انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** (۴)امام ترمذی ؒ (۲۷۹ھ) امام محمدبن عیسیٰ بن سورہ ترمذی کی کنیت ابوعیسیٰ ہے، ترمذ دریائے جیحوں ساحل پر واقع ہے، امام ترمذی کوحضرت امام بخاریؒ، امام مسلمؒ اور امام ابوداؤدؒ سے شرفِ تلمذ ہے، جامع ترمذی میں آپ نے امام مسلمؒ سے صرف ایک روایت لی ہے (احصواہلال شعبان لرمضان، جامع ترمذی:۱/۸۷۱) امام بخاریؒ نے آپ سے آپ کے استاد ہونے کے باوجود دوروایتیں لی ہیں، امام ترمذی نے باب مناقب علی اور کتاب التفسیر (سورۂ حشر) میں ان دونوں روایتوں کی نشاندہی بایں الفاظ کی ہے "سَمِعَ مِنِّي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ" (ترمذی، حدیث نمبر:۳۲۲۵، شاملہ، موقع الإسلام) (یہ حدیث امام بخاریؒ نے مجھ سے لی ہے) وکیع کہتے ہیں انسان کا علم کامل نہیں ہوتا؛ اگروہ اپنے سے کم مرتبہ اور اپنے ہم مرتبہ علماء حدیث سے روایت لینے میں عار محسوس کرے (نقل بالمعنی) آپ نے طلب علم میں چند اساتذہ پر اکتفاء نہیں کی، طلبِ حدیث میں حجاز، مصر، شام، کوفہ، بصرہ، بغداد اور خراسان کے متعدد سفر کیئے، حافظ ابنِ حجررحمہ اللہ لکھتے ہیں: "طاف البلاد وسمع خلقاً من الخراسیین والعراقیین والحجازیین"۔ (تہذیب التہذیب:۹/۳۸۸) ترجمہ: آپ نے دنیابھر کا چکر لگایا، خراسانی علماء، عراقی علماء اور حجازی علماء سے آپ نے حدیث سنی۔ علماء لکھتے ہیں امام بخاریؒ نے اپنے شاگردوں میں علم وحفظ اور ورع وزہد میں امام ترمذی کی مثل کوئی نائب نہیں چھوڑا، آپ نے سب سے زیادہ فیض امام بخاریؒ سے پایا ہے؛ لیکن آپ امام بخاریؒ کے محض پیرونہ تھے، اختلاف کے موقع پر آپ اپنی بات پوری قوتِ دلیل سے کہتے ہیں، امام بخاریؒ نے حدیث "لَاصَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ" کومقتدی پر بھی چسپاں کیا تھا، امام ترمذیؒ نے یہاں ان کی پوری مخالفت کی ہے اور حضرت جابربن عبداللہ انصاریؓ کی روایت لاکر امام بخاریؒ کے استاد حضرت امام احمد سے اس کا یہ معنی نقل کیا ہے: "وَأَمَّاأَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ فَقَالَ مَعْنَى قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَاصَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ إِذَاكَانَ وَحْدَهُ وَاحْتَجَّ بِحَدِيثِ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ"۔ (ترمذی،كِتَاب الصَّلَاةِ،بَاب مَاجَاءَ فِي تَرْكِ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ إِذَاجَهَرَ الْإِمَامُ بِالْقِرَاءَةِ، حدیث نمبر:۲۸۷، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ: یہ حدیث اکیلے نماز پڑھنے والے کے بارے میں ہے امام والے کے لیے نہیں اور اس پر حضرت جابر بن عبداللہ کی حدیث گواہ ہے۔ امام ابوداؤد امام احمد کے مقلد تھے، وہ اپنے امام کی تائید میں حضرت سفیان بن عیینہؒ (۱۹۸ھ) سے بھی حدیث "لَاصَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ فَصَاعِدًا" کا یہی معنی نقل کرتے ہیں (سنن ابی داؤد:۱/۱۱۹) "لِمَنْ يُصَلِّي وَحْدَهُ" یہ حدیث منفرد کے لیے ہے، مقتدی کی نماز سورۂ فاتحہ پڑھے بغیر ہوجاتی ہے۔ تراویح کے مسئلہ میں آپ نے امام احمد کی بات نقل نہیں کی، ان سے کئی روایات تھیں؛ یہاں آپ کھل کر امام شافعی کی با ت نقل کرتے ہیں کہ اکثراہلِ علم حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ کے اس فیصلہ پر ہیں کہ تراویح بیس رکعت ہی مروی ہیں اور امام شافعیؒ نے فرمایا ہے کہ میں نے مسجدِ حرام میں لوگوں کو بیس رکعت پڑھتے ہی پایا ہے۔ (جامع ترمذی:۱/۹۹) آپ کی کنیت ابوعیسیٰ ہے؛ چونکہ حضرت عیسیٰ کا کوئی باپ نہ تھا اس لیے بعض علماء اسے جائز نہیں سمجھتے، ابن ابی شیبہ (۲۳۵ھ) نے المصنف میں ایک باب باندھا تھا "بَابُ مَایُکْرَہُ لِلرجل ان یکتنی بابی عیسیٰ" مگر امام ابوداؤدؒ (۲۷۵ھ)نے سنن میں "بَاب فِيمَنْ يَتَكَنَّى بِأَبِي عِيسَى" (سنن ابی داؤد:۱/۶۷۸) میں اس کے لیے کچھ گنجائش رکھی ہے۔ ترمذی کے نام سے ایک اور محدث بھی مشہور ہیں، نوادرالاصول ان کی کتاب ہے، انہیں عام طور پر حکیم ترمذیؒ کہا جاتا ہے، ایک ترمذی کبیر کے نام سے بھی معروف ہیں، یہ ابوالحسن احمد بن حسن ہیں، امام احمد کے شاگرد اور امام ترمذیؒ (۲۷۹ھ) کے استاد ہیں، امام ترمذیؒ کی تصانیف میں کتاب العلل اور کتاب الشمائل کی بھی بہت شہرت ہے، شمائل ترمذی دورۂ حدیث میں بھی پڑھائی جاتی ہے۔ جامع ترمذی حدیث کے آٹھوں قسم کے مضامین پر مشتمل ہے (۱)سیر (۲)آداب (۳)تفسیر (۴)عقائد (۵)احکام (۶)اشراط الساعۃ (۷)مناقب (۸)فتن، ترتیب فقہی سے آپ پہلے کتاب الطہارۃ لائے ہیں، اس لیے اسے سنن ترمذی بھی کہہ دیتے ہیں؛ مگرمضامین کی جامعیت کے لحاظ سے جامع بخاری کے بعد یہ کتاب ہے، جسے بجاطور پر جامع ترمذی کہا جاسکتا ہے، ابواسماعیل اصبہانی کہتے ہیں: "کتاب ابی عیسیٰ افید من کتاب البخاری ومسلم" حدیث کے مجموعی فوائد اور موضوع پر سیرحاصل نظرکے پہلو سے جامع ترمذی حدیث کی سب سے اعلیٰ کتاب ہے، عراقیوں اور حجازیوں کے اختلافات میں ہرپہلو پرعلیحدہ باب باندھتے ہیں، سنن کے ابواب میں ایک حدیث لاتے ہیں اور پھراس باب میں جتنے صحابہ کی مرویات ان کی نظر میں ہوتی ہیں "وفی الباب عن فلان عن فلان" کہہ کر ان کے نام گنواتے چلے جاتے ہیں، اب یہ بات دوسروں کے ذمہ ہے کہ ان روایات کی تلاش کریں کہ کس کس سند سے انہیں کس کس کتاب میں روایت کیا گیا ہے، اِس پہلو سے امام ترمذیؒ قاری کتاب کے ہاتھ میں ایک ایسی کنجی دے دیتے ہیں جس سے وہ علم کے خزانہ پر ہمیشہ دستک دیتا رہے، یہ انوکھا اور اچھوتا انداز ائمہ صحاح میں سے اور کسی کے ہاں نہیں ملتا، اس پہلو سے جامع ترمذی حدیث کی مفید ترین کتاب ہے۔ حدیث کی ثلاثی تقسیم (صحیح، حسن اور ضعیف) گواپنی جگہ پہلے سے موجود تھی؛ مگرمتنِ حدیث کے ساتھ اس کی نشاندہی حدیث کی کسی اور کتاب میں اس طرح نہیں ملتی، جس طرح ہم اسے جامع ترمذی میں دیکھتے ہیں، امام ترمذی علم وفن کوموتیوں کی طرح پروتے چلے جاتے ہیں، امام ترمذیؒ کے ہاں ضعیف احادیث بھی بہت ملتی ہیں، اس سے پتہ چلتا ہے کہ ضعیف حدیثیں محدثین کے ہاں کلیۃً متروک یامردود نہ سمجھی جاتی تھیں؛ نہ انہیں موضوع قرار دیا جاتا تھا؛ بلکہ ان کا بھی ایک علمی وزن ہوتا ہے جسے مجتہدین اور ماہرینِ فن ہی جانتے تھے، امام ترمذیؒ ائمہ وامصار کے مذاہب پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں اور مختلف ابواب میں ان مذاہب کا بھی تذکرہ کرتے جاتے ہیں، امام ترمذیؒ (۲۷۹ھ) ثقہ ہیں اور ان کی ثقاہت مجمع علیہ ہے، علامہ ابن حزم (۴۵۷ھ) نے انہیں مجہول لکھا ہے، یہ صحیح نہیں، اصل بات یہ ہے کہ ابن حزم کی جامع ترمذی اور ان کی کسی کتاب تک رسائی ہی نہ ہوئی تھی اور وہ انہیں جان نہ پائےتھے، اِسی طرح ملا علی قاری سے بھی ایک تسامح ہوا ہے، انہوں نے امام ترمذیؒ کی ایک روایت کو ثنائی (جودو واسطوں سے حضورﷺ تک پہنچے) تسلیم کیا ہے (دیکھئے: مرقات شرح مشکوٰۃ:۱/۲۱) حالانکہ ان کے شیوخ امام بخاریؒ، امام مسلمؒ اور امام ابوداؤدؒ کے ہاں جوسب سے بڑی عالی سند ہے، وہ ثلاثیات کی ہے۔