انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** واقعاتِ خراسان سنہ۱۰۶ھ میں مسلم بن سعید نے جہاد کے ارادے سے بہت بڑی فوج جمع کرلی اور بخارا وفرغانہ کی طرف جاکر باغیوں کوسزائیں دیں، خاقان چین نے اہلِ فرغانہ کی مدد کی اور خاقان سے مسلم کی کئی زبردست اور خوں ریز لڑائیاں ہوئیں، انجام کار خاقان کوشکست ہوئی اور ترکوں کے بڑے بڑے سردار مسلمانوں نے گرفتار کرلیے؛ اسی سال ہشام بن عبدالملک خلیفہ دمشق نے خالد بن عبداللہ کوخط لکھا کہ مسلم بن سعید کوخراسان کی گورنری سے معزول کرکے اپنے بھائی اسدبن عبداللہ قسری کوگورنرخراسان بناکر بھیج دو؛ چنانچہ خالد بن عبداللہ نے اسد بن عبداللہ اپنے بھائی کوخراسان کی سند حکومت دے کرروانہ کیا اور مسلم بن سعید نے بخوشی خراسان کی حکومت اس کے سپرد کردی، خالد بن عبداللہ نے جب اپنے بھائی اسد بن عبداللہ کوخراسان کا حاکم بناکر بھیجا تواس کے ساتھ ہی عبدالرحمن بن نعیم کواس کا نائب ناکر بھیج دیا تھا، اسد بن عبداللہ نے خراسان کی حکومت سنبھالتے ہی جبال ہرات یعنی غور وغیرہ کی طرف حملہ کیا اور وہاں سے مسلمانوں کوبہت مالِ غنیمت حاصل ہوا ان لڑائیوں میں نصربن سیار اور مسلم بن احور نے بہت ناموری حاصل کی، اسدبن عبداللہ نے چند ہی روز کے بعد ایسے اخلاق کا اظہار کیا کہ لوگ اس سے پریشان ووحشت زدہ ہونے لگے اس نے نصر بن سیار کے سودرے لگوائے عبدالرحیم بن نعیم کا سرمنڈوایا اور ان لوگوں کواپنے بھائی خالد بن عبداللہ کے پاس بھیج دیا کہ یہ میرے قتل کی سازش میں شریک تھے۔ اسی طرح وہ اہلِ خراسان کوبھی بہت لعن طعن کرتا اور سختی سے پیش آتا تھا، ان باتوں کا حال ہشام بن عبدالملک کومعلوم ہوا تواس نے دمشق سے خالد بن عبداللہ کولکھا کہ اسد بن عبداللہ کوخراسان کی حکومت سے معزول کردو، پھرخود ہی براہِ راست اشرس بن عبداللہ سلمی کوخراسان کی حکومت پرمامور کرکے بھیج دیا اور خالد کواطلاع دے دی، اشرس نے خراسان میں پہنچ کراپنے نیک سلوک اور خوش اخلاقی سے سب کوخوش کرلیا، اشرس نے سنہ۱۱۰ھ میں ابوالصیدا صالح بن ظریف اور ربیع بن عمران تمیمی کوسمرقند وماورألنہر کی طرف اس غرض سے روانہ کیا کہ وہاں جاکر لوگوں کواسلام کی خوبیاں سمجھائیں اور شرک کی برائیوں سے آگاہ کرکے راہِ راست پرلائیں، اس علاقے میں آئے دن بغاوتیں ہوتی رہتی تھیں اور حکومت اسلامیہ نوک شمشیر کے ذریعہ قائم تھی، اشرس نے اس کا بہترین علاج یہی تجویز کیا کہ ان لوگوں کواسلام سے آگاہ کرکے مسلمان بنایا جائے ان کے اندر جس قدر عیوب ہیں وہ خود بخود دور ہوجائیں گے اور حکومت اسلامیہ کے لے پھرکوئی خطرہ باقی نہ رہے گا؛ چنانچہ اس دعوتِ اسلام کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ جوق درجوق اسلام میں داخل ہونے شروع ہوئے اور سمرقند کے علاقہ پرحسن بن عمرطہ کندی صیغہ مال کا افسرمقرر تھا۔ جب لوگ اسلام میں داخل ہونے لگے تواس ے جزیہ کی آمدنی جوذمیوں سے لیا جاتا تھا کم ہونے لگی، ذمیوں کے نومسلم ہونے سے جوآمدنی میں کمی واقع ہوئی توحسن بن عمر طہٰ نے اس کی شکایت اشرس بن عبداللہ گورنرخراسان کولکھی، اشرس بن عبداللہ نے جواب دیا کہ بہت سے لوگ ممکن ہے کہ محض جزیہ کی وجہ سے مسلمان ہوگئے ہوں اور دل سے انھوں نے اسلام قبول نہ کیا ہو؛ لہٰذا تم دیکو کہ جس نے ختنہ کرالی ہو اور نماز پڑھتا ہواس کوجزیہ معاف کردو؛ ورنہ چاہے وہ اپنے آپ کومسلمان کہے اس سے جزیہ ضرور وصول کرو، اشرس اگرچہ خود اس کوپسند نہ کرتا تھا؛ مگرخالد اور ہشام کا منشایہی تھا ہ نومسلموں کے ساتھ سختی سے محاسبہ ومعاملہ کیا جائے، اشرس کے پاس سے اس جواب کے آنے پرحسن بن عمر طٰہٰ نے اس حکم کی تعمیل میں اس لیے تأمل کیا کہ یہ شریعت اسلام کے موافق نہ تھا، اشرس بن عبداللہ نے حسن بن عمرطٰہٰ کوصیغہ مال سے معزول کرکے ہانی ابن ہانی کومامور کیا اور سمرقند کی حکومت وسپہ سالاری پراس کوقائم رکھا، ہانی ابن ہانی نے نومسلموں سے آکر جزیہ وصول کرنا شروع کیا، ابوالصیداء نے نومسلموں کوجزیہ دینے اور ہانی کوجزیہ وصول کرنا شروع کیا، ابوالصیداء نے نومسلموں کوجزیہ دینے اور ہانی کوجزیہ لینے سے روکا، ہانی نے اشرس کوخط لکھا کہ یہ لوگ مسلمان ہوگئے ہیں انھوں نے مسجدیں بھی بنائی ہیں، ان سے جزیہ کیسے وصول ہوسکتا ہے، اس کے جواب میں ہانی کے پاس حکم پہنچا کہ تم ان لوگوں سے جوجزیہ دیا کرتے تھے جزیہ وصول کرو چاہے وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہوگئے ہوں۔ یہ دیکھ کرابوالصیداء نے نومسلموں کی سات ہزار جمعیت لے کرسمرقند سے چند فرسنگ کے فاصلہ پرقیام کیا اور مقابلہ پرمستعد ہوگیا؛ چونکہ ابوالصیدا کے پاس وجہ مخالفت معقول تھی؛ لہٰذا بہت سے مسلمان سردار حاکم سمرقند کی فوج میں سے ابوالصیداء کے پاس نومسلموں کی حمایت کے لیے چےل گئے، اشرس نے یہ حالت دیکھ کرحسن بن عمرطٰہٰ کوسمرقند کی حکومت سے معزول کرکے محشربن مزاحم سلمی کومامور کیا، محشر بن مزاحم نے سمرقند پہنچ کرابوالصیداء اور اس کہ ہمراہی سرداروں کوصلح کے بہانے دھوکے سے بلاکر قید کردیا اور اشرس کے پاس بھیج دیا، نومسلموں نے ابوفاطمہ کواپنا سردار بنالیا، آخرمجبور ہوکر ان مسلموں کوجزیہ کی معافی کا وعدہ دیا گیا اور جب ان کی جمعیت اور اتفاق جاتا رہا توبتدریج ان پرسختی شروع کی گئی اور طرح طرح سے ذلیل کیا گیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ لوگ جومسلمان ہوچکے تھے پھرمرتد ہوکر باغی ہوگئے اور ازسرنومقابلہ پرآمادہ ہوکر خاقان سے خواہان امداد ہوئے، خاقان اپنی زبردست فوجیں لے کرآیا اور مسلمانوں کے ساتھ ایک جدید سلسلہ جنگ شروع ہوگیا، اشرس خود مقابلہ پرپہنچا، طرفین سے خوب داد شجاعت دی گئی، بہت سے مسلمان اور بہت سے ترک تہ تیغ ہوئے آخر اس خوں ریز سلسلہ جنگ کا خاتمہ صلح پرہوا۔ اس جگہ ان لوگوں کواسلام کی اشاعت کوبزورِ شمشیر بتاتے ہیں غور وتامل کرنا چاہیے کہ مسلمانوں نے اپنے زورشمشیر کواسلام کی اشاعت میں صرف کیا یاان کے بعض نادان حکمرانوں نے زورشمشیر کواسلام کی اشاعت کے روکنے میں صرف کیا ہے۔ سنہ ۱۱۱ھ میں ہشام بن عبدالملک نے اشرس بن عبداللہ کوجب کہ وہ ترکوں اور سمرقندیوں سے مصروف پیکار تھا، معزول کرکے جنید بن عبدالرحمن بن عمربن حرث بن خارجہ بن سنان بن ابی حارثہ مری کومامور کیا ،جنید جب خراسان کے دارالصدر شہر مرو میں پہنچا تواس نے وہاں بجائے اشرس کے اس کے نائب خطاب بن محزرسلمی کوپایا، وہ ایک روز قیام کرکے ماورألنہر کی طرف روانہ ہوا اور اپنی جانب سے محشر بن مزاحم سلمی کومرو میں چھوڑ کراور خطاب کواپنے ہمارہ لے کرروانہ ہوا اور اشرس کے ساتھ خاقان واہلِ بخارا پرفتحیاب ہوکر مرو کی جانب سنہ۱۱۱ھ کے آخری ایام میں واپس آیا، مرومیں آکر اس نے قطن بن قتیبہ بن مسلم کوبخارا پرولید بن قعقاع عبسی کوہرات پراور مسلم بن عبدالرحمن باہلی کوبلخ کی حکومت پرمامور کیا؛ لیکن چند ہی روز کے بعد مسلم بن عبدالرحمن کومعزول کرکے یحییٰ بن ضبیعہ کوبلخ کا حاکم بنایا۔ سنہ۱۱۲ھ میں جنید نے ظخارستان کے باغیوں کی سرکوبی وسزا دہی کے لیے عمارہ بن حریم کواُٹھارہ ہزار کی جمعیت کے ساتھ ایک طرف سے اور ابراہیم بن بسم کودس ہزار کی جمیعت کے ساتھ دوسری طرف سے روانہ کیا اور خود بھی اسی طرف روانہ ہونے کی تیاری کی ترکوں کوجب اس کا حال معلوم ہوا تووہ خاقان کواپنا سپہ سالار بناکر بہت بڑا لشکر جمع کرکے سمرقند پرحملہ آور ہوئے اس زمانے میں سمرقند کا عامل سورہ بن الجبرتھا، اس نے جنید کے پاس خبر بھیجی کہ خاقان نے اپنے زبردست لشکر کے ساتھ سمرقند کی طرف حرکت کی ہے، میری مدد کے لیے جلد فوج بھیجئے، محشر بن مزاحم وغیرہ نے جنید کومشورہ دیا ہ سمرقند کی طرف آپ کوکم از کم پچاس ہزار فوج کے ساتھ جانا چاہیے، کیونکہ ترکوں کا مقابلہ آسان نہیں ہے، اس حالت میں آپ سمرقند کا ارادہ نہ کریں، جنید نے سرد آہ کھینچ کرکہا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میرا بھائی سورہ بن الجبر وہاں مصیبت میں گرفتار ہو اور میں یہاں پچاس ہزار فوج کی فراہمی کے انتظار میں بیٹھا رہوں یہ کہہ کرسمرقند کی طرف روانہ ہوا خاقان اور ترکوں کوجب معلوم ہوا کہ جنید خود سمرقند کی طرف آرہا ہے تووہ تھوڑی سی فوج سمرقند کے محاصرہ پرچھوڑ کرجنید کے سدراہ ہوئے، راستے ہی میں روک کرلڑائی کا بازار گرم کیا، جنید اور اس کے مٹھی بھر ہمراہیوں نے وہ کارہائے نمایاں انجام دیئے اور ایسی چپقلش مردانہ دکھائیں کہ ترکوں کے چھکے چھوٹ گئے، بڑے بڑے نامی سردار مسلمانوں میں سے بھی شہید ہوئے اور ترکوں کی لاشوں کے توانبار لگ گئے ترکوں کی فوج اور خاقان کے لشکر کی تعداد بہت زیادہ تھی، جنید نے پہاڑ کوپس پشت رکھ کرخاقان اور اس کے لشکر کوکئی مرتبہ پیچھے ہٹادیا اور ترکوں کومیدان سے بھگایا، آخر سرداروں کے مشورہ سے سورہ بن الجبر کے پاس سمرقند میں پیغام بھیجا کہ ہم تم سے صرف دومنزل کے فاصلے پرمصروف جنگ ہیں تم ہمت کرکے سمرقند سے نکل آؤ اور نہر کے کنارے کنارے سفر کرتے ہوئے ہم تک پہنچو اور دوسری طرف سے ترکوں پرحملہ کردو، سورہ بن الجبر سمرقند سے روانہ ہوا لیکن جس راستے کی نسبت ہدایت کی گئی تھی اس راستے سے نہیں آیا؛ بلکہ ایک دوسرے راستے سے آیا، نتیجہ یہ ہوا کہ قریب ہی پہنچ کرترکوں کے لشکر میں گھر گیا اور لڑکر بہت سے لشکر کوقتل کرادیا، اس طرح جنید کوکوئی امداد نہ پہنچ سکی، آخرمسلمانوں نے جی توڑ کرایسے ایسے سحت حملے کیے کہ خاقان اور ترکوں کوبھگادیا اور سمرقند میں داخل ہوگئے۔ یہاں سے ایک تیزرفتار قاصد کے ہاتھ مفصل کیفیت لکھ کرہشام بن عبدالملک کے پاس دمشق کوبھیجی، خلیفہ نے کوفہ اور بصرہ کواحکام بھیجے کہ دس دس ہزار فوج دونوں مقاموں سے جنید کی مدد کے لیے روانہ ہو اور جنید کولکھا کہ تم مصروفِ جہاد رہو، میں بیس ہزار فوج، تیس ہزار نیزے اور تیس ہزار تلواریں تمہاری امداد کے لیے کوفہ اور بصرہ سے بھجوارہا ہوں، یہ پیغام خلیفہ کا جنید کے پاس سمرقند میں پہنچا، جنید سمرقند میں مقیم رہا؛ لیکن چند ہی روز کے بعد سنا کہ خاقان نے جوجنید کے مقابلے سے بھاگ گیا تھا، فوجیں جمع کرکے بخارا پرقبضہ کرنے کا ارادہ کیا ہے، بخارا کی حکومت قطن بن قتیبہ کے سپرد تھی، جنید کواندیشہ ہوا کہ کہیں قطن کی بھی وہی حالت نہ ہو جوسورہ کی سمرقند میں ہوئی تھی، اس نے عثمان عبداللہ کوچار سوسوار وں کے ساتھ سمرقند میں چھوڑا اور ہرقسم کا کافی سامان رسد اس کے لیے فراہم کردیا اور خود عورتوں، بچوں اور ضروری سامان کولے کرسمرقند سے بخارا کی طرف روانہ ہوا، طواویس کے قریب مقام کومینیہ میں یکم رمضان سنہ۱۱۲ھ کوخاقان سے مقابلہ ہوگیا، خاقان کوشکست ہوئی اور جنید اپنے سامنے راستہ صاف پاکربخارا کی جانب گرم سفر ہوا راستہ ہی میں ایک مرتبہ پھرترکوں نے مقابلہ کیا اس میں بھی مسلمانوں نے فتح پائی، اس کے بعد جنید بخارا میں داخل ہوگیا اور یہیں کوفہ وبخارا کی فوجیں بھی جنید کے پاس پہنچ گئیں۔ جنید نے ترکوں کومتواتر اور پیہم شکستیں دے دے کرخراسان میں ہرطرف امن وامان قائم کردیا، جنید کوجب خراسان کی طرف سے اطمینان حاصل ہوگیا تواس نے سنہ۱۱۶ھ میں فاضلہ بنت یزید بن مہلب کے ساتھ نکاح کیا، ہشام بن عبدالملک کوخاندان مہلب کے ساتھ سخت عداوت تھی، یہ خبر پہنچی تواس کوبہت ناگوار گذرا اور جنید کوخراسان کی حکومت سے معزول کرکے عاصم بن عبداللہ بن یزید ہلالی کوخراسان کی سند گورنری دے کرروانہ کیا، ادھر عاصم خراسان کی طرف روانہ ہوا، ادھر جنید کے مرض استسقا نے خطرناک صورت اختیار کی جس روز عاصم مرو میں داخل ہوا؛ اسی روز اس کے آنے سے پہلے جنید فوت ہوچکا تھا، عاصم نے خراسان پہنچ کرجنید کے عاملوں کومعزول کرکے اپنے جدید عامل مقرر کئے۔