انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حکم کی مخالفت کے اسباب سلطان حکم اگرچہ بہادر شخص تھا مگر جب سے اس کی حکومت شروع ہوئی تھی لڑائیوں کا سلسلہ جاری تھا اور اندلس کی سلطنت کے بعض حصے کٹ کٹ کر عیسائیوں کے قبضے وتصرف میں جارہے تھے ،عیسائی طاقتوف اور مسلمان کمزور ہوتتے جاتے تھے اس کا سب سے بڑا سبب خود مسلمانوں کی خانہ جنگی اور ناعاقبت اندیشی تھی حکم کے رشتہ داروں نے حکم کی زحالفت اور خود حکومت حاصل کرنے کی کوشش میں تیغ وتیر سے کام لینے میں جس طرح تامل نہیں کیا تھا اس طرح انہوں نے خفیہ سازشوں وار بغیوتوں کے برپا کرانے کی کوشش میں بھی دریغ نہیں کیا ،اس پر بس نہیں ہوا بلکہ عیسائیوںں کو ہر قسم کی امداد بہم پہنچائی دوسرے دشمن عیسائی تھے جو سملمان کو نقصان پہچانے اور اندلس کی اسلامی سلطنت کو کمزور کرنے کے لیے آپس میں متحد ومتفق تھے ،تیشے دشمن عباسی تھے جن کی طرف سے حکم کے رشتہ داروں اور عیسائیوں دونوں کی ہمت افزائی ہوتی رہتی تھی خود اندلس کے اندر ان کے حامی موجود تھے جو حکم کو نقصان پہچانے اور اس ککی حکومت کو مٹانے کی تدبیروں میں مصروف رہتے تھے،ان تینوں دشمنوں کے علاوہ ایک چوتھا زبردست دشمن اور پیدا ہوگیا تھا،یہ مالکی گروہ کے فقہاء علماء تھے جن کا سلطان ہشام کے زمانے میں سلطنت وحکومت میں بڑا اثر واقتدار تھا وہی سلطان ہشام کے مشیر ووزیر اور وہی تمام محکموں کے مالک ومہتمم تھے ،مذہبی پیشوا ہونے کے سبب عوام اور بھی زیادہ ان کے زیر اثر تھے سلطان حکم نے تخت نشین ہوکر مولویوں کے بڑے ہوئے اقتدار کو کم کرنے کی کوشش کی اور ان کی صحبت کو اپنے لیے ضروری نہ سمجھا سلطان کی خود رائی یا خود آرائی ان کو سخت ناگوار گزری وہ سلطان کے خلاف نکتہ چینی اور عیب شماری میں مصروف ہوگئے ،یحیی بن یحیی قرطبہ کے قاضی القضاۃ اور اندلس کے شیخ الاسلام بنادیے گئے تھے، وہ اپنے اثر واقتدار اور احترام واختیار کو کم دیکھ کر اور بھی زیادہ سلطان کے اعمال وافعال پر رائے زنی کرنے میں مصروف ہوئے اس قسم کے تمام مشہور علماء مالکی مذہب میں داخل اور سلطان ہشام کے عہد میں حکومت وسلطنت میں دخیل تھے،فتوی بازی پر اتر آئے اندلس میں یہ فقہی مذہب نیا جاری ہوا تھا اس سے پیشتر کوئی مسلمان ان فقہی مذاہب کی تخصیص وتفریق سے واقف نہ تھا لہذا تمام وہ لوگ جو مالکی مذہب میں داخل تھے خاص طور پر سلطان حکم کے دشمن اور مخالف ہوگئے اس چوتھے دشمن کی زحالفت کے نتائج سب سے زیادہ خطرناک ثابت ہوئے اور اسی کی وجہ سے سلطان حکم باقی تینوں دشمنوں کا قرار واقعی انشداد نہ کرسکا اور عیسائیوں کو طاقت ور بننے اور اسلامی حکومت کے علاقوں پر قبضہ کرنے کا موقعہ ملتا رہا بہر حال سلطان حکم کے زمانے میں مذکور ہ بالا چاروں مخالف طاقتوں نے مل کر عیسائیوں کو طاقت ور ہونے کا خوب آزادانہ موقع دیا اس معاملہ میں سلطان حکم کی بد احتیاطی وار آزدا مزاجی کو بھی ملزم قرار دیا جاسکتا ہے مگر نہ اتنا کہ جس قدر کہ عام طور پر مورخ اس سلطان کو مجرم اور ملزم قراردیتے ہیں۔ ۱۹۰ھ میں مولیوں مے گروہ نے اپنی سازشوں اور کوششوں کو عملی جامہ پہنانے کا تہیہ کیا قاضی القضاۃ یحیی بن یحیی اور فقیہ طالوت وغیرہ علمائے قرطبہ نے اپنے ہم خیال علماء وامراء کو مجتمع کرکے حکم کی معزولی کا مشورہ کیا اور یحیی کی سرکردگی میں ایک وفد قاسم بن عبداللہ سلطانحکم کے چچیرے بھائی اور داماد کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس سے کہا کہ آپ کو ہم تخت اندلس پر بٹھانا اور بادشاہ بنانا چاہتے ہیں ،قاسم نے کہا کہ پہلے مجھ کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ کون کون لوگ ہیں جو اس کا پر آمادہ ہیں اگر ان کی جمیعیت اور طاقت اس قابل ہے کہ وہ سلطان حکم کو معزول کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں تو میں بخوشی آپ کے مشورے میں شریک ہوسکتا ہوں لہذا کل آپ ان لوگوں کے ناموں کی فہرست میرے سامنے لائیں قاضی یحیی اس فہرست کا وعدہ کرکے واپس آئے اگلے دن جب فہرست لےکر پہنچے تو قاسم بن عبداللہ نے سلطان حکم کو پہلے ہی اپنے مکان میں بلاکر اور پس پردہ سلطان حکم کا منشی بھی سلطان حکم کے پاس بیٹھا ہوا تھاان لوگوں کے نام لکھ رہا تھا ،حکم کے منشی کو یہ اندیشہ ہوا کہ کہیں میرا نام بھی نہ لےدیا جائے اس لیے اس نے قلم کو کاغذ پر اس طرح چلانا شروع کیا جس سے صریر یعنی قلم کی آواز نکلنے لگی ،پس پردہ لکھنے کی آواز سن کر قاضی صاحب اور ان کے ہمراہیوں کو شبہ ہوا کہ کوئی چھپا ہوا بیٹھا ہے اور ان ناموں کو لکھ رہا ہے اس شبہ کے پیدا ہوتے ہی یہ لوگ وہاں سے اٹھ اٹھ کر بھاگے کچھ تو نکل گئے باقی اسی مکان میں گرفتار کرکے قتل کردیے گئے جن کی تعداد ۷۲ تھی، اس کے بعد بغاوت کا علم علانیہ بلند کردیاگیا قرطبہ کے جنوب کی جانب دریائے وادی الکبیر کے پار ایک محلہ آباد تھا اس محلہ میں عام طور پر یہی لوگ رہتے تھے جو ان مولویوں کے زیر اثر اور زیادہ عیسائی نومسلم تھے ،ان لوگوں نے ہجوم کرکے سلطان حکم کے محل پر حملہ کرکے محاصرہ کرلیا مگر حکم نے سب کو منتشر کردیا اور معمولی کشت وخون کے بعد ہنگامہ فرو ہوگیا۔ اسی سال یعنی ۱۹۰ھ می ںسلطان حکم نے مراقش کی نئی خود مختار حکومت ادریسیہ سے مصالحت اور دوستانہ تعلق پیدا کیا مراقش می ںسلطنت ادریسیہ کا خلافت بغداد سے آزاد ہوجانا حکومت اندلس کے لیے بے حد مفید ثابت ہوا اور ملک اندلس عباسیوں کی ریشہ دوانیوں اور سازشوں کے اثر سے بہت کچھ محفوظ ہوگیا ،سلطنت اندلس کے لیے مراقش کی خود مختاری ایک تائید غیبی تھی اور سلطان حکم نے مراقش کی حکومت کے ساتھ دوستانہ تعلقات پیدا کرنےمیں کوتاہی نہیں کی سلطان حکم نے ۱۹۱ھ تک علمائے قرطبہ کا زور کرنے اور حکومت مراقش کے ساتھ تعلقات پیدا کرنے سے فارغ ہوکر کسی قدر اطمینان حاصل کیا اور شمالی صوبوں کی جانب متوجہ ہوکر اس کے تدارک میں مصروف ہوا۔