انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** تفسیرماجدی برصغیر کے مشہور عالم اور صاحبِ طرز ادیب مولانا عبدالماجد دریابادی رحمہ اللہ کے قلم سے یہ عظیم الشان تفسیر ہے، قرآن مجید فصاحت وبلاغت کے اعلیٰ ترین معیار پر ہے اور کمال احتیاط کا متقاضی ہے، مولانا نے اس کی ترجمانی اسی انداز میں کی ہے البتہ ادب کی بیبا کی اور عبارت کی اثرانگیزی کو احتیاط کے حدود سے نکلنے نہیں دیا ہے؛ بلکہ قرآن کے الفاظ وعبارات کی روح کو سمجھنے اور سمجھ کر پوری امانت داری کے ساتھ اس کے مفہوم کو ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ درحقیقت یہ تفسیر ایک انفرادیت رکھتی ہے، اس سے عصری تعلیم کا حامل اور علوم دینیہ کا طالب علم دونوں ہی یکساں طور پر استفادہ کرسکتے ہیں، مولانا عبدالماجد دریابادی رحمہ اللہ کی تفسیر کے متعلق حضرت مولانا سیدابوالحسن علی حسنی ندوی رحمہ اللہ کے ایک اقتباس کا نقل کردینا کافی ہوگا کہ اس تفسیر کی خصوصیات پر قرآن کے رمز آشنا کے اس تبصرہ سے بہتر تبصرہ نہیں ہوسکتا۔ "اس کے اظہار میں حرج نہیں سمجھتا کہ تفسیر قرآن (اپنی علمی بے بضاعتی کے اعتراف کے ساتھ) میرا ابتداء سے موضوع رہا ہے، تقریباً دس برس دارالعلوم ندوۃ میں یہ مضمون میری حقیر ذات سے متعلق رہا اور اللہ تعالیٰ نے اس کی خدمت کی توفیق عطا فرمائی، اس سلسلے میں قدیم تفاسیر میں سے کوئی قابل ذکر تفسیر (جو کوئی خصوصیت رکھتی ہو) ایسی یاد نہیں آتی جو نظر سے نہ گذری ہو، جدید مطبوعات بھی علم میں آتے رہے اور ان سے بھی وقتاً فوقتاً استفادہ کی نوبت آئی، عربی ممالک کے سفر کے سلسلہ میں جدید ترین مطبوعات سے بھی واقفیت کا موقع ملا اس کے بعد شاید میرا یہ عرض کرنا کچھ وقعت رکھتا ہو اور ناظرین کے لیے ہمت افزائی اور اطمینان قلبی کا باعث ہوکہ "تفسیرماجدی" اپنی بعض خصوصیات میں منفرد ہے اور تمام تفسیری ذخیرہ کی موجودگی میں اس کی بہرحال ضرورت تھی، قرآن مجید کے بیسوں مقامات ایسے ہیں کہ ان میں قرآن کا اعجاز اور وحی محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت پورے طور پر اس وقت تک عیاں نہیں ہوسکتی، جب تک کہ ان آیات کا تاریخی پس منظر سامنے نہ ہو اور جن اقوال وعقائد کی تردید یانفی کی گئی ہو، ان کی حقیقت واصلیت اور ان کی اس دور میں اہمیت ومقبولیت وعمومیت معلوم نہ ہو، اس سلسلہ میں مولانا عبدالماجد دریابادی رحمہ اللہ نے ایک نہایت قابل قدر خدمت انجام دی ہے جس کا شکریہ ان سب لوگوں پر واجب ہے جو مغربی زبانوں سے براہِ راست واقفیت نہ رکھنے کی وجہ سے ان ماخذوں سے فائدہ نہیں اُٹھاسکتے یا ان کے پاس اتنا وقت او رایسا وسیع کتب خانہ نہیں ہے، قرآنی واقعات وقصص اور مقامات وامکنہ نیزاشخاص واقوام اور مذاہب وفرق سے متعلق انھوں نے اتنا مواد جمع کردیا ہے جو یکجا نہیں مل سکتا؛ پھرجہاں تک میری نظر پڑی ہے وہ مسلک سلف سے ہٹے نہیں ہیں، ہمارے محدود علم میں (اور یہ بات وسیع سفروں اور سیاحتوں، یوروپ وامریکہ کے سفروں اور وہاں کی بہت سی علمی کوششوں سے واقفیت کے بعد لکھی جارہی ہے) اللہ تعالیٰ نے ہندوستان کے ایک محقق اور فاضل یگانہ اور خادم دین مولانا عبدالماجد صاحب رحمہ اللہ کو توفیق دی کہ وہ تقابل صحف سماوی کا منظم، وسیع اور مخلصانہ مطالعہ فرمائیں اور کم سے کم انگریزی میں شائع ہونے والی تنقیدی، احتسابی وتقابلی کتابوں، موسوعات، انسائیکلوپیڈیاز اور وقتاً فوقتاً شائع ہونے والے مضامین ومباحث کا مطالعہ جاری رکھیں اور ان کے حوالہ ونشاندہی سے بدیہی حقائق کی طرح قرآن مجید کے اعجاز اور اس کی محفوظیت اور تورات وانجیل کے تحریفات، خارجی اضافات اور ذات وصفات خداوندی کے خلاف بیانات اور نسبتوں سے پردہ اُٹھائیں، یہ ایک خادم دین مترجم ومفسر قرآن کا وہ کارنامہ اور اس کے اخلاص وبلند ہمتی کا شاہکار ہے، جس میں راقم حروف کی نظر میں ان کا اس عہد میں نہ صرف ہندوستان بلکہ کسی اسلامی ملک میں بھی کوئی ہمسر اور نظیرنظر نہیں آتا۔ (حوالہ: تفسیر ماجدی: پیش لفظ) مولانا کی اس تحریر سے تفسیر ماجدی کی خصوصیات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مولانا دریابادی رحمہ اللہ نے جن تفاسیر سے خواہ وہ لغت سے متعلق ہوں یااحکام سے، استفادہ کیا ہے ان کا ذکر مقدمہ میں کردیا ہے اور تفسیر میں تشریح کے ساتھ ساتھ مذکورہ تفاسیر سے عربی اقتباسات نقل کردیئے ہیں جو ایک طالب تفسیر کے لیے نہایت مفید ہے اور جو بیک وقت کئی تفسیروں سے مستغنی کردیتے ہیں۔