انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** جنگ طرابلس حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں پورے آزمودہ کار بہادر ہوگئے تھے ،اس لئے ان کے اصل کارناموں کا آغاز ہی اسی عہد سے ہوتا ہے چنانچہ اس عہد میں سب سے اول طرابلس کی جنگ میں شریک ہوئے، اس کی تسخیر درحقیقت عبداللہ ہی کی خوش تدبیر ی کا نتیجہ تھی، اس کی تفصیل یہ ہے کہ ۲۶ھ میں جب عبداللہ بن ابی سرح نے طرابلس پر حملہ کیا تو یہاں کا حاکم جر جیر ایک لاکھ بیس ہزار لشکر جرار کے ساتھ مقابلہ کو نکلا عرصہ تک دونوں میں نہایت پر زور مقابلہ ہوتا رہا، لیکن کوئی فیصلہ نہ ہوسکا،حضرت عثمانؓ کو میدان جنگ کے حالات کی کوئی خبر نہ ملتی تھی، اس لئے آپ نے ابن زبیرؓ کو ایک دستہ کے ساتھ دریافت حال کے لئے بھیجا، یہ طرابلس پہنچے تو مسلمانوں نے انہیں دیکھ کر نعرۂ تکبیر لگایا، جر جیر نے اس کا سبب پوچھا ،معلوم ہوا مسلمانوں کا امدادی دستہ آیا ہے، یہ سن کر وہ گھبراگیا،عبداللہ بن زبیرؓ کے آنے سے پہلے جنگ نہایت بے ترتیب ہورہی تھی مقابلہ کا کوئی وقت متعین نہ تھا، انہوں نے آتے ہی سب سے پہلے صبح سے دوپہر تک کا وقت مقابلہ کیلئے مقرر کیا ؛چنانچہ صبح سے لیکر دوپہر تک مقابلہ ہونے لگا بعد نماز ظہر مجاہدین اپنے اپنے خیموں میں چلے جاتے تھے۔ ابن زبیرؓ تمام مجاہدین کو میدان جنگ میں دیکھتے تھے،لیکن ابن ابی سرح انہیں کہیں نظر نہ آتا تھا، سبب پوچھا تو معلوم ہوا کہ جر جیرنے اعلان کیا ہے کہ جو شخص عبداللہ بن سعد کا سر لائیگا اس کو ایک لاکھ دینار انعام دیاجائے گا اور اپنی لڑکی اس کے ساتھ بیاہ دیگا، اس اعلان کی وجہ سے وہ کھلے بندوں نہیں نکلتا ہے ،یہ سن کر ابن زبیرؓ عبداللہ بن سعد کے پاس گئے اوراس سے کہا کہ اس میں خوف کی کیا بات ہے تم بھی اعلان کرادو کہ جو شخص جرجیر کا سرلائیگا اس کو ایک لاکھ نقد انعام دیا جائے گا ، اس کی لڑکی اس کے ساتھ بیاہ دی جائے گی اوراس کے پورے ملک کا اسے حکمران بنادیا جائے گا، ابن زبیرؓ کے اس مشورہ کے مطابق عبداللہ بن سعد بن ابی سرح نے یہ اعلان کرادیا، اس اعلان پر جرجیر عبداللہ بن سعد سے بھی زیادہ ہراساں ہوگیا۔ لیکن جنگ پر اس کا کوئی اثر نہ پڑا وہ برابر طول کھینچتی چلی جارہی تھی اورکوئی فیصلہ نہ ہوتا تھا،ایک دن ابن زبیرؓ ابن ابی سرح سے کہا کہ جنگ کا سلسلہ ختم ہونے میں نہیں آتا ہم لوگ اپنے ملک سے بہت دور ہیں ہمارا حریف اپنے ملک کے اندر ہے، اس کو ہر طرح مدد مل رہی ہے اس لئے میرا مشورہ یہ ہے کہ کل ہم لوگ فوج کے ایک حصہ کو آرام کرنے دیں اورایک حصہ کو لیکر مقابلہ کیلئے نکلیں جب معمول کے مطابق رومی تھک کر لوٹ جائیں تو ہم لوگ تازہ دم فوج لیکر فوراً حملہ کردیں،اس تدبیر سے ممکن ہے خدا ہمیں کامیاب کردے ابن ابی سرح نے یہ مشورہ عام صحابہ کے سامنے پیش کیا، سب نے اس مفید تجویز کی تائید کی ؛چنانچہ دوسرے دن اسلامی فوج کے تمام منتخب بہادروں کو سازوسامان سے لیس کرکے خیموں میں چھوڑ دیا گیا اور باقی مسلمان میدان میں نکلے، صبح سے دوپہر تک نہایت زور دار مقابلہ ہوتا رہا، بعد دوپہر جب معمول کے مطابق رومیوں نے اپنے خیموں میں لوٹنا چاہا تو ابن زبیرؓ نے اس کا موقع نہ دیا اور برابر جنگ کا سلسلہ جاری رکھا، جب فریقین تھک کر چور ہوگئے تو ایک دوسرے سے الگ ہوکر اپنے اپنے لشکر گاہ پر لوٹ گئے رومیوں کے واپس جاتے ہی ابن زبیرؓ تازہ دم فوج لیکر پہنچ گئے اور رومیوں پر اس طرح اچانک ٹوٹ پڑے کہ ان کو ہتھیار سنبھالنے کا موقع بھی نہ مل سکا اورانہوں نے نہایت فاش شکست کھائی اس معرکہ میں جرجیر کی لڑکی بھی گرفتار ہوئی۔ رومیوں کو میدان سے بھگانے کے بعد ابن ابی سرح نے محاصرہ کرکے شہر فتح کرلیا اس میں اتنا مال غنیمت ہاتھ آیا کہ فی سوار تین تین ہزار اور فی پیادہ ایک ایک ہزار دینار حصہ میں پڑا، سبیطلہ کی فتح کے بعد ابن ابی سرح نے سارے طرابلس میں اپنی فوجیں پھیلادیں اورابن زبیرؓ فتح کا مژدہ لیکر مدینہ واپس گئے اس طرح طرابلس کی فتح کا سہرا درحقیقت ابن زبیرؓ ہی کے سررہا۔ (ابن اثیر:۳/۶۸،۷۰)