انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت عبداللہ بن نافعؒ نام ونسب عبداللہ نام،ابو محمد کنیت اوروالد کا اسم گرامی نافع تھا،مدینہ طیبہ کے رہنے والے تھے،بنو مخزوم سے نسبت ولاء رکھنے کے باعث مخزمی مشہور ہوئے،ممتاز ائمہ میں ان کی ہم نام ایسی شخصتیں ملتی ہیں جن کے باپ کا نام بھی نافع تھا،اس لیے اکثر اوقات علماء کو ثقاہت وعدالت اور علم وفضل کی تعیین میں خلط مبحث ہوگیا ہے،اس لیے امام عبداللہ بن نافع کو "الصائغ"کے لفظ سے ممتاز کیا گیا ہے،مؤرخ ابن اثیر کی رائے کے مطابق الصائغ یا الصائغی کی نسبتیں رکھنے والے تمام ائمہ "صیاغہ" کی طرف منسوب ہیں۔ (اللباب فی تہذیب الانساب:۲/۴۸) علم وفضل علمی کمالات کے اعتبار سے وہ کبار اتباع تابعین کے زمرے میں شامل ہیں، امام مالکؒ کے ارشد تلامذہ میں تھے،زمانہ دراز تک امام صاحبؒ کے دامنِ فیض سے وابستہ رہنے کی وجہ سے ان کے فقہی افکار وخیالات کا مخزن بن گئے تھے،علامہ ابن سعد رقم طراز ہیں: کان قد لزم مالک لزوما شدیدا وکان لا یقدم علیہ احد (طبقات ابن سعد:۵/۳۲۴) انہوں نے امام مالک کا ساتھ شدت کے ساتھ پکڑا،حتیٰ کہ وہ ان پر کسی کو فوقیت نہیں دیتے تھے۔ احمدؒ بن صالح کا بیان ہے: کان اعلم الناس برای مالک (العبر فی خبر من غبر:۱/۳۴۹) وہ امام مالکؒ کے خیالات کو لوگوں میں سب سے زیادہ جانتے تھے۔ ابوداؤدؒ فرماتے ہیں: کان عبداللہ عالما بمالک وکان صاحب فقہ (تہذیب التہذیب:۶/۵۲) عبداللہ بن نافع امام مالک کے مسلک کے سب سے زیادہ عالم اورفقیہ تھے۔ فقہ امام ابن نافع کو فقہ اوربالخصوص فقہ مالکی میں خاص مہارت حاصل تھی اور اسی کمال تفقہ کے باعث وہ مدینہ میں افتاء کے مرجع تھے(شذرات الذہب:۲/۵۲)یحییٰ بن معین بیان کرتے ہیں کہ ابن نافعؒ کے پاس امام مالکؒ کے چالیس ہزار مسائل تھے۔ (تہذیب :۶/۵۲) حدیث ان کی فقیہانہ حیثیت کو اس قدر شہرت نصیب ہوئی کہ اس کے سامنے حدیث میں ان کے تفوق کا چراغ زیادہ روشن نہ ہوسکا ،یہاں تک کہ بعض علماء سرے سے انہیں محدث ہی تسلیم نہیں کرتے (العبر:۱/۳۴۹) لیکن حقیقت واقعہ یہ ہے کہ اس فن پر بھی انہیں یکساں قدرت حاصل تھی۔ ان کی مرویات کے پایہ استناد پر علماومتفق نہ ہوسکے؛چنانچہ امام احمدؒ بن حنبل اوربخاری اورابو حاتم وغیرہ نے انہیں ضعیف الحافظ قراردیا ہے(تہذیب،التہذیب :۶/۵۱) لیکن اکابر علماء کی ایک بڑی جماعت نے جس میں ابن معینؒ ،امام نسائیؒ اورابو زرعہؒ وغیرہ شامل ہیں، انہیں ثقہ اور عدل بتایا ہے (میزان الاعتدال:۲/۸۲)ان کی عدالت کی ایک بڑی دلیل یہ بھی ہے کہ امام مسلم کے علاوہ ائمہ اربعہ نے ان کی روایت کی تخریج کی ہے (خلاصہ تذہیب :۲۱۶) ابن حبان نے کتاب الثقات میں ان کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے: کان صحیح الکتاب واذا احدث کان حفظہ بما اخطأ (تہذیب :۶/۵۱) وہ صحیح الکتاب تھے،جب اپنے حافظہ سے روایت کرتے تو اکثر غلطی کرجاتے تھے۔ امام بخاریؒ نے بایں ہمہ تبحر وجلالت علم ان سے دو تین حدیثیں روایت کی ہیں اوران کے فضل وکمال کو سراہا ہے۔ شیوخ وتلامذہ جن حفاظِ حدیث سے انہوں نے سماع حاصل کیا ان میں سے کچھ یہ ہیں:لیث بن سعد، عبداللہ بن نافع مولیٰ ابن عمر، سلیمان بن یزید الکعبی،داؤد بن قیس الفراء، اسامہ بن زید اللیثی، محمد بن عبداللہ،ابن ابی ذئب ،ہشام بن سعد۔ خود ان سے روایت کرنے والوں میں قتیبہ،سلمہ بن شیب،حسن بن علی الجلال،احمد بن صالح مصری، ابوالطاہر بن السرح،زہیر بن بکار،ابراہیم بن المنذر،احمد بن حسن الترمذی، محمد بن یحیی الذہلی،یونس بن عبدالاعلیٰ کے اسمائے گرامی نمایاں ہیں۔ (طبقات ابن سعد:۵/۳۲۴) وفات ماہِ رمضان ۲۰۶ھ میں بمقام مدینہ وفات پائی۔ (طبقات ابن سعد:۵/۳۲۴)