انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** بحرین بحرین، فارس اور جزیرۂ عرب کی سرحد پرواقع ہے، جوفارس کے ماتحت تھا؛ یہاں کے باشندے نہ خالص عربی تھے اور نہ عجمی؛ بلکہ یہ مقام مختلف اور متضاد مذہب اور تہذیب وتمدن رکھنے والی قوموں کا سنگم تھا، عرب وعجم، یہود ونصاریٰ اور مجوس وآتش پرست سبھی یہاں موجود تھے، عربوں کوجن مقامات پردوسری قوموں سے ملنے اور قریب سے ان کی تہذیب وثقافت سے واقف ہونے کا موقع ملا، ان میں ایک بحرین بھی ہے، فتوح البلدان میں ہے کہ: فأما أهل الارض من المجوس واليهود والنصارى۔ (فتوح البلدان:۱/۹۵، شاملہ، موقع یعسوب) ترجمہ:اہلِ بحرین کی آبادی مجوس، یہود اور نصاریٰ پرمشتمل تھی۔ عرب کے مشہور قبائل عبدالقیس، بکر بن وائل، تمیم وغیرہ یہیں آباد تھے۔ افسوس ہے کہ بحرین کی قدیم تاریخ پردۂ خفا میں ہے، ظہورِ اسلام کے وقت منذر بن ساوی وہاں کا حکمران تھا، غالباً یہ عرب تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سنہ۶ھجری میں جب قریب کے ملوک وسلاطین کودعوتی خطوط لکھے توایک خط منذروالیٔ بحرین کوبھی لکھا اور حضرت علاء ابن عبداللہ کے ہاتھ روانہ فرمایا، منذر پراس خط کا بہت اچھا اثر پڑا اور وہ حلقہ بگوشِ اسلام ہوگیا، اس کے ساتھ اہلِ بحرین کی ایک بڑی تعداد بھی دائرۂ اسلام میں داخل ہوگئی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منذر کواس عہدہ پرجوں کا توں باقی رکھا۔ (فتوح البلدان:۸۶) سنہ۸ھجری میں منذر نے تحریری طور پرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یہاں کے یہود کے ساتھ کیا برتاؤ کیا جائے، آپ نے جواب میں لکھا کہ جولوگ تبلیغِ اسلام کے بعد بھی اسلام قبول نہ کریں ان سے فی کس ایک دینار سالانہ جزیہ لیا جائے۔ (فتوح البلدان:۹۱۔ سیاسی زندگی ڈاکٹر حمیداللہ:۳۵۰) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دَورِ سعادت کے بعد یہاں کے باشندے عام طور پرمرتد ہونے لگے توحضرت بشربن جارود رضی اللہ عنہ جن کا تذکرہ اس کتاب میں موجود ہے انھوں نے اہلِ بحرین کوارتداد سے باز رکھنے کی پوری کوشش کی۔ (فتوح البلدان:۹۱)