لیے کہیں گے اوربرے کاموں سے منع کریں گے اورانجام اللہ ہی کے لیے ہے۔ ان قربانیوں کے صلہ میں دنیا اورآخرت کی سب سے گراں بہا نعمت ان کو حاصل تھی، یعنی رضائے الہیٰ اوراس کی رحمت درجات اور مراتب کے اعتبار سے بھی وہ اللہ کے نزدیک سب سے بلند ترتھے۔ اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَہَاجَرُوْا وَجٰہَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْoاَعْظَمُ دَرَجَۃً عِنْدَ اللہِoوَاُولٰۗئِکَ ہُمُ الْفَاۗئِزُوْنَoیُبَشِّرُہُمْ رَبُّہُمْ بِرَحْمَۃٍ مِّنْہُ وَرِضْوَانٍ وَّجَنّٰتٍ لَّہُمْ فِیْہَا نَعِیْمٌ مُّقِیْمٌoخٰلِدِیْنَ فِیْہَآ اَبَدًا (توبہ:۲۰،۲۲) جولوگ ایمان لائے اورہجرت کی اورجان و مال سے اللہ کے راستہ میں جہاد کیا یہ لوگ اللہ کے نزدیک بہت بلند مرتبہ ہیں اوریہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں، ان کا رب ان کو اپنی خوشنودی اوررحمت اورایسے باغوں کی خوشخبری دیتا ہے جن میں ان کو دائمی آسائش ہے اور یہ لوگ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہجرت کے علاوہ ان کی شان یہ بھی ہے کہ وہ اپنی جان اوراپنا مال اللہ کی راہ میں لٹاتے ہیں۔ ایک دوسری آیت میں نہ صرف مہاجرین کے لیے بلکہ مہاجرین کے نقش قدم پر چلنے والوں کے لیے بھی اس خوشنودی کا مژدہ سنایا گیا ہے۔ وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُہٰجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِـاِحْسَانٍoرَّضِیَ اللہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ وَاَعَدَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَآ اَبَدًاoذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ (توبہ:۱۰۰) اورمہاجرین وانصار میں سے جن لوگوں نے اسلام میں سبقت کی اور وہ لوگ جنہوں نے خلوص قلب سے ان کا اتباع کیا،اللہ ان سے راضی ہے اور وہ لوگ اللہ سے راضی ہیں، اوران کے لیے ایسے باغ تیار کرائے گئے ہیں جن کے نیچے نہریں رواں ہیں ان میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے یہ بڑی کامیابی ہے۔ ایمان والوں کی شان یہ ہے کہ وہ رحمت الہیٰ سے نا امید نہیں ہوتے اس لیے مہاجرین ہمیشہ اس کی رحمت کے امیدوار رہتے تھے۔ وَالَّذِیْنَ ھَاجَرُوْا وَجٰہَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ اُولٰئِکَ یَرْجُوْنَ رَحْمَتَ اللہِ وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (البقرۃ:۲۱۸) جو لوگ ایمان لائے اورہجرت کی اورراہ خدا میں جہاد کیا یہی لوگ اللہ کی رحمت کے امیدوار ہیں اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ اللہان کی اس امید رحمت کو اس طرح پورا کرے گا کہ ان کے تمام گناہوں سے درگذرکرے گا اور ان کی خطائیں ان کے نامہ اعمال سے مٹادے گا۔ فَالَّذِیْنَ ھَاجَرُوْا وَاُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ وَاُوْذُوْا فِیْ سَبِیْلِیْ وَقٰتَلُوْا وَقُتِلُوْا لَاُکَفِّرَنَّ عَنْھُمْ سَیِّاٰتِھِمْ وَلَاُدْخِلَنَّھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ (ال عمران:۱۹۵) پس جن لوگوں نے ہجرت کی اوراپنے وطن سے نکالے گئے اورمیرے راستے میں تکلیفیں پہنچائے گئے اورلڑے اورمارے گئے ہم ان کی برائیوں کو مٹادیں گے اوران کو ایسے باغوں میں داخل کریں گے جس کے نیچے نہریں رواں ہوں گی۔ اللہ ان کی اس خانہ بربادی کے صلہ میں ان کو دنیا میں بھی بلند مرتبہ کرے گا اورآخرت میں بھی سرفراز فرمائے گا۔ وَالَّذِیْنَ ہَاجَرُوْا فِی اللہِ مِنْۢ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا لَنُبَوِّئَنَّہُمْ فِی الدُّنْیَا حَسَـنَۃًo وَلَاَجْرُ الْاٰخِرَۃِ اَکْبَرo لَوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ (نحل:۴۱) اورجن مسلمانوں نے اپنی مظلومیت کی وجہ سے ہجرت کی ان کو ہم دنیا میں ضرور اچھی جگہ بٹھائیں گے اورآخرت کا اجر اس سے بہت بڑا ہے کاش وہ لوگ جانتے۔ مہاجرین نے راہ خدا میں تمام شدائداٹھائے،جلاوطن ہوئے،ہرطرح کی جسمانی اورروحانی تکلیفیں برداشت کیں مگر آبروپرشکن تک نہ آئی اورنہ صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹا،اللہ نے ان کو اس استقامت اورصبر کا صلہ دیا۔ ثُمَّ اِنَّ رَبَّکَ لِلَّذِیْنَ ہَاجَرُوْا مِنْۢ بَعْدِ مَا فُتِنُوْا ثُمَّ جٰہَدُوْا وَصَبَرُوْٓاoاِنَّ رَبَّکَ مِنْۢ بَعْدِہَا لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (نحل:۱۱۰) پھر اللہ ان لوگوں کے لیے جنہوں نے مصیبت میں مبتلا ہونے کے بعد گھر بار چھوڑا،اورجہاد کیا اور ان کی تکلیفوں پر صبر کیا، بیشک تمہارا اللہ(ان امتحانوں کے بعد) بخشنے والا مہربان ہے۔ سورۂ حج میں ایک موقع پر اپنے انعام واکرام کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے۔ وَالَّذِیْنَ ہَاجَرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ ثُمَّ قُتِلُوْٓا اَوْ مَاتُوْا لَیَرْزُقَنَّہُمُ اللہُ رِزْقًا حَسَـنًاo وَاِنَّ اللہَ لَہُوَخَیْرُ الرّٰزِقِیْنَo لَیُدْخِلَنَّہُمْ مُّدْخَلًا یَّرْضَوْنَہٗ (حج:۵۸،۵۹) جن لوگوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی ،پھر شہید ہوگئے یا مرگئے ان کو اللہ ضرور اچھا رزق دے گا ،بیشک اللہ ہی روزی دینے والوں میں بہتر روزی دینے والا ہے وہ ان کو ایسی جگہ داخل کرے گا جس سے وہ لوگ خوش ہوجائیں گے۔ تنگدستی وعسرت کے وقت جب کہ تمام رشتہ داریاں منقطع ہوجاتی ہیں اوراحباب کنارہ کش ہوجاتے ہیں،مہاجرین نے آنحضرت ﷺ کا ساتھ دیا، اللہ نے اس کے عوض میں ان پر اپنا یہ فضل کیا۔ لَقَدْ تَّابَ اللہُ عَلَی النَّبِیِّ وَالْمُہٰجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُ فِیْ سَاعَۃِ الْعُسْرَۃِ (توبہ:۱۱۷) اللہ تعالی نے نبی ﷺ اوران مہاجرین و انصار پر اپنا فضل وکرم کیا جنہوں نے عسرت کی گھڑیوں میں نبی کا ساتھ دیا۔ اللہ نےصرف اپنے فضل وکرم پر اکتفانہ کیا، بلکہ صاحب مقدورمسلمانوں کو ان کے ساتھ حسنِ سلوک اوران کی خطاؤں سے درگذر کرنے کی ہدایت فرمائی اوراس کو موجب مغفرت قراردیا۔ وَلَا یَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْکُمْ وَالسَّعَۃِ اَنْ یُّؤْتُوْٓا اُولِی الْقُرْبٰى وَالْمَسٰکِیْنَ وَالْمُہٰجِرِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ o وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْاo اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللہُ لَکُمْo وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (النور:۲۲) تمہارے صاحب فضل اورصاحب مقدور لوگ قرابت والوں اورمحتاجوں اورمہاجرین فی سبیل اللہ کی (مالی)مدد نہ کرنے کی قسم نہ کھالیں، بلکہ چاہیے کہ ان کی خطائیں معاف کردیں،اوران سے درگذر کریں،کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمہاری مغفرت کرے اوراللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ ہجرت اخلاص فی الاسلام کی علامت اورایمان کی کسوٹی ہے اس سے مومنین اورمنافقین میں امتیاز ہوتا ہے، بغیر ہجرت ان پر اعتماد کی اجازت نہیں۔ فَلَا تَتَّخِذُوْا مِنْھُمْ اَوْلِیَاۗءَ حَتّٰی یُھَاجِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ (النساء:۸۹) جب تک یہ لوگ(منافقین)اللہ کی راہ میں ہجرت نہ کرجائیں اس وقت تک ان میں سے کسی کو دوست نہ بناؤ۔ مسلمانوں میں صرف وہی ایک دوسرے کے دوست ہیں،جنہوں نے راہ خدا میں گھر چھوڑے اور اس کے راستہ میں جانی اورمالی جہاد کیایا جنہوں نے مہاجرین کی امداد کی۔ اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَہَاجَرُوْا وَجٰہَدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ وَالَّذِیْنَ اٰوَوْا وَّنَــصَرُوْٓا اُولٰۗئِکَ بَعْضُہُمْ اَوْلِیَاۗءُ بَعْضٍ (انفال:۷۲) جولوگ ایمان لائے اورانہوں نے ہجرت کی اورراہِ خدا میں اپنی جان ومال سے جہاد کیا اورجن لوگوں نے ان (مہاجرین) کو جگہ دی اوران کی مدد کی یہی لوگ ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ وارثت کے لیے تنہا ایمان کافی نہیں،بلکہ ایمان کے ساتھ ساتھ ہجرت بھی نہایت ضروری ہے،ورنہ وارث مورث نہیں پاسکتا۔ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ یُہَاجِرُوْا مَا لَکُمْ مِّنْ وَّلَایَتِہِمْ مِّنْ شَیْءٍ حَتّٰی یُہَاجِرُوْا (انفال:۷۲) اوروہ لوگ جو ایمان لائے مگر ہجرت نہیں کی تو تم کو ان کی وراثت سے کوئی تعلق نہیں،جب تک وہ ہجرت نہ کرجائیں۔ ایما ن کی پختگی کا دارومدار ہجرت اورجہاد فی سبیل اللہ پر ہے۔ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَہَاجَرُوْا وَجٰہَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ وَالَّذِیْنَ اٰوَوْا وَّنَصَرُوْٓا اُولٰۗئِکَ ہُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّاoلَہُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّرِزْقٌ کَرِیْمٌ (انفال:۷۴) اورجو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے ہجرت کی،اوراللہ کے راستہ میں جہاد کیا اورجن لوگوں نے ان کو جگہ دی اوران کی مدد کی یہی لوگ پکے ایمان والے ہیں اوران کے لیے مغفرت اورعزت کی روزی ہے۔ احادیث نبوی قرآن کے علاوہ احادیث میں بھی ہجرت کی اہمیت اورمہاجرین کے فضائل کا کافی ذخیرہ موجود ہے،چنانچہ آنحضرت ﷺ ایک موقعہ پر مہاجرین کی فضیلت اس پیرایہ میں ظاہر کرتے ہیں۔ لَوْلَا الْهِجْرَةُ لَكُنْتُ امْرَأً مِنْ الْأَنْصَارِ۔ (بخاری ،باب ہجرت النبی) اگر ہجرت نہ ہوتی،تو میں بھی انصار کا ایک فرد ہوتا۔ ہجرت حفاظت دین کی خاطر کی جاتی ہے۔ فَقَالَتْ لَا هِجْرَةَ الْيَوْمَ كَانَ الْمُؤْمِنُونَ يَفِرُّ أَحَدُهُمْ بِدِينِهِ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى وَإِلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَخَافَةَ أَنْ يُفْتَنَ عَلَيْه۔ (ایضاً) حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ اب ہجرت کا حکم منسوخ ہوگیا ،یہ مومنین کے لیے اس وقت تھی، جب وہ اپنے دین کو بچانے کے لیے اللہ اوراس کے رسول کی طرف فتنہ کے خوف سے بھاگ کر پناہ گزین ہوتے تھے۔ ہجرت کا معاملہ نہایت سخت ہے اوروہی لوگ اس کو کرسکتے ہیں جواپنے ایمان واعتقاد میں نہایت سخت ہوں۔ أَنَّ أَعْرَابِيًّا سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْهِجْرَةِ فَقَالَ وَيْحَكَ إِنَّ شَأْنَهَا شَدِيدٌ ایک اعرابی نے آنحضرت ﷺ سے ہجرت کے بارہ میں سوال کیا،آپ ﷺ نے فرمایا،تجھ پر افسوس ہے ہجرت بہت ہی سخت ہے۔ ہجرت کا ثمرہ نیت پر ہے۔ عن عمرقال سمعت النبی ﷺ بقول الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّةِ فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْيَا يُصِيبُهَا أَوْ امْرَأَةٍ يَتَزَوَّجُهَا فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ وَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ فَهِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ (بخاری،حدیث نمبر:۳۰۶۹) حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ میں نے آنحضرت ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ اعمال کادارومدار نیت پر ہے،پس جس کی نیت ہجرت ِدنیا کے لیے یا کسی عورت سے شادی کی نیت سے ہوگی تو یہ ان ہی چیزوں کے لیے ہوگی اورجو ہجرت اللہ اوررسول کے لیے ہوگی اس کا اللہ ورسول کی خوشنودی میں شمارہوگا۔ اورصحابہ کرام ؓ کی ہجرت جاہ و دولت کے لیے نہ تھی،بلکہ جس چیز کے لیے تھی،اس کی خود حضرت خباب ؓ بیان کرتے ہیں: کناھا جرنا مع رسول اللہ ﷺ نبتغی وجہ اللہ نوجب اجرنا علی اللہ (بخاری جلد۱ باب ہجرۃ النبی ﷺ وصابہ الی المدینہ) ہم لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ خالصۃً لوجہ اللہ ہجرت کی تھی اس لیے ہم اجر کے مستحق ہوگئے۔ چونکہ مہاجرین ؓ اپنے وطن کو خالصۃً لوجہ اللہ چھوڑتے تھے، اس لیے دوبارہ اس زمین میں رہنا اورمرنا تک گوارانہ کرتے تھے،چنانچہ سعد ؓ ہجرت کے بعد کسی ضرورت سے مکہ آئے اوروہاں آکر بیمار پڑگئے،حالت نازک ہوئی، تومحض اس خیال سے زیادہ پریشان تھے کہ مکہ ہی میں انتقال نہ ہوجائے،آنحضرت ﷺ بھی اس کوناپسند فرماتے تھے،چنانچہ آپ خود بیان کرتے ہیں۔ عن سعد بن ابی وقاص قال جاء نی النبی صلی اللہ عیہ وسلم یعودنی وانا بمکۃ وھویکرہ ان یموت بالارض التی ھاجر منھا (بخاری :۱/۳۸۳) حضرت سعدبن وقاص ؓ فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ میری عیادت کو مکہ تشریف لائے اورآپ اس مقام پر موت کو ناپسند فرماتے تھے،جہاں سے ہجرت کی گئی ہو۔ اسی حدیث میں اس موقع پر ایک روایت میں ہے کہ خود حضرت سعد ؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دعائے صحت کی درخواست کی تاکہ ان کی ہجرت ناکام نہ رہ جائے۔ قال مرضت فعادنی النبی ﷺ فقلت یا رسول اللہ ادع اللہ ان لا یردنی علی عقبیٰ (بخاری :/۳۸۳) حضرت سعد ؓ فرماتے ہیں کہ میں بیمار ہوا آنحضرت ﷺ میری عیادت کو تشریف لائے میں نے درخواست کی کہ حضور ﷺ میرے لیے دعا فرمائیں کہ اللہ مجھ کو الٹے پاؤں نہ لوٹائے۔ اس درخواست پر آپ نے یہ دعا فرمائی: اللھم امض اصحابی ھجرتہم ولایثرھم علی اعقابھم خدایا میرے اصحاب کی ہجرت پوری کردے اوران کو الٹے پاؤں نہ لوٹا۔ اکابرصحابہ ؓ ہجرت کو اپنے لیے سرمایۂ فخر سمجھتے تھے، چنانچہ حضرت عثمان ؓ فخریہ فرماتے تھے کہ "ھاجرت الھجرتین اوالتین" (ایضاً) مہاجرین قیامت کے دن عام مسلمانوں سے ممتاز اورآفتاب کی طرح تاباں ہوں گے۔ عن ابن عمرؓ قَالَ وَكُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا آخَرَ حِينَ طَلَعَتْ الشَّمْسُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَيَأْتِي أُنَاسٌ مِنْ أُمَّتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ نُورُهُمْ كَضَوْءِ الشَّمْسِ قُلْنَا مَنْ أُولَئِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَالَ فُقَرَاءُ الْمُهَاجِرِينَ وَالَّذِينَ تُتَّقَى بِهِمْ الْمَكَارِهُ يَمُوتُ أَحَدُهُمْ وَحَاجَتُهُ فِي صَدْرِهِ يُحْشَرُونَ مِنْ أَقْطَارِ الْأَرْضِ حضرت ابن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ ایک دن ہم لوگ طلوع آفتاب کے وقت آنحضرت ﷺ کے پاس تھے،آپ نے فرمایا کہ عنقریب قیامت کے دن میری امت کے کچھ لوگ ایسے اُٹھیں گے کہ جن کا نورضیائے شمس کےمماثل ہوگا، ہم لوگوں نے کہا یا رسول اللہ وہ کون لوگ ہوں گے،فرمایا فقرائے مہاجرین جن کے ذریعہ سے مصیبتوں کا تحفظ کیا جاتا ہے اوراپنی حسرتیں اورتمنائیں سینوں میں لیے ہوئے دنیا سے اٹھتے ہیں یہ لوگ مختلف اقطاع عالم سے اٹھائے جائیں گے۔ مہاجرین کے لیے عام مسلمانوں سے مدتوں پہلے جنت کے دروازے کھل جائیں گے۔ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم أتعلم أول زمرة تدخل الجنة من أمتي قال الله ورسوله أعلم فقال المهاجرون يأتون يوم القيامة إلى باب الجنة ويستفتحون ، فيقول لهم الخزنة ، أو قد حوسبتم ، فيقولون بأي شيء نحاسب ، وإنما كانت أسيافنا على عواتقنا في سبيل الله ، حتى متنا على ذلك ، قال فيفتح لهم ، فيقيلون فيه أربعين عاما قبل أن يدخلها الناس (المستدرک:۲۳۴۸) حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ کیا تم میری امت کے اس زمرہ کے لوگوں کو جانتے ہو جو سب سے پہلے جنت میں داخل ہوگا وہ فقراء مہاجرین ہوں گے قیامت کے روز وہ جنت کے دروازہ پر آکر باب جنت کھلوانا چاہیں گے دربان سوال کریں گے کہ کیا تمہارا حساب ختم ہوچکا وہ لوگ جواب دیں گے کہ ہمارا کس چیز کا حساب ہوگا، اللہ کے راستہ میں ہماری تلواریں ہمارے زیب دوش رہیں اور اسی آن کے ساتھ جان دی اس کے بعد جنت کے دروازے کھول دیے جائیں گے، اورعام لوگوں کے داخلہ سے چالیس سال قبل وہ لوگ اس میں آرام کریں گے۔ مہاجرین کسی حالت اورکسی وقت میں بھی اسلام کی خدمت سے پہلو تہی نہ کرتے تھے ،فاقہ پر فاقہ ہوتے مگر ان کی جانفروشیوں میں فرق نہ آتا، غزوۂ خندق کے موقعہ پر علی الصباح کڑکڑاتے جاڑوں میں خالی پیٹ خندق کھودتے تھے،چنانچہ اسی موقعہ پر ایک دن صبح سویرے آنحضرت ﷺ نکلے،تو یہ منظر دیکھا: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْخَنْدَقِ فَإِذَا الْمُهَاجِرُونَ وَالْأَنْصَارُ يَحْفِرُونَ فِي غَدَاةٍ بَارِدَةٍ فَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ عَبِيدٌ يَعْمَلُونَ ذَلِكَ لَهُمْ فَلَمَّا رَأَى مَا بِهِمْ مِنْ النَّصَبِ وَالْجُوعِ رسول اللہ ﷺ خندق کی طرف گئے تو آپ ﷺنے دیکھا کہ مہاجرین اورانصار سردی کی صبح میں خندق کھودرہے ہیں اوران کے پاس کوئی نوکر چاکر نہیں کہ اس کام کو کردے اوران کی تھکن اوربھوک کو دیکھ کریہ دعا فرمائی: اللَّهُمَّ إِنَّ الْعَيْشَ عَيْشُ الْآخِرَهْفَاغْفِرْ لِلْأَنْصَارِ وَالْمُهَاجِرَهْ اےاللہ اصل عیش آخرت کا عیش ہے مہاجرین اور انصار کی مغفرت فرما۔ ان فضائل کے علاوہ مہاجرین ؓ کی ایک نمایاں فضیلت یہ تھی کہ ان کا دامن نفاق کے داغ سے پاک وصاف تھا، اس لیے منافق وہ لوگ تھے جو درپردہ تو اسلام کے دشمن تھے مگر خوف سے اس کا اظہار نہ کرسکتے تھے،یا وہ تھے جو مال و دولت کی طمع میں مسلمان ہوئے تھے، یا وہ تھے جو خوف سے اسلام لائے تھے اورمہاجرین رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اسلام ان تینوں چیزوں کی آمیزش سے پاک تھا، اس لیے کہ جب یہ لوگ مشرف باسلام ہوئے اس وقت اسلام بالکل ابتدائی حالت میں تھا، نہ اس کے پاس مال و زر تھا،نہ قوت وحکومت تھی، بلکہ اس زمانہ میں جو لوگ مسلمان ہوئے ان کی جان اوران کا مال خود خطرہ میں پڑگیا تھا، اس لیے ان کا اسلام خاصۃ للہ تھا، ایک سبب یہ بھی تھا کہ مکہ کی تیرہ سالہ زندگی میں مسلمان تعداداور قوت دونوں حیثیتوں سےکفار کے مقابلے میں ضعیف تھے اس لیے وہ مسلمانوں کا مقابلہ اپنی قوت کے بل پر کرتے تھے، اس لیے ان کی دوستی اوردشمنی دونوں کھلی ہوئی تھیں۔ اس کے برعکس مدینہ میں انصار ؓ کے علاوہ کچھ لوگ توخوف سے اسلام کے دائرہ میں داخل ہوئے اورکچھ لوگوں نے مال و ذر کی طمع میں اسلام قبول کیا،اس کے علاوہ جن لوگوں کے اقتدار کو اسلام نے صدمہ پہنچایا تھا وہ درپردہ تو ان کے مخالف تھے،مگر علی الاعلان اس کا اظہار نہیں کرسکتے تھے کہ مسلمانوں میں کافی طاقت آچکی تھی،خود انصار ان کے پشت پناہ تھے ؛چنانچہ عبداللہ بن ابی وغیرہ اسی قسم کے لوگوں میں تھے، اس لیے مکی سورتوں میں کہیں نفاق و منافقت کا تذکرہ نہیں ہے اور مدنی سورتوں میں اس کا بکثرت ذکر آتا ہے،نساء،توبہ،انفال، احزاب،حدید،اورفتح مدنی سورتیں ہیں اوران سب میں مذمت کے ساتھ نفاق کا ذکر ہے،سورہ ٔمنافقون میں مخصوص طورپر ان کی پردہ دری میں نازل ہوئی ہے،سورۂ توبہ میں بھی نہایت تفصیل کے ساتھ ان کی نفاق آمیز دوستی کا راز فاش کیا گیا ہے۔ اَلْاَعْرَابُ اَشَدُّ کُفْرًا وَّنِفَاقًا وَّاَجْدَرُ اَلَّا یَعْلَمُوْا حُدُوْدَ مَآ اَنْزَلَ اللہُ عَلٰی رَسُوْلِہٖo وَاللہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌo وَمِنَ الْاَعْرَابِ مَنْ یَّتَّخِذُ مَا یُنْفِقُ مَغْرَمًا وَّیَتَرَبَّصُ بِکُمُ الدَّوَاۗئِرَo عَلَیْہِمْ دَاۗئِرَۃُ السَّوْءِoوَاللہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ (توبہ:۹۸) دیہاتی بدوکفر اورنفاق میں بہت سخت ہیں اور یہ اسی لائق ہیں کہ اللہ نے اپنے رسول پر جو اتارا ہے اس کے احکام کو نہ جانیں اوراللہ جاننے والا حکمت والا ہے، دیہاتیوں میں کچھ ایسے بھی ہیں کہ جو کچھ اللہ کی راہ میں صرف کرتے ہیں اس تاوان سمجھتے ہیں اور تم مسلمانوں پرگردش زمانہ کے منتظر ہیں، سو ان ہی پر بری گردش ہوگی اوراللہ سننے والا اورجاننے ولا ہے۔ اللہ تعالی نے دوسرے موقع پر مدینہ کی بھی صراحت کردی ہے۔ وَمِمَّنْ حَوْلَکُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ مُنٰفِقُوْنَoوَمِنْ اَھْلِ الْمَدِیْنَۃِo مَرَدُوْا عَلَی النِّفَاقِo لَاتَعْلَمُھُمْoنَحْنُ نَعْلَمُھُمْo سَنُعَذِّبُھُمْ مَّرَّتَیْنِ ثُمَّ یُرَدُّوْنَ اِلٰى عَذَابٍ عَظِیْمٍ (التوبہ:۱۰۱) اورمسلمانوں تمہاری آس پاس کے دیہاتیوں میں منافق ہیں اورخود مدینہ والوں میں جو نفاق پر اڑے ہوئے ہیں، ان کو تم نہیں جانتے،ہم ان کو جانتے ہیں عنقریب ہم ان کو دہراعذاب دیں گے پھر بڑے عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے۔ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے منہاج السنہ میں مہاجرین ؓ کی اس فضیلت کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہےکہ: "احمد بن حنبل اوردوسرے علماء کہتے ہیں کہ مہاجرین ؓ میں کوئی منافق نہ تھا، بلکہ نفاق انصار ؓ کے قبیلوں میں ظاہرہوا،جب مدینہ میں اسلام کا غلبہ ہوا اوراس میں اوس وخزرج کے قبیلے داخل ہوئے اورمسلمانوں کو ایک ایسا محفوظ گھر مل گیا جس کے ذریعہ سے وہ اپنی حفاظت کرنے اورلڑنے پر قادر ہوگئے تو مدینہ کے باشندے اسلام میں داخل ہوگئے اوراس کے قرب وجوار کے اعرابی خوف اورجان بچانے کے لیے اسلام لائے،یہ لوگ منافق تھے جیسا کہ خدا وندے تعالی فرماتاہے:" وَمِمَّنْ حَوْلَکُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ مُنٰفِقُوْنَoوَمِنْ اَھْلِ الْمَدِیْنَۃِo مَرَدُوْا عَلَی النِّفَاقِo لَاتَعْلَمُھُمْoنَحْنُ نَعْلَمُھُمْo سَنُعَذِّبُھُمْ مَّرَّتَیْنِ"اسی لیے نفاق کا ذکر مدنی سورتوں میں ہے،مکی سورتوں میں نہیں ہے، کیونکہ جو لوگ ہجرت کے قبل مکہ میں اسلام لائے تھے،ان میں کوئی منافق نہ تھا اورجن لوگوں نے ہجرت کی ان میں بھی کوئی منافق نہ تھا ؛بلکہ یہ سب اللہ اوراس کے رسول پر ایمان لائے تھے اوراللہ اوراس کے رسول سےمحبت رکھنے والے تھے اوراللہ اورا سکا رسول ان کو ان کے اہل و عیال اوران کے مال ودولت سے زیادہ محبوب تھا۔ شاہ معین الدین احمد ندوی ۱۰/جولائی ۲۷ء دارالمصنفین، اعظم گڈھ