انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** جنتیوں کی پہلی مہمانی زمین روٹی ہوگی اور بیل اور مچھلی سالن ہوگا: حدیث:حضرت ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: زمین قیامت کے دن ایک روٹی کی شکل میں ہوگی جس کوگرم کرنے کے لیے گرم ریت پررکھ دیا جائے، اللہ تعالیٰ اس کواپنے ہاتھ میں اس طرح سے الٹ پلٹ کریں گے جس طرح سے تم میں کا کوئی ایک اپنی روٹی کوسفر میں الٹ پلٹ کرتا ہے؛ یہی (جنت میں) جنت والوں کی (سب سے پہلی) مہمانی ہوگی، ان کا سالن بالام اور نون کا ہوگا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے عرض کیا یہ کیا چیزیں ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بیل اور مچھلی ہوگی (اور یہ اتنے بڑے ہوں گے کہ) اس مچھلی اور بیل کے جگر کا الگ لٹکنے والا ٹکڑا سترہزار جنتی کھائیں گے۔ (مسلم مختصراً من کتاب صفات المنافقین باب۳/نزل اہل الجنۃ۔ بخاری:۶۵۲۰، فی الرقاق) مچھلی کا جگر: حدیث: حضرت طارق بن شہاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہودی جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا: آپ ہمیں یہ بتائیے کہ جنتی جب جنت میں داخل ہوں گے توسب سے پہلے کیا کھائیں گے؟ آپ نے فرمایا: وہ سب سے پہلے مچھلی کا جگر کھائیں گے۔ (مجمع الزوائد:۱۰/۴۱۳، بحوالہ: طبرانی) حضرت کعب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب جنتی جنت میں داخل ہوں گے توان کواللہ تعالیٰ فرمائیں گے ہرمہمان کے لیے کچھ تحفہ ہوتا ہے میں بھی آپ کوآج تحفہ دوں گا پھربیل اور مچھلی کوپیش کیا جائے گا اور جنت والوں کے لیے ان کوذبح کر(کے کھلا) دیا جائے گا۔ (زوائد الزہد لابن المبارک:۴۳۲۔ حادی الارواح:۲۱۱، والترجمۃ من لفظہ) کھانا، پینا اور قضائے حاجت: ارشادِ باری تعالیٰ ہے: إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي ظِلَالٍ وَعُيُونٍo وَفَوَاكِهَ مِمَّا يَشْتَهُونَo كُلُواوَاشْرَبُوا هَنِيئًا بِمَاكُنْتُمْ تَعْمَلُونَ۔ (المرسلات:۴۱،۴۲،۴۳) ترجمہ: پرہیز گار لوگ سایوں میں اور چشموں میں اور مرغوب میووں میں ہوں گے (اور ان سے کہا جائے گا کہ) اپنے (نیک) اعمال کے صلہ میں خوب مزے سے کھاؤ پیو، ہم نیک لوگوں کوایسا ہی صلہ دیا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مزید ارشاد فرماتے ہیں: فَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ فَيَقُولُ هَاؤُمُ اقْرَءُوا كِتَابِيَهْo إِنِّي ظَنَنْتُ أَنِّي مُلَاقٍ حِسَابِيَهْo فَهُوَفِي عِيشَةٍ رَاضِيَةٍo فِي جَنَّةٍ عَالِيَةٍo قُطُوفُهَا دَانِيَةٌo كُلُواوَاشْرَبُوا هَنِيئًا بِمَاأَسْلَفْتُمْ فِي الْأَيَّامِ الْخَالِيَةِ۔ (الحاقۃ:۱۹ تا ۲۴) ترجمہ:پھرجس شخص کا اعمالنامہ اس کے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا تو(خوشی کے مارے آس پاس والوں سے) کہے گا کہ میرا اعمالنامہ پڑھ لو، میرا (توپہلے ہی سے) اعتقاد تھا کہ مجھ کومیرا حساب پیش آنے والا ہے؛ غرض وہ شخص پسندیدہ عیش (یعنی) بہشت بریں میں ہوگا؛ جس کے میوے (اس قدر) جھکے ہوں گے (کہ جس حالت میں چاہیں گے لے سکیں گے اور حکم ہوگا کہ) کھاؤ اور پیو مزے کے ساتھ ان اعمال کے صلہ میں جوتم نے بامید صلہ گذشتہ ایام (یعنی زمانہ قیام دنیا) میں کئے ہیں۔ حدیث: حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: يَأْكُلُ أَهْلُ الْجَنَّةِ فِيهَا وَيَشْرَبُونَ وَلَايَتَغَوَّطُونَ وَلَايَمْتَخِطُونَ وَلَايَبُولُونَ وَلَكِنْ طَعَامُهُمْ ذَاكَ جُشَاءٌ كَرَشْحِ الْمِسْكِ يُلْهَمُونَ التَّسْبِيحَ وَالْحَمْدَ كَمَاتُلْهَمُونَ النَّفَسَ۔ (مسلم،كِتَاب الْجَنَّةِ وَصِفَةِ نَعِيمِهَا وَأَهْلِهَا،بَاب فِي صِفَاتِ الْجَنَّةِ وَأَهْلِهَا وَتَسْبِيحِهِمْ فِيهَا بُكْرَةً وَعَشِيًّا،حدیث نمبر:۵۰۶۷، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:جنت والے کھائیں گے بھی اور پئیں گے بھی مگرناک نہیں سنکیں گے او رنہ ہی وہ پاخانہ اور پیشاب کریں گے، ان کا طعام کستوری کی خوشبو کا ڈکار بن جائے گا، ان کوتسبیح اور حمد باری تعالیٰ ایسے ہی الہام والقاء کئے جائیں گے، جیسے تم لوگوں کوسانس کا الہام والقاء کیا جاتا ہے۔ کھانا اور قضائے حاجت: حدیث: حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک یہودی جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور پوچھا اے ابوالقاسم! (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) آپ کا خیال ہے کہ جنتی کھائیں گے بھی اور پئیں گے بھی؟ آپ نے ارشاد فرمایا مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے قبضہ میں میری جان ہے جنتیوں میں سے ہرشخص کوکھانے پینے، جماع اور خواہش میں ایک سوآدمیوں کی طاقت عطاء کی جائے گی، اس نے عرض کیا پھرجوشخص کھاتا اور پیتا ہے اس کوحاجت بھی توہوتی ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا ان کی (قضائے) حاجت ایک قسم کا پسینہ ہوگا جوان کے جلدوں سے بہہ جائے گا، کستوری کی خوشبو کی طرح جب یہ (پسینہ) نکل جائے گا تواس کا پیٹ سکڑ جائےگا۔ (مسنداحمد:۴/۳۷۱۔ ابن ابی شیبہ:۱۳/۱۰۸) حدیث: حضرت انس رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ارشاد فرماتے ہوئے سنا: إِنَّ أَسْفَلَ أَهْلِ الْجَنَّةِ أَجْمَعِينَ دَرَجَةً لَمَنْ قَیُّوْمُ عَلَى رَأْسِهِ عَشَرَةُ الْآفٍ، بِيَدِي كُلِّ وَاحِدٍ صَحِيفَتَانِ، وَاحِدَةٌ مِنْ ذَهَبٍ، وَالْأُخْرَى مِنْ فِضَّةٍ، فِي كُلِّ وَاحِدَةٍ لَوْنٌ لَيْسَ فِي الْأُخْرَى، يَأْكُلُ مِنْ آخِرِهَا مِثْلَ مَايَأْكُلُ مِنْ أَوَّلِهَا، يَجِدُ لِآخِرِهَا مِنَ الطِّيبِ وَاللَّذَّةِ بِمِثْلَ الَّذِي يَجِدُ لِأَوَّلِهَا، ثُمَّ يَكُونُ لِذَلِكَ رِيحَ الْمِسْكِ الْأَذْفَرِ، لَايَبُولُونَ، وَلَايَتَغَوَّطُونَ، وَلَايَتَمَخَّطُونَ، إِخْوَانًا عَلَى سُرُرٍ مُتَقَابِلِينَ۔ (اسنادہ صحیح، البدورالسافرہ:۱۹۰۰۔ مروزی، فی زیادات زہد لابن المبارک:۱/۵۳۶) ترجمہ: تمام جنتیوں میں سب سے کم درجہ کے جنتی کے سامنے دس ہزار خادم کھڑے ہوں گے، ہرایک کے ہاتھ میں دوبڑے پیالے ہوں گے، ایک سونے کا ہوگا دوسرا چاندی کا ہوگا، ہرایک میں ایسے رنگ کا کھانا ہوگا جودوسرے میں نہ ہوگا، جنتی آخری پیالہ سے بھی ویسے ہی رغبت سے کھائے گا جیسے کہ اوّل سے کھائے گا (اور) آخری پیالہ سے بھی ایسی ہی پاکیزگی اور لذت محسوس کرے گا جیسی کہ پہلے پیالہ سے کریگا؛ پھریہ طعام کستوری کی خوشبودار ہوا ہوجائے گا، جنتی نہ توپیشاب کریں گے، نہ پاخانہ کریں گے نہ ناک سنکیں گے، باہمی برادرانہ انداز سے شاہانہ تختوں پرآمنے سامنے بیٹھتے ہوں گے۔ رزق کے ہدایا صبح وشام پہنیں گے: حدیث: حضرت حسن رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت ابوقلابہ رحمۃ اللہ علیہ دونوں حضرات بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا یارسول اللہ! کیا جنت میں رات بھی ہوگی؟ کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں فرماتے ہیں وَلَهُمْ رِزْقُهُمْ فِيهَا بُكْرَةً وَعَشِيًّا (مریم:۶۲) جنتیوں کے لیے جنت میں رزق ہوگا صبح وشام، توحضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لَيْسَ هُنَاكَ لَيْل إِنَّمَاهُوَ ضُوْء وَنور یَردالغدو عَلَى الرواح وَالرواح عَلَى الغدو تَأتِيْهِمْ طرف الْهدايا مِنَ اللہِ لمواقيت الصلاة التي كَانُوْا يصلون فِيْهَا وَیسلم عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةِ۔ (نوادرالاصول، حکیم ترمذی۔ البدورالسافرہ:۱۹۰۶۔ درمنثور:۴/۲۷۸۔ کنزالعمال:۳۹۳۸۶) ترجمہ:وہاں پرکوئی رات نہیں ہوگی بلکہ وہاں ایک روشنی اور نور ہوگا، صبح شام پرطاری ہوگی اور شام صبح پران کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے نماز کے اوقات میں جن میں وہ نماز ادا کیا کرتے تھے ہدایا آیا کریں گے اور ان پرفرشتے سلام کرتے ہوں گے۔ جنت میں پہلی مہمانی: حدیث: حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یہودیوں کے ایک عالم نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ جس دن اس زمین کے علاوہ کوئی اور زمین تبدیل کی جائے گی تولوگ کہاں جائیں گے؟ توحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں ارشاد فرمایا: پل صراط کے نیچے تاریکی میں ہوں گے، اس نے پوچھا لوگوں میں سے پہلے (پل صراط سے) کون گذرے گا؟ فرمایا: فقراء مہاجرین، اس نے پوچھا جب جنتی جنت میں داخل ہوں گے ان کوکیا مہمانی دی جائے گی؟ فرمایا: مچھلی کے جگر کا اضافی حصہ، اس نے پوچھا: اس مہمانی کے بعد ان کوصبح کی پہلی مہمانی کیا دی جائے گی؟ فرمایا: ان کے لیے جنت کا بیل ذبح کیا جائے گا اور جنتی اس کے اطراف سے تناول کرے گا، اس نے پوچھا: جنتی اس کوکھانے کے بعد کیا پئیں گے؟ ارشاد فرمایا: جنت کے اس چشمہ سے جس کا نام سلسبیل رکھا گیا ہے، اس نے عرض کیا: آپ نے بالکل سچ فرمایا ہے۔ ہزار خادم کھانا کھلائیں گے: حضرت مقاتل بن حیان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں جب جنتیوں کوکھانے کے لیے بلایا جائے گا وہ سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ کہیں گے توہرایک جنتی کی خدمت کے لیے دس ہزار خادم کھڑے ہوں گے، ان میں کے ہرایک خادم کے پاس سونے کا بڑا پیالہ ہوگا جس میں ایسا کھانا ہوگا کہ دوسرے پیالہ میں ایسا نہ ہوگا تووہ جنتی ان میں سے ہرپیالہ سے تناول کریگا۔ (صفۃ الجنۃ ابن ابی الدنیا:۱۱۸) ادنی جنتی کا کھانا پینا: حدیث: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: إِنَّ أَدْنَى أَهْلِ الْجَنَّةِ مَنْزِلَةً إِنَّ لَهُ لَسَبْعَ دَرَجَاتٍ وَهُوَعَلَى السَّادِسَةِ وَفَوْقَهُ السَّابِعَةُ وَإِنَّ لَهُ لَثَلَاثَ مِائَةِ خَادِمٍ وَيُغْدَى عَلَيْهِ وَيُرَاحُ كُلَّ يَوْمٍ ثَلَاثُ مِائَةِ صَحْفَةٍ وَلَاأَعْلَمُهُ إِلَّاقَالَ مِنْ ذَهَبٍ فِي كُلِّ صَحْفَةٍ لَوْنٌ لَيْسَ فِي الْأُخْرَى وَإِنَّهُ لَيَلَذُّ أَوَّلَهُ كَمَايَلَذُّ آخِرَهُ وَإِنَّهُ لَيَقُولُ يَارَبِّ لَوْأَذِنْتَ لِي لَأَطْعَمْتُ أَهْلَ الْجَنَّةِ وَسَقَيْتُهُمْ لَمْ يَنْقُصْ مِمَّا عِنْدِي شَيْءٌ۔ (مسنداحمد بن حنبل، مُسْنَدُ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،حدیث نمبر:۱۰۹۴۵، شاملہ، الناشر: مؤسسة قرطبة،القاهرة) ترجمہ:جنتیوں میں ادنی درجہ میں وہ شخص ہوگا جس کے سات درجات ہوں گے یہ چھٹے درجہ میں ہوگا اس سے اوپر ساتواں درجہ ہوگا، اس کے تین سوخادم ہوں گے اس کے سامنے روزانہ صبح اور شام کا کھانا تین سوبڑے پیالوں میں پیش کیا جائےگا، راوی کہتا ہے کہ مجھے معلوم نہیں مگراس نے یہی کہا تھا کہ وہ (پیالے) سونے کے ہوں گے؛ ہرپیالہ میں ایسے قسم کا کھانا ہوگا جودوسرے میں نہ ہوگا اور یہ جنتی اس کے پہلے کھانے سے بھی ویسی ہی لذت پائے گا جیسا کہ آخری سے پائے گا اور پینے کی چیزوں کے بھی تین سوبرتن ہوں گے ہربرتن میں ایسا شربت اور پانی ہوگا، جودوسرے میں نہ ہوگا اور وہ اس کے پہلے برتن سے بھی ویسے ہی لطف اندوز ہوگا جیسے کہ آخری سے لطف اندوز ہوگا؛ بلکہ یہ (تمنا کرتے ہوئے) کہتا ہوگا یارب! اگرآپ مجھے اجازت دیتے تومیں تمام جنت والوں کوکھلاتا پلاتا اور جوکچھ میرے پاس ہے اس سے کچھ بھی کم نہ ہوتا۔ پہلی دعوت بیل اور مچھلی کی ہوگی: حضرت امام مالکؒ بن انس فرماتے ہیں کہ انہوں نے سنا ہے کہ جنت والوں کوسب سے پہلے جومہمانی کھلائی جائے گی وہ مچھلی اور بیل ہوگا (بیل) جنت میں بغیر کسی چرواہے کے جنت کے درختوں سے چرتا رہے گا مچھلی جنت کی نہروں میں تیرتی رہے گی، جب جنتی جنت میں داخل ہوچکیں گے توبیل اور مچھلی دونوں کوبلایا جائے گا تویہ دونوں جنتیوں کے سامنے ہرقسم کا کھیل کریں گے اور ایک دوسرے سے خوب مقابلہ کریں گے جس سے جنتی خوب لطف اندوز ہوں گے؛ پھرمچھلی بیل کواپنی دم مارے گی اور بیل مچھلی کواپنا سینگ مارے گا اور یہی ان کا ذبح ہونا ہوگا؛ پھروہ لوگ ان کے گوشتوں کوکھائیں گے جتنا دل چاہے گا، ان دونوں کے گوشت میں جنت کی ہرچیز کا مزہ پائیں گے۔ (وصف الفردوس:۷۹) جنتی کے کھانے میں خواہش کی تکمیل کی انتہاء: حدیث: ابن عبدالحکم رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہےکہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: إِنَّ الرَّجُلَ مِنْ أَھْلِ الْجَنَّۃِ لیَاخُذ اللقمۃِ فَیَجْعَلْہَا فِیْ فِیْہِ ثُمَّ یَخْطِرْ عَلَی بَالہ طَعَام آخر فَتََحول تِلْکَ اللقمَۃ عَلَی الَّتِیْ تمنی۔ (وصف الفردوس:۸۰) ترجمہ: جنت والوں میں سے ایک شحص لقمہ لے کراپنے مونہہ میں ڈالے گا پھراپنے دل میں کسی اور کھانے کا خیال کرے گا تووہ لقمہ اس کھانے میں تبدیل ہوجائے گا جس کی اس نے تمنا کی ہوگی۔ ایک دسترخوان پرسترہزار پیالے: حضرت کعب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جنتیوں میں سے ہرایک کے پاس دسترخوان پرسونے کے سترہزار بڑے پیالے ہوں گے۔ (وصف الفردوس:۸۱) ڈکار اور پسینہ کیوں آئے گا: حدیث: حضرت حسن رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جشاء اہل الجنۃ کریح المسک وہومکان الخلاء، وعرقہم کریح المسک وہومکان البول۔ (وصف الفردوس:۸۶) ترجمہ:جنتیوں کا ڈکار مشک کی خوشبو کی طرح ہوگا یہ قضائے حاجت کے قائم مقام ہوگا اور ان کا پسینہ مشک کی خوشبو کی طرح ہوگا اور یہ پیشاب کے قائم مقام ہوگا۔