انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** خلافتِ ابن زبیر رضی اللہ عنہ کے اہم واقعات حضرت عبداللہ بن زبیر کی حکومت مکہ معظمہ میں امیرمعاویہ کی وفات کے بعد ہی سے قائم تھی اور انہوں نے یزید کے عہد حکومت میں مکہ پرکبھی یزید کی حکومت قائم نہیں ہونے دی، یزید کے مرنے پرانھوں نے لوگوں سے بیعتِ خلافت لی اور بہت جلد شام کے بعض مقامات کے سوا تمام عالمِ اسلام میں وہ خلیفہ تسلیم کرلیے گئے، اس زمانے میں ان کوملکِ شام کی اس حالت کا جوان کے موافق پیدا ہوچکی تھی، صحیح اندازہ نہیں ہوسکا اور وہ بنوامیہ کی طاقت وقبولیت کا جوامیرمعاویہ کے زمانے سے شام میں ان کوحاصل تھی اندازہ کرنے میں غلطی کھا گئے؛ اگران کوبنوقیس اور بنوکلب کی نااتفاقی ورقابت اور اپنی قبولیت کا جوملکِ شام میں پیدا ہوچکی تھی، صحیح اندازہ ہوجاتا تووہ ضرور ملکِ شام کا ایک سفر کرتے اور یہ سفرایسا ہی مفید ثابت ہوتا جیسا کہ حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کا سفرِشام عالمِ اسلام کے لیے مفید ثابت ہوا تھا، اس کے بعد مروان کی خلافت اور بنواُمیہ کے اثرواقتدار کی واپسی ہرگز ظہور میں نہ آتی؛ اگروہ بجائے مکہ معظمہ کے مدینہ منورہ کودارالخلافہ بناتے اور وفاتِ یزید کے بعد ہی مدینے میں چلے آتے، تب بھی نسبتاً ملکِ شام سے قریب ہونے کے سبب شام کواپنے قابو سے نہ نکلنے دیتے اور ضحاک بن قیس، ظفر بن حارث، نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ اور عبدالرحمن بن حجدم کواس طرح مغلوب نہ ہونے دیتے، ان لوگوں کواگرعبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی طرف سے ذراسا سہارا اور تھوڑی سی مدد پہنچ جاتی تویہ مروان اور حسان بن مالک اور عبیداللہ بن زیاد سے دبنے اور مغلوب ہونے والے ہرگز نہ تھے؛ بہرحال اس غلطی یاغلط فہمی کا نتیجہ یہ ہوا کہ مصر اور شام معہ فلسطین ان کے قبضے سے جاتے رہے اور مروان نے آل مروان کے لیئے خلافت کی بنیاد قائم کردی۔