انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** (۹)حبرالاُمۃ حضرت عبداللہ بن عمرؓ (۷۴ھ) ابوعبدالرحمن العدوی المدنی حضرت علیؓ کے صاحبزادے محمد بن الحنیفہؒ انہیں "حبرھذہ الامۃ" (اس اُمت کے بڑے عالم) کہا کرتے تھے، امام زہریؒ فرماتے ہیں: "لاتعد لن برای ابن عمر فانہ اقام ستین سنۃ بعدرسول اللہﷺ فلم یخف علیہ شئی من امرہ ولامن امراصحابہ"۔ (تذکرہ:۱/۳۸) ترجمہ:نہ برابر سمجھ ابن عمر کے ساتھ کسی کو رائے میں؛ اس لیئے کہ وہ حضورﷺ کے وصال کے بعد ساٹھ سال تک زندہ رہے اس لیئے نہیں مخفی رہا، آپؓ پر حضورﷺ کے امر سے اور نہ ہی آپ کے صحابہ کے امر سے۔ اہل الرائے ہونا کوئی عیب نہیں جوامام زہریؒ عبداللہ بن عمرؓ کی طرف منسوب کررہے ہیں، یہ علم کا وہ درجہ ہے جومجتہد کوہی نصیب ہوتا ہے، آپؓ سے کثیر تعداد احادیث منقول ہیں؛ لیکن علامہ ذہبیؒ نے انہیں الفقیہ کے پراعزاز لقب سے ذکر کیا ہے، جن دنوں حضرت علی مرتضیٰؓ اور حضرت امیرمعاویہؓ میں اختلاف جاری تھا اور اچھی خاصی تعداد اس بات کی حامی ہوگئی تھی کہ یہ دونوں بزرگ قیادت سے کنارہ کش ہوجائیں توجوشخصیت ان دنوں لوگوں کی نظر میں اس لائق تھی کہ اس پر امت جمع ہوجائے اور اس میں علم وعمل کی پوری استعداد ہوتو وہ آپؓ ہی تھے؛ لیکن آپؓ اس میدان میں آگے آنے کے لیئے قطعاً تیار نہ ہوئے، حضرت سفیان ثوریؒ (۱۶۱ھ) کہا کرتے تھے: "یقتدی بعمر فی الجماعۃ وبابنہ فی الفرقۃ"۔ (تذکرہ:۱/۳۸) ترجمہ:لوگوں سے مل کر چلنے میں عمرؓ کی پیروی کی جائے اور لوگوں سے کنارہ کشی میں اُن کے بیٹے کونمونہ بنایا جائے۔