انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** عام جنگ ابھی تک لڑائی کا انداز یہ تھا کہ ایک ایک شخص ایک ایک کے مقابل میں نکلتا تھا ،مگر شامی لشکر سے جو نکلا وہ بچ کر نہ گیا اس لئے عمرو بن حجاج پکارا لوگو! جن لوگوں سے تم لڑرہے ہو یہ سب اپنی جان پر کھیلے ہوئے ہیں اس لئے آیندہ کوئی شخص تنہا ان کے مقابلہ میں نہ جائے،ان کی تعداد تو اتنی کم ہے کہ اگر تم لوگ ان کو صرف پتھروں سے مارو تو بھی ان کا کام تمام ہوجائے گا کوفہ والو طاعت اورجماعت کی پوری پابندی کرو، اس شخص (حسینؓ) کے قتل میں کسی شک وشبہ اور تذبذب کی راہ نہ دو جو دین سے بھاگا ہے اورجس نے امام کی مخالفت کی ہے ،عمربن سعد کو بھی عمرو بن حجاج کی یہ رائے پسند آئی؛چنانچہ اس نے فرداً فردا ًمبارزت سے روک دیا اورعام جنگ کا آغاز ہوگیا، عمر بن حجاج میمنہ کو لے کر حضرت حسینؓ پر حملہ آور ہوا تھوڑی دیر تک آپس میں کشمکش جاری رہی، اس معرکہ میں مشہور جان نثار مسلم بن عوسجہ اسدی شہید ہوئے،غبار چھٹا تو لاشہ نظر پڑا، حضرت حسینؓ قریب تشریف لے گئے کچھ کچھ جان باقی تھی فرمایا، مسلم تم پر خدا رحم کرے فمنھم من قضی نحبہ ومنھم من ینتظر وما بدلوا تبدیلا حضرت حسینؓ کے بعد حبیب مطہر نے آکر جنت کی بشارت دی اور کہا اگر مجھ کو یہ یقین نہ ہوتا کہ میں عنقریب تمہارے پاس پہنچوں گا، تو تم سے وصیت کرنے کی درخواست کرتا اور اسے پوری کرتا، مسلم میں بقدر رمق جان باقی تھی، حضرت حسینؓ کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ صرف ان کے بارہ میں وصیت کرتا ہوں کہ ان کے لئے جان دے دینا یہ وصیت کرکے محبوب آقا کے سامنے جان دیدی کہ (ابن اثیر:۴/۵۸) بچہ ناز رفتہ باشد زجہان نیاز مندے کہ بوقت جان سپردن بسرش رسید باشی مسلم کی موت پر شامی فوج میں بڑی خوشی ہوئی۔