انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
امامت پر اجرت لے سکتے ہیں یا نہیں؟ جب کوئی شخص امامت کرتا ہے تو امامت کی وجہ سے اس کا وقت گھر جاتا ہے، وہ کوئی اور ذریعۂ معاش اختیار کرنے سے قاصر رہتا ہے اور اگر وہ امامت کے بجائےدوسرے کام میں لگ جائے تو ایسے لوگ امامت کریں گے جو امامت کے اہل نہیں، اپنی نماز بھی ضائع کریں گے اور مقتدیوں کی بھی، اس لے ضرورتاً فقہاء نے امامت اور قرآن مجید کی تعلیم وغیرہ پر اجرت لینے کو جائز قرار دیا ہے، کیونکہ یہ نماز کی اجرت نہیں ہے بلکہ وقت کی اجرت ہے اور وقت پر اجرت لینا درست ہے، بر خلاف تراویح میں قرآن مجید سنانے کے کہ محض ایک ماہ تھوڑی دیر قرآن سنانا اس کے کوئی اور ذریعۂ معاش اختیار کرنے میں مانع نہیں اور نہ تراویح کا درست ہونا مکمل قرآن سنانے پر موقوف ہے، اس لئے تراویح میں قرآن سنانے کی اجرت اور امامت پر اجرت لینے میں فرق ہے، لہٰذا امامت پر اجرت لینے کے حافظ کی امامت بھی درست ہے اور لوگوں کے لئے اس کی اقتداء بھی۔ (کتاب الفتاویٰ:۲/۳۰۱،کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند)