انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ہانی مذحجی کا قتل ابن زیاد کو مسلم کی تلاش میں عرصہ گذرچکا تھا؛ لیکن ابھی تک اسے ان کا پتہ نہ چلتا تھا، آخر کار اس نے اپنے غلام معقل کو سراغ رسانی پر مامور کیا، اس قسم کی خفیہ تحریکوں کا پتہ چلانے کے لئے بہترین مقام مسجد تھی، کیونکہ مسجد میں ہر قسم کے لوگ آتے تھے اس لئے یہ غلام سیدھا جامع مسجد پہنچا، یہاں دیکھا کہ ایک شخص مسلسل نمازیں پڑھ رہا ہے، معقل نے نمازوں کی کثرت سے قیاس کیا کہ یہ حضرت حسینؓ کے حامیوں میں ہے اوراس کے پاس جاکر کہا کہ میں شامی غلام ہوں، خدا نے میرے دل میں اہل بیت نبویﷺ کی محبت ڈال دی ہے، میرے پاس تین ہزار درہم ہیں،میں نے سنا ہے کہ یہاں حسینؓ کا کوئی داعی آیا ہے، میں یہ حقیر رقم اس کی خدمت میں نذر کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہوں کہ وہ ا س کو کسی کار خیر میں صرف کریں یہ سن کر داعی نے سوال کیا، مسجد میں اور مسلمان بھی ہیں، تم نے خاص طور سے مجھ سے یہ سوال کیوں کیا؟ معقل نے جواب دیا، آپ کے بشرہ پرخیر کے آثار نظرآئے، معقل کی اس پر فریب گفتگو سے وہ شخص دام میں آگیا،اس کو معقل کی حمایت ِحسینؓ کا یقین ہوگیا؛چنانچہ اس ملاقات کے دوسرے دن معقل اس داعی کے ہمراہ مسلم کے پاس پہنچا اور تین ہزار درہم پیش کرکے بیعت کی، اورحالات کا پتہ چلانے کیلئے اظہار عقیدت وخدمت کے بہانے ان ہی کےپاس رہنے لگا، رات بھر مسلم کے پاس رہتا اور دن کو ابن زیاد کے پاس جاکر مفصل رپورٹ پہنچاتا، ہانی چونکہ مقتدر آدمی تھے اس لئے پہلے ابن زیاد کے پاس آیا جایا کرتے تھے، لیکن جب سے مسلم کے مشن کے کارکن ہوگئے تھے اس وقت سے بیماری کا بہانہ کرکے آنا جانا ترک کردیا تھا، ایک دن زیاد کے پاس محمد بن اشعث اوراسماء بن خارجہ آئے، ابن زیاد نے ان سے پوچھا ہانی کا کیا حال ہے، انہوں نے کہا بیمار ہیں، ابن زیاد نے کہا کیسے بیمار ہیں کہ دن بھر اپنے دروازہ پر بیٹھے رہتے ہیں، یہ دونوں یہاں سے واپس گئے تو ہانی سے ابن زیاد کا سوئے ظن بیان کیا اور کہا کہ تم ابھی ہمارے ساتھ چلو تاکہ اسی وقت معاملہ صاف ہوجائے ان دونوں کے کہنے سے ہانی ان کے ساتھ ہوگئے، مگر دل میں اطمینان نہ تھا اس لئے قصر امارت کے پاس پہنچ کر ان کو خوف پیدا ہوا انہوں نے کہا کہ مجھے اس شخص سے ڈر معلوم ہوتا ہے، محمد بن اشعث نے اطمینان دلایا کہ ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں تم بالکل بری الذمہ ہو اورہانی کو اندر لے گئے ،ابن زیاد کو تمام خفیہ حالات کی خبر ہوچکی تھی اس نے ہانی کو دیکھتے ہی یہ شعر پڑھا۔ ارید حباؤہ ویریدقتلی عذیر یک من خلیلک من مرار میں اس کو انعام دینا چاہتا ہوں اورمجھے قتل کرنا چاہتا ہے قبیلۂ مراد سے اپنے کسی دوست کو معذرت کے لئے لا ہانی نے یہ شعر سن کر پوچھا اس کا کیا مطلب ہے؟ابن زیاد نے کہا مطلب پوچھتے ہو مسلم کو چھپانا، ان کی بیعت کے لئے لوگوں کو خفیہ جمع کرنا اس سے بڑھ کر سنگین جرم کیا اورہوسکتا ہے، ہانی نے اس الزام سے انکار کیا،ابن زیاد نے اسی وقت معقل کو طلب کیا اور ہانی سے کہا اسے پہچانتے ہو،معقل کو دیکھ کر ہانی کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے اب وہ سمجھے کہ یہ شیعیت کے بھیس میں جاسوسی کررہا تھا اس عینی شہادت کے سامنے انکار کی کوئی گنجائش نہ تھی، اس لئے صاف صاف اقرار کرلیا کہ آپ سچ کہتے ہیں،لیکن خدا کی قسم میں نے مسلم کو بلایا نہیں تھا اورکل واقعہ صحیح صحیح بیان کرکے وعدہ کیا کہ ابھی جاکر انہیں اپنے گھر سے نکالے دیتا ہوں اورنکال کر واپس آتا ہوں،لیکن ابن زیاد نے اس کی اجازت نہ دی اورکہا کہ خدا کی قسم تم اس وقت تک یہاں سے واپس نہیں جاسکتے جب تک مسلم یہاں نہ آجائیں ،ہانی نے جواب دیا یہ نہیں ہوسکتا، خدا کی قسم میں اپنے مہمان اورپناہ گزین کو قتل کے لئے کبھی تمہارے حوالہ نہیں کروں گا، یہ جواب سن کر ابن زیاد بیتاب ہوگیا اوراس زور سے ہانی کو بید مارا کہ ان کی ناک پھٹ گئی اور ابرو کی ہڈی ٹوٹ گئی اور انہیں ایک گھر میں ڈلوادیا۔ (اخبار الطوال:۲۴۸،۲۵۱) ادھر شہر میں یہ افواہ پھیل گئی کہ ہانی قتل کردیئے گئے،یہ افواہ سن کر ہانی کے قبیلہ والے ہزاروں کی تعداد میں قصر امارت پر ٹوٹ پڑے اور انتقام انتقام کا نعرہ لگانے لگے یہ نازک صورت دیکھ کر ابن زیاد بہت گھبرایا اورقاضی شریح سے کہا آپ ہانی کو اپنی آنکھ سے دیکھ کر ہانی کے قبیلہ والوں کو اطمینان دلادیجئے کہ وہ قتل نہیں کئے گئے ؛چنانچہ قاضی صاحب ہانی کے معائنہ کے لئے گئے ہانی اپنے قبیلہ والوں کا شور وہنگامہ سن رہے تھے، قاضی کو دیکھ کر کہا یہ آوازیں میرے قبیلہ والوں کی معلوم ہوتی ہیں،ا نہیں آپ صرف اتنا پیام پہنچادیجیے کہ اگر اس وقت ان لوگوں میں سے دس آدمی بھی آجائیں تو میں چھوٹ سکتا ہوں، لیکن قاضی شریح کے ساتھ جاسوس لگاہوا تھا اس لئے وہ یہ پیام نہ پہنچا سکے اوربنی مذحج کوہانی کی زندگی کا یقین دلا کر واپس کردیا۔