انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** تابعین کرامؒ کا مضمون کو قرآن کی طرف لوٹانا قرآن کی سربراہ حیثیت صرف عہد صحابہ رضی اللہ عنہم تک نہیں رہی اکابر تابعین بھی مسائل بیان کرتے وقت کبھی کبھی آیت کی تلاوت کردیتے تھے اور یہ بات ان کے حلقہ درس میں عام تھی کہ علم کے ماخذ میں قرآن شریف کو بلاشبہ سبقت حاصل ہے، احادیث قرآن کریم کی شرح ہیں قرآن کے خلاف بغاوت نہیں نہ اس میں کوئی سازش ہے،اس کی چند مثالیں دیکھیے: (۱)ابن جریج کہتے ہیں انہوں نے حضرت عطاءؒ (۱۱۳ھ) سےیہ مسئلہ پوچھا کہ: کیا کوئی شخص جس کے پاس ایک غلام کےسوا اورکوئی مال نہیں غلام کی تدبیر کرسکتا ہے (وصیت کردے کہ یہ میرے بعد آزاد ہے) آپ نے فرمایا نہیں اورپھر آنحضرتﷺ کی ایک حدیث ذکر کی جو آپ نے اپنے دور میں اس غلام کے بارے میں جو اپنے مالک کی وفات کے بعد آزاد ہونا تھا ارشاد فرمائی،حضورﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی اس غلام سے اس مالک کی نسبت غنی ہے(یعنی اس غلام کو اللہ کی راہ میں آزاد کرنے کی نسبت اسے اپنے وارثوں کا خیال کرنا چاہئے کہیں وہ تنگدستی میں نہ گھر جائیں،اللہ تعالی غنی ہے اس کی راہ میں کچھ نہ بھی دیا جائے تو اس کا کچھ نقصان نہیں) پھر حضرت عطاؒ نے اس پر یہ آیت پڑھ دی: والذین اذا انفقوا لم یسرفوا ولم یقترواوکان بین ذلک قواما (الفرقان:۶۷) ترجمہ:اور اللہ کے بندے وہ ہیں کہ جب خرچ کریں تو نہ بے جا اڑائیں اورنہ تنگی سے کام لیں اور ہے اس کے بیچ میں درمیانی راہ۔ (مصنف عبدالرزاق:۹/۱۴۰) علماء تابعین کا انداز عمل بتاتا ہے کہ حدیث ان کے ہاں قرآنی عمومات کے سائے ہی میں پڑھی اور سنی جاتی تھی۔ (۲)امام تفسیر حضرت مجاہدؒ نے فرمایا: "کل مؤمن شہید" مومن کسی نہ کسی درجے میں شہید ہے، اس پر قرآن کریم کی یہ آیت تلاوت فرمائی: " وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولَئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ وَالشُّهَدَاءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ"۔ (الحدید:۱۹) ترجمہ: اور وہ لوگ جو یقین لائے اللہ پر اوراس کے سب رسولوں پر وہی سچے ایمان والے اور شہید ہیں۔ (۳)حضرت ابن جریج نے حضرت عطاء سے پوچھا: اگرمردعورت کو طلاق دے اور رات گزارنے کی جگہ نہ دےتو عورت عدت کہاں گزارےگی،آپ نے فرمایا :اپنے خاوند کے گھر جہاں وہ رہتی تھی،ابن جریج نے پوچھا اگر خاوند اجازت دیدے کہ وہ اپنے گھر والوں کے ہاں رہ سکتی ہے؟ آپ نے فرمایا: نہیں! اس صورت میں اگر وہ کسی گناہ میں مبتلا ہوجائے تو اس گناہ میں وہ خاوند بھی شریک ہوگا، یعنی وہ اپنے گھر والوں کے ہاں نہ جائے، اس پر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی، "ولا یخرجن الا ان یا تیین بفا حشۃ مبینۃ" اور نہ نکلیں وہ عورتیں جنہیں طلاق ہوئی، اپنے گھر سے مگر جو کریں صریح بے حیائی۔ ابن جریج نے پوچھا کیا یہ آیت اس باب میں ہے، آپ نے فرمایا: ہاں! یہ روز مرہ کے مسائل ہیں۔ آپ نے دیکھا! تابعین حضرات اپنی اپنی ان ضروریات میں کس طرح قرآن کریم کی طرف رجوع کرتے تھے، حق یہ ہے کہ حدیث پر قرآن کے سائے بہت دور تک پھیلتے گئے ہیں اورصحابہؓ و تابعینؒ نے حدیث کو ہمیشہ قرآن کریم کے تحت سمجھا، حدیث قرآن کے خلاف کوئی متبادل ماخذ علم ہر گز نہ سمجھی گئی تھی۔ (۴)حضرت مجاہدؒ سے عیسائی باندی کے بارے میں مروی ہے کہ اس سے مسلمان نکاح نہ کرے،اس پر آپﷺ نے قرآن کریم کی یہ آیت تلاوت فرمائی اورکہا کیا نہیں سنا تم نے اللہ تعالی کا فرمان وہ کہتا ہے "من فتیا تکم المومنات" وہ جو تمہاری باندیاں ہیں مسلمان۔ پوری آیت یہ ہے: "وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ مِنْكُمْ طَوْلًا أَنْ يَنْكِحَ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ فَمِنْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ مِنْ فَتَيَاتِكُمُ الْمُؤْمِنَاتِ"۔ (النساء:۲۵) ترجمہ: اورجو تم میں سے مومن آزاد عورتوں سے نکاح کی طاقت نہ رکھے تمہاری ان باندیوں سے جو مسلمان ہوں نکاح کرلے۔ (مصنف عبدالرزاق،باب نکاح الحر الامۃ النصرانیہ) یہ کبار تابعینؓ حدیث کو قرآن کے مقابل ایک متوازی ماخذ علم سمجھتے تو کتب حدیث میں قرآن پاک سے اس طرح کے استدلال ہرگز نہ دیکھے جاتے، اس قسم کی روایات جلی طور پر بتارہی ہیں کہ حدیث کے لٹریچر میں قرآن کی سربراہی ہر پہلو سے مسلم رہی ہے۔