انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** سرکاری مصارف سرحدروم پرجوفوجیں مستقل طور پرسرحدی چھاؤنیوں میں رہتی تھیں، اُن کودوسری فوجوں کے مقابلہ میں زیادہ تنخواہ ملتی تھی، ان فوجوں میں عموماً ہرایک سپاہی کو پندرہ روپیہ سے تیس روپیہ تک تنخواہ دی جاتی تھی، ایک فوج دارالخلافہ میں ہمیشہ موجود رہتی تھی، فوج کا ایک حصہ راستوں کی حفاظت پرمقرر اور ہزارہا مرحلوں کی چوکیوں پرمنقسم تھا، بڑے بڑے شہروں اور مرکزی مقاموں میں بھی فوج کی ایک تعداد موجود رہتی تھی، سہروں کی حفاظت کے لیے جوپولیس محتسب کے ماتحت اور صاحب الشرطہ کی نگرانی میں رہتی تھی، اس کوسرکاری خزانہ سے تنخواہ ملتی تھی، خزانہ کی ایک بہت بڑی مقدار فوج کے لیے صرف ہوجاتی تھی، محکمہ ڈال کے سپاہی، سوار ی کے جانور اور اہل کاران ڈاک کا خرچ بھی اسی میں شامل سمجھنا چاہیے، رضاکار جوعموماً سرحد روم کی لڑائیوں میں شامل ہونے کے لیے بھرتی ہوکر جاتے تھے، ان کوکھانا، سواری اور تمام ضروری چیزیں سلطنت کی طرف سے ملتی تھیں ان کی غیرموجودگی میں ان کے اہل وعیال کونقد وظیفہ یاکھانے پینے کی اجناس سرکاری طور پرمہیا کی جاتی تھیں، جنگ کی حالت میں فوج کے کےخوردونوش کا تمام اہتمام اور بوجھ سرکاری خزانہ پرپڑتا تھا، رومیوں کے ساتھ لڑائیوں کا سلسلہ برابر جاری رہا، اس لیے خلافء کوسرحد روم پربہت سے شہرآباد کرنے اور قلعے بنانے پڑے، صوبوں کی فوجوں کے تمام مصارف صوبوں کے خزانے پرپڑتے تھے؛ مگرسرحد روم، بغداد، غراق، محکمہ ڈاک، راستوں کی حفاظت کرنے والی اور خلیفہ کی ذاتی فوج اور رضاکاروں کی افواج کے تمام مصارف خلیفہ کے مرکزی خزانہ سے پورے کیے جاتے تھے، تخت نشین ہونے والا ہرایک خلیفہ فوج کوانعام دیتا تھا۔ بڑے بڑے اہل کاروں کوجاگیریں بھی دی جاتی تھیں اور ان کی تنخواہیں بھی مقرر ہوتی تھیں، سہروں اور قلعوں کی تعمیر کے علاوہ مدرسے، سرائیں، پل، نہریں، کنویں، مسجدیں وغیرہ بھی ہمیشہ تعمیر ہوتے رہتے تھے، صناعوں، موجدوں اور کاریگروں کوبڑے بڑے انعامات اور وظیفے دیے جاتے تھے، جن سے ان کی خوب ہمت افزائی اور دوسروں کوترغیب ہوتی تھی، حکیموں، طبیبوں، شاعروں، عالموں کوبے دریغ انعام واکرام سے مالا مال کیا جاتا تھا، بعض عیسائی اور یہودی طبیب بغدا میں اس قدر مال دار ہوگئے تھے کہ خلیفہ کے سوا کوئی دوسرا شخص مال ودولت میں ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا تھا، بغداد میں بہت سے مدرسے تھے جن کے شاہانہ مصارف بڑی سیرچشمی سے ادا کیے جاتے تھے؛ اسی طرح دوسرے شہروں میں اعلیٰ درجہ کے دارالعلوم قائم تھے، اسلحہ سازی، پارچہ بافی، قند سازی، دواسازی، عطر سازی کے کارخانے بڑے بڑے شہروں میں قائم تھے اور حکومت کی طرف سے ان کی خوب ہمت افزائی ہوتی تھی، ریشمی اور اونی کپڑوں کے کارخانے اور بلور کے برتن بنانے کی صنعت خلفاء کی توجہ سے بہت ترقی پذیر ہوئی۔ خلیفہ کوخزانہ میں کئی کئی ہزار خلعت دوشالے، اونی کپڑے، خوبصور چادریں اور بیش بہا تلواریں، برچھے، ڈھالیں، کمانیں وغیرہ محض اس لیے موجود رکھنے پڑتے تھے کہ یہ چیزیں بہ طور انعام اور بہ طور نشان عزت اعلیٰ درجہ کے بہادروں، عالموں ، صناعوں اور موجدوں کودیتا رہے، دوسرے ملکوں کی قیمتی اشیاء جوان ملکوں کے سوداگر لے کرآتے تھے، بڑی بڑی قیمتوں پرخلیفہ سب کوخرید لیتا اور اپنے خزانے اور توشہ سخانے میں داخل کرتا تھا اور یہ سب چیزیں بہ طور انعام لوگوں کودیتا رہتا تھا۔