انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** الہام البتہ ایک بڑی نعمت جو اصحاب نسبت(بزرگوں سے تعلق رکھنے والے )کو ملتی ہے وہ الہام ہے الہام کی حقیقت یہ ہے کہ بغیر نظر واستدلال کے اللہ تعالی کوئی حقیقیت بندے کو قلب میں القاء فرمادیں(ڈالدیں) یا کسی غیبی مخلوق کے ذریعہ اطلاع بخش دیں جیسا کہ قرآن کریم میں حضرت موسی علیہ السلام کی والدہ محترمہ کے لیے ارشاد ہے: "وَاَوْحَیْنَآ اِلٰٓى اُمِّ مُوْسٰٓى اَنْ اَرْضِعِیْہِ" (القصص:۷) ہم نے موسی کی ماں کی جانب وحی کی کہ دودھ پلاتی رہو۔ یہ وحی باتفاق مفسرین الہام ہے: "وَعَنْ اِبْنِ عَبَّاسٍ وَقَتَادَۃَ:أَنَّہٗ کَانَ اِلْھَامًا" (روح المعانی:۱۵/۷۸) "بِإِلْھَامٍ أَوْرُؤْیَا" (البیضاوی:۴/۴۴۸) اسی طرح حضرت مریم کے متعلق قرآن میں ارشاد ہے: "وَاِذْ قَالَتِ الْمَلٰائکَۃُ یٰمَرْیَمُ" (آل عمران:۴۲) جب فرشتوں نے کہا:اے مریم!۔ فرشتوں کا حضرت مریم سے خطاب فرمانا الہام کے قبیل سے ہے ، یہ دولت اللہ تعالی نسبت والوں کو عطا فرماتے ہیں۔ موطا امام مالک میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ارشاد نقل کیا گیا ہے: "اَنَاعُمَرَ وَلَمْ أَحْرِصْ عَلیٰ أَمْرِکُمْ لَکِنَّ الْمُتَوَفَیٰ أَوْصَیٰ بِذَالِکَ وَاللہُ اَلْھَمَہٗ ذٰلِکَ" (جامع الاصول فی احادیث الرسول،الباب الثانی فی ذکر الخلفاء الراشدین:جلد:۴، حدیث نمبر:۲۰۸۰) میں عمر ہوں اور تم پر حاکم بننے کی مجھے خواہش نہ تھی ، لیکن متوفی (ابوبکر)نے مجھے اس کی وصیت کی اور اللہ نے ان کے قلب پر اس کا الہام فرمایا۔ (ابوبکر)