انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت مبارک بن فضالہؒ نام ونسب مبارک نام اورابو فضالہ کنیت تھی،نسب نامہ یہ ہے،مبارک بن فضالہ ابن ابی امیہ،بعض علماء کا خیال ہے کہ ان کے دادا ابو امیہ حضرت عمر بن الخطابؓ کے غلام تھے اورمکاتبت پر رہائی حاصل کی تھی (میزان الاعتدال:۳/۵)چونکہ حضرت عمرؓ قریش کے مشہور قبیلہ بنو عدی سے نسبی تعلق رکھتے تھے،اس لیے مبارک بھی ولاء قرشی اورعدی مشہور ہوئے۔ وطن بصرہ کے رہنے والے تھے۔ فضل وکمال علمی اعتبار سے وہ ممتاز اوربلند پایہ اتباع تابعین میں شمار ہوتے تھے مشہور صحابی رسولﷺ حضرت انس بن مالکؓ کے دیدار سے اپنی نگاہِ شوق کو منور کیا تھا، لیکن ان سے مستفید ہونے کی سعادت نصیب نہ ہوسکی ،حضرت حسن بصریؒ کے دامنِ علم میں کامل ۱۳ سال گذارے اورلعل گرانمایہ بن کرنمودار ہوئے، علامہ ذہبیؒ انہیں "الا ما م الکبیر"اور"من کبار علماء البصرۃ" لکھتے ہیں (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۸۰) یحییٰ بن سعید القطان برابر ان کی توصیف میں رطب اللسان رہاکرتے تھے۔ (شذرات الذہب:۱/۲۶۰) شیوخ جن اساتذہ حدیث سے انہوں نے علم کی تحصیل کی ان میں ممتاز نام یہ ہیں، حسن بصری،بکر بن عبداللہ المزنی،محمد بن المنکدر،ثابت البنانی ،ہشام بن عروہ،حمید الطویل،عبیداللہ بن ابی بکرؒ تلامذہ ان سے شرفِ تلمذ رکھنے والوں میں امام وکیع، مسلم بن ابراہیم،سلیمان ابن حرب، سعدویہ،شیبان بن فروخ،عفان بن مسلم، حبان بن ہلال،مصعب بن المقدام،ابوداؤد الطیالسی،عثمان بن الہشیم،عمروبن منصور القیسی،موسیٰ بن اسماعیل،کامل بن طلحہ،علی بن الجعد ؒ کے نام لائقِ ذکر ہیں۔ (تہذیب التہذیب:۱۰/۲۸،۲۹) جرح وتعدیل مبارک بن فضالہ کی ثقاہت وعدالت کے متعلق ائمہ فن کی رائیں مختلف ہیں، عام طور سے ان پر تدلیس کا شبہ ظاہر کیا گیا ہے؛چنانچہ ابو زرعہ،ابن ناصر الدین اور بعض دوسرے علماء کثیر التدلیس لکھتے ہیں،لیکن بعض شرطوں کے ساتھ ان کی روایات کو قبول کرلینا درست ہے،امام ابوداؤد کا بیان ہے: اذا قال حدثنا فھو ثبت جب وہ روایت کرتے وقت حدثنا کہیں تو وہ قابلِ اعتماد ہیں۔ ابو زرعہؒ ہی کا قول ہے: اذا قال حدثنا فھو ثقۃ مقبول جب وہ حدثنا کے لفظ سے روایت کریں،وہ ثقہ اورقابل قبول ہیں۔ امام احمد فرماتے ہیں کہ انہوں نے حسن بصری سے جو روایتیں کی ہیں وہ لائق حجت ہیں،ابو حاتم انہیں عدالت کے اعتبار سے ربیع بن صبیح پر فوقیت دیتےہیں ۔ ان کے تلمیذِ رشید عفان بن مسلم ان کی توثیق اوران سے روایت کرتے ہیں۔ (طبقات ابن سعد:۷/۱۳۵) علاوہ ازیں امام ترمذی،ابوداؤد اورعقیلی نے بھی ان کی روایتوں کی تخریج کی ہے۔ (شذرات الذہب :۱/۲۶۰) عبادت علم وفضل کے ساتھ ان کے عمل کی دنیا آباد تھی؛چنانچہ علماء کا بیان ہے کہ وہ بہت عبادت گذار اوردنیا کی آزمائشوں سے کنارہ کش تھے۔ (العبر فی خبر من غبر:۱/۲۴۴) وفات باختلافِ روایت ۱۶۴ھ یا ۱۶۵ھ میں باایامِ خلافتِ مہدی انتقال فرمایا۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۸۰،وطبقات ابن سعد:۷/۳۵)