انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حکم کی مدافعت سلطان حکم بن ہشام نے سب سے پہلے طلیطلہ کی بغاوت کا حال سنااور فوراً فوج لےکر طلیطلہ کا محاصرہ کرلیا،وہاں عبداللہ نے مدافعت میں مستعدی دکھائی، ابھی اس محاصرہ کے کوئی نتیجہ نہ نکلا تھا کہ شمالی اندلس کے قبضہ سے نکل جانے اور عیسائیوں کے حملہ آور ہونے کی اطلاع پہنچی،سلطان حکم نے عیسائی حملہ کواپنے چچاؤں کی بغاوت زیادہ اہم اور خطرناک سمجھ کرطلیطلہ سے محاصرہ اٹھاکرفوراً شمال کی جانب کوچ کردیا،حکم کے قریب پہنچنے کی خبر سن کرشارلیمین کی افواج برشلونہ اور نواح برشلونہ سےنہایت عجلت کے ساتھ فرار ہوگئیں اور اس طرح فرار ہوئی کہ راستہ میں کسی جگہ انہوں نے ٹھہرنا اور دم لینا مناسب نہیں سمجھا،بلکہ فرانس ہی میں جاکر دم لیا ،اس کے بعد سلطان حکم دشقہ اور لاردہ کی جانب متوجہ ہوا ،وہاں ککی عیسائی افواج بھی قتل وغارت کے ہنگامے برپا کرنے کے بعد سلطان حکم کے قریب پہنچنے کی خبر سن کر بھاگ گئی، اور اکیٹیون میں جاکر دم لیا،سلطان نے اندلس کا علاقہ عیسائیوں سے خالی کرکرکوہ پیری نیز جبل البرتات کے شمال میں پہنچ کر فرانس کے جنوبی حصہ کو تاخت وتاراج کیا اور شہر ناربون کو عیسائیوں سے چھین لیا،ادھر حکم عیسائیوں کے تعاقب میں جنوبی فرانس تک پہنچ گیا ،ادھر عبداللہ وسلیمان نے موقع پاکراندلس کے شہروں پر قبضہ کرنا اور سلطان حکم کے عاملوں کو بےدخل کرناشروع کیا ،یہ دونوں بھی فتوحات کرتے ہوئے دریائے ٹیگس پرایک دوسرے سےآملےمگر اس کے بعد انہوں نے اپنی فتحات کو جاری نہیں رکھا بلکہ دونوں اس بات کا انتظار کرنے لگے کہ فرانس میں حکم کے ساتھ کیا معاملہ پیش آتا ہے یہ دونوں اس بات کے خواہش مند تھے کہ فرانسیسی حکم پر غالب آجائیں اور حکم کا وہیں خاتمہ ہوجائے تو ہم تمام ملک اندلس پر قابض ومتصرف ہوکر اپنی حکومت شروع کریں،اسی طرح حکم کے عامل بھی اسی انتطار میں اپنی اپنی جگہ خوموش اور متامل تھے کہ دیکھئے حکم کے اس عاجلانہ حملہ کا کیانتیجہ نکلتا ہے،اگر خدا نخواستہ حکم میں فرانس میںمارا جاتا تو تمام عامل بخوشی سلیمان وعبداللہ کی اطاعت قبول کرلیتے ،کیونکہ یہ دونوں امیر عبادلرحمن کے بیٹے تھے،مگر فرانس میں جب حکم داخل ہوا تو وہاں کی افواج پراس قدر رعب طاری ہوا کہ وہ اس آگے ہر مقام پر بھاگتی ہوئی نظر آئیں ممکن تھا کہ حکم اس ملک کو فتح کرکے اپنی حکومت مںی شامل کرنے اور اپنے عامل مقرر کرنے کی کوشش کرتا اور کچھ روز فرانس میں گزارتا لیکن اس کو معلوم تھا کہ اندلس کے اندر کیسے طاقتور دشمن موجود ہیں اور وہاں اس کی غیر موجودگی کس قدر مضر ثابت ہوسکے گی چنانچہ وہ عیسائیوں کو خوف زدہ بناکر فوراً ہی اندلس کی جانب لوٹا۔