انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** مفتی محمد شفیع صاحبؒ (م:۱۳۹۶ھ) ۱۔بدعت کہتے ہیں مقاصد شرعیہ کے بدلنے کو،غیر مقصودکو مقصود بنادے یا مقصود کو غیر مقصود بنادے۔ (مجالس مفتی اعظم رحمہ اللہ،ص:۶۷) ۲۔یقین کیجئے کہ عبادات کا جو طریقہ رسول کریم ﷺ اورصحابہ کرام ؓ نے اختیار نہیں کیا وہ دیکھنے میں کتنا ہی دل کش اوربہتر نظرآئے وہ اللہ اوراس کے رسول ﷺ کے نزدیک اچھا نہیں۔ (مجالس مفتی،اعظم رحمہ اللہ ،ص:۶۹) ۳۔دنیاکاتجربہ اس بات کا گواہ ہے کہ نرا قانون کبھی کسی قوم کی اصلاح نہیں کرسکا اورجب تک قانون کی پشت پر ایک مضبوط روحانی عقیدہ نہ ہو ظلم واستحصال کو نہیں روکا جاسکتا۔ (مجالس مفتی اعظم رحمہ اللہ،ص:۷۳) ۴۔دنیا کے مسلمات اورعلوم متعارفہ میں سے ہے کہ کوئی چیز خواہ کتنی ہی محبوب اور بہتر ہو،جب حدود سے تجاوز کرتی ہے تو مضر اورآفت ہوجاتی ہے،پانی اور ہواانسان کے لئے مدارحیات ہیں لیکن ذرا اعتدال سے زائد ہوجاتی ہیں تو یہی چیزیں مہلک ہوجاتی ہیں۔ (مجالس مفتی اعظم رحمہ اللہ،ص:۹۳) ۵۔اسلام کام سے پھیلا ہے،اسلام نام ونمود سے نہیں پھیلا اور کام بھی وہ جو خلوص کے ساتھ محض اللہ تعالیٰ کے واسطے تھا۔ (مجالس مفتی اعظمؒ،ص:۹۹) ۶۔یہ نہ سمجھو کہ یورپ دہریہ پن اختیار کرکے ترقی کررہا ہے وہ ترقی کیا ترقی ہے کہ دل کو چین نصیب نہ ہو،ترقی کا حاصل تو یہ ہے کہ دل کو سکون واطمینان ملے اور وہی نہ ملاتو یہ کیا ترقی ہوئی،زحمت ومشقت ہے اورکچھ نہیں،دیکھ لو کسی ملک کو چین نہیں راحت وچین اگر ہے تو وہ صرف اسلام میں ہے۔ (مجالس مفتی،اعظم رحمہ اللہ،ص:۱۱۰) ۷۔مال کی قدر کرو، مال دنیا کی زندگی کا سہارا ہے، اس کو ہوش عقل کے ساتھ خرچ کرو اوراگر خرچ کرنے ہی کا جوش ہے تو اللہ تعالیٰ کی راہ میں دو،اس میں حوصلہ آزمائی کرو۔ (مجالس مفتی اعظم رحمہ اللہ،ص:۱۳۴) ۸۔تم شریعت پر چل کر دیکھو ان شاء اللہ سب تمہاری عزت کریں گے،جس کی واضح دلیل یہ ہے کہ جو پکے مسلمان ہیں،انگریز،ہندو،پارسی وغیرہ سب ان کی عزت کرتے ہیں تم دین پر قائم رہو،ساری قومیں تمہارے لئے مسخر ہوجائیں گی۔ (مجالس مفتی اعظم رحمہ اللہ،ص؛۱۶۷) ۹۔اگر بڑا چھوٹوں سے مشورہ کیا کرے تو ان شاء اللہ غلطیوں سے محفوظ رہے گا،چہ جائیکہ چھوٹا اپنے بڑوں سے مشورہ کرے،وہ تو بدرجہ اولیٰ محفوظ ہوگا۔ ۱۰۔آج کل سلامتی عزلت اوریکسوئی میں ہے اوراس میں یہ نیت ہونی چاہئے کہ میرے شر سے وہ اور ان کے شر سے میں بچا رہوں۔ ۱۱۔حضرت مولانا گنگوہی ؒ نے فرمایا کہ کسی سے کسی قسم کی بھی توقع مت رکھو،یہ بات دین ودنیا کی راحت کا گرہے،جس شخص کی یہ حالت ہوگی وہ افکار وہموم سے نجات پائے گا۔ ۱۲۔محض دوسروں کے اعتماد پر کام چھوڑدینے سے وہ کام اکثر مکمل نہیں ہوتا۔ (مجالس مفتی اعظم رحمہ اللہ،ص:۲۲۸) ۱۳۔کسی پر بوجھ ڈال کر اس کے یہاں کھانا پینا نہ چاہئے ،اس بات کو عمر بھر یادرکھنا۔ ۱۴۔بیوی کی تھوڑی بہت بد خلقی کو گوارا کرلینا چاہئے،کیا عجیب بات ہے کہ وہ شادی ہوتے ہی سارے اعزہ واقارب کو چھوڑ کر شوہر کے لئے وقف ہوجاتی ہے۔ ۱۵۔دوسروں پر ہنسنا نہ چاہئے،اکثر دیکھا ہے جو جس پر ہنسا خود اس عیب یا مصیبت میں مبتلا ہوا۔ (مجالس مفتی اعظم رحمہ اللہ،ص:۲۲۹) ۱۶۔آدمی قناعت پر اکتفا کرے اورضروری سامان کے ساتھ رہے تو تھوڑی آمدنی میں بھی رہ سکتا ہے اورفرض منصبی کو بھی ایسا ہی تقویٰ والا ادا کرسکتا ہے۔ (مجالس مفتی اعظم رحمہ اللہ،ص:۲۳۲) ۱۷۔انسان کا ظاہر اس کے باطن میں مؤثر ہوتا ہے،اگر کوئی غم کی شکل بنائے تو تھوڑی دیر بعد دل میں حزن کی کیفیت محسوس ہوگی۔ (مجالس مفتی،اعظم رحمہ اللہ،ص:۲۳۲) ۱۸۔باطنی عیوب پر مطلع ہونے اور ان کی اصلاح کا طریقہ یہ ہے کہ آپ کو لوگوں میں جو بات بری اور قابل اعتراض نظر آئے اس کو اپنے نفس میں ٹٹولیں کہ کہیں میرے اندر تویہ عیب نہیں اگر اس کا کچھ احساس ہو تو فوراً اس کی اصلاح کا اہتمام کریں۔ (مجالس مفتی اعظم رحمہ اللہ،ص:۲۷۴) ۱۹۔ناجائز کاموں اورگناہوں سے بچنے کے لئے بعض جائز کاموں کو بھی ترک کرنے کی عادت ڈالی جائے ایسے مجاہدات خود مقصود نہیں ہوتے،جب نفس پرقابوپالینے کا اطمینان ہوجائے ترک کردیئے جاتے ہیں۔ (مجالس مفتی اعظم رحمہ اللہ،ص:۲۷۹) ۲۰۔مجھے عاصی سے اتنی نفرت نہیں جتنی مدعی تقدس سے ہوتی ہے۔ ۲۱۔غلطی کی تاویل بہت بری ہے،عذر کے ساتھ معافی چاہے تو پرواہ نہیں۔ (مجالس مفتی اعظم ؒ ،ص:۲۹۸) ۲۲۔دوسروں کےعیوب دیکھنے کے بجائے اپنے عیب کے دور کرنے کی فکر کرو توبہ کرلو،اگر اپنے عیوب نظر آنے لگیں تو دوسرے کے عیوب باوجود نظر آنے کے اس کی طرف نظر جاہی نہیں سکتی کسی کا سارا بدن زخموں سے چور ہوتو دوسرے کی پھانس یا تراش اس پر کیا اثر کرےگی۔ (مجالس مفتی اعظم رحمہ اللہ،ص:۴۲۵) ۲۳۔صبر کا ادب یہ ہے کہ زبان کو شکوہ وشکایت سے روکا جائے اور سوائے حق تعالیٰ کے اپنی مصیبت کسی کے سامنے بیان نہ کرے۔ (مجالس مفتی اعظم ؒ :۴۳۴) ۲۴۔توکل ترک اسباب نہیں،ترک رویت اسباب ہے (یعنی توکل اسباب چھوڑنے کا نام نہیں اسباب تو اختیار کرے مگر اسباب پر نظر اوربھروسہ نہ کرے ؛بلکہ بھروسہ صرف حق تعالیٰ پر کرے اس کو توکل کہتے ہیں) (مجالس مفتی اعظم رحمہ اللہ،ص:۴۸۷) ۲۵۔آدمی کو چاہئے کہ خدا سے صحیح تعلق پیدا کرے،پھر اللہ تعالیٰ بڑے متکبروں اورفرعونوں کی گردنیں اس کے سامنے جھکادیتے ہیں۔ (مجالس مفتی اعظم رحمہ اللہ،ص:۴۸۷) ۲۶۔تعظیم کا نام ادب نہیں،ادب نام ہے راحت رسانی کا،استادوں کا ادب واحترام نہ کرنے کی وجہ سے علم میں سے خیر وبرکت اٹھ جاتی ہے،عادۃ اللہ یہی ہے کہ استاد خوش وراضی نہ ہو تو علم نہیں آسکتا۔ (مجالس مفتی اعظم رحمہ اللہ،ص:۵۰۶) ۲۷۔ایسی گمنامی کے ساتھ زندگی بسر کرو کہ کام تو سب ہوں مگر کسی کو خبر نہ ہو۔ ۲۸۔خشوع وتواضع کے آثار یہ ہیں کہ جب چلے گردن جھکا کے چلے،بات چیت میں معاملات میں سختی نہ کرے،غصہ اورغضب میں آپے سے باہر نہ ہو اوربدلہ لینے کی فکر میں نہ رہے۔ ۲۹۔بڑا بننے کا طریقہ یہ ہے کہ چھوٹا بنے۔ (مجالس مفتی،اعظم رحمہ اللہ،ص:۵۲۹) ۳۰۔یہ کہنا کہ علماء وقت کے تقاضوں سے بے خبر ہیں یا وہ ان تقاضوں کی طرف توجہ نہیں دینا چاہتے،محقق اوراہل بصیرت علماء کے حالات اورتصانیف سے بے خبری کا نتیجہ ہے،جس کا بڑا سبب بہت سے ادھوری تعلیم والوں کا اہل علم کے نام سے معروف ہوجانا اورناواقف عوام کا دین کے تمام معاملات میں ان پر اعتماد کرلینا ہے۔ ۳۱۔خوش گوار دنیا دین ہی کے ساتھ میسر ہوتی ہے،مسلمانوں کو تو شریعت سے الگ ہوکر دنیاوی ترقی نصیب ہوہی نہیں سکتی۔ ۳۲۔اسلام کا ایک حسن یہ ہے کہ اس کو اپنی اشاعت کے لئے نہ زر کی ضرورت ہے اورنہ زور کی۔ (مجالس مفتی اعظم رحمہ اللہ،ص:۶۰۵) ۳۳۔جو دین کا پابند نہیں ہوتا اس کی دنیا کی سمجھ بھی خراب ہوجاتی ہے اورجوشخص دین دار ہوتا ہے گوتجربہ دنیاکا نہ ہو،لیکن دنیاوی امورمیں بھی اس کی سمجھ سلیم ہوجاتی ہے، حلال روزی میں بھی یہی اثر ہوتا ہے،برخلاف اس کے حرام روزی سے فہم مسخ ہوجاتی ہے۔ ۳۴۔اقرارخطا سے عزت اوربڑھ جاتی ہے۔ (مجالس مفتی اعظم رحمہ اللہ،ص:۶۰۶) ۳۵۔عقل کی بات تو یہ ہے کہ انسان کو نہ قدامت پسند ہونا چاہئے نہ جدت پسند ؛بلکہ حقیقت پسند ہونا چاہئے جو چیزیں پرانی اچھی ہیں ان کو اختیارکرے جو چیزیں نئی اچھی اورنافع ہیں ان کو اختیار کرے۔ (مجالس مفتی اعظم رحمہ اللہ،ص:۶۱۲)