انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** علم اسماء الرجال کی مشکل اس علم میں یاداشت اورضبط ہی ضبط ہے،جن علوم میں قیاس اور روایت کو کچھ بھی دخل ہو یا اس میں کچھ ترتیب خود کارفرما ہوکہ اس کے ماقبل یا ما بعد سے کچھ اندازہ ہوجائے وہ علوم اپنےعلماء کے لیے اس جہت سے کچھ سہل ہوجاتے ہیں؛لیکن یہاں تو حفظ ہی حفظ ہے اور معرفت طبقات ہے، سو!نا موں پر ضبط بہت اہتمام سے ہونا چاہئے اس میں ذرا بھی اندازے سے کام نہیں لیا جاسکتا، نہ انہیں اپنے اول اور آخر کی ترتیب سے کہیں معین کیا جاسکتا ہے، ابو اسحق ابراہیم بن عبداللہ النجیرمی فرماتے ہیں: "اولی الاشیاء بالضبط اسماء الناس لانہ شئی لایدخلہ القیاس ولاقبلہ شئ ولا بعدہ شی یدل علیہ"۔ (تہذیب التہذیب) ترجمہ: سب سے زیادہ جس چیز پر ضبط ہونا چاہئے وہ (حدیث روایت کرنے والے) لوگوں کے نام ہیں؛ کیونکہ کوئی ایسی چیز نہیں جس میں قیاس کام کرسکے اورنہ ان سے پہلے اورنہ ان کے بعد کوئی ایسی چیز ہوتی ہے جو اس کا پتہ دے سکے۔ حافظ ذہبی ایک جگہ لکھتے ہیں کہ طبقہ تابعین (صحابہ کے بعد جو لوگ ان کی پیروی میں چلے) میں انتہائی چھان بین کے باوجود مجھے ایک راوی بھی جھوٹا اورکاذب نہیں مل سکا،غلطی لگ جانا اوربات ہے، حافظے کا ضعف امردیگر ہے؛ لیکن جان بوجھ کر جھوٹ بولنا اس حد تک اس طبقے میں کوئی مجروح نہ تھا، کذب اپنی نمایاں صورت میں بعد میں نمودار ہوا ہے،تابعین اسی لیے تابعین تھے کہ صحابہ ان کے متبوعین تھے، جوصحابہؓ کے نقش پاسے راہ تلاش نہ کرے وہ تابعین میں سے کیسے ہوسکتا ہے، حضرت علی مرتضیٰ کے ارد گرد رہنے والے لوگ اگر ان پر جھوٹ باندھتے رہے تو وہ سبائی منافقین تھے، تابعین ہر گز نہ تھے، وہ تابعین بغیر اتباع ہر گز نہ ہوسکتے تھے۔