انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** یہودی قوم مورخین بیان کرتے ہیں کہ مدینہ کے یہود اصلاً یہودی تھے اوراس غرض سے عرب میں آئے تھے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان کو عمالقہ کے مقابلہ کے لئے بھیجا تھا ،یہود گو تمام دنیا میں پھیلے لیکن انھوں نے اپنے نام کہیں نہیں بدلے ، آج بھی وہ جہاں ہیں اسرائیلی نام رکھتے ہیں ، بر خلاف اس کے عرب کے یہودیوں کے نام خالص عربی ہیں جیسے نضیر ‘ قنیقاع ‘ مرحب ‘ حارث وغیرہ ، عموماً یہود بزدل ہوتے ہیں ؛چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان سے لڑنے کے لئے کہا تو بولے : " قوم نے جواب دیا کہ اے موسیٰ جب تک وہ وہاں ہیں تب تک ہم ہر گز وہاں نہ جائیں گے اس لئے تم اور تمہارا پروردگار جاکر دونوں ہی لڑو ،ہم یہیں بیٹھے ہوئے ہیں" ( سورۂ المائدہ : ۲۴) برخلاف اس کے مدینہ کے یہود نہایت دلیر ، شجاع اور بہادر تھے، مورخ یعقوبی نے لکھا ہے کہ قریظہ اور نضیر عرب تھے جو یہودی بن گئے تھے ( یعقوبی ج ۲ بحوالہ سیرۃ النبی جلد اول ) مورخ مسعودی نے اپنی کتاب الاشراف و التبینہ میں ایک روایت لکھی ہے کہ یہ جذام کے قبیلہ سے تھے ، کسی زمانہ میں عمالقہ سے اور ان کی بُت پرستی سے بیزار ہو کر حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائے اور شام سے نقل ِ مقام کر کے حجاز چلے آئے ، یہ تین قبیلے تھے:۱-بنی قنیقاع۲-بنی نضیر۳-بنی قریظہ، مدینہ کے اطراف میں آباد تھے اور مضبوط اور قلعہ بنا لئے تھے ۔ (سیرۃ النبی جلد اول ) انصار کے دو قبیلوں اوس اور خزرج میں آخری معرکہ جنگ ِ بُعاث ہوا تھا جس میں انصار کا زور بالکل توڑ دیا تھا ،یہود یہ چاہتے تھے کہ انصار باہم کبھی متحد نہ ہونے پائیں۔ یہود کی ذیلی شاخیں بیس سے زیادہ اور جملہ تعداد پانچ ہزار سے زیادہ تھی ، ہر قبیلہ میں لڑنے والے سات سو افراد تھے، آپس میں اتحاد نہ ہونے سے ہر وقت لڑتے رہتے تھے، تورات ان کی آسمانی کتاب تھی جس میں تحریف کرتے رہتے تھے، دینی اور شرعی احکام کو مانتے تھے ، عاشورہ کے دن روزہ رکھتے او راپنی عیدیں الگ مناتے تھے، جس عرب عورت کا بچہ زندہ نہ رہتا تو وہ نذرمانتی تھی کہ بچہ زندہ رہا تو اسے یہودی بنا دے گی، اس طرح بہت سے عرب یہودی بن گئے۔ یہودی سودی لین دین کیا کرتے تھے، چور بازاری اور ذخیرہ اندوزی بھی کیا کرتے تھے، میٹھے کنوؤں کا پانی فروخت کرتے تھے، ان کی ما دری زبان عبرانی تھی مگر عربی پر بھی عبور تھا،مدینہ میں یہودیوں کے علاوہ عیسائی بھی آباد تھے،ہجرت کر کے مدینہ تشریف لانے کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے نئے پڑوسیوں یعنی یہود مدینہ سے ایک تحریری معاہدہ ضروری خیال کیا تا کہ بیرونی دشمن کے حملہ کی صورت میں مدینہ میں جان ومال کی حفاظت ہو سکے اور وقت ضرورت دفاع بھی کیا جا سکے، اس سلسلہ میں ڈاکٹر محمد حمید اللہ لکھتے ہیں کہ حضور ﷺ نے حسب ذیل اقدام فرمایا: ۱، مہاجرین کی مستقل آبادکاری اور روزگار کی فراہمی، ۲، اپنے اور مقامی باشندوں کے حقوق و فرائض کا تعین، ۳، مدینہ کے غیر مسلم عربوں اور خاص کر یہودیوں سے سمجھوتہ ، ۴، مدینہ کی سیاسی تنظیم اور دفاع ، ۵، اس مالی اور جانی نقصان کا بدلہ دلاناجو مشرکین مکہ سے مہاجرین کو پہنچا،