انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** شاعری عرب جاہلیت میں ایسا کوئی شخص نہ تھا جس کو شاعری کا سلیقہ نہ ہو،مرد،عورت،بچے،بوڑھے،جوان،سب کے سب تھوڑے بہت شاعر ضرور ہوتے تھے گویا وہ ماں کے پیٹ سے شاعری اورفصاحت لے کر پیدا ہوتے تھے،ان کی شاعری عموماً فی البدیہہ ہوتی تھی، سوچنے غور کرنے،مضمون تلاش کرنے کی ان کو ضرورت نہ تھی،ان کو اپنی فصاحت اور قادر الکلامی پر اس قدر غرور تھا کہ وہ ساری دنیا کو اپنے آگے گو نگا جانتے تھے،مگر قرآن کریم نے نازل ہوکر اہل عرب کے غرورِ فصاحت وبلاغت کی ایسی کمر توڑی اوران تمام فصیح وقادر الکلام اہل عرب کو قرآن کریم کے مقابلہ پر ایسا نیچا دیکھنا پڑا کہ رفتہ رفتہ اہلِ عرب کا غرورِ فصاحت جاتا رہا اورسب کو کلام الہیٰ کے آگے سرِ تسلیم خم کرنا پڑا۔ سالانہ میلوں،تقریبوں اورحج کے موقعوں پر جس شخص کا قصیدہ مجلس مشاعرہ میں سب سے زیادہ بہتر قراردیا جاتا تھا وہ فوراً سب سے زیادہ عزت وعظمت کا وارث بن جاتا تھا،شاعروں کی عزت ان کے نزدیک بہادر سپہ سالاروں اوربادشاہوں کے مساوی ؛بلکہ ان سے زیادہ ہوتی تھی اورحقیقت یہ ہے کہ قبیلوں کو لڑادینا، قبیلوں کو غیر معمولی بہادر بنادینا، لڑائی کو جاری رکھنا یا اس کو ختم کردینا اس کے بائیں ہاتھ کا کام تھا، بہترین قصائد خانۂ کعبہ پر لکھ کر لٹکادیئے جاتے؛چنانچہ ایسے سات قصیدے جو سبع معلقات کے نام سے مشہور ہیں، امراء القیس بن حجر کندی،زبیر بن ابی سلمیٰ مزنی، لبید بن ربیعہ،عمربن کلثوم،عنترہ عبسی وغیرہ کے مصنفہ تھے۔