انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** جنت کا رنگ نور اور رونق جنت کا رنگ سفید ہے: حدیث:حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عليكم بالبياض فإن الله تعالى خلق الجنة بيضاء فليلبسه أحياؤكم وكفنوا فيه موتاكم۔ (صفۃ الجنۃ ابونعیم:۱/۱۶۴۔ کامل ابن عدی:۲/۷۸۶۔ تہذیب التہذیب:۳/۲۸،۳۹) ترجمہ:تم سفید (رنگ) اختیار کرو؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جنت کوسفید پیدا کیا ہے؛ پس چاہیے کہ تمہارے زندہ لوگ سفید رنگ پہنیں اور اسی میں اپنے مردوں کوکفن دیا کرو۔ اللہ کی قسم! جنت چمکنے والا نور ہے: حدیث:حضرت اسامہ بن زیدؓ بیان فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: هِيَ وَرَبِّ الْكَعْبَةِ رَيْحَانَةٌ تَهْتَزُّ وَنُورٌ يَتَلَأْلَأُ۔ ترجمہ:رب کعبہ کی قسم! یہ (جنت) ایک طرح کا پھولوں کا گلدستہ ہے مست کردینے والا اور نور ہے چمکنے والا۔ جنت کی رونق اور روشنی: حدیث:حضرت عامر بن سعید اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جناب نبی کریمﷺنے ارشاد فرمایا: لَوْأَنَّ مَايُقِلُّ ظُفُرٌ مِمَّافِي الْجَنَّةِ بَدَا لَتَزَخْرَفَتْ لَهُ مَابَيْنَ خَوَافِقِ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَوْأَنَّ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ اطَّلَعَ فَبَدَا أَسَاوِرُهُ لَطَمَسَ ضَوْءَ الشَّمْسِ كَمَاتَطْمِسُ الشَّمْسُ ضَوْءَ النُّجُومِ۔ (ترمذی، كِتَاب صِفَةِ الْجَنَّةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،بَاب مَاجَاءَ فِي صِفَةِ أَهْلِ الْجَنَّةِ ،حدیث نمبر:۲۴۶۱، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:جونعمتیں جنت میں ہیں اگران میں سے اتنی مقدار بھی ظاہر ہوجائے جتنا کہ ناخن کے ساتھ لگ کرکوئی چیز آتی ہے تواس کی وجہ سے آسمانوں اور زمین کے کنارے جگمگااٹھیں اور اگرجنتیوں میں سے کوئی شخص جھانک لے اور اس کا کنگن ظاہر ہوجائے تواس کی روشنی سورج کی روشنی کواس طرح سے ماند کردے جس طرح سے سورج ستاروں کی روشنی کوماند کردیتا ہے۔ بغیردھوپ کی روشنی: حضرت زمیل بن سماک کے والد نے حضرت ابن عباسؓ سے پوچھا جنت کا نور کیسا ہوگا؟ آپ نے فرمایا: کیا تم نے وہ وقت نہیں دیکھا جوسورج نکلنے سے پہلے ہوتا ہے؟ جنت کا نور بھی ایسے ہوگا؛ مگراس میں نہ دھوپ ہوگی نہ سردی ہوگی۔ (صفۃ الجنۃ ابونعیم:۲/۵۴۔ کتاب العظمۃ ابوالشیخ:۶۰۱) آگے پیچھے سے نور چلتا ہوگا: اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: يَوْمَ تَرَى الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ يَسْعَى نُورُهُمْ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِمْ۔ (الحدید:۱۲) ترجمہ:جس دن (قیامت میں) آپﷺ مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کودیکھیں گے کہ ان کانور ان کے آگے اور ان کے داہنی طرف دوڑتا ہوگا۔ فائدہ: یہ فضیلت مسلمانوں کوان کے نیک اعمال کی وجہ سے قیامت کے دن عطاء ہوگی اور یہ معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کوجوفضیلت اور شان بخشیں گے اس کوکسی نہ کسی شکل میں قائم دائم رکھیں گے جنت میں داخل ہونے کے بعد واپس نہیں لیں گے؛ اس لیے جنت میں جنتیوں کاپورا جسم نور سے چمکتا ہوگا یاتویہ نور ان کے حسین جسموں کا ہوگا یاان کے اعمالِ صالحہ کا ہوگا یاجنت کا ہوگا،واللہ اعلم۔ جنتی کے جسم کی روشنی: حضرت محمدبن کعب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جنت میں بجلی کی طرح ایک چمک نظر آئے گی تو (نچلے درجہ کے جنتی حضرات کی طرف سے) پوچھا جائے گا یہ کیا تھا؟ تو(ان کو) بتایا جائے گا کہ یہ اعلیٰ درجات کے لوگوں میں سے ایک جنتی ہے جو ایک بالاخانہ سے دوسرے بالاخانہ کی طرف منتقل ہوا ہے۔ (صفۃ الجنۃ ابونعیم:۲/۵۵۔ مصنف ابن ابی شیبہ:۱۵۸۷۷) جنت کے مختلف صفات: حدیث:حضرت سعید بن المسیبؒ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: الجنۃ بیضاء تتلألأ واھلھا بیض، لاینام اھلھا لاشمس فیھا ولاقمر ولالیل یظلم ولابرد فیھا ولاحریؤ ذیہم (وصف الفردوس:۱۰) ترجمہ: جنت سفید چمکدار ہے اس کے ساکنین سفید رنگ کے ہوں گے اس کے رہائشی وسئیں گے نہیں، نہ اس میں سورج ہوگا نہ چاند، نہ اندھیرا کرنے والی رات ہوگی اور نہ ہی اس میں ٹھنڈ یاگرمی ہوگی جوجنتیوں کوایذا پہنچائے۔ جنت کے صبح وشام اور رات دن: اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: وَلَهُمْ رِزْقُهُمْ فِيهَا بُكْرَةً وَعَشِيًّا۔ (مریم:۶۲) ترجمہ:اور ان کوان کا کھانا صبح وشام ملا کرے گا۔ حضرت ضحاک رحمۃ اللہ علیہ مذکورہ آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے جنتیوں کے لیے گردش کرنے والی اسی طرح کی گھڑیاں بنائی ہیں جیسے دنیا کی گھڑیاں گردش کرتی ہیں، بغیر سورج کے اور چاند کے اور رات کے اور دن کے بس صرف آخرت کا نور ہوگا جس میں اللہ تعالیٰ نے صبح، دوپہر اور شام کومقرر کیا ہے؛ کیونکہ صبح، دوپہر اور شام سے لوگ لطف اندوز ہوتے ہیں؛ چنانچہ جب اللہ تعالیٰ اپنے اولیاء کی خواہش کوتیز کریں گے اور ان کورزق کی لذت کے ذائقے بخشنا چاہیں گے توان کے سامنے صبح وشام کی گردش کردیں گے۔ (صفۃ الجنۃ ابونعیم:۲۱۹) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جنت میں صبح وشام نہیں ہوں گے؛ مگران کے پاس (صبح وشام کے کھانے) رات دن کی مقدار کے مطابق پیش کئے جائیں گے۔ (صفۃ الجنۃ ابونعیم:۲۲۰) حضرت قتادہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں جنت والوں کوہرگھڑی رزق پہنچایا جائے گا، صبح وشام بھی دیگرگھڑیوں کی طرح دوگھڑیاں ہوں گی وہاں رات نہیں ہوگی؛ بلکہ روشنی اور نور ہوگا۔ (صفۃ الجنۃ ابونعیم:۲۲۱، اسنادہ صحیح۔ وکذااخرجہ الطبری فی تفسیرہ:۸/۱۰۲) صبح وشام کیسے معلوم ہوں گے: حضرت زہیر بن محمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں جنت میں رات نہیں ہوگی یہ لوگ ہمیشہ نور میں رہیں گے، ان کے لیے رات کی مقدار پردے چھوڑدینے سے معلوم ہوگی اور دن کی مقدار پردے اُٹھادینے سے معلوم ہوگی۔ (صفۃ الجنۃ ابونعیم:۲۲۳۔ تفسیرطبری:۱۶/۱۰۲،باسنادجید) جنت کے قندیل اور فانوس: حدیث:حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہﷺ سے پوچھا گیا کہ جنتیوں کے لیمپ اور چراغ کیسے ہوں گے؟ توآپ نے ارشاد فرمایا: هي قناديل معلقة بالعرش تضيء لأهل الجنة فوق العرش، لايطفأ نورها، ولايقصر عنها أبصارهم من النظر۔ (صفۃ الجنۃ ابونعیم:۲۱۴۔ تاریخ بغداد:۵/۷۹۔ کامل ابن عدی:۱/۱۹۸،۱۹۹) ترجمہ:یہ عرش سے لٹکنے والے فانوس ہوں گے عرش کے اوپر سے جنتیوں کے لیے روشنی پھیلائیں گے نہ توان کانور بجھے گا اور نہ ہی ان کودیکھنے سے جنتیوں کی آنکھیں خیرہ ہوں گی۔ جنت کی خوشبو کتنی فاصلہ سے مہکتی ہے؟ حدیث:حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے جناب رسول اللہﷺ سے سنا آپ نے ارشاد فرمایا: إِنَّ رِيحَ الْجَنَّةِ لَيُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ مِائَةِ عَامٍ۔ (صفۃ الجنۃ ابونعیم:۲/۴۱۔ نہایہ:۲/۴۹۴۔ بیہقی:۸/۱۳۳۔ شرح السنہ:۱۰/۱۵۱) ترجمہ:جنت کی خوشبو سوسال کے فاصلہ سے پائی جائے گی۔ ایک روایت میں ہے کہ چالیس سال کے فاصلہ تک محسوس ہوگی۔ (بخاری:۳۱۶۶، فی الجزیہ۔ حادی الارواح:۲۱۲) کون سے لوگ جنت کی خوشبو سے محروم رہیں گے؟ حدیث:حضرت ابن عمرورضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ترجمہ:جس (مسلمان) نے کسی معاہدی (ذمی کافر) کوقتل کیا وہ جنت کی خوشبو نہیں سونگھ سکے گا؛ جب کہ اس کی خوشبو سترسال کی مسافت (فاصلہ) سے محسوس ہوگی۔ (بدورالسافرہ:۱۸۳۵) حدیث:حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ترجمہ:جس شخص کواللہ تعالیٰ اپنی رعایا کا حکمران بنائے مگراس نے رعایا کونیکی کی تلقین نہ کی تووہ جنت کی خوشبو نہیں پاسکے گا۔ (بخاری واللفظ لہ:۱۳/۱۲۷، فتح الباری) ترجمہ:جس شخص نے والد کے علاوہ کسی اور کی طرف (اپنی ولدیت کی) نسبت کی تووہ جنت کی خوشبو نہیں سونگھ سکے گا جب کہ جنت کی خوشبو پانچ سو سال کے فاصلہ سے محسوس ہوگی۔ (ابن ماجہ:۲۶۱۱۔ مسند احمد:۲/۱۷۱۔ باسناد صحیح، بدوالسافرہ:۱۸۳۸) حدیث:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ترجمہ:جنت کی خوشبو پانچ سوسال کے سفر سے سونگھی جائے گی مگراس کی خوشبو کونیک عمل کا احسان جتلانے والا اور والدین کا نافرمان اور ہمیشہ شراب پینے والا نہیں سونگھ سکے گا۔ (طبرانی صغیر:۱/۱۴۵۔ حلیہ ابونعیم:۳/۳۰۷۔ بدورسافرہ:۱۸۳۹) حدیث: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بہت سی عورتیں (باریک یامختصر یاتنگ لباس پہنتی ہیں اور وہ اس حالت میں) ننگی (شمار ہوتی ہیں خود گناہ کی طرف) مائل ہوتی ہیں اور (دوسروں کوگناہ کی طرف) مائل کرتی ہیں، یہ جنت میں داخل نہیں ہوں گی اور نہ اس کی خوشبو پاسکیں گی جب کہ اس کی خوشبو پانچ سو سال کی مسافت سے پائی جائے گی۔ (مؤطا مالک:۳/۹۱۳، موقوفا) حدیث:حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ترجمہ:جنت کی خوشبو ایک ہزار سال کے فاصلہ سے بھی سونگھی جاسکے گی اللہ کی قسم اس کووالدین کا نافرمان اور قطع رحمی کرنے والا اور بوڑھا بدکار اور وہ شخص جوتکبر کی وجہ سے اپنی چادر اور شلوار کو (زمین پر) گھسیٹتا ہوگا نہیں سونگھ سکے گا۔ (بدورالسافرہ:۱۸۴۱) حدیث:حضرت ثوبانؒ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ترجمہ:جوعورت اپنے خاوند سے بلاوجہ طلاق کا مطالبہ کرے گی تواس پرجنت کی خوشبو تک سونگھنا حرام ہے۔ (ابوداؤد:۲۲۲۶۔ ابن ابی شیبہ:۵/۲۷۱۔ ترمذی، ابن ماجہ:۲۰۵۵) حدیث:حضرت عقبہ بن عامررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ترجمہ:جوشخص اس حالت میں فوت ہوتا ہے کہ اس کے دلمیں ایک مثقال کے برابر بھی تکبر موجود ہوتو اس شخص کے لیے جنت حلال نہیں ہوگی نہ تووہ اس کی خوشبوسونگھ سکے گا اور نہ ہی اس کودیکھ سکے گا۔ (مسنداحمد:۴/۱۵۱۔ بدورالسافرہ:۱۸۴۳) حدیث:حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ترجمہ:آخرزمانہ میں ایک قوم ایسی ہوگی جوکالاخضاب کرے گی جیسے کبوتروں کے پوٹے ہوتے ہیں یہ جنت کی خوشبو نہیں سونگھ سکیں گے۔ (ابوداؤد:۴۳۱۲۔ نسائی:۸/۱۳۸) فائدہ:حضرت انسؓ نے جنت کی خوشبو زمین پرپائی ہے جب کہ جنت سب آسمانوں سے اوپر ہے۔ (صفۃ الجنۃ ابن کثیر:۱۴۴) فائدہ:ان اعمال بد کی وجہ سے جنت کی خوشبو سے محروم رہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ جنت میں داخل نہیں ہوسکیں گے؛ ہاں جب یہ جہنم میں سزاپاچکیں گے یااللہ کی رحمت سے ان کی بخشش ہوجائے گی یایہ ان بُرے کاموں سے دنیا میں توبہ کرلیں گے اور ان کا گناہ معاف ہوجائے گا توان کوجنت کی خوشبو بھی پہنچے گی اور یہ جنت میں بھی جائیں گے۔ فائدہ:یہ جوجنت کی خوشبو کا مختلف مسافتوں سے پایا جانا احادیث میں وارد ہوا ہے یہ مختلف لوگوں کے اعمال ودرجات کے حساب سے ہے یااللہ کی تعالیٰ کی منشاء پرموقوف ہے وہ جس کوجتنے فاصلہ سے چاہے جنت کی خوشبو پہنچادے یاجنت کی خوشبو سے پردے ہٹادے۔ جنت ہمیشہ رہے گی: (آیت نمبر:۱) ارشادِ خداوندی ہے: وَأَمَّاالَّذِينَ سُعِدُوا فَفِي الْجَنَّةِ خَالِدِينَ فِيهَا مَادَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ إِلَّامَاشَاءَ رَبُّكَ عَطَاءً غَيْرَ مَجْذُوذٍ۔ (ھود:۱۰۸) ترجمہ:اور پس وہ لوگ جونیک بخت ہیں وہ جنت میں ہوں گے (اور) وہ اس میں (داخل ہونے کے بعد) ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے جب تک آسمان وزمین قائم ہیں (گوجنت میں جانے سے پہلے کچھ سزاگناہوں کی بھگت چکے ہوں وہ بھی جنت سے کبھی نہ نکلیں گے) ہاں! اگرخدا کوہی (نکالنا) منظور ہو تودوسری بات ہے (مگریہ یقینی ہے کہ خدا یہ بات کبھی نہ چاہے گا؛ پس نکلنا بھی کبھی نہ ہوگا بلکہ) وہ غیرمنقطع عطیہ ہوگا۔ (آیت نمبر:۲) ارشادِ خداوندی ہے: إِنَّ هَذَا لَرِزْقُنَا مَا لَهُ مِنْ نَفَادٍ۔ (ص:۵۴) ترجمہ:بیشک یہ (جنت) ہماری عطاء ہے جسے کبھی ختم ہی نہیں ہونا۔ (آیت نمبر:۳) ارشادِ خداوندی ہے: أُكُلُهَا دَائِمٌ وَظِلُّهَا۔ (الرعد:۳۵) ترجمہ:اس (جنت) کا پھل اور سایہ ہمیشہ رہے گا۔ (آیت نمبر:۴) ارشادِ خداوندی ہے: وَمَاهُمْ مِنْهَا بِمُخْرَجِينَ۔ (الحجر:۴۸) ترجمہ:اور وہ (جنتی) اس (جنت) سے نکالے نہیں جائیں گے۔ حدیث:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مَنْ يَدْخُلْ الْجَنَّةَ يَنْعَمْ وَلَايَبْؤسُ، وَيَخْلدُ۔ (صفۃ الجنۃ ابن کثیر:۹۶، بحوالہ:مسند احمد:۲/۳۷۰) ترجمہ:جوشخص جنت میں داخل ہوگا وہ ہمیشہ نعمتوں میں رہے گا؛ کبھی اکتائے گا نہیں اور ہمیشہ رہے گا؛ کبھی مرے گا نہیں۔ حدیث:حضرت ابوسعید خدری اور حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ جناب نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: يُنَادِي مُنَادٍ إِنَّ لَكُمْ أَنْ تَصِحُّوا فَلَاتَسْقَمُوا أَبَدًا وَإِنَّ لَكُمْ أَنْ تَحْيَوْا فَلَاتَمُوتُوا أَبَدًا وَإِنَّ لَكُمْ أَنْ تَشِبُّوا فَلَاتَهْرَمُوا أَبَدًا وَإِنَّ لَكُمْ أَنْ تَنْعَمُوا فَلَاتَبْأَسُوا أَبَدًا فَذَلِكَ قَوْلُهُ عَزَّ وَجَلَّ ﴿ وَنُودُوا أَنْ تِلْكُمْ الْجَنَّةُ أُورِثْتُمُوهَا بِمَاكُنْتُمْ تَعْمَلُونَ﴾ ۔ (صحیح مسلم، كِتَاب الْجَنَّةِ وَصِفَةِ نَعِيمِهَا وَأَهْلِهَا،بَاب فِي دَوَامِ نَعِيمِ أَهْلِ الْجَنَّةِ وقَوْله تَعَالَى، حدیث نمبر:۵۰۶۹، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ: (جنت میں داخل ہونے کے بعد جنتیوں کو) ایک منادی ندا کرے گا کہ تمہارے لیے خوشخبری ہے کہ تم صحت مندرہوگے کبھی بیمار نہ ہوگے اور تمہارے لیے یہ بھی خوشخبری ہے کہ تم زندہ رہو گے کبھی نہیں مروگے اور تمہاےلیے یہ بھی خوشخبری ہے کہ تم جوان رہو گے کبھی بوڑھے نہیں ہوگے اور تمہارے لیے یہ خوشخبری ہے کہ تم ناز اور نعمتوں میں رہو گے کبھی دکھ نہ دیکھو گے، اللہ تعالیٰ کا اسی کے متعلق ارشاد ہے کہ ان (جنت والوں) کوپکارا کرکہا جائے گا کہ یہ جنت تم کودی گئی ہے تمہارے اعمالِ (حسنہ) کے بدلہ میں۔ جنت کے دربان اور محافظ: اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَرًا حَتَّى إِذَاجَاءُوهَا وَفُتِحَتْ أَبْوَابُهَا وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا سَلَامٌ عَلَيْكُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوهَا خَالِدِينَ۔ (الزمر:۷۳) ترجمہ:اور جولوگ اپنے رب سے ڈرتے تھے وہ گروہ گروہ ہوکر جنت کی طرف روانہ کئے جائیں گے یہاں تک کہ جب اس (جنت) (کے پاس پہنچیں گے اور اس کے دروازے، پہلے سے)کھلے ہوئے ہوں گے (تاکہ داخل ہونے میں ذرا بھی دیر نہ لگے) اور وہاں کے محافظ (فرشتے) ان سے (بطورِ اکرام اور ثنا کے) کہیں گے السلام علیکم تم مزہ میں رہو اور اس (جنت) میں ہمیشہ رہنے کے لیے داخل ہوجاؤ۔ فائدہ:جنت کے تمام محافظ اور دربان فرشتوں کے سردار فرشتہ کا ذکر اس حدیث میں آپ پڑھیں گے جوصرف حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اکرام کے لیے خود جنت کا دروازہ کھولے گا۔ (مسلم:۱۹۷۔ مسند احمد:۳/۱۳۶) ایک حدیث مزید اس مضمون کی ذکرکی جاتی ہے جس سے جنت کے دربانوں کا علم حاصل ہوتا ہے۔ جناب صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کوجنت کے سب دربان داخلہ کے لیے پکاریں گے: حدیث:حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص (اپنے مال میں سے) اللہ کے راستہ (جہاد یاہرنیک موقع) میں جوڑا کرکے (یعنی جوچیز دے اس کا جوڑا کرکے دے جیسے دواونٹ، دوبکریاں وغیرہ یاکوئی چیز بھی دے اور اس کے ساتھ کوئی اور چیز بھی ملادے جیسے روپے دے توان کے ساتھ کپڑا بھی) دیدے تواس کوہردروازہ سے جنت کے دربان پکاریں گے کہ اے فلاں! ادھر سے داخل ہو۔ (بخاری:۱۸۹۷۔ مسلم:۱۰۲۷۔ ترمذی:۳۶۷۴) فائدہ:جنت کے سب بڑے خازن محافظ، منتظم، نگران، دربان کا نام رضوان فرشتہ ہے اس کا یہ رضوان نام رضا سے ماخوذ ہے۔ ادنی جنتی کے ہزار ناظم الامور اور ان کا حسن: حدیث: حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ جناب رسوال اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بينا هو،يعني آخر من يدخل الجنة، يمضي فيها، إذرأى ضوءا، فيخر ساجدا فيقال له: مالك ؟ فيقول: أليس هذا ربي تجلى لي؟ فإذا هوبرجل قائم فيقول: لاهذا منزل من منازلك، وأناقهرمان من قهارمتك ، ولك مثلي ألف قهرمان، ثم يمشي أمامه، فيدخل أدنى قصوره لايشرف على شيء منها إلاأنفذ بصره أقصى مملكته، ومملكته مسيرة مائة سنة۔ (صفۃ الجنۃ ابونعیم:۴۴۱۔حاکم:۴/۵۸۹۔ الترغیب والترہیب:۴/۳۹۱) ترجمہ:اخیر میں جنت میں داخل ہونے والا چل رہا ہوگا کہ اچانک وہ ایک قسم کانور دیکھے گا اور سجدہ میں گرپڑے گا، اس سے پوچھا جائے گا تجھے کیا ہوا؟ تووہ کہے گا کہ کیا یہ میرے رب نے میرے سامنے تجلی نہیں فرمائی؟ تواچانک اس کے سامنے ایک مرد کھڑا ہوگا وہ عرض کرے گا نہیں (یہ آپ کا رب نہیں بلکہ) یہ محلات میں سے ایک محل ہے اور میں آپ کے خدمت گار نگرانوں میں سے ایک خدمت گار نگران امورِ خدمات ہوں اور آپ کے لیے میرے جیسے ایک ہزار خدمت گار ہیں پھروہ جنتی اس خدمتگار کے آگے آگے چلے گا اور اپنے ادنی درجہ کے محل میں داخل ہوگا اور وہ جس شے پرنگاہ ڈالے گا (غایت لطافت وحسن کی وجہ سے) اس کی نظر اس کے تمام ملک (جنت) تک پہنچ جائے گی اور اس جنتی کی مملکت سوسال کے سفر کرنے کے برابر ہوگی۔