انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** صحابہ ؓ اور عام راویوں میں فرق ایک صحابی بھی حضورﷺ سے روایت کررہا ہوتو یہ درست نہیں کہ انسان اس کی تائید میں اور صحابہؓ سے پوچھتا پھرے، عمل کے لیے یہی کافی ہے،صحابہ عام ثقہ راویوں کی طرح نہیں کہ کثرت روات سے روایت میں اور قوت آجائے،ورنہ حضرت عمرؓ حضرت سعدؓ سے روایت کے بعداس کی مزید تحقیق سے نہ روکتے،علم جس قدر پختہ ہواس میں کوئی حرج نہ تھا، معلوم ہوتا ہے کہ صحابی کا حضورﷺ سے کسی بات کو نقل کردینا علم کاوہ نقطۂ عروج ہے کہ اب اس کے بعد کوئی خلجان باقی نہیں رہتا، حضرت عمرؓ نے فرمایا: "إِذَا حَدَّثَكَ شَيْئًا سَعْدٌ عَنْ النَّبِيّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَا تَسْأَلْ عَنْهُ غَيْرَه"۔ (بخاری،بَاب الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ،حدیث نمبر:۱۹۵،شاملہ،موقع الاسلام) ترجمہ:جب سعد تمہارے سامنے حضورﷺ کی کوئی حدیث نقل کرے تو اس کے بارےمیں کسی اور سے نہ پوچھو۔ پھر یہ بھی ہے کہ عام راوی کی وہی روایت معتبرہے جو مروی عنہ (جس سے روایت لی جارہی ہے)سے متصل ہو؛ لیکن صحابی رسولؐ کے بارے میں اس واقعہ کی خبر دے جس میں وہ خود موجود نہ تھے تو بھی یہ روایت محدثین کے نزدیک معتبر اور لائق قبول ہوگی، صحابی کی مرسل روایت کو قبول کیا جائے گا، صحابہ کی مرویات میں یہ سوال نہیں کیا جا تا کہ انہوں نے اس دور کی روایت جسے انہوں نےنہیں پایا کس سے لی ہے، صحیح بخاری کے شروع میں ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ(۵۷ھ)سے مروی ہے کہ آنحضرتؐ پروحی کا آغاز کیسے ہوا ؛حالانکہ آغاز وحی پر وہ پیدا بھی نہیں ہوئی تھیں،بایں ہمہ وہ حدیث مقبول ومعتبر سمجھی گئی اور بے شک یہ صحیح ہے، کسی صحابی یا صحابیہ سے نہیں ہوسکتا کہ وہ حضورﷺ کے بارے میں کوئی بات خلاف واقعہ کہیں، سو ان کے لیے ضروری نہیں کہ ان کی روایت متصل ہو، ان کا مقام اسلام میں عام راویوں سے بہت اونچا ہے اللہ تعالی نے تقوی ان کی ذوات کےلیے لازم کردیا تھا اور وہ بے شک اس کے اہل تھے، محدثین کے ہاں وہ سارے کے سارے عدول ہیں، تحقیق روایت میں جہاں اور راویوں کے بارے میں جرح وتعدیل کی بحث چلتی ہے صحابہ کے بارے میں یہ بحث نہیں چلتی؛ یہاں اس کی گنجائش نہیں؛ یہاں تعدیل ہی تعدیل ہے جرح کو اس میں راہ نہیں۔ صحابہ کی مرسل روایات بھی مقبول ہیں اور قانونی طور پر حجت ہیں اور ان ائمہ حدیث کے ہاں بھی معتبر ہیں جو دوسرے راویوں کی مرسل روایات سے حجت نہیں پکڑتے، صحابہ کرام سے نہ اتصال روایت کا مطالبہ ہے نہ ان کی تعدیل کی کہیں تلاش ہے۔ (مزید تصیل کے لیے دیکھیے:مقدمہ شرح مسلم)