انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** بنو خزاعہ پر حملہ صلح حدیبیہ کی بناء پر قبائل عرب میں خزاعہ آنحضرت ﷺ کے حلیف ہو گئے تھے اور ان کے حریف بنو بکر نے قریش سے مخالفت کا معاہدہ کرلیا تھا، ان دونوں حریفوں میں مدت سے لڑائیاں چلی آتی تھیں ، اسلام کے ظہور نے عرب کو ادھر متوجہ کیا تو وہ لڑائیاں رک گئیں اور اب تک رکی رہیں کیونکہ قریش اور عرب کا سارا زور اسلام کے مقابلہ میں صرف ہو رہا تھا ، صلح حدیبیہ نے لوگوں کو مطمئن کیا تو بنو بکر سمجھے کہ اب انتقام کا وقت آگیا ہے ، دفعۃ وہ خزاعہ پر حملہ آور ہوئے اور روسائے قریش نے ان کو علانیہ مدددی ، عکرمہ بن ابو جہل، صفوان بن امیہ ، سہیل بن عمرو وغیرہ نے راتوں کو صورتیں بدل کر بنو بکر کے ساتھ تلواریں چلائیں ، خزاعہ نے مجبورہوکر حرم میں پناہ لی ، بنو بکر رک گئے کہ حرم کا احترام ضرور ی ہے؛ لیکن ان کے رئیس آعظم نوفل نے کہا! یہ موقع پھر کبھی ہاتھ نہیں آسکتا ، غرض عین حدود حرم میں خزاعہ کا خون بہایا گیااور ان کے بیس آدمی قتل ہوئے، آنحضرت ﷺ مسجد میں تشریف فرما تھے کہ دفعۃ یہ صدا بلند ہوئی:اے خدا میں محمدﷺ کو وہ معاہدہ یاد دلاؤں گا جو ہمارے اور ان کے قدیم خاندان میں ہوا ہے، اے پیغمبرِخدا ! ہماری اعانت کر اور خدا کے بندوں کو بلا ، سب اعانت کے لئے حاضر ہونگے ،معلوم ہوا کہ خزاعہ کے چالیس اونٹ سوار عمرو بن سالم کی سر کردگی میں فریاد لے کر آئے ہیں، آنحضرت ﷺ نے واقعات سنے تو آپﷺ کو سخت رنج ہوا ، معاملہ بہت سنگین تھا، اس لئے آپﷺ نے اپنے خاص ایلچی جن کا نام حضرت ضمرہ بتایا جاتا ہے مکہ روانہ کیا اور ان سے فرمایا کہ قریش کے سامنے حسب ذیل تین شرطیں پیش کی جائیں: ۱ - خزاعہ کے مقتولوں کا خوں بہا دیا جائے، ۲ - قریش بنو بکر کی حمایت سے الگ ہوجائیں ، ۳ - اعلان کردیا جائے کہ حدیبیہ کا معاہدہ ٹوٹ گیا،