انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت عبداللہ ؓبن ابی امیہ نام ونسب عبداللہ نام،باپ کا نام حذیفہ تھا، نسب نامہ یہ ہے، عبداللہ بن ابی امیہ (حذیفہ) ابن مغیرہ بن عبداللہ بن عمرو بن مخزوم مخزومی، ماں کا نام عاتکہ تھا، عاتکہ عبدالمطلب کی لڑکی تھیں، اس رشتہ سے عبداللہ رسول اللہ ﷺکے پھوپھیرے بھائی ہوئے، اس کے علاوہ ام المومنین حضرت ام سلمہؓ کے ماں جائے بھائی تھے،غرض عبداللہ کو رسول اللہ ﷺکے ساتھ متعدد قرابتوں کا شرف حاصل تھا۔ اسلام سے پہلے عبداللہ کا گھرانہ زمانۂ جاہلیت میں بہت معزز مانا جاتا تھا، ان کے والد ابو امیہ قریش کے مقتدر رئیس تھے،فیاضی اورسیر چشمی ان کا خاندانی شعار تھا، سفر میں اپنے تمام ہمراہیوں کے اخراجات کا بار خود اٹھا تے تھے، اسی لیے "زادالراکب"مسافر کا توشہ ان کا لقب ہوگیا تھا (اسد الغابہ:۳/۱۱۸) آنحضرتﷺ نے جب اسلام کی دعوت دی تو سب سے زیادہ مخالفت روسائے قریش کی جانب سے ہوئی،ابو امیہ بھی روسائے قریش میں تھے،اس لیے وہ اور ان کے لڑکے عبداللہ نے بھی آنحضرتﷺ کی بڑی مخالفت کی ،عبداللہ رسول اکرمﷺ اورمسلمانوں سے سخت عنادر کھتے تھے، کان عبداللہ بن ابی امید شدیدا علی المسلمین مخالفا مبغضا وکان شدید العداوۃ لرسول اللہ ﷺ(استیعاب:۱/۳۴۸) آنحضرتﷺ نے جب اپنے چچا ابو طالب کی وفات کے وقت ان سے کلمہ شہادت پڑہنے کی درخواست کی تو عبداللہ ہی نے یہ کہہ کر روکا کہ کیا آخر وقت عبدالمطلب کی ملت سے پھر جاؤ گے۔ (بخاری باب الجنائز) آنحضرتﷺ سے بطور استہزاء اوراستحالہ کہا کرتے تھے کہ میں اس وقت تک تمہارے اوپر ایمان نہیں لاسکتا ،جب تک تمہارے لیے زمین سے کوئی چشمہ نہ پھوٹے یا تمہارے لیے کوئی زرنگار محل نہ تیار ہوجائے (استیعاب:۱/۳۴۸) سعید روایت کرتے ہیں کہ کلام اللہ کی یہ آیت: لَنْ نُؤْمِنَ لَكَ حَتَّى تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْأَرْضِ يَنْبُوعًا (الاسراء:۹۰) ہم اس وقت تک ہر گز تمہارے اوپر ایمان نہیں لاسکتے، جب تک ہمارے لیے زمین سے کوئی چشمہ نہ پھوٹے۔ عبداللہ ہی کے بارہ میں نازل ہوئی تھی۔ (تفسیر ابن جریر طبری:۱۵/۱۰۴) اسلام لیکن بالآخر اسلام کی قوتِ تاثیر نے انہیں بھی کھینچ لیا،یا وہ بغض وعناد تھا کہ رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کا مضحکمہ اڑایا کرتے تھے،یا فتحِ مکہ سے کچھ دنوں پہلے خود بخود بلا کسی تحریک کے آستانِ نبوی کی طرف چلے،مکہ اور مدینہ کے درمیان مقام ثنیۃ العقاب میں آنحضرتﷺ سے ملاقات ہوئی، عبداللہ کے جرائم ان کی نگاہوں کے سامنے تھے،اس لیے بلا وسیلہ سامنے جانے کی ہمت نہ ہوتی تھی، اپنی بہن حضرت ام سلمہؓ کو درمیان میں ڈال کر باریابی کی اجازت چاہی ،ان کی فردعصیاں کا ایک ایک جرم آنحضرتﷺ کی نگاہوں کے سامنے آگیا،اس لیے آپ نے ملنے سے انکار کردیا،حضرت ام سلمہؓ نے سفارش کی کہ کچھ بھی ہو بہر حال وہ آپ کے پھوپھی زاد بھائی اور سسرالی عزیز بھی ہیں،فرمایا انہوں نے مکہ میں میرے لیے کیا اٹھا رکھا،اس مایوس کن جواب کے بعد عبداللہ نے عالمِ ناامیدی میں کہا اگر عفو در گذر کا دروازہ قطعی بند ہوچکا ہے، تو دربدر پھر کر بھوک اورپیاس سے تڑپ تڑپ کر جان دیدینگے، آنحضرتﷺ کو اس عزم کی خبر ہوئی تو رحم وکرم کی موجوں نے غیظ و غضب کی گرمی کو ٹھنڈا کردیا اور عبداللہ کو باریابی کی اجازت مل گئی اور وہ خلعتِ اسلام سے سرفراز ہوگئے۔ (سیرۃ ابن ہشام:۲/۲۳۳) غزوات وشہادت قبول اسلام کے بعد تلافیِ مافات کے لیے جہاد فی سبیل اللہ کے میدان میں قدم رکھا اور فتح مکہ حنین اور طائف میں مجاہدانہ شریک ہوئے، غزوۂ طائف میں داد شجاعت دیتے ہوئے ایک تیر لگا ،یہ تیر تیر قضا ثابت ہوا، اورعبداللہ شہادت سے سرفراز ہوگئے۔ (اسد الغابہ:۳/۱۱۸)