انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** عبداللہ بن وہب امام مالک رحمہ اللہ کے جوتلامذہ ان کے علم وفضل کے وارث ہوئے اور جن کے ذریعہ مشرق ومغرب میں ان کے فقہی مسلک کی ترویج ہوئی اُن میں سب سے زیادہ ممتاز اسد بن فرأت، ابنِ قاسم، اشہب، عبداللہ بن عبدالحکم، یحییٰ بن یحییً اور عبداللہ بن وہب تھے، ان میں سے ہرایک کی کچھ امتیازی خصوصیتیں اور خدمات ہیں، عبداللہ بن وہب چند باتوں میں ممتاز تھے، ان میں حفظِ حدیث، وسعتِ علم اور کثرت تصانیف خاص طور سے قابل ذکر ہیں، دیگرتصانیف کے علاوہ اُن کومؤطا امام مالک کی تدوین کی سعادت بھی حاصل ہے، گوشہرت ان کے مرتب کردہ نسخہ کے بجائے یحییٰ کے نسخہ کوہوئی؛ مگرخود یحییٰ نے امام مالک کی وفات کے بعد ان کے تلامذہ میں سب سے پہلے ابنِ وہب ہی سے سماع مؤطا کیا تھا، اس طرح ابن یحییٰ کی تدوین میں بھی بواسطہ ان کا ہاتھ تھا۔ نام ونسب عبداللہ نام، ابومحمدکنیت تھی، قریش کے ایک خاندان بنوفہر کے غلام تھے، ابائی وطن مصر تھا اور یہیں یہ سنہ۱۲۵ھ میں پیدا ہوئے۔ (ابن خلکان:۱/۴۴۵) تعلیم ایک مدت تک ان کوحصولِ علم کا موقع نہ مل سکا یاطبیعت کا میلان نہیں ہوا؛ مگرجب ان کی عمر ۱۷/سال کی ہوئی توحصولِ علم کا شوق ہوا، مصر میں اس وقت لیث بن سعد کے درس فقہ وحدیث کی ہرطرف شہرت تھی، ابن وہب نے بھی اُن سے کسب فیض کیا، مصر میں اس وقت فقہ وحدیث کی متعدد ممتاز مجلسیں موجود تھیں؛ مگراس کے باوجود ابنِ وہب کے ذوق طلب کوتسکین نہیں ہوئی اور انہوں نے مکہ، مدینہ، بغداد وغیرہ کا سفر کیا اور وہاں کے ائمہ علم وفضل سے استفادہ کیا، بغداد کے زمانۂ قیام یعنی سنہ ۱۴۶ھ میں یہ ممتاز تابعی ہشام بن عروہ کی خدمت میں حاضر ہوئے؛ مگران سے کسب فیض کا موقع نہ مل سکا اور اسی سال ان کا انتقال ہوگیا، ارباب تذکرہ لکھتے ہیں کہ انہوں نے تقریباً چارسوارباب فضل وکمال سے اکتساب علم کیا تھا۔ (الانتفاء:۴۸۔ بستان المحدثین:۲) ان کے طلب علم کا سب سے طویل زمانہ امام مالک کی خدمت میں گذرا، قریب قریب بیس سال تک وہ امام کی خدمت میں رہے، ان کی ذہانت وذکاوت اور غیرمعمولی قوتِ حافظہ کی بنا پر امام مالک ان کی بڑی قدر کرتے تھے، ایک بار کسی نے امام مالک سے تخلیلِ اصابع (انگلیوں میں خلال) کے بارے میں اُسوۂ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم دریافت کیا؛ انہوں نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا، ابنِ وہب مجلس میں موجود تھے، بولے کہ ہاں ہمارے پاس ایک ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہے اور پھرلیث بن سعد کے واسطہ سے یہ روایت سنادی کہ جب وضو کروتوپیر کی انگلیوں کا خلال کرلیا کرو، اس کے بعد امام مالک سے جب کوئی شخص یہ مسئلہ پوچھتا تواس کوانگلیوں کے خلال کا حکم دیتے؛ اسی کے ساتھ یہ بھی کہہ دیتے کہ میں نے اب تک یہ روایت نہیں سنی تھی، یعنی اس کا علم مجھے ابنِ وہب کے ذریعہ ہوا ہے، ابنِ وہب جب مصر چلے جاتے اور امام مالک اُن کوخط لکھتے توخط کی ابتدا ان الفاظ سے ہوتی: عبداللہ ابن وھب الی فقیہ مصر الی مفتی مصر۔ ترجمہ: عبداللہ بن وہب کی طرف جومصر کے فقیہ ومفتی ہیں۔ یہ جملے نقل کرنے کے بعد ارباب تذکرہ لکھتے ہیں کہ اتنی قدر افزائی امام مالک نے کسی کی نہیں کی (تذکرۃ الحفاظ۔ تہذیب التہذیب:۶/۷۴) حالانکہ مصر میں اس وقت لیث بن سعد، ابن لہیعہ جیسے ائمہ روزگار کے علاوہ خود امام مالک کے بیشمار صاحب علم وفضل تلامذہ موجود ہے۔ مدینہ منورہ جہاں امام مالک کا چشمۂ علم تقریباً نصف صدی جاری رہا، ان کی وفات کے بعد وہاں کے ارباب علم میں جب کسی مسئلہ یاحدیث نبوی کے بارے میں اختلاف ہوتا تھا تووہ لوگ ابن وہب کی رائے کے منتظر رہتے تھے کہ اس کا آخری فیصلہ وہی کریں گے، جب وہ حج کوتشریف لاتے تویہ لوگ ان کی رائے دریافت کرتے اور اسی پرفیصلہ ہوجاتا تھا؛ ابن وہب نے جن ممتاز شیوخ سے استفادہ کیا تھا اُن کی فہرست بہت لمبی ہے، چند مشاہیر کے نام یہ ہیں: عمربن حارث، قاضی حیاۃ بن شریح، ابن لہیعہ، یونس بن یزید، معاویہ بن صالح، سفیان ثوری، سفیان بن عیینہ وغیرہ۔ علم وفضل ان اساتذہ کی صحبت اور اپنی فطری صلاحیت کی بناپرزمرۂ تبع تابعین میں ممتاز حیثیت کے مالک ہوگئے، جس کا اعتراف تمام معاصرین نے کیا ہے، امام احمد رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ ابنِ وہب کوقدرت نے عقل، دین اور اصلاح سب کچھ دیا تھا، وہ حدیث کی صحت کا بڑا لحاظ کرتے تھے، کسی نے کہا مگرحدیث کے اخذ کرنے میں غلطی کرتے ہیں، فرمایاکہ ہاں یہ بات ضرور ہے؛ مگرمیں نے ان کی روایتوں کے کل ذخیرہ کوجوانہوں نے اپنے اساتذہ سے روایت کیا ہے پرکھامجھے سب صحیح نظر آیا۔ (تہذیب:۶/۷۲) ابن معین فرماتے تھے کہ یہ ثقہ ہیں، ابوحاتم کا قول ہے کہ یہ صادق اور ان کی مرویات عمدہ ہیں میں ان کوولید بن مسلم سے زیادہ پسند کرتا ہوں، امام وقت ابنِ عیینہ جب ان کا ذکر کرتے توشیخ اہلِ مصر کہتے، ابوزرعہ رازی کا بیان ہے کہ میں نے ابن وہب کی تیس ہزار حدیثوں کوبنظرِ غائر دیکھا؛ مگرمجھے اس میں ایک حدیث بھی ایسی نہیں ملی جس کا کوئی بنیاد نہ ہو، یہ واقعی ثقہ تھے، ابن حبان کہتے ہیں کہ حجاز اور مصر کے اہلِ علم میں احادیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا جوذخیرہ پھیلا ہوا تھا، اس کوانہوں نے یاد کیا؛ پھراس کوجمع کرکے مدون ومرتب کیا؛ حتی کہ ان کے مسانید ومقاطیع (مقطوع جس کی سند تابعی پرہو) سب کوجمع کرڈالا، میں نے ان کے ذخیرۂ روایات میں کوئی منکر روایت نہیں دیکھی۔ (یہ تمام اقوال تہذیب:۶/۷۲ سے لئے گئے ہیں) حارث بن مسکین ان کودیوان العلم ذخیرہ علم کہا کرتے تھے، امام مالک کے مشہور شاگرد ابن قاسم کہتے تھے کہ اگرابن عیینہ کا انتقال ہوگیا تواہلِ علم کی سواریاں مکہ کے بجائے مصرابن وہب کے پاس جایا کریں گی، حدیث کی جمع وتدوین کا جوکام ابن وہب نے کیا کسی نے نہیں کیا، ان کے سامنے بڑے بڑے ارباب علم کی گردنیں جھک جاتی تھیں، ابن سعد نے ان کوکثیر العلم اور ثقہ لکھا ہے، محمد بن عبداللہ کہتے تھے کہ ابن وہب ابن قاسم سے زیادہ فقیہ تھے؛ مگرغایت احتیاط سے فتوے نہیں دیتے تھے (تہذیب:۶/۷۲) ابن قاسم کا ان کوافقہ قرار دینا بڑی اہمیت رکھتا ہے، ابن قاسم کا تفقہ ضرب المثل ہے؛ اسی طرح کی رائے یحییٰ بن بکیر نے بھی دی ہے۔ (ذہبی) ان کوکثرت سے احادیثِ نبوی یاد تھیں، امام ذہبی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ ایک لاکھ روایتیں ان کے نوکِ زبان تھیں، ان کی تصانیف کے ذریعہ تقریباً سوالاکھ روایتیں مدون ہوگئیں۔ جامعیت یہ محض راوی حدیث ہی نہیں تھے؛ بلکہ حدیث نبوی سے مسائل کے اجتہاد اور استنباط کی صلاحیت بھی موجود تھی، امام ذہبی رحمہ اللہ نے ان کوحافظِ حدیث کے ساتھ مجتہد بھی لکھا ہے (تذکرہ:۲۷۸) حدیث کے علاوہ ان کوحدیث اور مغازی میں بھی درک تھا؛ کسی نے امام مالک رحمہ اللہ سے ابنِ قاسم اور ابنِ وہب کے علوم وفضل کے بارے میں پوچھا توفرمایا ابن قاسم فقیہ اور یہ عالم ہیں، مقصد یہ تھا کہ ابنِ قاسم کوعلوم دینیہ کے ایک شعبہ فقہ میں درک ہے اور ابن وہب کے علم میں وسعت وہمہ گیری تھی۔ (بستان المحدثین ذکرابن وہب) شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ نے بستان المحدثین میں ابنِ وہب کا تذکرہ تدوین موطاء کے سلسلہ میں کیا ہے، اس میں وہ لکھتے ہیں: عبداللہ ابنِ وہب اپنے زمانے میں حجت تھے، تمام لوگ ان کی مرویات پرکمالِ وثوق اور اعتماد رکھتے تھے، وہ کسی کی تقلید نہیں کرتے تھے؛ بلکہ خود مجتہد تھے؛ البتہ طریقہ اجتہاد وتفقہ میں وہ امام مالک اور لیث بن سعد کی اتباع کرتے تھے۔ (بستان المحدثین:۱۶) جرح وتنقید اس فضل وکمال کے باوجود بعض اہلِ علم افن کی مرویات اور طریقہ اخذ روایات پرتنقید کرتے ہیں، اوپر امام احمد کا ارشاد گزرچکا ہے کہ وہ اخذ روایت میں غلطی کرتے تھے، نسائی کہتے تھے کہ وہ قبولِ روایت میں کچھ تساہل ضرور برتتے تھے؛ مگران کی مرویات کوقبول کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، ساجی کا بیان ہے کہ یہ سماعی حدیثوں کے بارے میں کچھ متساہل واقع تھے اور یہ تساہل اس وجہ سے تھا کہ اہلِ مصر اجازتِ حدیث کوتحدیث کے لیے کافی سمجھتے تھے (محدثین کی اصطلاح میں ان روایتوں جن کوشیخ سے سنا نہ ہو بلکہ شیخ کی اجازت سے روایت کررہا ہو، اس کوحدثنا یاحدثنی کے لفظ سے روایت نہ کرنا چاہیے) (چنانچہ ان روایتوں کوجواجازۃ ان کوپہنچی ہیں) ان کوحدثنی فلاں وغیرہ الفاظ سے بیان کرتے تھے (تہذیب:۶/۷۴) (حالانکہ یہ الفاظ سماع کے لیے مخصوص ہیں) اس سے معلوم ہوا کہ اخذ روایت میں ان پرجوتساہل کا الزام لگایا گیا ہے اس کا مدار اہلِ مصر اور اہلِ حجاز کے طریقہ اخذ روایت کے اختلاف پرہے؛ ورنہ تحدیثِ روایت میں حددرجہ محتاط تھے، ایک بار کسی نے ان سے کہا کہ فلاں شخص آپ کے واسطہ سے یہ روایت کرتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فتنوں کوبرا نہ سمجھو، اس سے منافقین کی جڑ کٹ جاتی ہے، یہ سن کران کوغصہ آگیا اور فرمایا کہ اے اللہ! اگریہ جھوٹا ہے تواس کواندھا کردے؛ چنانچہ ان کی دُعا مقبول ہوگئی اور وہ اندھا ہوگیا۔ (تہذیب:۶/۷۴) حلقہ درس امام مالک رحمہ اللہ کی وفات کے بعد مؤطا کے سماع کے لیے سب سے پہلے تشنگانِ علم نبوی انہی کی طرف متوجہ ہوئے، خود یحییٰ نے جومؤطا کے متداول نسخہ کے مرتب ہیں، اس کا ایک حصہ جوامام مالک سے وہ سماع نہیں کرسکے تھےان سے پورا کیا۔ (انتقاد ذکریحییٰ:۵۹) امام مالک رحمہ اللہ کے مشہور شاگرد سحنون کا بیان ہے کہ ابنِ وہب نے پورے سال کوتین کاموں کے لیے تقسیم کردیا تھا جس میں چار ماہ درس وتدریس کے لیے مخصوص تھے (تذکرۃ الحفاظ:۲۷۹) ان کویہ فخر بھی حاصل تھا کہ خود ان کے اساتذہ میں لیث اور امام مالک رحمہم اللہ نے ان سے روایتیں کی ہیں، مثلاً انگلیوں کے خلال کے سلسلہ میں امام مالک کی ایک روایت کا ذکر اوپر آچکا ہے، تذکروں میں ہے کہ امام مالک نے ایک دوسری حدیث بھی ان سے روایت کی ہے وہ ہے بیع عربان کے سلسلہ میں یعنی آپ نے بیع عربان سے منع کیا ہے (بیع عربان ایسی خریدوفروخت کوکہتے ہیں جس میں خریدار کچھ رقم پیشگی بالغ کواس لیے دیتا ہے کہ اگرخرید وفروخت ہوگی تووہ رقم محسوب ہوجائے گی، جسے ایڈوانس اور بیعانہ کہتے ہیں)۔ ایک دن آپ درس دے رہے تھے کہ ایک سائل آیا اور اس نے کہا کہ اے ابومحمد! (آپ کی کنیت ہے) کل آپ نے جودرہم مجھ کوعطا کئے تھے وہ سب کے سب کھوٹے تھے، ابن وہب نے کہا کہ بھائی ہمارے پاس عموماً ہدیے اور عاریت کی رقمیں آتی ہیں جیسی رقمیں آتی ہیں ویسی ہی ہم تم کودیدیتے ہیں، رسائل کواس جواب سے تسکین نہیں ہوئی، وہ غصہ میں آکر برا بھلا کہنے لگا؛ یہاں تک کہہ ڈالا کہ خدا کی رحمت ہوجناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرجنہوں نے یہ فرمایا کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب صدقات وخیرات کے ذریع امت کے منافقوں کے ہاتھ میں چلے جائیں گے، ابن وہب تواس تلخ کلامی پرخامش رہے؛ مگرایک نوجوان عراقی شاگرد کوبہت برا معلوم ہوا اور اس نے درس سے اُٹھ کراس فقیر کوایسا طمانچہ رسید کیا کہ وہ زمین پرگرگیا، اس نے شورمچانا شروع کیا اور پھرآپ کومخاطب کرکے کہنے لگا، اے ابومحمد! آپ کی مجلس میں لوگ ایسی حرکتیں کرتے ہیں، ابنِ وہب کوبھی یہ حرکت بری معلوم ہوئی، وہ مجلس سے اُٹھ کرواقعہ کی تفتیش کرنے لگے، معلوم ہوا یہ حرکت فلاں عراقی نوجوان نے کی ہے، آپ نے اس سے باز پرس کی، وہ نوجوان بولا: اُستاذ محترم میں نے آپ ہی کی زبان سے یہ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سنا ہے کہ: من حمى لحم مؤمن من منافق يغتابه حمى الله لحمه من النار يوم القيامة۔ (الجامع في الحديث،حدیث نمبر:۳۱۴، صفحہ نمبر:۱/۴۳۰، شاملہ،الناشر: دارابن الجوزي) ترجمہ:جوشخص کسی مؤمن کے عزت کی حفاظت اس منافق سے کرے جواس کی برائی کررہا ہے تواللہ تعالیٰ دوزخ سے اس کی حفاظت کرے گا۔ جب خدا نے عام مسلمانوں کی حمایت میں اتنے ثواب واجر کا وعدہ کیا ہے توآپ توامام وپیشوا ہیں، آپ کی حمایت سے تونہ جانے کتنا ثواب دربارِ الہٰی سے ملے گا، ابنِ وہب نے فرمایا کہ اگرتمہاری یہ نیت تھی توخدا تعالیٰ تم کواس کا بدلہ دے گا؛ پھرفرمایا اچھا اس سلسلہ کی دوسری حدیث بھی سن لو، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ کچھ ایسے مساکین ہوں گے جومالدار ہوں گے جونہ نماز کے لیے وضو کرتے ہوں گے اور نہ ناپاکی دور کرنے کے لیے غسل، جومسجدوں اور عیدگاہوں میں جاکر اپنا فضل اور اپنی بزرگی جتلاکر لوگوں سے سوال کریں گے اور یہ خیال بھی ان کوہوگا کہ یہ توہمارا حس ہے جوہم لوگوں سے وصول کرتے ہیں اور انپے اوپر خدا کا کوئی حق نہ سمجھتے ہوں گے۔ (بستان المحدثین، ذکرابن وہب) تلامذہ جن لوگوں نے ان کے درس سے فائدہ اُٹھایا ان میں چند مشاہیر کے نام یہ ہیں: عبدالرحمن ابن مہدی، یحییٰ بن یحییٰ، عبداللہ بن یوسف، علی بن (المدینی)، یحییٰ بن بکیر، احمد بن صالح، اصبخ بن الفرج، یہ ابن وہب کے سب سے معتمد اور کثیرالروایت شاگرد ہیں، سحنون، احمد بن سعید الدارمی وغیرہ۔ عہدۂ قضا سے انکار حکومت کی عام بے راہ روی اور اس کی غیراسلامی روش کی بناپر عام ائمہ تبع تابعین نے فقروفاقہ کی زندگی بسر کی مگراس سے کسی طرح کا تعلق رکھنا پسند نہیں کیا، اس لیے جوارباب فضل وکمال اس سے تعلق رکھتے تھے وہ عوام وخواص میں عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھے جاتے تھے، ابن وہب بھی انہی بزرگوں میں سے تھے جودربارِ خلافت سے اپنا دامن بچائے رہے؛ گواس سلسلہ میں ان کوکچھ مصائب بھی برداشت کرنے پڑے، امام ذہبی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ عباد بن محمد والی مصر نے ان کوبلایا اور ان کے سامنے عہدۂ قضا پیش کیا؛ انہوں نے اس سے کسی طرح پیچھا چھڑایا اور چھپ گئے عباد کوان کے غائب ہوجانے کی اطلاع ملی تواس نے غصہ میں ان کا گھر گروادیا؛ مگراس کے باوجود انہوں نے اس عہدے کوقبول کرنا پسند نہیں کیا۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۷۹) اس سلسلہ میں دوسری روایت ابن خلکان نے یونس بن عبدالاعلیٰ سے نقل کی ہے وہ یہ ہے کہ خلیفہ وقت نے خود ان کولکھا کہ آپ مصر میں عہدۂ قضاقبول کرلیں؛ مگرآپ نے اسے پسند نہیں کیا اور روپوش ہوکر خانہ نشین ہوگئے، ایک دن وہ گھر کے صحن میں وضو کررہے تھے کہ اسد بن سعد آگئے؛ انہوں نے کہا کہ کیا یہ بہتربات نہیں تھی کہ آپ گھر سے باہر نکل کرکتاب وسنت کے مطابق لوگوں کے فیصلےکرتے (یہ اشارہ تھا عہدۂ قضا کے قبول کرلینے کی طرف) یہ سنج کرابنِ وہب نے سراُٹھایا اور بولے بس تمہاری عقل اسی قدر ہے، کیا تمھیں معلوم نہیں کہ علما کا حشرابنیا کے ساتھ ہوگا اور قضاۃ کا سلاطین کے ساتھ (ابن خلکان:۱/۴۴۶) انہوں نے اس جملے میں اس وقت کے سلاطین کی غیراسلامی روش اور اس کے انجام کی طرف کیسے بلیغ انداز میں اشارہ کیا ہے، پہلی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ عباد والیٔ مصر نے ان کوعہدۂ قضا پیش کیا اور دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ خود خلیفہ نے براہِ راست ان کولکھا؛ مگران دونوں میں تضاد نہیں ہے؛ بلکہ واقعہ یہ ہوگا کہ خلیفہ نے والیٔ مصر عباد کولکھا ہوگا اور اُس نے ابن وہب کوبلاکریہ حکم سنایا ہوگا اور عدم تعمیل میں اس نے یہ روش اختیار کی ہوگی؛ جیسا کہ عموماً نیچے کے افسران کرتے رہتے ہیں؛ مگریہ توجیہ اس وقت صحیح ہوسکتی ہے جب یہ واقعہ سنہ۱۶۴ھ کے بعد کا مانا جائے، اس لیے کہ قضاۃ کا تقرر سنہ۱۶۴ھ سے پہلے صوبوں کے والیوں کے ہاتھ میں تھا سنہ۱۶۴ھ سے خود خلفا نے اپنے ہاتھ میں اسے لے لیا تھا۔ (ابن خلکان:۱/۴۴۶) زہدوعبادت زہد وعبادت میں ممتاز تھے، خاص طور سے زیارتِ حرمین کا جذبہ اُن میں عشق کی حد تک پہنچا ہوا تھا، سال کے چار مہینے وہ دیارِ حبیب کی آمدورفت میں گزاردیتے تھے؛ انہوں نے قریب قریب ۳۶/حج کئے تھے (تذکرہ:۱/۲۷۹) دوسری عبادات کا حال بھی یہی تھا، ساجی کا قول ہے کہ: وکان من العباد، ترجمہ: یہ عبادت گزاروں میں تھے۔ (تہذیب:۲/۷۴) خوفِ خدا اور قیامت کی باز پرس کا خیال خدا کا خوف اور قیامت کی باز پرس کا خیال ایک مؤمن کی نمایاں صفت ہونی چاہیے، یہ چیز اس کی زندگی میں جتنی شدت کے ساتھ موجود ہوگی، اس کی زندگی اتنی ہی پاکیزہ اور صالح ہوگی، ابنِ وہب پرخوفِ خدا کی کیفیت ہمہ وقت طاری رہتی تھی، ذراقیامت کی ہولناکی کا ذکر آیا اور ان کی آنکھیں بہ پڑیں بسااوقات بیہوش ہوجاتے تھے، ایک بار کسی نے ان کے سامنے یہ آیت تلاوت کی: وَإِذْيَتَحَاجُّونَ فِي النَّارِ فَيَقُولُ الضُّعَفَاء لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا إِنَّاكُنَّا لَكُمْ تَبَعًا فَهَلْ أَنتُم مُّغْنُونَ عَنَّا نَصِيبًا مِّنَ النَّارِo قَالَ الَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا إِنَّاكُلٌّ فِيهَا إِنَّ اللَّهَ قَدْ حَكَمَ بَيْنَ الْعِبَادِ۔ (المؤمنون(غافر):۴۷،۴۸) ترجمہ:اور اُس وقت (کادھیان رکھو) جب یہ لوگ دوزخ میں ایک دوسرے سے جھگڑرہے ہوں گے؛ چنانچہ جو (دُنیا میں) کمزور تھے، وہ اُن لوگوں سے کہیں گے جوبڑے بنے ہوئے تھے کہ ہم توتمہارے پیچھے چلنے والے لوگ تھے، توکیا تم آگ کا کچھ حصہ ہمارے بدلے خود لے لوگے؟o وہ جوبڑے بنے ہوئے تھے، کہیں گے کہ ہم سب ہی اس دوزخ میں ہیں، اللہ تمام بندوں کے درمیان فیصلہ کرچکا ہے۔ (توضیح القرآن، آسان ترجمہ قرآن:۳/۱۴۴۳، مفتی تقی عثمانی، مدظلہ) آپ نے سنا توغشی کی کیفیت طاری ہوگئی اور بہت دیر تک یہ حالت رہی، خوف یہی شدت ان کی موت کا سبب بن گئی۔ وفات انہوں نے ایک کتاب احوالِ قیامت (قیامت کی ہولناکیاں) کے نام سے مرتب کی تھی، ایک دن کسی نے ان کے سامنے یہ کتاب پڑھنی شروع کی، ان پراس دن اتنا اثر ہوا کہ وہ بیہوش ہوکرگرپڑے اُٹھا کرگھرلائے گئے اور اسی حالت میں جان بحق ہوگئے، یہ حادثہ شعبان سنہ۱۹۷ھ میں پیش آیا، سفیان بن عیینہ کوجب اس حادثہ کی اطلاع ملی تو إِنَّالِلّٰہِ پڑھا اور بڑے دردورنج میں ڈوبے ہوئے لہجہ میں فرمایا یہ عامۃ المسلمین اور خواص اہلِ علم دونوں کا حادثہ ہے۔ (تہذیب:۶/۷۴) سیرت وکردار ان کی سیرت کے خط وخال دیکھے جاسکتے ہیں، ان کا دستور تھا کہ جب وہ کسی کی غیبت کرتے تواس کی پاداش میں ایک روزہ رکھتے تھے، ایک دن لوگوں سے کہا کہ مجھے روزہ رکھتے رکھتے ایسی عادت پڑگئی ہے کہ اب نفس کے اوپر روزوں کا رکھنا شاق نہیں گزرتا؛ اس لیے اب میں نے یہ طے کیا ہے کہ اب اگرکسی کی غیبت کرونگا توایک درہم خیرات کرونگا؛ چنانچہ ایک درہم کا صدقہ کرنا مجھ پر(تنگی کی وجہ سے) اتنا شاق گذرا کہ غیبت کرنے کی عادت ہی چھوٹ گئی۔ (بستان المحدثین) شوقِ جہاد میدانِ جہاد کی پرشور زندگی، علم وفن کی پرسکون زندگی کے ساتھ بہت کم جمع ہوتی ہے؛ مگرتبع تابعین میں عبداللہ بن مبارک اور ابن وہب ان دونوں اوصاف کے جامع تھے، ابن وہب نے پورے سال کوتین کاموں کے لیے تقسیم کردیا تھا، چار ماہ درس وتدریس کے لیئے، چارماہ سفرِ حج کے لیے، چار ماہ باطل کوسرنگوں اور حق کوغالب کرنے کی جدوجہد کے لیے۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۷۹) تصنیف ابنِ قاسم ان کے بارے میں کہتے تھے، ان کے جیسا تدوین وتالیف کا کام کسی نے نہیں کیا (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۷۸) ابن خلکان نے لکھا ہے کہ: وله مصنفات في الفقه معروفة۔ ترجمہ: علم فقہ میں ان کی تصانیف معروف ومشہور ہیں۔ ان بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے اپنی کافی تحریریں یادگاریں چھوڑی تھیں؛ مگرارباب تذکرہ صرف ان کی دوتین کتابوں کا تذکرہ کرتے ہیں۔ مؤطا اس میں انہوں نے ان مرویات کوجمع کیا تھا جوانہوں نے امام مالک رحمہ اللہ سے سنی تھیں، مؤطا کے جامعین ہزاروں ہیں؛ مگران میں محض پندرہ سولہ نسخے موجود ہیں، ان میں سب سے زیادہ اہمیت تین مؤطاؤں کو ہے، موطا امام محمد، موطا یحییٰ بن یحییٰ (آج کل یہی متداول ہے) اور موطا ابن وہب؛ غالباً انہوں نے اس کا اختصار بھی کیا تھا، جس کا نام مؤطا صغیر رکھا تھا ان کی تیسری کتاب احوال قیامت ہے اس میں انہوں نے قیامت کی باز پرس اور دوزخ کی ہولناکی کا ذکر کیا ہے۔ (عام تذکرے اور ابن خلکان :۱/۴۴۶۔ ۱/۴۴۶)