انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** لفظ حدیث قبل از اسلام حدیث کے معنی بات کے ہیں او ران معنی میں یہ لفظ قبل از اسلام عام استعمال ہوتا تھا؛ بلکہ اب تک یہ لفظ اپنے لغوی معنی میں بھی شائع اور رائج ہے؛ لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ یہ لفظ انہی باتوں کے مناسب رہا ہے جن کی یاد باقی رہنے کے لائق سمجھی جائے،آئی اور گئی بات اس لفظ کا مورد نہیں رہی ؛یہی وجہ ہے کہ پیغمبروں کی باتوں کو اس لفظ سے خاص مناسبت رہی ہے، ان کی باتیں باقیات اور آئندہ یاد رکھنے کے لائق ہوتی ہیں، قرآن کریم نے پہلے پیغمبروں کی باتوں کو بھی اسی نام سے ذکر کیا ہے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس فرشتے مہمانوں کی صورت میں آئے اور قوم لوط پر عذاب لانے کی خبر دی،قرآن کریم حضرت ابراہیمؑ کے مہمانوں کی اس بات کو ان الفاظ میں نقل کرتا ہے: "ہَلْ اَتٰکَ حَدِیْثُ ضَیْفِ اِبْرٰہِیْمَ الْمُکْرَمِیْنَ"۔ (الذاریات:۲۴) ترجمہ:کیا پہنچی تجھ کو حدیث(بات)ابراہیم کے مہمانوں کی جوعزت والے تھے۔ قرآن کریم کے الفاظ "ہَلْ اَتٰکَ حَدِيثُ" (الغاشیہ:۱) "ترجمہ:کیا تیرے پاس پہنچی ہے بات" میں یہ ارشاد بھی پایا جاتا ہے کہ حدیث پہلوں سے پچھلوں کو پہنچنی چاہیے اور جو باتیں اس لائق ہوں کہ پہلوں سےپچھلوں کو پہنچیں، لفظ حدیث ان کے لیے مناسب رہنمائی کرتا ہے،قرآن کریم حضرت موسی علیہ السلام کی بات بھی یوں نقل کرتا ہے: "ہَلْ اَتٰکَ حَدِیْثُ مُوْسٰى"۔ (النازعات:۱۵) ترجمہ:کیا پہنچی تجھ کو حدیث(بات) موسی علیہ السلام کی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی فرمایا کہ آپ اپنے پروردگار کے احسانات کو بیان کرتے رہیں۔ (الضحٰی:۱۱)