انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** عیسائی عالم کی شہادت پھرحضرت خدیجہؓ آپﷺ کو اپنے چچا زاد بھائی اور عیسائی عالم ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو توریت اور انجیل کے عالم تھے اور انجیل کی عربی میں کتابت کرتے تھے ، وہ دور ِ جاہلیت میں بُت پرستی سے بیزار ہو کر عیسائی بن گئے تھے ، ان کی عمر زیادہ ہو چکی تھی اور بینائی بھی جواب دے چکی تھی، انہوں نے حضور اکرمﷺسے سارا واقعہ سنا توکہا:یہ وہی ناموس ہے جو موسیٰ ؑ پر اترا تھا ، پھر کہا ! کاش کہ میں آپﷺ کے زمانہ نبوت میں ہوتا، کاش میں اس وقت تک زندہ رہتا جب آپﷺ کی قوم آپﷺ کو نکال دے گی ، حضور ﷺ نے پوچھا! کیا یہ لوگ مجھے نکال دیں گے؟ ورقہ نے جواب دیا ، ہاں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی شخص وہ چیز لے کر آیا ہو جو آپﷺ لائے ہیں اور اس سے دشمنی نہ کی گئی ہو، اگر میں نے آپﷺ کا زمانہ پایا تو بھر پور آپﷺ کی مدد کروں گا، حضرت خدیجہؓ نے ان سے پوچھا ! مجھے جبریل کے بارے میں کچھ بتائیے ، ورقہ نے کہا !کون قدوس قدوس یا(سبوح ، سبوح)حضرت خدیجہؓ نے کہا ہاں ! میرے شوہر محمد ﷺ کہتے ہیں کہ ان کے پاس جبریل آئے تھے وہ ان کی کیفیت بھی بتلاتے ہیں،یہ سن کر ورقہ نے کہا کہ اگر جبریل زمین پر اترے ہیں تو اللہ تعالیٰ بہت خیر و برکت نازل کرے گا ، اگر یہ سچ ہے تو ان کے پاس وہی فرشتہ آیا ہے جو حضرت عیسی ؑ کے پاس آیا تھا، ائے خدیجہؓ یہ وہی ناموس اکبر ہے جو ان سے پہلے حضرت موسیٰ ؑ پر بھی نازل ہوا تھا ، ناموس خیر کی خبر لانے والے کو کہتے ہیں اور شر کی خبر لانے والے کو جاسوس کہتے ہیں، آسمان سے وحی لانے والا فرشتہ بھی ناموس کہلاتا ہے ، بعض مفسرین ناموس کے معنی قابل اعتماد " بتلاتے ہیں اور بعض حضرت جبریل کو ناموس کہتے ہیں، ڈاکٹر حمید اللہ اسے یونانی لفظ نوموس" (NOMOS) کا عربی معرب بتلاتے ہیں جس کے معنی توریت کے ہیں، اس طرح ورقہ بن نوفل کا مطلب یوں واضح ہوتا ہے کہ یہ چیز حضرت موسیٰ ؑ کی توریت سے مشابہ ہے ، یہی معنی زیادہ قرین قیاس ہیں،(ڈاکٹر محمدحمید اللہ ، خطبات بھاولپور ، مصباح الدین شکیل ، سیرت احمد مجتبیٰ،) جب حضورﷺ ورقہ بن نوفل سے رخصت ہونے لگے تو انہوں نے آپﷺ کے سرِ اقدس کو بوسہ دیا، اس ملاقات کے بعد ورقہ نے آپﷺ کی شان میں ایک قصیدہ بھی لکھا،قصیدہ کا ترجمہ درج ذیل ہے : ۱- خدیجہؓ سے مختلف اوصاف معلوم کرنے کے بعد مجھے معلوم ہو گیا ہے کہ یہ وہی نبی ہیں جن کا مجھے عرصہ دراز سے انتظار تھا، ۲- مجھے یہی امید تھی کہ یہ نبی مکہ یا مدینہ میں مبعوث ہوں گے ، اب تمہاری بات سن کر مجھے یقین ہو گیا ہے، ۳- بات یہ ہے کہ محمد ﷺ اپنی قوم کا سر براہ ہوگا اور اپنے مخالفین پر محبت سے غالب آئے گا، ۴- شہرو ں میں ہدایت کا نور اور روشنی پھیل جائے گی اور مخلوق کو اضطراب کے بجائے سکون نصیب ہو گا، ۵- ان سے لڑائی کرنے والے خائب و خاسر اور صلح و صفائی رکھنے والے فوز و فلاح سے ہمکنار ہوں گے، ۶- ائے کاش ! مجھے وہ وقت نصیب ہو جب ان کی قوم ان کے ساتھ اچھا سلوک نہ کرے گی تو میں انھیں ان کے مقام سے آگاہ کروں گا اور معتمد علیہ ثابت ہوں گا، ۷- میں ضرور اس دین میں داخل ہو جاؤں گا جسے قریش خواہ پسند نہ کریں اور چیخ چیخ کر مکہ سر پر اٹھالیں، ۸- جس بات کو تمام قریش نا پسند کرتے ہوئے پستی میں گِر جائیں گے مجھے امید ہے اسے اختیار کر کے عرش والے تک رسائی حاصل کی جا سکے گی، ۹- اگر یہ باقی رہے اور میں بھی باقی رہا تو ہم یقینا ایسے امور ملاحظہ کریں گے جن کی وجہ سے کافروں کو نالہ و شیون کرنا پڑے گا، ۱۰- اور اگر میں چل بسا تو ہر نوجوان کو بالآخر ایسے امور کا سامنا کرنا پڑے گا جو اس کی وفات پر منتج ہوں گے،