انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** غزوات ودیگر حالات غزوات ہجرت مدینہ کے بعد بھی مشرکین نے مسلمانوں کو سکون واطمینان سے بیٹھنے نہیں دیا اوراب تحقیر وتذلیل کے بجائے اسلام کی روز افزوں ترقی سے خائف وہراساں ہوکر تیر وتفنگ اورتیغ وسنان کی قوت سے اس کی بیخ کنی پر آمادہ ہوئے؛چنانچہ ۴ھ سے فتح مکہ تک خونریز جنگوں کا سلسلہ قائم رہا،حضرت عثمان ؓ اگرچہ فطرتاً سپاہیانہ کاموں کے لئے پیدا نہیں ہوئے تھے،تاہم وہ اپنے محبوب ہادی طریقت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جانثاری وفداکاری میں کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ غزوۂ بدر اورحضرت رقیہ ؓ کی علالت کفرواسلام کی سب سے پہلی جنگی آویزش جو بدرکی صورت میں ظاہر ہوئی حضرت عثمان ؓ اس میں ایک اتفاقی حادثہ کے باعث شریک ہونے سے مجبوررہے،آپ کی اہلیہ محترمہ اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نور نظر حضرت رقیہ ؓ بیمار ہوگئی تھیں ،اس لئے حضور پورنور صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ میں تیمارداری کے لئے چھوڑ دیا اور فرمایا تم کو شرکت کا اجر و مال غنیمت کا حصہ دونوں ملے گا،(بخاری، کتاب المناقب، باب مناقب عثمان ؓ)اور خود تین سو سترہ قدسیوں کے ساتھ بدر کی طرف تشریف لے گئے۔ حضرت رقیہ ؓ کا یہ مرض درحقیقت پیام موت تھا، غمگسار شوہر کی جانفشانی وتندہی سب کچھ کرسکتی تھی ؛لیکن قضائے الہی کو کیونکر رد کرتی، مرض روز بروز بڑھتا گیا ،یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی غیر حاضری ہی میں چند روز بعد وفات پاگئیں، اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ حضرت عثمان ؓ اورحضرت اسامہ بن زید اس ملکہ جنت کی تجہیز وتکفین میں مشغول تھے کہ نعرہ تکبیر کی صداآئی ،دیکھا تو حضرت زید بن حارثہ سرورِکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے ناقہ پر سوار فتح بدر کا مژدہ لے کر آرہے ہیں،محبوب بیوی اوروہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نورِنظر کی وفات کا سانحہ کوئی معمولی سانحہ نہ تھا، اس حادثہ کے بعد حضرت عثمان ؓ ہمیشہ افسردہ خاطررہتے تھے،کچھ اسلام کی پہلی امتحان گاہ (بدر) سے محرومی کا بھی افسوس تھا۔ حضرت عمرؓ نے ہمدردی کے طورپر کہا کہ جو ہونا تھا ہوگیا، اب اس قدر رنج وغم سے کیا فائدہ؟ حضرت عثمان ؓ نے کہا افسوس! میں جس قدر اپنی محرومی قسمت پر ماتم کروں کم ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ قیامت کے دن میری قرابت کے سوا تمام قرابت داریاں منقطع ہوجائیں گی، افسوس کہ میرارشتہ خاندان رسالت سےٹوٹ گیا۔ (کنرالعمال ج۶ : ۳۷۹) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی دلدہی فرمائی اورچونکہ ان کو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی کی تیمارداری کے لئے چھوڑدیا تھا جس کے باعث وہ بدر میں شریک نہ ہوسکے تھے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بھی مجاہد قرار دیا اور بدر کے مال غنیمت میں سے ایک مجاہد کے برابر حصہ ان کو عنایت فرمایا اور بشارت دی کہ وہ اجر وثواب میں بھی کسی سے کم نہیں رہیں گے،اس سے بڑ ھ کر یہ کہ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دوسری صاحبزادی حضرت ام کلثوم ؓ سے ان کا نکاح کردیاااور خاندانِ رسالت سے دوبارہ ان کا تعلق قائم ہوگیا۔ غزوہ بدر کے بعد اور جس قدر معرکے پیش آئے سب میں حضرت عثمان ؓ، پامردی، استقلال،اورمردانہ شجاعت کے ساتھ رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمرکاب رہے اور ہرموقع پر اپنی اصابت رائے اور جوش وثبات کے باعث آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست وبازو ثابت ہوئے۔ غزوہ احد شوال ۳ھ میں جب غزوۂ احد پیش آیا تو پہلے غازیان دین کے غنیم کو شکست دے کر میدان سے بھگادیا؛لیکن وہ مسلمان تیر انداز جو عقب کی حفاظت کررہے تھے ،اپنی جگہ چھوڑ کر مال غنیمت جمع کرنے لگے،کفار نے اس جنگی غلطی سے فائدہ اٹھایا اور پیچھے سے اچانک حملہ کردیا،مسلمان اس سے غافل تھے اس لئے اس ناگہانی حملہ کو روک نہ سکے اور بے ترتیبی سے منتشر ہوگئے،اسی اثنا میں مشہور ہوگیا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے شہادت پائی،اس افواہ نے جان نثاروں کےحواس اوربھی گم کردئے،سوائے چند آدمیوں کے جو جہاں تھا وہیں متحیر ہوکر رہ گیا،حضرت عثمان ؓ بھی ان ہی لوگوں میں تھے۔ جنگ احدمیں صحابہ ؓ کا منتشر ہوجانا اگرچہ ایک اتفاقی سانحہ تھا جو مسلمان تیر اندازوں کی غلطی کے باعث پیش آیا تاہم لوگوں کو اس کا سخت ملال تھا،خصوصاً حضرت عثمان ؓ نہایت پشیمان تھے؛لیکن یہ اتفاقی غلطی تھی،اس لئے خدائے پاک نے وحی کے ذریعہ سے عفوعام کی بشارت دے دی۔ اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَلَّوْا مِنْکُمْ یَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعٰنِo اِنَّمَا اسْتَزَلَّھُمُ الشَّـیْطٰنُ بِبَعْضِ مَا کَسَبُوْoوَلَقَدْ عَفَا اللہُ عَنْھُمْo اِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ (اٰل عمران:۱۵۵) جن لوگوں نے اس دن پیٹھ پھیری جب دونوں لشکر ایک دوسرے سے ٹکرائے،در حقیقت ان کے بعض اعمال کے نتیجے میں شیطان نے ان لوگوں کو لغزش میں مبتلا کردیا تھا،اور یقین رکھو کہ اللہ نے ان کو معاف کردیا ہے،یقیناً اللہ بہت معاف کرنے والا،بڑا بردبار ہے۔ دیگر غزوات غزوہ احد کے بعد ۴ھ میں غزوہ ذات الرقاع پیش آیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب اس مہم میں تشریف لے گئے تو حضرت عثمان ؓ کو مدینہ میں قائم مقامی کا شرف حاصل ہوا،(طبقات بن سعد قسم اول جزوثالث) پھر بنو نضیر کی جلاوطنی عمل میں آئی، اس کے بعد ۵ھ میں غزوہ ٔخندق کا معرکہ پیش آیا،حضرت عثمان ؓ ان تمام مہمات میں شریک تھے، ۶ھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زیارت کعبہ کا قصد فرمایا، حدیبیہ پہنچ کر معلوم ہوا کہ مشرکین آمادہ پر خاش ہیں ؛چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لڑنا مقصود نہیں تھا،اس لئے مصالحت کےخیال سے حضرت عثمان ؓ کو سفیر بنا کر بھیجا۔ سفارت کی خدمات یہ مکہ پہنچے تو کفار قریش نے ان کو روک لیا اورسخت نگرانی قائم کردی کہ وہ واپس نہ جانے پائیں جب کئی دن گزرگئے اورحضرت عثمان ؓ کا کچھ حال نہیں معلوم ہوا تو مسلمانوں کو سخت تردد ہوا، اسی حالت میں افواہ پھیل گئی کہ وہ شہید کردیئے گئے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خبر سن کر حضرت عثمان ؓ کے خون کے انتقام کے لئے صحابہ ؓ سے جو تعداد میں چودہ سو تھے، ایک درخت کے نیچے بیعت لی اورحضرت عثمان ؓ کی طرف سے خود اپنے دست مبارک پر دوسراہاتھ رکھ کر بیعت لی،یہ حضرت عثمان ؓ کے تاج فخر کا وہ طرۂ شرف ہے جوان کے علاوہ اورکسی کے حصہ میں نہ آیا۔ ایک دفعہ ایک خارجی نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے دریافت کیا،کیا یہ سچ ہے کہ حضرت عثمان ؓ نے بیعت رضوان نہیں کی،آپ نے جواب دیا کہ ہاں عثمان ؓ اس وقت موجود نہ تھے مگر اس ہاتھ نے ان کی طرف سے قائم مقامی کی جس سے بہتر کوئی دوسراہاتھ نہیں،(سیرت ابن ہشام ج۲ : ۱۶۶ ،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اعزاز عطا فرمانے کا ذکر بخاری کتاب المناقب باب مناقب عثمان ؓ میں بھی ہے اور واقعات کی تفصیلات بخاری کتاب الشر وط والمصالحۃ مع اہل حرب میں ہے)لیکن درحقیقت یہ بیعت تو حضرت عثمان ؓ کے خون کے انتقام کے لئے منعقد ہوئی تھی، اس سے بڑھ کر شرف اورکیا ہوسکتا ہے،آخر میں مشرکین قریش نے مسلمانوں کے جوش سے خائف ہوکر مصالحت کرلی اورحضرت عثمان ؓ کو چھوڑدیااور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سال بغیر عمرہ کیے اپنے فدائیوں کے ساتھ مدینہ واپس چلے آئے۔ ۷ھ میں معرکۂ خیبر پیش آیا،پھر ۸ھ میں مکہ فتح ہوا، اسی سال ہوازن کی جنگ ہوئی جو غزوہ حنین کے نام سے مشہور ہے،حضرت عثمان ؓ ان تمام معرکوں میں شریک رہے۔ غزوہ تبوک اور جیش عسرہ کی مدد ۹ھ میں یہ خبر مشہور ہوئی کہ قیصر روم عرب پر حملہ آور ہونا چاہتا ہے ،اس کا تدارک ضروری تھا؛لیکن یہ زمانہ نہایت عسرت اورتنگی کا تھا، اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت تشویش ہوئی اور صحابہ ؓ کو جنگی سامان کے لئے زرومال سے اعانت کی ترغیب دلائی،اکثرلوگوں نے بڑی بڑی رقمیں پیش کیں، حضرت عثمان ؓ ایک متمول تاجر تھے، اس زمانہ میں ان کا تجارتی قافلہ ملک شام سے نفع کثیر کے ساتھ واپس آیا تھا، اس لئے انہوں نے ایک تہائی فوج کے جملہ اخراجات تنہا اپنے ذمہ لے لئے،ابن سعد کی روایت کے مطابق غزوہ تبوک کی مہم میں تیس ہزار پیادے اور دس ہزار سوار شامل تھے، اس بنا پر گویا حضرت عثمان ؓ نے دس ہزار سے زیادہ فوج کے لئے سامان مہیا کیا اور اس اہتمام کے ساتھ کہ اس کے لئے ایک ایک تسمہ تک ان کےروپے سے خریدا گیا تھا، اس کے علاوہ ایک ہزار اونٹ ،ستر گھوڑے اور سامان رسد کے لئے ایک ہزار دینار پیش کئے،حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس فیاضی سے اس قدر خوش تھے کہ اشرفیوں کو دست مبارک سے اچھالتے تھے اور فرماتے تھے:ماضر عثمان ما عمل بعد ھذاالیوم (آج کے بعد عثمان کا کوئی کام اس کو نقصان نہیں پہنچائے گا)۔ (مستدرک حاکم ج۳ : ۱۰۲) ۱۰ھ میں سید البشر صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری حج کیا جو حجۃ الوداع کے نام سے موسوم ہے،حضرت عثمان ؓ بھی ہمرکاب تھے،حج سے واپس آنے کے بعد ماہ ربیع الاول ۱۱ھ کی ابتداء میں سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے اور بارہویں ربیع الاول دوشنبہ کے دن رہگزین عالم جاوداں ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سقیفہ بنی ساعدہ میں حضرت ابوبکر ؓ کے دست مبارک پر خلافت کی بیعت ہوئی،خلافت صدیقی میں حضرت عثمان ؓ مجلس شوریٰ کے ایک معتمدرکن تھے، سوادوبرس کی خلافت کے بعد حضرت ابوبکرصدیق ؓ نے بھی رحلت فرمائی اورحضرت ابوبکر ؓ کی وصیت اورعام مسلمانوں کی پسندیدگی سے حضرت فاروق اعظم ؓ مسند آرائے خلافت ہوئے،حضرت عمر ؓ کے استخلاف کا وصیت نامہ حضرت عثمان ؓ ہی کے ہاتھ سے لکھا گیا تھا، اس سلسلہ میں یہ بات لحاظ رکھنے کے قابل ہے کہ وصیت نامہ کے دوران کتابت میں کسی خلیفہ کا نام لکھانے سے قبل حضرت ابوبکرؓ پر غشی طاری ہوگئی،حضرت عثمان ؓ نے اپنی عقل وفراست سے سمجھ کر اپنی طرف سے حضرت عمرؓ کا نام لکھ دیا، حضرت ابوبکر ؓ کو ہوش آیا تو پوچھا کہ پڑھو کیا لکھا؟ انہوں نے سنانا شروع کیا اورجب حضرت عمر ؓ کانام لیا توحضرت ابوبکر صدیق بے اختیار اللہ اکبرپکار اُٹھے اور عثمان ؓ کی اس فہم وفراست کی بہت تعریف وتوصیف کی۔ (ابن سعد جز۳ قسم اول ،تذکرہ ابوبکر ؓ) تقریبا ًدس برس خلافت کے بعد ۲۳ ھ میں حضرت عمر ؓ نے بھی سفر آخرت اختیار کیا، مرض الموت میں لوگوں کے اصرار سے عہد خلافت کے لئے چھ آدمیوں کا نام پیش کیا کہ ان میں سے کسی کو منتخب کرلیا جائے ،علی ؓ،عثمان ؓ، زبیر ؓ،طلحہ ؓ، سعد بن وقاص ؓ،عبدالرحمن بن عوف ؓ، اورتاکید کی کہ تین دن کے اندر انتخاب کا فیصلہ ہونا چاہئے۔ (ابن سعد تذکرۃ عثمان ؓ) فاروق اعظم ؓ کی تجہیز وتکفین کے بعد انتخاب کا مسئلہ پیش ہوا اور دودن تک اس پر بحث ہوتی رہی ؛لیکن کوئی فیصلہ نہ ہوا،آخر تیسرے دن حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ نےکہا کہ وصیت کے مطابق خلافت چھ آدمیوں میں دائر ہے؛لیکن اس کو تین شخصوں تک محدود کردینا چاہئے،اورجو اپنے خیال میں جس کو مستحق سمجھتا ہوا اس کا نام لے، حضرت زبیر ؓ نے حضرت علی مرتضی ؓ کی نسبت رائے دی، حضرت سعد نے حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ کا نام لیا،حضرت طلحہ ؓ نے حضرت عثمان ؓ کو پیش کیا،حضرت عبدالرحمن بن عوف نے کہا میں اپنے حق سے باز آتا ہوں ،اس لئے اب یہ معاملہ صرف دو آدمیوں میں منحصر ہے اور ان دونوں میں سے جو کتاب اللہ اورسنت رسول اللہ اورسنت شیخین کی پابندی کا عہد کرے گا اس کے ہاتھ پر بیعت کی جائے گی، اس کے بعد علیحدہ علیحدہ حضرت علی ؓ اورحضرت عثمان ؓ سے کہا کہ آپ دونوں اس کا فیصلہ میرے ہاتھ میں دیدیں، اس پر ان دونوں کی رضامندی لینے کے بعد حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ اور تمام صحابہ کرام ؓ مسجد میں جمع ہوئے،حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ نے ایک مختصر ؛لیکن مؤثر تقریر کے بعد حضرت عثمان ؓ کے ہاتھ پربیعت کی، اس کے بعد حضرت علی ؓ نے بیعت کے لئے ہاتھ بڑھایا،حضرت علی ؓ کا بیعت کرنا تھا کہ تمام حاضرین بیعت کے لئے ٹوٹ پڑے،غرض چوتھی محرم ۲۴ھ دوشنبہ کے دن حضرت عثمان اتفاق عام کے ساتھ مسند نشین خلافت ہوئے اوردنیائے اسلام کے عنان حکومت اپنے ہاتھ میں لی۔