انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** دوسری سفارت جب قریش نے دیکھا کہ حضور ﷺ اپنی تبلیغ سے باز نہیں آرہے ہیں تو انھوں نے سردارانِ قریش پر مشتمل دوسرا وفد حضرت ابو طالب کے پاس بھیجا ، اس وفد نے ابو طالب سے کہا کہ: ہم نے اس سے قبل ایک وفد آپ کے پاس بھیجا تھا؛ لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا ، ہم نے آپ کا پاس و لحاظ رکھا ہے ، مگرہم اپنے بزرگوں کی توہین اور اپنے دیوتاؤں کی بے عزتی کو برداشت نہیں کرسکتے ، اب ہمارا مطالبہ ہے کہ یا تو آپ اپنے بھتیجے کو تبلیغ سے روک دیں یا پھر درمیان سے ہٹ جائیں تا کہ دونوں میں سے کسی ایک کا تصفیہ ہو جائے ، جب حضرت ابو طالب نے دیکھا کہ مخالفت بڑھتی جارہی ہے اوراب قریش مزید تحمّل نہیں کرسکتے اور میں تنہا قریش کا مقابلہ نہیں کرسکتا تو آنحضرت ﷺسے مختصر لفظوں میں کہا ! " اے میرے بھتیجے ! اپنی اور میری جان پر رحم کرو اور میرے اوپر اتنا بار نہ ڈالو کہ میں اٹھا نہ سکوں" ظاہری طور پر تو حضرت ابو طالب ہی حضور اکرم ﷺ کے حمایتی اور پشت پناہ تھے اور جب حضور ﷺ نے دیکھا کہ ان کے پائے ثبات میں بھی لغزش آرہی ہے تو آپﷺ نے آبدیدہ ہوکر فرمایا: " خدا کی قسم ! اگر یہ لوگ میرے ایک ہاتھ میں سورج اور دوسرے میں چاند لاکررکھ دیں تب بھی میں اپنے فرض سے باز نہ آؤں گا، خدا اس کام کو پورا کرے گا یا میں خود اس پر نثار ہوجاؤں گا" حضور ﷺ کے اس پُر اثر جواب نے ابو طالب کو سخت متاثر کیا اور انھوں نے حضور ﷺ سے کہا ! جاؤ جو چاہو کرو ! کوئی شخص تمھارا بال بیکا نہیں کرسکتا ( ابن ہشام ، شبلی نعمانی ، سیرۃ النبی) قریش کے وفد سے کہا کہ جاؤ اور جو چاہو کرو۔ حضورِ اکرم ﷺبدستور تبلیغ میں مصروف رہے، کفّار نے حضور ﷺکوطرح طرح کی اذیتیں دینی شروع کردیں، راہ میں کانٹے بچھاتے، نماز پڑھتے وقت جسمِ مبارک پر نجاست ڈال دیتے تھے، ایک دفعہ آپﷺ حرم میں نماز پڑھ رہے تھے کہ عقبہ بن ابی معیط نے آپﷺ کے گلے میں چادر لپیٹ کر اس زور سے کھینچاکہ آپﷺ گھٹنوں کے بل گرپڑے، اتفاقاً حضرت ابو بکرؓ کا ادھر سے گذر ہوا، پیچھے سے آکر اس کے شانے کوپکڑ لیا اور دھکا دے کر چادر کے بل کھول دئیے، عقبہ بن ابی معیط کا اصل نام ا بّان بن ابی عمر و بن اُمیہ بن عبدالشمس تھا، یہ حضور ﷺ کا ایک دیوار بیچ پڑوسی تھا؛لیکن اسلام دشمنی میں حد سے بڑھ گیا تھا ، حضور ﷺ فرمایا کرتے کہ میں دو بد ترین پڑوسیوں کے درمیان میں رہتا تھا، ایک ابو لہب اور دوسرا عقبہ ، یہ دونوں حضور ﷺ کے گھر میں گندگی پھینکا کرتے ، ایک روز حضور ﷺ کعبہ میں نماز ادا کررہے تھے کے عقبہ بن ابی معیط آیا ، ابو جہل بھی صحن کعبہ میں دوسرے سرداروں کے ساتھ موجود تھا، عقبہ سے کہا کہ او نٹ کی تازہ اوجھڑی جو وہاں پڑی ہوئی تھی لاکر حضورﷺ کی گردن پر رکھ دے، چنانچہ عین حالتِ سجدہ میں اس نے اوجھڑی حضور ﷺ کی گردن پر رکھ دی جس کے وزن سے حضو ر ﷺ سر نہ اٹھا سکے اور کفّار قہقہے لگانے لگے، کسی نے گھر پر اطلاع کردی تو حضرت فاطمہؓ دوڑ ی آئیں اور اس بوجھ کو ہٹایا، حضرت عبداللہؓ بن مسعودکہتے ہیں کہ وہ غلام اور مجبور آدمی تھے اس لئے حضور ﷺ کی مدد نہ کرسکے، اہانت نماز کی وجہ سے حضور ﷺ نے نام بنام بد دعا دی جن میں ابو جہل بن ہشام ، عتبہ بن ربیعہ ، شیبہ بن ربیعہ ، ولید بن عتبہ ، عقبہ بن ابی معیط اُ بیّ بن خلف ، عمّار بن ولید شامل تھے اور جن جن کو آپﷺ نے بد دعا دی وہ بدر کے دن قتل ہوئے۔ انہیں ایام میں ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ عُکّاظ کے میلہ میں تشریف لے گئے ، آپﷺ کے ساتھ حضرت ابو بکرؓ اور حضرت بلالؓ بھی تھے ، وہاں قبیلہ بنی سُلیم کے ایک نیک فطرت بدوی سے ملاقات ہوئی جس کا نام عمرو ؓ بن عبسہ تھا، بات چیت کے بعد انھوں نے آپﷺ سے پوچھا کہ کون کون آپﷺ پر ایمان لائے ہیں، آپﷺ نے حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت بلالؓ کی طرف اشارہ فرمایا ،یہ سن کر انھو ں نے کہا ! یا رسول اللہ ! میں بھی آپﷺ پر ایمان لاتا ہوں چونکہ اُس زمانہ میں مسلمانوں کو سخت تکالیف دی جارہی تھیں اس لئے آپﷺ نے فرمایا کہ تم اس وقت اپنے قبیلے میں واپس چلے جاؤ اور جب سنو کہ مسلمانوں کو غلبہ حاصل ہوا ہے تو پھر یہاں آجانا، چنانچہ وہ واپس ہو گئے ، اور فتح مکہ سے کچھ دن پہلے وہ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا ! یا رسول اللہ ! کیا آپ نے مجھے پہچانا ؟ حضور ﷺ نے فرمایا ! ہاں تم وہی ہو جو مکہ میں مجھ سے ملے تھے۔ قریش متحیر تھے کہ آپ یہ سب اذیتیں کیوں برداشت کرتے ہیں ، کہیں اس کا مقصد جاہ و دولت اور نام و نمود کی خواہش تو نہیں ؟ اسی خیال کے تحت عتبہ بن ربیعہ قریش کی طرف سے حضوراکرم ﷺکے پاس آیا اور کہا! محمدﷺ ! کیا چاہتے ہو ؟ کیا مکہ کی ریاست یا کسی بڑے گھرانے میں شادی یا دولت کا ذخیرہ ؟ ہم یہ سب کچھ فراہم کرسکتے ہیں بشرطیکہ آپﷺ اعلائے کلمتہ اللہ سے باز آئیں ، لیکن آپﷺ نے ان سب ترغیبات کے جواب میں سورۂ حٰم سجدہ کی مندرجہ ذیل آیات پڑھیں: " آپ کہہ دیجئے کہ میں تو تم ہی جیسا انسان ہوں، مجھ پر وحی نازل کی جاتی ہے کہ تم سب کا معبود ایک اللہ ہی ہے، سو تم اس کی طرف متوجہ ہو جاؤ اور اسی سے گناہوں کی معافی چاہو اور ان مشرکوں کے لئے ( بڑی ہی) خرابی ہے" ( سورہ ٔ حٰم سجدہ :۶) " آپ ﷺ کہہ دیجئے کہ کیا تم اس ( اللہ ) کا انکار کرتے ہو اور تم اس کے شریک مقرر کرتے ہو جس نے د و دن میں زمین پیدا کر دی ، سارے جہانوں کا پرور دگار وہی ہے " (سورۂ حٰم سجدہ :۹) عتبہ نے واپس جاکر قریش سے کہہ دیا کے محمّدﷺ جو کلام پیش کرتے ہیں وہ شاعری نہیں کوئی اور چیز ہے ، میری رائے ہے کہ تم ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو ، اگر وہ کامیاب ہوکر عرب پر غالب آجائیں تو یہ تمہاری ہی عزت ہے ورنہ عرب خود ان کو فنا کر دے گا لیکن قریش نے یہ رائے منظور نہیں کی ،حضور اکرم ﷺکی طرف سے دعوت و تبلیغ جاری رہی اور کفّار نے ایذا رسانی میں شدت پیدا کر دی جس میں پیش پیش حسب ذیل سردار تھے