انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت واقد بن عبداللہؓ نام ونسب واقد نام،والد کا نام عبداللہ تھا، سلسلۂ نسب یہ ہے،واقدبن عبداللہ بن عبدمناف ابن عریب بن ثعلبہ بن یربوع بن حنظلہ بن مالک بن زید مناۃ بن تمیم تمیمی حنظلی۔ اسلام وہجرت دعوت کے آغاز یعنی آنحضرتﷺ کے ارقم کے گھر میں پناگزین ہونے کے قبل مشرف باسلام ہوئے اوراذن ہجرت کے بعد وطن چھوڑ کر مدینہ کی غربت اختیار کی اوررفاعہ بن عبدالمنذر کے مہمان ہوئے،آنحضرتﷺ نے غربت کی اجنبیت دورکرنے کے لیے ان میں اور بشر بن براء بنؓ معرور میں مواخاۃ کرادی۔ (ابن سعد:۳/ق۱:۲۸۴) غزوات ہجرت عظمیٰ کے بعد آنحضرتﷺ نے سب سے پہلے سریہ مقام نخلہ میں عبداللہ بن جحش کی زیر امارت قریش کی نقل وحرکت کا پتہ چلانے کے لیے بھیجا، اس میں حضرت واقدؓ بھی تھے، ان لوگوں نے منزل مقصود پر پہنچ کر قیام کیا، ابھی یہ لوگ پہنچے ہی تھے کہ قریش کا قافلہ ادھر سے گذرا، مسلمانوں نے حملہ کرنے کا مشورہ کیا، لیکن رجب کا مہینہ تھا جس میں عرب میں خونریزی حرام تھی، اس لیے سب ابتدا کرتے ہوئے جھجکتے تھے؛لیکن حضرت واقدؓ نے ہمت کرکے عمروبن حضرمی کو تیر کا نشانہ بنادیا،مکہ والوں نے آنحضرتﷺ کے پاس شکایت کہلا بھیجی کہ تم لوگ بھی شہر حرام کی حرمت کرتے ہو اوراس میں خونریزی کرنا برا سمجھتے ہو،پھر تمہارے آدمی نے ہمارے ایک آدمی کا خون کیوں بہایا؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی: يَسْأَلُونَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيهِ قُلْ قِتَالٌ فِيهِ كَبِيرٌ وَصَدٌّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ وَكُفْرٌ بِهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَإِخْرَاجُ أَهْلِهِ مِنْهُ أَكْبَرُ عِنْدَ اللَّهِ وَالْفِتْنَةُ أَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ (البقرۃ:۲۱۷) (تفسیر ابن جریر:۲/۱۹۴) اے محمدﷺ ! مشرکین تم سے شہرحرام میں لڑائی کے متعلق پوچھتے ہیں،ان سے کہدو کہ اس میں لڑنا بڑا گناہ ہے ؛لیکن خدا کی راہ سے روکنا اورلوگوں کو مسجد حرام میں نہ جانے دینا اوراس مسجد میں عبادت کرنے والوں کو نکالنا اللہ کے نزدیک اس سے بھی بڑا گناہ ہے اورفساد برپا کرنا قتل سے بھی بڑے کر ہے۔ سریہ نخلہ میں ایک مشرک کا سب سے پہلا خون تھا جو حضرت واقدؓ کے ہاتھ سے بہا،اس سریہ کے بعد بدر، احد، خندق وغیرہ کی تمام معرکہ آرائیوں میں برابر شریک ہوتے رہے۔ (ابن سعدجزو۳،ق۱:۲۸۴) وفات حضرت عمرؓ کے عہد خلافت میں وفات پائی۔ (ابن سعدجزو۳،ق۱:۲۸۴) فضل وکمال فضل وکمال کے لحاظ سے گو کوئی لائق ذکر مرتبہ نہ پاسکے،تاہم ان کی ایک آدھ روایت کتب احادیث میں موجود ہے۔