انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** بیچنے اورخریدنے کے چند اصول warning: preg_match() [function.preg-match]: Compilation failed: regular expression is too large at offset 34224 in E:\wamp\www\Anwar-e-Islam\ast-anwar\includes\path.inc on line 251. اسلام نے جتنے بھی خرید وفروخت کے اصول بنائے ہیں ان میں ان باتوں کو پیش نظر رکھا گیا کہ: (۱) بیچنے والے اور خریدنے والے کی نفسیات کا لحاظ رکھا جائے۔ (۲) مہنگا بیچنے پرروک لگانے کی کوشش کی جائے۔ (۳) خریدو فروخت کا نتیجہ کوئی جھگڑا نہ بنے اس لیے وہ تمام صورتیں شریعت نے ناجائز قرار دی ہیں جن میں عاقدین کے درمیان جھگڑا ہوسکتا ہے جیسے کسی بیع میں قیمت متعین نہ ہو یا مبیع (جس چیز کو بیچا جارہا ہو اس) میں ابہام ہو، قیمت یا سامان کے حوالہ کرنے کی مدت پوری طرح متعین نہ ہو۔ (۴)دونوں مکمل طور پر راضی ہوں اور ایسا نہ ہو کہ کوئی فریق اپنے دل میں کسی قسم کا شک و شبہ رکھے اس لیے جو چیز بغیر دیکھے خریدی جائے اسے جائز تو قرار دیا گیا مگر جب اسے دیکھ لے اوراس پر مطمئن ہوجائے تو بیع نافذ ہوجائیگی ،اگر وہ دیکھنےکے بعد مطمئن نہ ہو تو اسے یہ اختیار ہوگا کہ بیع کو ختم کردے اس اختیار کو ’خیار رویت‘ کہا جاتا ہے اوربیع منابذہ ،ملامسہ اوربیع حصاۃ (جوزمانۂ جاہلیت میں مروج تھیں) کو اسی لیے ناجائز قرار دیا گیا۔ (۵) دھوکہ دہی، فریب اورچالبازی سے محفوظ رکھا گیا اگر اس طرح کا کوئی کام ہوجائے تو اس کی تلافی کی تدبیر بتلائی گئیں لہذا بیع کی جس صورت میں دھوکہ ہوتا ہے اس کو پسند نہیں کیا گیا جیسے تاجر سے یہ کہا گیا کہ سامان میں کوئی عیب ہو تو بتا دیا جائے اور تاجر نہیں بتایا تو گاہگ کو اختیار ہوتا ہے کہ جب وہ عیب پر مطلع ہو تو وہ فورا اسے تاجر کو واپس کرکے بیع کو کالعدم کردے، اسے ’ خیار عیب‘ کہا جاتا ہے۔ حوالہ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا (النساء:۲۹) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَعَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا يَتَفَرَّقَنَّ عَنْ بَيْعٍ إِلَّا عَنْ تَرَاضٍ(ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي الْبَيِّعَيْنِ بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا ۱۱۶۹) عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ وَهُمْ يُسْلِفُونَ بِالتَّمْرِ السَّنَتَيْنِ وَالثَّلَاثَ فَقَالَ مَنْ أَسْلَفَ فِي شَيْءٍ فَفِي كَيْلٍ مَعْلُومٍ وَوَزْنٍ مَعْلُومٍ إِلَى أَجَلٍ مَعْلُومٍ(بخاري بَاب السَّلَمِ فِي وَزْنٍ مَعْلُومٍ ۲۰۸۶)عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَاأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ بَيْعِ حَبَلِ الْحَبَلَةِ وَكَانَ بَيْعًا يَتَبَايَعُهُ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ كَانَ الرَّجُلُ يَبْتَاعُ الْجَزُورَ إِلَى أَنْ تُنْتَجَ النَّاقَةُ ثُمَّ تُنْتَجُ الَّتِي فِي بَطْنِهَا(بخاري بَاب بَيْعِ الْغَرَرِ وَحَبَلِ الْحَبَلَةِ ۱۹۹۹) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانُوا يَتَبَايَعُونَ الْجَزُورَ إِلَى حَبَلِ الْحَبَلَةِ فَنَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْهُ فَسَّرَهُ نَافِعٌ أَنْ تُنْتَجَ النَّاقَةُ مَا فِي بَطْنِهَا(بخاري بَاب السَّلَمِ إِلَى أَنْ تُنْتَجَ النَّاقَةُ ۲۰۹۶) عَنْ مَكْحُولٍ رَفَعَ الْحَدِيثَ إِلَى النَّبِىِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ « مَنِ اشْتَرَى شَيْئًا لَمْ يَرَهُ فَهُوَ بِالْخِيَارِ إِذَا رَآهُ إِنْ شَاءَ أَخَذَهُ وَإِنْ شَاءَ تَرَكَهُ (دار قطني، البيوع ۲۸۳۶)عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ الْمُلَامَسَةِ وَالْمُنَابَذَةِ (بخاري بَاب بَيْعِ الْمُنَابَذَةِ ۲۰۰۲) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ الْحَصَاةِ وَعَنْ بَيْعِ الْغَرَرِ (مسلم بَاب بُطْلَانِ بَيْعِ الْحَصَاةِ وَالْبَيْعِ الَّذِي فِيهِ غَرَرٌ ۲۷۸۳) بند اسی طرح گاہک خریدنے کے لیے بھاؤ تاؤ کررہا ہو اور تاجر کا ایجنٹ اپنے آپ کو خریدار ظاہر کرکے اس کی قیمت بڑھادے اسے بھی شریعت نے ناجائز قرار دیا اس لیے کہ اس میں گاہک کو دھوکہ دینا ہے، جسے تناجش کہتے ہیں، اگر گاہک کو بعد میں معلوم ہوکہ قیمت میں دھوکہ ہوا ہے تو اسے اختیار ہے کہ چاہے تو اسے کالعدم کردے اوربھی بہت سی صورتیں ہیں کہ جس میں دھوکہ ہونے کی بنیاد پر غیر درست کہا گیا۔ حوالہ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ النَّجْشِ (بخاري بَاب النَّجْشِ ۱۹۹۸) بند (۶)چونکہ کسی چیز کی خرید و فروخت کا ہونا اس کی اہمیت کو بتلاتا ہے اس لیے ایسی تمام چیزوں کی خرید و فروخت کو ناجائز قرار دیا گیا جو چیزیں خود شریعت میں ناجائز ہوں جیسے شراب، تصاویر اورذی روح مجسمے وغیرہ یا جو چیزیں ناجائز چیزوں کا ذریعہ بنتی ہوں جیسے فتنہ کے زمانہ میں اہل فتنہ سے اسلحہ فروخت کرنا ۔ حوالہ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ(المائدة:۲) عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ لَمَّا أُنْزِلَتْ الْآيَاتُ مِنْ سُورَةِ الْبَقَرَةِ فِي الرِّبَا خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمَسْجِدِ فَقَرَأَهُنَّ عَلَى النَّاسِ ثُمَّ حَرَّمَ تِجَارَةَ الْخَمْرِ۔ (بخاري بَاب تَحْرِيمِ تِجَارَةِ الْخَمْرِ فِي الْمَسْجِدِ ۴۳۹) بند (۷)خرید وفروخت کے معاملہ میں کوئی ایسی شرط نہ لگائی جائے جو بیع کے معاملہ کے خلاف ہے یعنی کسی چیز کو خریدنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ خریدار اس شئ کا مالک ہوجائے اوراس کو جب چاہے جس طرح چاہے استعمال کرے اب اگر بیچنے والا بیچتے وقت یہ شرط لگادے کہ میں اس کو ایک ماہ یا ایک سال استعمال کرونگا تو یہ شرط خلاف ِ بیع ہے اس لیے یہ بیع فاسد ہوگی۔ حوالہ عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده أن النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن بيع وشرط، البيع باطل، والشرط باطل(المعجم الاوسط للطبراني، من اسمه عبد الله ۴۵۱۲،۶۶/۱۰ ) بند اس کے علاوہ اور بھی کچھ صورتیں ہیں جو تفصیلی کتابوں میں موجود ہیں۔