انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** متفرق حالات مامون الرشید کے وزیراعظم احمد بن ابی خالد نے جونہایت عقلمند، نیک طینت اور پاک طبیعت شخص تھا، اُسی سال وفات پائی اور اس کی جگہ مامون الرشید نے احمد بن یوسف کوخلعتِ وزارت عطا کیا احمد بن ابی خالد بنی عامر کا ایک شامی غلام تھا جواعلیٰ درجہ کا ادیب اور منشی تھا، احمد بن یوسف ایک معمولی دفتر میں کاتب تھا، مامون چونکہ اُس کی قابلیت سے واقف تھا؛ لہٰذا اس کویک لخت وزارتِ عظمیٰ کا عہدہ عھا کردیا، سنہ۲۱۲ھ میں احمد بن محمد عمری معروف بہ احمرالعین نے یمن میں علم بغاوت بلند کیا، خلیفہ مامون الرشید نے محمد بن عبدالحمید معروف بہ ابوالرازی کویمن پرمامور فرمایا۔ سنہ۲۱۳ھ میں مامون الرشید نے اپنے بیٹے عباس کوجزیرہ وثفور وعواصم پراور اپنے بھائی ابواسحاق معتصم کوشام ومصر پرمقرر کیا ابواسحاق معتصم نے اپنی جانب سے ابن عمیرہ باذ عیسیٰ کو مصر کا والی مقرر کرکے روانہ کیا، قیسیہ اور یمانیہ کے ایک گروہ نے ہنگامہ کرکے سنہ۲۱۴ھ میں ابن عمیرہ کومارڈالنا چاہا اور علم بغاوت بلند کیا تومعتصم خود مصر میں گیا اور بہ زور تیغ باغیوں کوزیرکرکے مصر میں قیام کیا اور اپنی طرف سے عمال مقرر کئے اس طرح مصر میں امن وامان قائم ہوگیا۔ سنہ۲۱۳ھ میں مامون الرشید نے غسان بن عباس کوسندھ کی گونری پرمامور فرمایا؛ اسی سال ابوالرازی والی یمن باغیوں کے ہاتھ سے یمن میں مقتول ہوا، مجبور ہوکر مامون الرشید نے محمد بن ابراہیم ریاوی کوجوزیاد بن ابی سفیان کی اولاد میں سے تھا یمن کی ولایت سپرد کی اس نے وہاں پہنچ کرشہر زبید کی بنیاد ڈالی اور اسی شہر کواپنا مستقر قرار دے کریمن پرحکومت شروع کی، خلیفہ کووہ تحفہ وہدایا بھیجتا رہتا تھا اور خطبہ میں اُس کا نام لیتا تھا، سنہ۲۴۵ھ یعنی اپنی وفات تک یمن میں آزادی سے حکومت کرتا رہا اس کے بعد یمن کی حکومت اس کی اولاد اور غلاموں میں سنہ۵۳۲ھ تک قائم رہی۔ سنہ۵۱۴ھ میں خلیفہ مامون نے علی بن ہشام کوجیل، قم، اصفہان اور آذربائیجان کی حکومت عطا فرمائی، سنہ۲۱۴ھ میں ابوبلال صابی شاری نے خروج کیا، مامون الرشید نے اپنے بیٹے عباس کومعہ سپہ سالاروں کے اس کی سرکوبی پرمامور فرمایا، ابوبلال لڑائی میں مارا گیا اور یہ فتنہ فرو ہوا، سنہ۲۱۵ھ میں قیصر میخائیل فوت ہوا اور اس کی جگہ اس کا بیٹا نوفل تخت نشین ہوا، رومیوں کی طرف سے علاماتِ سرکشی ودشمنی نمایاں ہونے پرمامون الرشید نے اسحاق بن ابراہیم بن مصعب کوسواد سے علاماتِ سرکشی ودشمنی نمایاں ہونے پرمامون الرشید نے اسحاق بن ابراہیم بن مصعب کوسواد حلوان، دجلہ کی گورنری عطا کرکے بغداد میں اپنا نائب بناکر چھوڑا اور خود فوج لے کررومیوں پرحملہ آور ہوا، موصل، انطاکیہ، مصیصہ اور طرسوس ہوتا ہوا بلادِ روم میں داخل ہوا، قلعہ قرہ کوفتح کرکے شہر پناہ کومنہدم کردیا؛ پھراشناس کوقلعہ سندس کی جانب اور عجیف وجعفر کوقلعہ سنان کی طرف فوجی دستوں کے ساتھ روانہ کیا؛ چنانچہ یہ دونوں قلعے فتح ہوگئے، عباس بن مامون الرشید نے شہر ملطیہ پرقبضہ کیا۔ معتصم جومصر میں مقیم تھا، مصر سے واپس ہوکر مامون کی خدمت میں حاضر ہوا، رومیوں نے اظہارِ عجز کرکے معافی طلب کی اور خلیفہ مامون مراجعت کرکے دمشق کی جانب روانہ ہوا ابھی خلیفہ راستے ہی میں تھا کہ رومیوں نے اپنی طاقت کومجتمع کرکے یکا یک طرسوس ومصیصہ پرحملہ کردیا؛ ابھی دونوں شہروں کے باشندے اس خیال سے کہ رومیوں نے مصالحت کرلی ہے، بے خبر تھے؛ لہٰذا نہایت بے رحمی سے قتل وغارت کیے گئے، مامون یہ سنتے ہی فوراً لوٹ پڑا اور بلادِ روم میں ایک کھلبلی سی مچ گئی، لشکرِ اسلام نے قلعوں پرقلعے اور شہروں پرشہر فتح کرنے شروع کیے، ایک طرف خلیفہ مامون فتح کرتا ہوا بڑھ رہا تھا، دوسری طرف سے معتصم حملہ آور تھا، جس نے تیس قلعے فتح کرلیے تھے، تیسری طرف یحییٰ بن اکثم شہروں کے فتح کرنے اور رومیوں کے گرفتار کرنے میں مصروف تھا، آخر قیصرِروم نے اپنی گستاخی کی معافی مانگی اور خلیفہ مامون نے واپس کا حکم دے کردمشق کی جانب مراجعت کی اور یہاں سے مصر کی طرف متوجہ ہوا، مصر میں باغیوں کوخوب سزائیں دے کروہاں کے حالات کودرست کیا، مصر سے پھرشام کی طرف واپس آیا، اس حملہ آوری ومراجعت میں پورا ایک سال صرف ہوگیا۔ سنہ۲۱۷ھ میں رومیوں نے پھرمتمردانہ حرکات کا اظہار کیا اور مامون الرشید نے پھراُس طرح فوج کشی کی اس مرتبہ بھی رومیوں سے بہت سی لڑائیاں ہوئیں اور نوفل قیصرِروم نے پھرعاجزانہ طور پردرخواست صلح پیش کی، مامون نے اس مرتبہ بھی اُس کی درخواست منظور کرلی اور بلادِ روم سے واپس ہوا سنہ۲۱۸ھ میں مامون الرشید کوپھررومیوں کی گوشمالی کے لیے جانا پڑا، وہاں سے واپسی میں اپنے بیٹے عباس کوبطورِ یادگار فتح شہرطوانہ کی تعمیر کا حکم دیا اُس نے ایک میل مربع کا قلعہ بنایا اور چارکوس کے محیط کی شہر پناہ تعمیر کراکر مختلف شہروں کے لوگوں کووہاں آباد کیا۔