انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** فتنہ خوارج جس زمانہ میں خلافت ابن زبیر رضی اللہ عنہ میں انحطاط کے آثار نمایاں ہوئے اور عبدالملک بن مروان کے کارندوں نے عراق وفارس میں حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ کے خلاف اشاعتی اور سازشی کام شروع کیا توخوارج کے گروہ جوایرانی صوبوں میں خاموش زندگی بسر کرنے لگے تھے؛ پھرکروٹیں بدل کرہوشیار اور مستعد کار ہونے لگے، مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہ کے قتل اور عبدالملک کے تسلط سے عراق کے اندر باغیانہ خیالات کے لوگ سرگوشیاں کرنے لگے، عبدالملک نے عراق پر قابض ہوکر بصرہ کی حکومت خالد بن عبداللہ کوسپرد کی تھی، عراق سے دمشق میں جاکر عبدالملک کی تمام ترتوجہ خوارج کی طرف مبذول نہیں رہ سکتی تھی؛ کیونکہ اس کوحجاز اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا بھی خیال دامن گیر تھا، حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے قتل سے فارغ ہوکر عبدالملک نے بصرہ وکوفہ کے عاملوں کومعزول کرکے اپنے بھائی بشیر بن مروان کوبصرہ وکوفہ دونوں مقامات کی حکومت عطا کی اور حکم دیا کہ مہلب بن ابی صفرہ کوجنگِ خوارج پرمامور کرکے فارس کی طرف بھیج دیا جائے کہ وہ جہاں کہیں ان کوپائے ان کا استیصال کرے ساتھ ہی حکم دیا کہ مہلب کواختیار دیا جائے کہ وہ بصرہ سے جن جن لوگوں کا انتخاب کرے اور اپنے ساتھ لے جانا چاہے، لے جائے اور ایک زبردست فوج کوفہ سے بھی تیار کرکے مہلب کی کمک کے لیے بھیجی جائے تاکہ اس فتنہ کا بالکل استیصال وانسداد ہوجائے، یہ حکم مہلب کے نام بھی براہِ راست بھیج دیا گیا، بشیر بن مروان کویہ بات ناگوار گذری کہ امیرالمؤمنین نے براہِ راست مہلب کی تعیناتی کیوں کی، وہ چاہتا تھا کہ خوارج کی سرکوبی کا کام میرے زیراہتمام انجام پذیرہونا چاہیے تھا میں اپنے اختیار سے جس کوچاہتا ہوں اس کام پرمامور کرتا ہوں، مہلب بن ابی صفرہ عبدالملک کے حکم کی تعمیل میں بصرہ سے ایک جمعیت لے کرروانہ ہوا ادھر بشیربن مروان نے بھی کوفہ سے عبدالرحمن بن مخنف کی سرکردگی میں ایک لشکر مہلب کی کمک کے لیے روانہ کیا؛ مگرروانگی کے وقت عبدالرحمن بن مخنف سے کہا کہ میں تم کومہلب سے زیادہ قابل سرداری سمجھتا ہوں، تم اپنے آپ کوبالکل مہلب کا ماتحت ہی بناکر نہ رکھنا؛ بلکہ اپنی رائے سے بھی کام لینا، عبدالرحمن بن مخنف دار ہرمز میں مہلب سے جاکر ملا؛ لیکن وہ اپنی فوج الگ لے کرخیمہ زن ہوا اور اپنی خود مختاری کے علامات ظاہر کرنے لگا، چند ہی روز کے بعد اسی مقام پرخبر پہنچی کہ بشیر بن مروان فوت ہوا اور مرتے وقت خالد بن عبداللہ کواپنا قائم مقام بنایا گیا ہے، اس خبر کوسنتے ہی اہلِ بصرہ بھی اور اہلِ کوفہ بھی اپنے اپنے شہروں کوواپس چل دیئے، خالد بن عبداللہ نے ہرچند ان لوگوں کوسمجھایا اور ڈرایا؛ لیکن کوئی بھی مہلب کی طرف واپس جانے پرآمادہ نہ ہوا، ادھرخراسان کی یہ حالت تھی کہ عبداللہ بن حازم کے قتل کے بعد جس کا ذکر اوپر ہوچکا ہے، ترکستان مغوستان کے بادشاہ رتبیل نامی نے خراسان کی سرحدوں پرفوج کشیاں شروع کردی تھیں اور عبداللہ بن حازم کے بیٹے موسیٰ بن عبداللہ بن حازم نے اپنے ماں باپ کے ہمراہیوں کولے کراور مرو سے فرار ہوکر مقامِ قلعہ ترمذ میں اقامت اختیار کی اور اپنی ایک خودمختار ریاست قائم کرلینے میں کامیابی حاصل کی تھی۔ موسیٰ بن عبداللہ ایک طرف ترکوں سے لڑکرکامیابی حاصل کرتا تھا تودوسری طرف عبدالملک کے مقرر کیے ہوئے عاملِ خراسان سے برسرپیکار رہتا تھا، خراسان میں بکیربن وشاح عامل تھا، اس کومعزول کرکے عبدالملک نے اُمیہ بن عبداللہ بن خالد بن اسید کوخراسان کا عامل بناکر بھیجا، اُزیہ بن عبداللہ کے پہنچنے پربکیر بن وشاح خراسان ہی میں بعد معزولی مقیم رہا اور اُمیہ بن عبداللہ نے اس کومرو کا کوتوالِ شہر بنادیا، اُمیہ نے خراسان پہنچ کررتبیل بادشاہ ترکستان پرچڑھائی کی اور اس کومجبور کرکے اس شرط پرصلح کی کہ آئندہ وہ مسلمانوں پرحملہ آور نہ ہوگا، اُمیہ شاہِ ترکستان سے یہ صلح نامہ کیے ہوئے بلخ سے مرو کی طرف واپس آرہا تھا کہ موسی بن عبداللہ بن حازم نے اس پرحملہ کیا؛ مگروہ بہزار خرابی اس حملہ سے بچ کرمرو کے قریب پہنچ گیا اور موسیٰ بن عبداللہ واپس چلا گیا، مرو کے قریب پہنچ کر معلوم ہوا کہ بکیر بن وشاح مرو پرقابض ومتصرف ہوکر برسرمقابلہ ہے یہاں بھی معرکہ ہوا اور بکیر بن وشاح شہر کی مضبوطی کرکے بیٹھ گیا، آخر چند روز إے بعد صلح ہوئی اور اُمیہ بن عبداللہ نے بکیر بن وشاح کوخراسان کے کسی صوبہ کی حکومت دینے کا وعدہ کرکے مرو کواس کے قبضہ سے نکالا۔ ادھر دارہرمز میں مہلب بن ابی صفرہ اور عبدالرحمنٰ بن مخنف بہت تھوڑی تھوڑی جمعیت کے ساتھ خوارج سے برسرپیکار تھے اور فوج کے واپس چلے جان ےسے ان کی حالت بہت نازک ہورہی تھی، ان تمام حالات سے واقف ومطلع ہوکر عبدالملک بن مروان نے یہی مناسب سمجھا کہ حجاج بن یوسف ثقفی کوحجاز کی گورنری سے تبدیل کرکے عراق کی حکومت پرمامور کرے؛ چنانچہ سنہ۷۵ھ میں عبدالملک نے حجاج کوبصرہ وکوفہ کی سندِ حکومت عطا کرکے کوفہ کی طرف روانہ کیا، ماہِ رمضان سنہ۷۵ھ میں کوفہ میں داخل ہوا، جامع مسجد میں جاکر منبر پربیٹھا اور لوگوں کومجتمع ہونے کا حکم دیا، کوفہ کے لوگ عموماً گستاخ اور اپنے امیروں اور حاکموں کی توہین وگستاخی کرنے کے عادی تھی؛ چنانچہ وہ سنگریزے مٹھیوں میں لے کر آئے کہ دورانِ خطبہ میں سنگریزے اس جدید امیر کی طرف پھینکیں گے؛ لیکن جب حجاج نے اپنی تقریر شروع کی تواس کا یہ اثر ہوا کہ لوگ سہم گئے اور ڈر کے مارے وہ سنگریزے ان کے ہاتھوں سے گرگئے، حجاج نے اپنی تقریر میں کہا کہ: بہت سے عمامے اور داڑھیاں یہاں نظر آرہی ہیں کہ اب وہ خون میں تربتر ہونیوالی ہیں، بہت سے سراس مجمع میں نظر آرہے ہیں کہ ان کے کٹنے کا زمانہ قریب آگیا ہے، امیرالمؤمنین عبدالملک نے اپنے ترکش کے تمام تیروں کودیکھا جوان تیروں میں سب سے زیادہ سخت اور کاری تھی، وہ تم پرچلایا یعنی مجھ کوتم پرحاکم بناکر بھیجا، میں تمہاری تمام شرارتوں کا علاج کرکے تم کواچھی طرح سیدھا کردوں گا، تم ایک عرصہ سے شرارتوں اور فتنہ انگیزیوں کے مرکز بنے ہوئے ہو اب وقت آگیا ہے کہ تم کوتعلیم دی جائے اور تمہاری آنکھیں کھول دی جائیں، امیرالمؤمنین نے حکم دیا ہے کہ تمہاری تنخواہیں تقسیم کردی جائیں اور تم لوگ مہلب کے پاس خوارج کے مقابلہ کے لیے روانہ ہوجاؤ تنخواہ تقسیم ہونے کے بعد تم کوصرف تین دن کی مہلت ہے اگرچوتھے روز کوئی شخص کوفہ میں نظر آیا تواس کی گردن اُڑادی جائے گی، یہ بھی یاد رکھو! کہ یہ محض دھمکی نہیں ہے؛ بلکہ تم اس کواپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے جوکچھ میں کہتا ہوں وہی کرتا بھی ہوں۔ حجاج جامع مسجد سے اُٹھ کردارالامارۃ میں آیا اور لوگوں کی تنخواہیں تقسیم کرنی شروع کیں ایک بوڑھے شخص نے جس کے جسم میں بڑھاپے کی وجہ سے رعشہ پیدا ہوگیا تھا، آکر کہا کہ میں بوڑھا ضعیف شخص ہوں، میرا لڑکا مجھ سے زیادہ توانا ہے، میری جگہ اس کوبھیج دیجئے، حجاج نے پوچھا تمہارا نام کیا ہے، اس نے کہا کہ عمیر بن ضابی برجنی، حجاج نے کہا کہ تم وہی عمیر بن ضابی ہو جس نے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے مکان پرحملہ کیا، اس نے کہا: ہاں! حجاج نے کہا تجھے کس چیز نے اس کام پرآمادہ کیا تھا؟۔ اس نے کہا کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے میرے بوڑھے باپ کوقید کردیا تھا، حجاج نے کہا میں تیرازندہ رہنا پسند نہیں کرتا، یہ کہہ کر اس نے عمیر بن ضابی کے قتل کرنے اور اس کے گھربار کے لوٹ لینے کا حکم دیا، تیسرے روز حجاج کے منادی نے ندا کی کہ آج رات جوشخص اپنے گھر میں رہے گا اور مہلب کے لشکر کی طرف روانہ، نہ ہوجائے گا وہ قتل کردیا جائے گا، اس آواز کے سنتے ہی لوگ مہلب کے لشکر کی طرف روانہ ہونے شروع ہوئے اور بہت جلد مہلب کے پاس ایک طاقتور لشکر خوارج کا مقابلہ کرنے کے لیے جمع ہوگیا۔ اس کے بعد حجاج نے حکم بن ایوب ثقفی کواپنی طرف سے بصرہ کا امیر مقرر کرکے روانہ کیا اس کے بعد حجاج نے سندھ پرسعید بن اسلم بن زرعہ کومتعین کیا، معاویہ بن حرث کلابی اور اس کا بھائی محمد بھی جہاد کی غرض سے نکل کھڑے ہوئے، اکثر شہروں پرقبضہ کیا، جنگ آوروں کو قیدوقتل کیا اور اس کام سے فارغ ہوکر خود سعید پربھی ہاتھ صاف کردیا، اس خبر کوسن کرحجاج نے بجائے اس کے مجاعہ بن سعید تمیمی کومامور کیا، زرعہ نے اس سرحد پربزور وقوت قبضہ حاصل کرکے اپنی حکومت کے ایک برس کے بعد مکران دارابیل کے اکثرشہروں کوفتح کیا، حجاج نے کوفہ کا انتظام کرکے وہاں عروہ بن مغیرہ بن شعبہ کواپنا نائب مقرر کیا اور خود بصرہ کی طرف آیا، بصرہ میں آکر ایک ایسا ہی خطبہ دیا جیسا کہ کوفہ میں دیا تھا اور مہلب کا ساتھ نہ دینے والوں کوخوب دھمکایا۔ شریک بن عمرویشکری حجاج کے پاس آیا اور کہا کہ میں فتق کے عارضہ میں مبتلا ہوں، میری اس معذرت کوبشربن مروان نے بھی قبول کرلیا تھا، آپ بھی قبول کریں اور مجھ کومہلب کے لشکر کی طرف جانے سے معاف رکھیں، حجاج نے اسی وقت اس کے قتل کرنے کا حکم دیحا، یہ دیکھ کرتمام اہلِ بصرہ ڈرگئے اور فوراً بصرہ سے نکل نکل کرمہلب کے لشکر کی طرف روانہ ہوئے جب مہلب کے لشکر گاہ دارہرمز کا اٹھارہ فرسخ کا فاصلہ رہ گیا توڈیرے ڈال دیئے اور کہا کہ اے اہلِ کوفہ وبصرہ! تم لوگ اب اس وقت تک یہاں مقیم رہو گے جب تک کہ خوارج کا بالکل استیصال نہ ہوجائے، اس جگہ حجاج نے خود اپنے لیے ایک نیا فتنہ برپا کرلیا۔ مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں لشکریوں کے وظائف میں سوسودرم کا اضافہ کیا گیا تھا، یہ اضافہ آج تک برابر چلا آتا تھا اور کسی نے ان کے کم کرنے کی طرف توجہ نہیں کی تھی،حجاج نے اس مقام پرحکم دیا کہ ہرایک لشکری کووظیفہ وہی دیا جائے گا جومصعب بن زبیر رضی اللہ عنہ سے پہلے مقرر تھا یعنی سوسودرم ہرشخص کی تنخواہ سے کم کیے جاتے ہیں، عبداللہ بن جارود نے اس حکم کوسن کرکہا کہ ہمارے یہ وظیفے عبدالملک او راس کے بھائی بشر بن مروان نے بھی جائز رکھے ہیں تم اس کوکم کرنے کی غلطی کا ارتکاب نہ کرو، حجاج نے عبداللہ بن جارود کی بات پرکچھ التفات نہ کیا، عبداللہ بن جارود نے پھرباصرار حجاج کے اس حکم کی مخالفت میں آواز بلند کی، مصقلہ بن کرب عبدی نے عبد اللہ بن جارود سے کہا کہ امیر نے جوحکم دیا ہے اس کی تعمیل کرنا ہمارا فرض ہے، مخالفت کرنا ہمارے لیے شایاں نہیں، عبداللہ بن جارود مصقلہ کوگالیاں دیتا ہوا حجاج کے دربار سے اُٹھ آیا اور حکم بن مجاشعی کے پاس آکر تمام کیفیت بیان کی وہ بھی ہم نوا ہوگیا؛ پھریکے بعد دیگرے اکثر لشکری عبداللہ بن جارود کے موید ہوگئے اور سب نے مل کرعبداللہ بن جارود کے ہاتھ پراس بات کی بیعت کی کہ ہم حجاج کوگورنری سے معزول کرکے عراق سے نکال دیں گے؛ چنانچہ سب نے عبداللہ بن جارود کی افسری میں حجاج کے خیمہ کا محرہ کرلیا۔ حجاج کے ساتھ بہت ہی تھوڑے سے آدمی تھے، مقابلہ ہوا، قریب تھا کہ حجاج مقتول یاگرفتار ہوجائے؛ لیکن شام ہوجانے کی وجہ سے اس کام کوکل پرملتوی رکھ کرسب اپنے اپنے خیموں کی طرف واپس ہوئے ان کا اصل مقصد حجاج کوقتل کرنا تھا؛ یہی نہیں بلکہ وہ اس کوعراق سے نکال دینا چاہتے تھے، رات کوحجاج کے دوستوں نے اس کومشورہ دیا کہ تم یہاں سے بھاگ کرعبدالملک کے پاس چلے جاؤ حجاج اسی شش وپنج میں تھا کہ اسی رات مخالفین کے درمیان پھوٹ پڑگئی اور عبادہ بن حصین سبطی ابن جارود سے ناراض ہوکر حجاج کے پاس چلا آیا، اس کی دیکھا دیکھی قتیبہ بن مسلم بھی اپنی جماعت کولے کرحجاج کے پاس آگیا؛ پھرسبزہ بن علی کلابی، سعید بن اسلم کلابی، جعفر بن عبدالرحمن بن مخنف ازدی بھی آگئے؛ غرض صبح ہوتے ہوتے حجاج کے پاس چھ ہزار کی جمعیت فراہم ہوگئی، صبح کودونوں گروہوں میں خوب جم کرمقابلہ ہوا، حجاج اور اس کے ساتھیوں کے پاؤں اکھڑگئے تھے اور عبداللہ بن جارود کوفتح حاصل ہوچکی تھی کہ ایک تیر عبداللہ بن جارود کے گلے میں آکرلگا اور اس کا کام تمام کرگیا، عبداللہ بن جارود کے مرتے ہی حجاج کی شکست فتح سے تبدیل ہوگئی، ابن جارود کے ہمراہی بہت سے مقتول ہوئے، بہت سے امان طلب کرکے پھرحجاج کے لشکر میں آکرشریک ہوگئے، حجاج نے عبداللہ بن جارود اور اس کے ہمارہی سرداروں کے اٹھارہ سرکاٹ کرمہلب کے پاس بھجوائے، مہلب نے ان کونیزوں پرنصب کرادیا؛ تاکہ خوارج دیکھ کرمرعوب ہوں، ادھر ابن جارود کے ساتھ حجاج کی معرکہ آرائی ہورہی تھی ادھربصرہ کی طرف سے خبر آئی کہ سووان کا ایک قبیلہ رنج نامی جوبصرہ اور اس کے نواح میں سکونت پذیر تھا باغی ہوگیا ہے۔ ابن جارود کے قتل سے فارغ ہوکر حجاج نے اپنے بیٹے حفص نامی کوایک مختصر فوج دیکر ان کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا اور کوفہ کے نائب کولکھا کہ کوفہ سے اس جدید بغاوت کوفرو کرنے کے لیے فوج روانہ کرے؛ چنانچہ کئی معرکہ آرائیوں کے بعد اس بغاوت کوفرو کردیا گیا، خوارج کی جمیعتیں ایران وخراسان اور عراق کے شہروں سے کھچ کھچ کرمقام دارہرمز میں مہلب کے مقابلے پرآگئی تھیں اور نہایت سختی وشدت کے ساتھ لڑکرمہلب کوپسپا کرنے اور بصرہ تک پہنچ کر اس پرقبضہ کرلینے کی کوشش میں یہ لوگ مصروف تھے، جب کوفہ وبصرہ سے پیہم امدادی فوجیں روانہ ہوئیں تومہلب اور عبدالرحمن بن مخنف کو جوخوارج کے مقابلہ پرڈٹے ہوئے تھے بہت قوت حاصل ہوگئی، اس سے پہلے تووہ اپنی فوج کے کم ہونے کی وجہ سے صرف مدافعت میں مصروف تھے اور خوارج کوآگے بڑھنے سے روک رکھا تھا؛ لیکن اب تقویت پاک ران دونوں نے خوارج پرجارحانہ حملے شروع کردیئے اور خوارج کی فوج کوپیچھے ڈھکیلتے ہوئے گازرون کے قریب پہنچ کرخوارج جم گئے اور مورچے جماکر مقابلہ کرنے لگے۔ مہلب نے یہ رنگ دیکھ کرحفاظت کی غرض سے اپنے لشکر گاہ کے گرد خندق کھدوائی اور دمدمے بنالیئے، عبد الرحمن بن مخنف شروع ہی سے اپنا لشکر مہلب کے لشکر سے جدا رکھتا اور الگ ہی خیمہ زن ہوتا تھا؛ یہاں بھی عبدالرحمن نے تھوڑے فاصلہ پراپنی لشکر گاہ قائم کی، مہلب نے عبدالرحمن کے پاس کہلا بھجوایا کہ اس جگہ شب خون کا سخت خطرہ ہے، مناسب یہ ہے کہ تم بھی اپنے لشکر کے گرد خندق کھدوالو، عبدالرحمن نے جواباً کہلا بھجوایا کہ تم اطمینان رکھو، ہماری تلواریں خندق کا کام دیں گی، یہ کہہ کروہ کھلے میدان میں میں خیمہ زن رہا، ایک روز خوارج نے مہلب پرشب خون مارا؛ لیکن خندق کی وجہ سے وہ آگے نہ بڑھ سکے، وہاں سے ناکام رہ کروہ عبدالرحمن بن مخنف کی طرف متوجہ ہوئے، میدان صاف تھا، برابر بڑھتے چلے گئے اور قتل کرنا شروع کردیا، عبدالرحمن بن مخنف کی فوج والے سوتے ہوئے اس حملے کی تاب نہ لاکر گھبراہٹ میں جدھ رکومنھ اُٹھا بھاگ کھڑے ہوئے، عبدالرحمن نے بہت تھوڑے سے آدمیوں کوہمارہ لے کرمقابلہ کیا اور معہ ہمراہیوں کے خوارج کے ہاتھ سے مقتول ہوا، مہلب وعبدالرحمن دوسردار تھے، مہلب کی فوج میں تمام بصری لوگ شامل تھے اور عبدالرحمن کی فوج کوفیوں پرمشتمل تھی، کوفی لشکر کا اس معرکہ میں سخت نقصان ہوا، اس کی اطلاع حجاج کے پاس پہنچی توا س نے عبدالرحمن بن مخفف کی جگہ عتاب بن ورقاء کوکوفی لشکر کا سردار مقرر کرکے صاف حکم دیا کہ عتاب مہلب کا ماتحت رہے گا اور مہلب کے ہرایک حکم کی تعمیل کرنا اس کا اوّلین فرض ہوگا، عتاب کویہ بات گراں گذری اور اس لیے مہلب وعتاب میں ناچاقی وشکررنجی پیدا ہوئی۔ عتاب نے حجاج کولکھا کہ مجھ کوواپس بلوالیجئے، حجاج نے اس کی یہ درخواست منظور کرکے اسے واپس بلالیا اور تمام کوفی لشکر براہِ راست مہلب کی سرداری میں دے دیا گیا، مہلب نے اس کوفی حصہ فوج پراپنی طرف سے اپنے بیٹے حبیب بن مہلب کوسردار مقرر کیا اور قریب ایک سال نیشاپور میں ٹھہرا خوارج کا مقابلہ کرتا رہا، آخرخوارج کے اندر خود پھوٹ پڑی اور دوگروہ ہوکر آپس میں لڑنے لگے، مہلب نے اس حالت میں ان پرکوئی حملہ نہیں کیا، جب ایک فرقہ نے دوسرے کومغلوب کرکے طبرستان کی طرف نکال دیا تومہلب نے غالب فرقہ پرحملہ کرکے اس کوقتل کیا اور اس طرح خوارج کے فتنے سے سنہ۷۷ھ میں مہلب نے فراغت پائی، خوارج اس قدر بہادر اور ایسی بے جگری سے لڑنے والے لوگ تھے کہ انھوں نے بسااوقات دس دس اور بیس بیس گنی فوج کوشکست دے دے کربھگادیا ہے، ایک مرتبہ ایک ہزار خوارج نے کوفہ کے قریب پچاس ہزار کے لشکر کوشکست فاش دیکر بھگادیا، خوارج کے مقابلے میں صرف مہلب بن ابی صفرہ ہی ایک ایسی سردار تھا جوپورے طور پرکامیاب تھا، جس وقت مہلب خوارج کی جنگ سے فارغ ہوکرکوفہ میں حجاج کے پاس آیا ہے توحجاج نے ایک عظیم الشان دربار منعقد کیا اور مہلب کواپنے برابر مسند پربٹھایا، مہلب کے ساتھ بیٹے تھے انھوں نے خوارج کے مقابلے میں انتہائی بہادری کے نمونے دکھائے تھے؛ لہٰذا ان کی تنخواہوں میں دوہزار درم سالانہ کا اضافہ کیا گیا۔ خوارج کا جو مغلوب گروہ طبرستان کی طرف بھاگا تھا اس کے سرپربھی حجاج نے فوج روانہ کی اور انھیں ایام میں وہ لوگ بھی برباد کردیئے گئے، سنہ۷۶ھ میں خوارج کے ایک گروہ نے صالح بن مسرح کی سرداری میں موصل کے اندر شورش برپاکی تھی، ان کے مقابلہ کے لیے محمد بن مروان برادر عبدالملک امیرموصل نے فوج متعین کی بہت سے مقابلوں اور معرکوں کے بعد صالح مارا گیا، اس کی جگہ شبیب خوارج کا سردار بنا وہ اپنی جمعیت کولے کرمدائن کی طرف چلا گیا، حجاج نے ان کے تعاقب میں بھی فوجیں بھیجنی شروع کیں؟؛ مگران کومغلوب نہ کیا جاسکتا، شبیب کے ہمراہ کل ایک ہزار آدمی تھے، ایک مرتبہ وہ انھیں ایک ہزار آدمیوں کے ساتھ کوفہ میں مقیم رہ کرچلا گیا، انھیں ایک ہزار کے مقابلہ پرحجاج نے پچاس ہزار کوفیوں کی فوج بھیجی اور خوارج نے ان پچاس ہزار کوشکست دے کربھگادیا، آخر یہ ایک ہزار کی جمعیت بھی معہ اپنے سردار شبیب کے غارت وبرباد ہوگئی۔