انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** قضاء وقدر کا مقصد اس عقیدہ کا منشاء یہ ہے کہ ہم کو جو کامیابی ہوتی ہے براہ راست ہماری کوشش کا نتیجہ نہیں بلکہ وہ اللہ تعالی کے فضل و کرم کا نتیجہ ہے اس لیے اس پر ہمارا فخر وغرور کرنا بیجا ہے؛ اسی طرح ہم کو جو ناکامی پیش آتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی کسی حکمت ومصلحت کا نتیجہ ہے اور ہمارے کام سے پہلے ہی ہمارے کاموں کے نتیجے اس علام الغیوب کے علم میں مقررہوچکے تھے اس لیے ہم کو شکستہ دل اورمایوس نہ ہونا چاہیے؛ بلکہ اُسی جوش وخروش اورسرگرمی سے پھر ازسرنو جدوجہد میں مصروف ہونا چاہیے: جیسا کہ اللہ کا ارشادہے: "مَآاَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ فِی الْاَرْضِ وَلَافِیْٓ اَنْفُسِکُمْ اِلَّافِیْ کِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَاَہَا، اِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللہِ یَسِیْرٌoلِّکَیْلَا تَاْسَوْا عَلٰی مَا فَاتَکُمْ وَلَا تَفْرَحُوْا بِمَآ اٰتٰىکُمْ، وَاللہُ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُـــوْرِ"۔ (الحدید:۲۲،۲۳) کوئی مصیبت نہ دنیا میں آتی ہے اور نہ خاص تمہاری جانوں میں مگروہ ایک کتاب میں لکھی ہیں قبل اس کے کہ ہم ان جانوں کوپیداکریں یہ اللہ کے نزدیک آسان کام ہے تاکہ جو چیز تم سے جاتی رہےتم اس پر رنج نہ کرو اورتاکہ جو چیز تم کو عطافرمائی ہے اس پر اتراؤ نہیں اوراللہ تعالی کسی اترا نےوالے شیخی باز کو پسند نہیں کرتا۔ (ترجمہ تھانویؒ) اس آیت کریمہ نے مسئلہ قضاوقدر کے فلسفے کو اس خوبی کے ساتھ واضح کیا ہے کہ اس کی تائید کے لیے مزید تشریح کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔