انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** کفار قریش کے نام بنی مخزوم عمر وبن ہشام (ابو جہل)زہیر بن ابی امیہ،ولید بن مغیرہ،ابو قیس بن الفاکہ بن مغیرہ،سائب بن صیفی بن عابد، اسود بن عبدالاسد بنی امیہ عاص بن سعید بن عاص ،حکم بن العاص ،عقبہ بن ابی معیط بوی ثقیف عدی بن حمراء الہذلی ابن الاصدی بنی اسد اسود بن عبدالمطلب،ابو الخبتری بن ہشام بنی سہم عاص بن وائل،حارث بن قیس بن عدی، منبہ بن الحجاج،نبیہ بن الحجاج بنی ہاشم ابو لہب بن عبدالمطلب بنی زہرہ اسود بن عبد یغوث بنی جمح امیہ بن خلف،اُبی بن خلف بنی عبدالدار نصر بن حارث مذکورہ بالا افراد کے علاوہ حسب ذیل افراد دشمن تو تھے مگر شدت پسند نہ تھے، اور حضورﷺ کو برا بھلا نہیں کہتے تھے: ۱- عتبہ بن ربیعہ ( بنی عبدالشمس بن عبد مناف) ۲- شیبہ بن ربیعہ ( بنی عبدالشمس بن عبد مناف) ۳- ابو سفیان بن حرب ( بنی اُمیہ ) کفّار مکہ میں تین اشخاص دشمنی میں شدت پسند تھے جن کے نام ۱- ابو جہل عمرو بن ہشام ۲ - عقبہ بن ابی معیط اور ۳- ابو لہب ہیں۔ ۱- ابو جہل : ابو جہل کا اصل نام عمرو بن ہشام تھاجو بنی مخزوم کا سردار تھا، کم عمری کے باوجود ذی عقل ، خاندانی عصبیت کا دلدادہ اور نخوت و غرور کا مجسمہ تھا ، جسمانی طور پر دُبلا پتلا؛ لیکن کڑک دار آواز اور سخت لہجہ والا تھا، دین ِ اسلام کا بد ترین دشمن تھا، تدبّر اور فراست کی بدولت قریش نے اسے الحکم کا لقب دیا تھا اور دارالندوہ کا رکن بھی بنا لیا تھا، بد ترین صفات مثلاً شیخی خوری، بد اخلاقی اور بد زبانی کا حامل تھا اور ساتھ ساتھ بڑا شقی القلب بھی تھا انہی بد صفات کی بنا ء پر اسے ابو جہل کا لقب دیا گیا تھا، غزوۂ بدر میں دو انصاری صحابہ معا ذ ؓ اور معوذؓ نے اس پر قاتلانہ حملہ کیا، وہ کشتوں کے ڈھیر میں پڑا تھا؛ لیکن جان باقی تھی ، حضرت عبداللہ ؓبن مسعود نے اس کا سر کاٹنا چاہا تو اس حالت میں بھی اُسے اپنے مرتبہ و منصب کا احساس تھا اس لئے کہا کہ میرا سر گردن کے آخری حصہ سے کاٹنا تا کہ مقتولین کے سروں میں سب سے اونچا معلوم ہو، حضرت عبداللہؓ بن مسعود نے اس کا سر کاٹ کر آنحضرت ﷺ کے سامنے لایا تو آپﷺ نے دیکھ کر فرمایا! " یہ اس عہد کا فرعون تھا" اس وقت رسول اللہﷺنے حضرت عمار ؓ بن یاسر کو طلب فرمایا اور جب وہ آئے آپﷺ نے فرمایاکہ تمہاری ماں کے قاتل کواللہ تعالیٰ نے کیفر ِکردار کو پہنچایا، یہاں اس بات کی صراحت ضروری ہے کہ حضرت عمار ؓ کی والدہ حضرت سمیّہؓ معمر خاتون تھیں، ایک مرتبہ انہوں نے ابو جہل کو برا بھلا کہا تھا تو اس نے انھیں برچھا مار کر شہید کر دیا تھا۔ ۲- عقبہ بن ابی معیط : اس کا نام ابّان بن ابی عمرو بن اُمیہ بن عبدالشمس تھااور کنیت ابو ولید تھی، یہ حضور ﷺ کا ایک دیوار بیچ پڑوسی تھا آپﷺ فرمایا کرتے تھے کہ میں دو بدترین پڑوسیوں کے درمیان میں رہا کرتا تھا، ایک عقبہ بن ابی معیط اور دوسرابو لہب ، ایک روز جب کہ حضور ﷺ کعبہ میں نماز ادا کر رہے تھے عقبہ بن ابی معیط نے ابو جہل کے کہنے پر اونٹ کی اوجھڑی لا کر آپﷺ کی پیٹھ پر رکھ دی تھی جس کے بوجھ سے آپﷺ سر نہ اُٹھا سکے اطلاع ملنے پر حضرت فاطمہؓ نے گھر سے آ کر اوجھڑی کو ہٹایا، آپﷺ نے اس کو بددعا دی تھی چنانچہ وہ بدر کے دن قتل ہوا۔ ۳، ابو لہب : ابو لہب گو کہ آنحضرت ﷺکا چچا اور پڑوسی تھا مگر سخت ترین دشمنِ اسلام تھا ، وہ اورعقبہ بن ابی معیط حضور ﷺ کے گھر میں گندگی پھینکتے اور دروازوں کے پاس کوڑا کرکٹ ڈالتے ، کبھی کبھی ان کی حر کات سے تنگ آ کر آپﷺ باہر نکلتے اور فرماتے :اے عبد مناف ! یہ کونسا حقِ ہمسائیگی ہے ، ایک دن ابو لہب حضور ﷺ کے پاس آیا اور کہا : اگر میں آپ کے دین میں داخل ہو جاؤں تو مجھے کیا ملے گا؟ حضور ﷺ نے فرمایا کہ جو دوسرے ایمان والوں کو ملے گا وہی تم کو بھی ملے گا، یہ سن کر اس نے کہا " برا ہو اس دین کا جس میں بڑے اور چھوٹے سب برابر ہوں" دین اسلام کے دو دشمن بنی ہاشم سے تھے، ایک تو حضور ﷺ کا چچا ابو لہب جو تاریخ اسلام میں بد ترین دشمنِ اسلام کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور دوسرا حضور ﷺ کا چچا زاداور دودھ شریک بھائی ابو سفیان بن حارث بن عبدالمطلب جس نے حلیمہ سعدیہ کا دودھ پیا تھا، زمانہ جاہلیت میں حضور ﷺ سے بے حد محبت کرتا تھا؛ لیکن اعلان نبوت کے بعد سخت دشمن ہو گیا اور بیس سال تک اشعار میں حضور ﷺکی ہجو کرتا رہا ، فتح مکہ سے قبل ایمان لایا اور حضورﷺ کی مدح میں اشعار کہے اور ہجو جہالت کی معذرت کی۔ شاعری کے ذریعہ حضور ﷺ کی اہانت کرنے والے حضور ﷺ کی اہانت اور اسلام کی مذمت بذریعہ اشعار کرنے والوں میں قریش کے ابو سفیان بن حارث کے علاوہ عمرو بن عاص اور عبداللہ زبعری کے علاوہ غیر قریش میں کعب بن زہیر شامل تھے، ان کے علاوہ ابو الطیب، مثنیٰ، دعبل، ابو نواس، اصمعی، ابو دلامہ اور تغلب نے ہجویہ اشعارکے ذریعہ دین اسلام کے خلاف ایک مہم شروع کی، کبھی قرآن مجید کی کسی آیت کے ساتھ ایک مصرع جوڑ دیتے اور حضوﷺ پر کاہن ہونے کا الزام لگاتے ایسے میں سورۂ الشعرأ کی آیات ۲۲۱ تا ۲۲۶ نازل ہوئیں، جس میں ارشاد فرمایا گیا کہ شاعروں کی پیرو ی تو گمراہ لوگ کیا کرتے ہیں، اس لئے کہ وہ ایسی باتیں کہتے ہیں جن پر خود عمل نہیں کرتے ، ان آیات کے نزول کے بعد حضرت حسّانؓ بن ثابت اور حضرت عبداللہؓ بن رواحہ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا!یا رسول اللہ ! ہم شاعر کی حیثیت سے مرنا نہیں چاہتے ، آپﷺ نے فرمایا : تم ان شاعروں میں نہیں ہو جنھیں اللہ تعالیٰ نے" الغاؤن " فرمایا ہے ، تمہارے اشعار مشرکوں پر تیر و سنان سے زیادہ سخت ہیں، چنانچہ ہجرت کے بعد حضرت حسّان ؓ بن ثابت اپنے اشعار کے ذریعہ مشرکین کے نسب پر حملہ کرتے ، حضرت عبداللہؓ بن رواحہ کفار کو گمراہ ہونے پر ملامت کرتے اور حضرت کعب ؓ بن مالک لڑائی کی دھمکیاں دے کر دہشت زدہ کرتے ۔ مسلمانوں پر ظلم و ستم کرنے والے چند کفّار : ولید بن مغیرہ : بنی مخزوم کا سردار تھا ، مسلمانوں کو براکہا کرتا اور ممکنہ تکالیف پہنچانے کی کوشش کرتا ، غلاف کعبہ اکیلا تیار کرواتا ، ہجرت کے بعد مرا ، حضرت خالد ؓ بن ولید اسی کے صاحبزادے تھے جنہوں نے اسلام قبول کیا اور نمایاں خدمات انجام دیں اور " سیف اللہ" کا لقب پایا۔ اسود بن مطّلب : مسلمانوں کا مذاق اُڑیا کرتا تھا اور کہا کرتا تھا کہ زمین کے بادشاہ آئے ہیں جو قیصر و کسریٰ کے خزانوں پر قبضہ کریں گے ، حضور ﷺ کو دیکھ کر سیٹیاں اور تالیاں بجاتا ، اندھا ہو کر مرا۔ اسود بن عبد یغوث : بڑا مذاق اُڑایا کرتا تھا ، کہتا ! ائے محمدﷺ ! کیا آج آپﷺ نے آسمان والوں سے بات نہیں کی ، مسلمانوں پر طنز و تعریض کرتے ہوئے کہتا کہ یہ سلطنت عجم کے مالک ہونگے ، لُو لگنے سے چہرہ لال اور نا قابلِ شناخت ہوگیا تو گھر والوں نے نکال دیا، بد زبانی کی وجہ سے منہ پیپ سے بھر گیا اور اسی میں مر گیا۔ نصر بن الحرث : بنی عبدالدار سے تعلق تھا یہودیوں اور عیسائیوں سے میل جول رکھتا تھا، حضور ﷺ کی دعوت کی تکذیب کرنے اور مسلمانوں کو ایذائیں دینے میں سب سے بڑھا ہوا تھا ، یہودیوں سے نئے نبی کے ظہور کا ذکر سنا کرتا تھااور کہا کرتا تھا کہ محمدﷺ پرانے افسانے سناتے ہیں ، غزوۂ بدر میں گرفتار کیا گیا اور قتل ہوا ۔ مطعم بن عدی : اکثر گالیاں دیا کرتا اور مذاق اُڑاتا تھا ، غزوۂ بدر میں حضرت حمزہؓ نے اسے قتل کیا۔ نُبیّہ اور مُنبّہ : یہ دونوں حجاج بن سہمی کے بیٹے تھے، حضور ﷺ کو ایذائیں دیا کرتے اور طنز سے کہتے کہ اللہ کو تیرے سوا کوئی اور نہیں ملا جسے نبی بنا تا، مُنیہّ اوراس کا بیٹا عاص بن منبّہ غزوۂ بدر میں حضرت علی کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ اُ بیّ اور اُمیّہ : دونوں خلف کے بیٹے تھے ، روساء مکہ میں سے تھے مگر بڑے شریر النفس اور مذاق اُڑا نے والوں میں سے تھے ، ایک روز اُبیّ ران کی بوسیدہ ہڈی لایا اور اسے چورہ کر کے کہنے لگاکہ کیا آپﷺ کا اللہ اس چورے کو پھر سے جوڑے گا ، اسی وقت حضور ﷺ پر وحی نازل ہوئی جس میں کہا گیا" کہہ دیجئے ائے رسول کہ ان کو وہی اللہ زندہ کرے گا جس نے اُن کو پہلے پیدا کیا" اُبیّ کو حضور ﷺنے غزوۂ اُحد میں چھوٹے نیزے سے قتل کیا، حضرت بلالؓ اس کے بھائی اُمیہ کے غلا م تھے جنھوں نے غزوۂ بدر میں اس کی نشان دہی کی اور وہ مارا گیا،