انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** نظام القرآن یہ تفسیر علامہ حمید الدین فراہی کی ہے، جو ضلع اعظم گڑھ، یو،پی، کے ایک گاؤں میں۱۲۸۰ھ میں پیدا ہوئے اور ۱۹.جمادی الاخری ۱۳۴۹ھ مطابق ۱۱.نومبر ۱۹۳۰ء کو انہتر سال کی عمر پاکر رحلت فرماگئے، موصوف علامہ شبلی نعمانی کے ماموں زاد بھائی تھے، آپ کو زمانہ طالب علمی ہی سے قرآن کریم سے بڑا شغف تھا؛ چنانچہ جب آپ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں بہ حیثیت طالب علم مقیم تھے اس وقت سے ہی قرآن کریم کے معانی ومطالب میں غور وفکر کرنا شروع کردیا تھا اور یہ سلسلہ زندگی کے لمحہ آخر تک رہا۔ مولانا کی یہ ناتمام تفسیر جو کچھ سورتوں پر مشتمل ہے چند خصوصیات کی حامل ہے، اس کی خصوصیت کا خود مولانا نے اپنے مقدمہ میں ذکر فرمایا ہے؛ چنانچہ رقم طراز ہیں: "اللہ تعالیٰ کی توفیق وعنایت سے میں نے اپنی تفسیر نظام القرآن میں اس بات کی کوشش کی ہے کہ آیات قرآن کے باہمی تعلق کو واضح کروں اور قرآن مجید کی ایک ایسی سادہ وصاف تفسیر لکھوں جو ان تمام اختلافات سے بالکل پاک ہو، جو ہمارے اندر عہدِ نبوت کے بعد پیدا ہوئے ہیں، میں نے ہرآیت کا مفہوم اس کی مشابہ دوسری آیت کی روشنی میں متعین کیا ہے اور ہرسورت کے نظام کو اس کی تہہ میں اُتر کر اس کے سیاق کو سمجھ کر معلوم کرنے کی کوشش کی ہے؛ پھراس جدوجہد سے جو کچھ سمجھ میں آیا ہے اس کو عقل ونقل سے پوری طرح مدلل کیا ہے، میں پورے اطمینان قلب کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ نظم کی تلاش میں میں نے کسی شخص کی پیروی نہیں کی ہے؛ بلکہ صرف اللہ تعالیٰ کی بخشی ہوئی بصیرت نے میری رہنمائی کی ہے؛ تاہم یہ خیال کرنا صحیح نہ ہوگا کہ قرآن کے اندر نظم (یعنی آیتوں کے درمیان ارتباط) کی تلاش میں میں تنہا ہوں، مجھ سے پہلے بھی علماء کی ایک جماعت نے اس راہ میں کوششیں کی ہیں اور اس موضوع پر کتابیں لکھی ہیں جیسے الاتقان میں علامہ سیوطیؒ نے اور امام رازیؒ نے بھی اپنی تفسیر میں کہیں کہیں نظم قرآن کی نشاندہی کی ہے۔ دوسری چیز جو اس کے لیے محرک ہوئی وہ ملحدین کا اعتراض تھا، انھوں نے قرآن مجید پر بے نظمی کا الزام لگایا؛ ایسی حالت میں میرے لیے ممکن نہیں رہا کہ میں حق کو سرنگوں اور باطل کو سربلند دیکھتا رہوں اور چپ چاپ بیٹھا رہوں، علاوہ ازیں یہ امرمحتاج بیان نہیں ہے کہ جہاں تک قرآن مجید کی آیتوں کی ترتیب کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے اس بارے میں اُمت کے درمیان کو ئی اختلاف نہیں ہے؛ پھرنظم قرآن کی سب سے بڑی شہادت ان لوگوں کا ایمان ویقین ہے جن پر حسن ترتیب کے کچھ محاسن بے نقاب ہوگئے ہیں اور جنھوں نے ان حقائق کی تجلی دیکھ لی ہے، جو نظم قرآن کے اندر ودیعت ہیں، یہ لوگ جانتے ہیں کہ کتاب اللہ کے اسرار وعجائب کا کیسا عظیم الشان خزانہ ہے جس کی کلید صرف نظم ہے، یہ چیز ان کے ذوق کو شہ دیتی اور ان کی طمانیت وبصیرت میں اضافہ کرتی ہے اور وہ کوشش کرتے ہیں کہ اس مخفی خزانہ کو اُجاگر کریں"۔ مولانا کی اسی فکر کو ان کے مشہور شاگرد مولانا امین احسن اصلاحی نے اپنی تفسیر "تدبرقرآن" میں پیش کیا ہے،مولانا فراہی کی تفسیر نظام القرآن یا نظام الفرقان پر علماء نے بڑی تنقید کی ہے اس میں انہوں نے جو فکر پیش کی ہے وہ قابل انکار ہے ،تفصیل کی لیے دیکھیے رسالہ ملاحۃ البیان فی فصاحۃ القرآن جو امدادالفتاوی۴/۴۵۷ پر درج ہے اسی کے ساتھ مولانا عبدالماجد دریا بادی کی کتاب "حکیم الامت....نقوش وتأثرات،۴۸۷،۴۷۴،۵۲۲ پرملاحظہ فرمائیں۔