انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** اصحابِ فیل اسی ابراہہ کے زمانے کا ایک واقعہ کعبہ کے انہدام کی غرض سے خود اس کی سرکردگی میں اصحاب فیل کی مکہ پرچڑھائی کا بھی ہے جس کا عربوں سے بڑا گہرا تعلق ہے اور قرآن میں اس کا ذکر آجانے کی وجہ سے اس کوبڑی اہمیت حاصل ہوگئی ہے، اس حملہ کے مفسرین نے متعدد اسباب بیان کیے ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ: ابرہہ نے یمن کے دارالسلطنت صنعا میں ایک کلیسا تعمیر کرایا اور شاہ حبشہ کولکھا کہ اس کلیسا کی تعمیر سے میرا مقصد یہ ہے کہ کعبہ کے بجائے لوگ یہاں آئیں اور اس کوکعبہ بنائیں کسی طرح عربوں کواس کا علم ہوگیا اور اس کا خط ان کے ہاتھ لگ گیا جس سے ان کوبڑا اشتعال پیدا ہوا اور ایک شخص نے صنعا جاکرکلیسا کوگندا کردیا، ابرہہ نے اس پرکعبہ کے انہدام کا فیصلہ کرلیا اور مکہ پرحملہ کردیا، دوسرا یہ کہ کچھ عربوں کی غلطی کی وجہ سے کلیسا میں آگ لگ گئی، جس سے مشتعل ہوکر ابرہہ نے مکہ پرچڑھائی کردی، امام طبری نے لکھا ہے کہ ابرہہ کے یہاں سے بہت سے عربوں کووظیفہ اور روزینہ ملتا تھا، ایک مرتبہ خزاعہ کے چند افراد اس کے دربار میں آئے، جن میں محمد بن الخزاعی اور اس کا بھائی قیس بھی تھا، ابرہہ نے ان سے کہا کہ میں نے یہاں ایک کلیسا بنوایا ہے اور چاہتا ہوں کہ تم تمام قبائل میں گھوم گھوم کراعلان کردو کہ وہ یمن کے اس کعبہ کے حج کے لیے آئیں، یہ دونوں اس مہم پرروانہ ہوگئے، جب یہ قبیلہ بنوکنانہ میں پہنچے تواس کے چند افراد نے انھیں قتل کردیا، اس پرابرہہ نے حملہ کی تیاری شروع کردیا۔ (پوری تفصیل طبری تفسیر سورۂ فیل میں موجود ہے) عموماً ان ضمنی باتوں کوجواصلی سبب کے ضمن میں پیش آئیں حملہ کا سبب بنادیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے ان واقعات کے پڑھنے والے کوتشویش ہوتی ہے؛ لیکن اگرغائر نظر سے دیکھا جائے توکلیسا میں گندگی کرنے، آگ لگ جانے یاخزاعی سردار کے قتل کے واقعات درحقیقت حملہ کا سبب نہیں؛ بلکہ اس کا بہانہ بن گئے، اصلی سبب سیاسی اور مذہبی تغلب تھا؛ جیسا کہ نجران پرحملہ کرنے کے لیے ذونواس نے یہودیوں کے قتل کوبہانہ بنالیا تھا؛ حالانکہ اپنے سیاسی مصالح کے ماتحت وہ پہلے سے اس پرحملہ کرنا چاہتا تھا، بات یہ ہے کہ کعبہ کی وجہ سے رومیوں کوقدیم زمانے سے حجاز اور خصوصیت سے اس کے مرکزی شہر مکہ پرقبضہ کرنے کی خواہش تھی اور اس کے لیے انھوں نے کئی بار کوشش بھی کی؛ مگرناکام رہے، اس کے بعد انھوں نے غیرجنگی طریقہ اختیار کیا، عینی اقتصادی وسیاسی مراعات وفوائد کے نام سے انھوں نے عربوں کی استمالت شروع کردی۔ اُوپریہ آچکا ہے کہ قصی کوقیصر نے مکہ پرقبضہ کرنے میں مدد دی اور ان کے حوصلہ مند پوتوں کورومیوں اور حبشیوں نے اپنے اپنے ملکوں میں تجارت اور آمد ورفت کی سہولتیں فراہم کیں، ہاشم کے چارلڑکے تھے، ہاشم، عبدشمس، نوفل، المطلب، ان میں سے ہرایک نے جزیرۂ عرب کے قریب کے ملکوں سے تعلقات پیدا کیے اور ان ممالک میں تجارتی سہولتیں حاصل کیں، عبدشمس نے قیصرروم اور شاہ غسان سے، نوفل نے شاہ ایران سے، مطلب نے یمن کے حمیری بادشاہ سے اور ہاشم نے نجاشی شاہ حبشہ سے ملاقات کی، ابن سعد میں ہے کہ قیصر روم نے توان کے لیے نجاشی کے نام ایک سفارشی خط بھی لکھا تھا (محمد بن حبیب نے ایلاف کے معنی العہود یعنی پروانے لکھے ہیں، کتاب المجر:۱۶۲۔ اس واقعہ کی تفصیل کے لیے دیکھئے: یعقوبی:۱/۲۸۔ ابن سعد :۱/۴۳،۴۵۔ بعض مفسرین نے سورۂ ایلاف کی تفسیر میں اسی طرف اشارہ کیا ہے) اس کا مقصد یہ تھا کہ اگرسختی اور جبر سے ان پرقابو نہیں پایا جاسکتا تواسی ذریعہ سے ان پراپنا سیاسی ومذہبی اقتدار قائم کیا جائے اور سرحدوں پراس کا کامیاب تجربہ ان کوہوبھی چکا تھا؛ مگرحجازی عرب ان سے کہیں زیادہ ہوشمند نکلے اور ان کی ہوس اقتدار پوری نہ ہوسکی۔ جب حبشہ پررومیوں کا اقتدار ہوا اور حبشہ کے ذریعہ یمن قبضہ میں آیا تواُن کے دل میں حجاز کوسرکرلینے کی پھرخواہش پیدا ہوئی توتعجب نہیں اور کیا عجب ہے کہ اپنی اسی دیرینہ آرزو کی تکمیل ہی کی غرض سے انھوں نے یمن کوفتح کرنے میں حبشہ کی مدد کی ہو۔ لیکن اس راہ میں سب سے بڑی جوچیز حائل تھی وہ کعبہ کا تقدس اور اس کی وجہ سے مکہ اور اہلِ مکہ کی مرکزیت تھی، اس کوختم کرنے کے لیے ابرہہ نے دوکلیسے بنوائے، ایک صنعاء میں اور دوسرا نجران میں اور سارے عرب قبائل میں ان کی زیارت کے لیے وفود بھیجے؛ مگراس کوان تمام کوششوں میں سخت ناکامیابی ہوئی، نہ کعبہ کی تقدیس کووہ صدمہ پہنچا سکا اور نہ وہ مکہ کی مرکزیت واہلِ مکہ کی مرجعیت کا خاتمہ کرسکا، اس بناپراس کی آتش غضب بھڑک اُٹھی ہوگی؛ اسی اثنا میں کلیسا میں نجاست ڈالنے اور آگ لگنے کے واقعات پیش آگئے ہوں گے جن کواس نے اپنے حملے کا بہانہ بنالیا، جیسا کہ آجکل کی حکومتیں ایک دوسرے پرحملہ کرنے کے لیے اس طرح کے بہانوں کی تلاش میں رہتی ہیں، اس حملہ میں ابرہہ کوسخت ناکامیابی ہوئی، یہ واقعہ سنہ۵۷۰ء میں ہوا، اسی سال رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی، حبشہ اور عربوں کے تعلقات میں تجارتی کاروبار اور ایک دوسرے کے ملک سے چمڑے، گوند، لوبان اور اُونی کپڑے حبشہ لے جاتے تھے اور وہاں سے غلہ لاتے تھے۔ بعثت نبوی کے وقت رومیوں اور حجازی عربوں کے تعلقات کشیدہ نظر آتے ہیں اور اُن کا میلان رومیوں سے زیادہ ایرانیوں کی طرف معلوم ہوتا ہے؛ چنانچہ قریشی تاجروں کورومیوں کے مقبوضات میں جوپہلے سہولتیں حاصل تھیں وہ غالباً ختم ہوگئی تھیں؛ بلکہ رومی ان پربڑے سخت ٹیکس عائد کرنے لگے تھے، ہمارا قیاس ہے کہ رومیوں کی کشیدگی کا سبب توحجاز میں ان کی سیاسی ناکامی ہوگی اور ان کی طرف سے عربوں کی رنجش اور کدورت کا سبب ابرہہ کا حملہ ہوگا؛ یہی وجہ ہے کہ حجاز کے علاوہ دوسرے حصہ کے عربوں اور رومیوں میں اب بھی تعلقات ویسے ہی قائم تھے، ایرانیوں کی طرف ان کے میلان کی کوئی وجہ بظاہر سمجھ میں نہیں آئی، بجز اس کے کہ وہ بھی بت پرست تھے اور عرب بھی (عام مفسرین یہی وجہ بتاتے ہیں؛ لیکن اگریہی وجہ تسلیم کرلی جائے توحبشہ سے بھی ان کے تعلقات کشیدہ ہونے چاہئیں؛ مگرایسا نہیں تھا؛ بلکہ حبشہ کی حکومت سے اہلِ مکہ کے تعلقات ظہورِ اسلام کے وقت بالکل استوار تھے؛ ممکن ہے کہ اس میں نجاشی کی طبعی نیکی وشرافت کوبھی دخل ہو) غرض ظہورِ اسلام کے وقت عام طور پرمشرکین حجاز رومیوں کوناپسند اور ایرانیوں کوپسند کرتے تھے؛ چنانچہ بعثت نبوی کے کئی سال بعد رومیوں اور ایرانیوں میں ایک زبردست جنگ ہوئی جس میں رومیوں کوبڑی سخت شکست ہوئی، اس شکست سے اہلِ مکہ بہت خوش ہوئے مگرمسلمانوں کواس سے بڑا رنج ہوا جس کی وجہ سے سورۂ روم کی یہ آیتیں نازل ہوئیں: المo غُلِبَتِ الرُّومُo فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَo فِي بِضْعِ سِنِينَ۔ (الروم:۱،۲،۳) ترجمہ:اہلِ روم مغلوب ہوگئے، ایک قریب کے ملک میں اور اس کے بعد عنقریب چند برسوں میں وہ پھرغالب ہوں گے۔ چنانچہ قرآن کی یہ پیشین گوئی پوری ہوئی یعنی یہ کہ چند برس کے بعد پھررومیوں (یورپین مؤرخین متفقہ لکھتے ہیں کہ روم زوال وانحطاط کی آخری حد تک پہنچ چکا تھا اور ایرانیوں سے شکست کھانے کے بعد اس کی رہی سہی قوت بھی ختم ہوگئی تھی، ایسی حالت میں قرآن کا چند سال میں ان کے دوبارہ غالب آنے کی پیشین گوئی کرن اور پھراس کا پورا ہونا قرآن کا کھلا ہوا معجزہ ہے؛ اسی سلسلہ میں مفسرین نے لکھا ہے کہ جب ایرانیوں کوفتح ہوتی تواہلِ مکہ خوش ہوتے؛ مگرمسلمانوں کو اس بناپرکہ یہ اہلِ کتاب ہیں اس سے رنج ہوتا، سنہ۶۱۴ میں بعثت نبوی کے چھ برس بعد رومیوں کوسخت ہزیمت ہوئی اور قیصرروم کوقسطنطنیہ میں پناہ لینی پڑی، مشرکین عرب کوایرانیوں کی اس فتح کی اطلاع ہوئی تووہ بہت خوش ہوئے، بعض مشرکین نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آج ہمارے بھائی ایرانیوں نے تمہارے بھائی رومیوں پرفتح پائی ہے، کل ہم بھی تمھیں اسی طرح مٹادیں گے، قرآن نے اسباب ظاہری کے خلاف یہ پیشین گوئی کی، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس بناپر مشرکین مکہ سے یہ شرط لگائی کہ اگرنوبرس کے اندر رومی دوبارہ ایرانیں پرفتح یاب نہ ہوئے تومیں تم کوسواُونٹ دونگا اور اگرکامیاب ہوئے توتم لوگ مجھے اتنے ہی اُونٹ دوگے؛ چنانچہ سات برس کے اندر رومیوں نے فتح پائی اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان سے سواُونٹ لیے (طبری، تفسیر سورۂ روم))اور ایرانیوں کوشکست ہوئی، آپ اس وقت مدینہ میں جلوہ فرماتھے اور عین غزوۂ بدر کے روز یہ خوشخبری مسلمانوں کوملی، مختصر یہ کہ ان ہی قدیم وجدید تعلقات کی بناء پرجزیرۂ عرب کے تقریباً ہرحصہ میں عیسائیت پھیل گئی، اب ہم ان مقامات اور قبائل کا نام بنام ذکرکرتے ہیں، جن میں ظہورِ اسلام کے وقت عیسائیت موجود تھی۔ نجران نجران یمن میں ایک مشہور مقام تھا، یہ اپنی زرخیزی وشادابی اور صنعت وحرفت اور تجارت کی وجہ سے پورے یمن میں مشہور تھا، سب سے پہلے یہاں کون لوگ آباد ہوئے، اس میں اختلاف ہے؛ تاہم یہ مسلم ہے کہ بنواسماعیل یہاں قدیم زمانے سے آباد تھے، اس کے بعد یہاں یہودیت اور پھرعیسائیت پھیلی، عیسائیت کی ابتداء کب ہوئی، اس کی صحیح تعیین مشکل ہے، معجم البلدان میں ہے کہ فیمیون ایک نصرانی عابد تھا؛ اسی کے ذریعہ یہاں عیسائیت کی ابتداء ہوئی؛ لیکن اس سے سنہ کی تعیین نہیں ہوتی؛ البتہ اُوپر یمن کے سلسلہ میں جوکچھ لکھا گیا ہے اس سے سنہ کی تونہیں مگرزمانہ کی تعیین کی جاسکتی ہے، یعنی یہ کہ اس کی ابتداء بعثت نبوی سے ایک صدی پہلے ہوچکی تھی۔ سیاسی اور اقتصادی اہمیت کی بناپریمن ہمیشہ سیاسی تغیرات وانقلابات کا آماجگاہ رہا، نجران چونکہ اس کا ایک حصہ تھا، اس لیے لازمی طور پراس کا اثر اس پربھی پڑتا تھا، حمیری حکومت کے زمانہ میں یہاں یہودیت کوفروغ ہوا، یمن میں عیسائی حکومت قائم ہوئی تونجران عیسائیت کا سب سے بڑا مرکز بن گیا؛ یہاں ایک بہت بڑا کلیسا تھا جس کوعبدالمدان نے بنوایا تھا اور جوکعبہ نجران کے نام سے مشہور تھا (معجم البلدان:۸/۲۶۲۔ فجرالاسلام:۳۰) اس کی تعمیر کا بھی وہی مقصد تھا جوصنعا میں ابرہہ کے تعمیر کردہ کلیسا کا تھا۔ اسلام کے ظہور کے وقت نجران میں ایک چھوٹی سی عیسائی ریاست قائم تھا جس کا یمن کی مرکزی حکومت سے کوئی تعلق نہیں تھا؛ بلکہ وہ براہِ راست قیصرِ روم کے ماتحت تھی، اس کا نظم تین شعبوں میں منقسم تھا اور ان میں سے ہرایک کا ایک علیحدہ ذمہ دار تھا، خارجی اور جنگی اُمور جس سے متعلق ہوتے اس کوسیدکہتے تھے، دنیاوی داخلی امور جس کے سپرد ہوتے اس کوعاقب اور دینی امور کا جوذمہ دار ہوتا اس کواسقف کہتے تھے، ان عہدیداروں کا تقرر خود قیصر کرتا تھا (فجرالاسلام:۳۰) اس وقت سیدکے عہدے پرابوحارثہ نامی ایک شخص قابض تھا جس کا نسبی تعلق بکربن وائل سے تھا، زرقانی نے لکھا ہے کہ عربوں میں سے جب کوئی آدمی نصرانیت قبول کرلیتا تھا توقیصر کواس سے بڑی خوشی ہوتی تھی؛ چنانچہ جب ابوحارثہ نے نصرانیت قبول کی تووہ اس قدر خوش ہوا کہ اس کے سامنے مال ودولت کا ایک ڈھیر لگادیا اور غالباً اسی وقت اس عہدہ پرسرفراز کیا گیا۔ سنہ۷ھ میں ساٹھ آدمیوں پرمشتمل ایک وفد نجران سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا جس میں اس ریاست کے تینوں ذمہ دار عہدہ دار بھی تھے، آنحضرت صلی لالہ علیہ وسلم نے اسلام کی دعوت ان کے سامنے پیش کی؛ مگرانھوں نے قبول نہیں کیا، سالانہ ٹیکس کی ادائیگی کے وعدہ پرآپ نے ان سے مصالحت کرلی اور ان سے ایک معاہدہ ہوگیا؛ مگرواپسی میں اس وفد کے دوارکان ابوحارثہ اسقف نجران اور اس کے بھائی کرزبن علقمہ میں کچھ ایسی باتی ںہوگئیں کہ راستہ ہی سے ابن علقمہ مدینہ واپس آئے اور حلقہ بگوشِ اسلام ہوگئے ان کا تذکرہ اس کتاب میں موجود ہے، ان کے علاوہ نجران کے اور افراد نے بھی اسلام قبول کرلیا، ان کا بھی ذکر اس کتاب میں ہے، نجران کی اہمی تکی وجہ سے اس کا ذکر ذراتفصیل سے کیا گیا ہے، اس کے علاوہ دومۃ الجندل، بحرین، معان، ایلہ، اذرح، جربا، مقنا، عمان وغیرہ میں بھی عیسائیت موجود تھی جن میں سے اکثر کی جغرافی اور تاریخی حیثیت کا ذکر یہود کے سلسلہ میں آچکا ہے، ان میں سے بعض میں ماتحت عیسائی حکومتیں بھی قائم تھیں، ان مقامات کے علاوہ جزیرۂ عرب کی تقریباً تمام مشہور بستیوں میں عیسائی موجود تھے، مثلا مکہ، طائف، مدینہ اور وادی القریٰ وغیرہ، وادی القریٰ میں توان کے متعدد گرجے بھی تھے۔ (فجرالاسلام:۲۹) جن قبائل میں عیسائیت فروغ پاچکی تھی یاپارہی تھی ان کے نام یہ ہیں: قبیلہ غسان یہ یمنی قبیلہ ہے، سدمارب کے ٹوٹنے کے بعد یہ جزیرۂ عرب کے شمال مغربی سرحدی مقام پرآباد ہوگیا تھا، مزید تفصیل آچکی ہے۔ بنوتغلب مشہور عدنانی قبیلہ ربیعہ کی ایک شاخ ہے؛ اسی کے قریب عرب کا ایک مشہور قبیلہ بکر بھی آباد تھا، بکروتغلب کی لڑائی، عرب جاہلیت تاریخ کا ایک مشہور واقعہ ہے، یہ قبیلہ جزیرہ عرب کے شمال مشرق میں اس تجارتی راستہ پرآباد تھا جوعرب سے عراق کوجاتا ہے، یہ مقام اپنے جائے وقوع اور تجارتی اعتبار سے بہت اہم تھا اور ایران کی سرحد کے قریب بھی پڑتا تھا، بہت ممکن ہے اسی وجہ سے نصرانیوں نے اس کواپنانے اور زیراثر لانے کی کوشش کی ہو؛ بہرحال اس میں عیسائیت موجود تھی، یہ نہیں معلوم ہوسکا کہ یہاں عیسائیت کی ابتداء کب ہوئی، ارباب سیروطبقات صرف اتنا لکھتے ہیں کہ یہ قبیلہ نصرانی ہوگیا تھا، اسدالغابہ میں ہے: كَانَ كَثِيْر مِنْهُم قَد تنصر كَتغلب۔ (اسدالغابہ،أبوشجرة:۳/۱۹۴، شاملہ، موقع الوراق) ترجمہ:بہت سے عرب قبائل نے نصرانیت قبول کرلی تھی، ان میں بنوتغلب کا قبیلہ بھی تھا۔ ابن قتیبہ اور یعقوبی (یعقوبی:۲۹۸) وغیرہ نے بھی اس کے نصرانی ہونے کی توثیق کی ہے، اس قبیلہ کے متعدد افراد مشرف بہ اسلام ہوئے، جن کے تذکرے اس کتاب میں موجود ہیں۔ ظہورِ اسلام کے بعد عہد نبوی اور عہد صدیقی میں اس قبیلہ کا ذکر بہت کم بلکہ بالکل نہیں ملتا؛ البتہ ابن قتیبہ کے بیان سے اتنا معلوم ہوتا ہے کہ عہد فاروقی تک یہ لوگ مذہب نصرانیت پرقائم رہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس بناپر ان پرجزیہ عائد کرنا چاہا تووہ بھاگ کپڑے ہوئے، زرعہ بن عمان بارگاہِ خلافت میں آئے اور عرض کیا کہ یہ عرب ہیں اس لیے ان کوجزیہ دینا گوارا نہیں ہے، دوسرے یہ شجاع اور طاقت ور ہیں، ان کودشمنوں کے ہاتھ میں نہ جانے دیں (یعنی اگرآپ ان پرجزیہ لگائیں گے تویہ رومیوں سے مل جائیں گے) بلکہ ان پرزیادہ سے زیادہ صدقہ دوگنا کردیں اور ارشاد فرمایا کہ آئندہ اپنی اولاد کونصرانی نہ بنائیں (ابن قتیبہ:۲۴۹) چنانچہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے زرعہ کے حسب مشورہ اسی پرعمل کیا۔ بنو کلب یہ قبیلہ بھی نصرانی تھا اور دومۃ الجندل کے پاس آباد تھا، ظہورِ اسلام کے وقت دومۃ الجندل کا عیسائی حاکم اکیدرتھا، اس میں متعدد ایسے قبائل تھے جوبڑے اثرورسوخ کے مالک تھے، قبیلہ کلب خاص طور سے بہت ممتاز اور حکومت کا حریف تھا (ابن خلدون:۲/۲۴۹) اس کا اثر تبوک تک پھیلا ہوا تھا، ظہورِ اسلام کے وقت اس قبیلہ کے سردار اصبغ تھے، جوحضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی کوششوں سے حلقہ بگوشِ اسلام ہوگئے تھے اور اپنی صاحبزادی تماضر کوحضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے حبالۂ عقد میں دے دیا تھا، ان کے اور ان کی صاحبزادی کے حالات اس کتاب کے آئندہ صفحات میں درج ہیں۔ ابنِ خلدون نے لکھا ہے کہ بنوکلب کی ایک کثیر تعداد اس وقت بھی (یعنی آٹھویں صدی ہجری میں) خلیج قسطنطنیہ کے ساحل پرآباد ہے، اس میں سے کچھ مسلمان ہیں اور کچھ عیسائی۔ (ابن خلدون:۲/۲۴۹) قضاعہ پورے قبیلہ میں تونہیں؛ مگراس کے بعض خاندانوں میں نصرانیت تھی، یہ حجازوشام کے تجارتی راستہ پرتبوک کے قریب آباد تھا، کثرت تعداد اور فوجی قوت کی وجہ سے اس کوبڑی اہمیت حاصل تھی اور جس مقام پرآباد تھا وہ مقام بھی جغرافیائی حیثیت سے بڑا اہم تھا، یہ قبیلہ رومیوں کے زیراثر تھا؛ اسی طرح بنوتمیم کے بعض افراد نے عیسائیت قبول کرلی تھی، عرب کا مشہور اور جرم مسلقہ کاصدرنشین شاعر امراء القیس اسی قبیلہ سے تھا، جس کی بناپربعض عیسائی مستشرقین نے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ عیسائی تھا؛ حالانکہ یہ صحیح نہیں ہے؛ البتہ اس کے خاندان کے بعض افراد نصرانی ضرور تھے۔ ربیعہ جس کی ایک شاخ بنوتغلب تھی، جس کا ذکر اُوپرآچکا ہے، اس کے بعض دوسرے خاندانوں میں بھی نصرانیت تھی۔ (معارف ابن قتیبہ:۲۶۶۔ تہذیب الاسما:۲/۲۹۳) اسی طرح یمن کے مشہور قبیلہ طے میں بھی نصرانیت کا پتہ چلتا ہے، حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ اور ان کی ایک بہن کا تذکرہ اس کتاب میں آیا ہے، یہ دونوں اسی قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے اور عیسائی تھے۔ قبیلہ عبدالقیس یہ قبیلہ عمان کے قریب آباد تھا، اس میں بھی نصرانیت موجود تھی، حضرت جارود رضی اللہ عنہ جن کا تذکرہ اس کتاب میں موجود ہے، اسی قبیلہ سے تھے، ان کے علاوہ تنوخ، لخم، مزذحج، بہرا، سلیح وغیرہ قبائل نے بھی نصرانیت قبول کرلی تھی اور ان میں سے بیشتر بالکل رومیوں کے زیراثر تھے، جنگ موتہ میں یہ سب کے سب رومیوں کی حمایت میں مسلمانوں کے خلاف صف آرا تھے (ابن ہشام، ذکر جنگ موتہ) ان میں سے بیشتر کوقیصر روم کی طرف سے سالانہ پندرہ سیرسونا بطورِ وظیفہ ملتا تھا۔ (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی زندگی:۲۵۸، ڈاکٹرحمیداللہ صاحب) اس تفصیل سے اندازہ ہوگیا ہوگا کہ پورے جزیرہ میں نصرانیت کی ترقی وفروغ کے لیے عیسائی حکومتوں نے کتنا لمبا جال بچھا رکھا تھا، اس کے لیے کیا کیا تدبیریں وہ اختیار کررہی تھیں اور کتنی رشوتیں دے رہی تھیں اور یہ سلسلہ برسوں سے نہیں صدیوں سے جاری تھا؛ لیکن ان تمام کوششوں اور تدبیروں کے باوجود کم سے کم حجاز میں توعیسائیت کا اثربرائے نام ہی پیدا ہوسکا، جس کوقبضہ میں لانے اور اس پراپنا اثر قائم کرنے کے لیے انھوں نے کیا کیا جتن نہ کرڈالے تھے؛ اس کے مقابلہ میں اسلام نے پورے جزیرہ میں چند برسوں میں عظیم الشان اور حیرت انگیز انقلاب برپاکردیا، جس نے چشم زدن میں پورے عرب کی کایا پلٹدی، اس کے لیے نہ کوئی سیاسی چال چلی گئی، نہ کوئی اقتصادی دباؤ ڈالا گیا اور نہ جبروزور سے کام لیا گیا؛ بلکہ اس کی دعوت تبلیغ اور اعلیٰ اخلاقی تعلیمات اور پھراس کے مظاہر سے سارا عرب مسحور اور حلقہ بگوشِ اسلام ہوگیا۔ حیرہ عیسائیت کے مذہبی اثرات جزیرۂ عرب کے اندرونی مرکز مقامات کے علاوہ ایک سرحدی مقام حیرہ میں بھی کچھ نہ کچھ موجود تھے، حالانکہ وہ ایرانیوں کی باجگذار ریاست تھی، جہاں قبیلہ لخم کی حکومت تھی، لخم کے متعلق اُوپرآچکا ہے کہ اس میں نصرانیت تھی، اس کے حکمران نعمان کے متعلق لکھا ہے کہ عدی بن زید ایک صنرانی شاعر نے اس کوایک دن نصیحت کی، اس نصیحت کا اس پرایسا اثرہوا کہ اس نے فوراً نصرانیت قبول کرلی اور تخت وتاج کوخیرباد کہہ دیا (فجرالاسلام:۳۱) اسی طرح نعمان خامس کی بیوی بھی عیسائی ہوگئی تھی، اس کا نام ہند تھا، اس نے اپنے نام سے ایک کلیسا دیرہند بنوایا تھا، طبرا نے لکھا ہے کہ یہ ہمارے زمانے تک (یعنی تیسری صدی ہجری تک) موجود تھا (معجم البلدان:۴/۱۴۳) اس کے علاوہ حیرہ میں اور بھی متعدد گرجے تھے، خصوصیت سے دیرحنظلہ بہت مشہور تھا، جس کوحیرہ کے ایک حکمران ایاس بن قبیصہ کے چچا حنظلہ نے بنوایا تھا۔ (تفصیل کے لیے دیکھو، معجم البلدان:۴/۱۲۰ تا ۱۸۵) حیرہ کا ذکر یہاں اس لیے کیا گیا کہ یہ جزیرہ کا سرحدی مقام تھا، جہاں عرب آباد تھے اور وہی حکمران بھی تھے، پورے عرب میں غالباً حیرہ ہی ایک ایسا مقام تھا، جہاں عیسائیت نے بغیر کسی مادی سہارے اور حکومت کی پشت پناہی کے کسی قدر رواج پایا۔