انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
مسلم مرد اور کافر عورت سے پیدا شدہ بچہ کے جنازہ کا حکم؟ جوبچہ زنا سے پیدا ہوتا ہے وہ شرعاً ثابت النسب نہیں ہوتا یعنی شرعاً وہ زانی باپ نہیں ہوتا اور وہ بچہ اس کا بیٹا نہیں کہلاتا، صلوۃ جنازہ کے لئے میت کا مسلمان ہونا شرط ہے اور بچے کے اسلام کی چند صورتیں ہیں، اوّل یہ کہ بچہ عاقل ہو او رالسام لے آئے توشرعاً اس کااسلام صحیح اور معتبر ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ بچہ عاقل تونہیں خود اسلام نہیں لایا؛ بلکہ اس کے ابوین میں سے کوئی ایک یادونوں مسلمان ہوگئے اس صورت میں خیرالأبوین کے تابع قرار دیا جائے گا؛ لہٰذا زنا کی صورت میں اگرباپ مسلمان اور ماں کافرہ ہے اور زانی سے نسب ثابت نہیں؛ پس زانی کا مسلمان ہونا بچے کے حق میں کچھ نافع نہ ہوگا۔ تیسری صورت یہ ہے کہ بچے کوتنہا بغیر احدالأبوین دارالحرب سے قید کرکے دارالاسلام میں لے آئے ہوں؛ پس اگرقید کرنے والا ذمی ہے توتابعِ دار قرار دیکر اور اگرقید کرنے والا مسلم ہے توتابع سابی قرار دے کراس کومسلمان کہا جائے گا۔ چوتھی صورت یہ ہے کہ دارالحرب میں امام اس بچہ کا کسی مسلم کومالک بنادے خواہ بطریقِ بیع ہو؛ خواہ بطریقِ تقسیم غنائم، اس صورت میں بھی بچہ کوتابعِ مالک قرار دے کرمسلمان کہا جائےگا۔ کلامِ فقہاء میں ایسی صورتیں ملیں گی کہ باوجود تحقیقِ اسلامِ میت بعض عوارض کی بناپر اس پرنماز جنازہ نہیں پڑھی جاتی، ایسی صورت نہیں منلے گی کہ باوجود تحقیقِ کفرمیت اس پرنماز جنازہ کا حکم ہو؛ بلکہ جس کے کفرواسلام میں اشتباہ ہو اس پربھی نماز جنازہ نہیں اور علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ نے کافرہ زانیہ اور زانی مسلمان کی صورت پرصلوۃ جنازہ کے متعلق کوئی کلام نہیں کیا؛ کیونکہ باب نکاح الکافر اس کا محل نہیں، تبعیت کی جتنی صورتیں ہیں ان میں سے کوئی شی بھی بچہ میں موجود نہیں؛ لہٰدا تبعیت کی وجہ سے اس پرصلوۃ جنازہ کا ترک بھی احوط معلوم ہوتا ہے۔ (فتاویٰ محمودیہ:۸/۶۳۴،مکتبہ شیخ الاسلام، دیوبند۔ فتاویٰ رحیمیہ:۷/۴۴، مکتبہ دارالاشاعت، کراچی)