انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** (۸)الآثارالمرفوعہ فی الاحادیث الموضوعہ یہ حضرت مولانا عبدالحیی لکھنویؒ (۱۴۰۷ھ) کی تالیف ہے۔ ان تمام کوششوں کے باوجود اہلِ باطل موضوع حدیثوں کی روایت سے رُکے نہیں وہ اس کی برابر اشاعت کرتے رہتے ہیں، اپنے عقائدِ فاسدہ کواستناد مہیا کرنے کے لیئے وہ اپنے حلقوں میں ان کا برابرچرچا کرتے ہیں، قرآنِ کریم میں اہلِ باطل کا یہ عمل بھی مذکور ہے: "فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَاتَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ"۔ (آل عمران:۷) ترجمہ:اب جن لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھ ہے وہ ان متشابہ آیتوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں تاکہ فتنہ پیدا کریں اور ان آیتوں کی تاویلات تلاش کریں متشابہات کے الفاظ توپھر بھی صحیح ہوتے ہیں صرف مرادات میں تشابہ ہوتا ہے اور موضوع روایات کاتووجود ہی باطل ہے، جب متشابہات سے استدلال جائز نہیں ہے توموضوع روایات سے اپنے مسلک کی گاڑی چلانا یہ کون ساجائز فعل ہوگا، ہم یہاں فائدہ عام کے لیئے چند روایات بھی ذکر کرتے ہیں، جن کی کوئی سند نہیں، نہ صحیح، نہ حسن، نہ ضعیف، ان سے آپ اندازہ کرسکیں گے کہ حدیث کے باب میں کس قدر بے احتیاطی ہماری صفوں میں گھس آئی ہے۔ (۱)"اذاجاءکم الحدیث فاعرضوہ علی کتاب اللہ" جب تمہارے پاس کوئی حدیث آئے تواسے قرآن کریم پر پیش کرو، اس کے موافق ہو تولے لو؛ ورنہ رد کردو۔ علامہ خطابی (۳۸۸ھ) فرماتے ہیں "لااصل لہ" اس کی کوئی اصل نہیں، امام یحییٰ بن معینؒ کہتے ہیں "وضعتہ الزنادقۃ" (معالم السنن للخطابی:۴/۲۹۹، لاحاجۃ بالحدیث ان یعرض علی کتاب فانہ مہما ثبت عن رسول اللہ کان حجۃ بنفسہ) اسےزندیقوں نے وضع کیا ہے، حضورﷺ سے جب کوئی بات ثابت ہوجائے وہ خود سند ہے اور حجت ہے اسے قرآنِ کریم پر پیش کرنے کی کیا ضرورت ہے، حضورﷺ سے قرآن کریم کے خلاف کوئی بات صادر ہو یہ ناممکن ہے۔ (۲)"علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل" ترجمہ:میری امت کے علماء ایسے ہیں جیسے بنی اسرائیل کے ابنیاء بنواسرائیل میں جو نبی بھی آئے وہ سب غیرتشریعی نبی تھے اور ان کی شریعت تورات تھی (المائدہ:۴۴) اس روایت میں علماء امت کوان سے تشبیہ دی گئی ہے یہ تبھی ہوسکتا ہے کہ اس آیت کے علماء میں کوئی غیرتشریعی نبی بھی نہ ہو؛ کیونکہ مشبہ اور مشبہ بہ میں تغائر ضروری ہے، اس حدیث کے مضمون میں کلام نہیں؛ لیکن من حیث الثبوت یہ بے اصل ہے، دسویں صدی کے مجدد ملا علی قاریؒ لکھتے ہیں: "اما حدیث علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل فقد صرح الحفاظ کالزرکشی والعسقلانی والد میری والسیوطی انہ لااصل لہ"۔ (مرقات شرح مشکوٰۃ طبع قدیم:۵/۵۶۴،مصر) بہر حال حدیث:علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل،جس کے متعلق حفاظ نے صراحت کی ہے جیسے زرکشی ، عسقلانی ،دمیری اور سیوطی نے کہ اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔ ملا علی قاری نے پہلے اس پر امام سیوطیؒ کا سکوت نقل کیا تھا (موضوعاتِ کبیر:۴۸، مطبوع:دہلی) اس پر بہت سے صوفی مزاج علماء اسے نقل کرتے رہے پھر ملاعلی قاریؒ کواس پر امام سیوطیؒ کا بھی انکار مل گیا؛ سواب اسے کسی عقیدہ کے ثبوت میں پیش نہیں کیاجاسکتا۔ (۳)"من تکلم بکلام الدنیا فی المسجد احبط اللہ اعمالہ اربعین سنۃ" جس نے مسجد میں دنیا کی کوئی بات کی اللہ اس کے چالیس سال کے اعمال ضائع کردیتا ہے، علامہ صنعانی (۶۵۰ھ) فرماتے ہیں کہ یہ موضوع ہے ملاعلی قاریؒ فرماتے ہیں "وھو کذالک لانہ باطل منبی ومعنی"۔ (موضوعاتِ کبیر:۴۸، مطبوع:دہلی) (۴)"حدیث لانبی بعدی" کتنی مشہور متواتر اور واضح المعنی ہے مگر محمد بن سعید شامی نے اسے حضرت انس بن مالک کی روایت بناکر حضورﷺ کے نام پر یہ حدیث وضع کردی "اناخاتم النبین لانبی بعدی الا ان یشاء اللہ" میں آخری نبی ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں؛ مگریہ کہ جواللہ چاہے، شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: "فوضع ہذا الاستثناء لماکان یدعوالیہ من الالحاد والزندقۃ ویدعی النبوۃ"۔ (فتح الملہم:۱/۶۵) (۵)"لوکان موسیٰ وعیسیٰ حیّین ماوسعھما الااتباعی" حدیث میں صرف موسیٰ کا نام تھا (اگرموسیٰ زندہ ہوتے توانہیں بھی میری پیروی سے چارہ نہ ہوتا) حضرت عیسیٰ کوفوت شدہ ثابت کرنے کے لیے یہ نام بھی ساتھ بڑھادیا گیا، شیخ الاسلام علامہ عثمانی لکھتے ہیں اس کی سند کا کتبِ حدیث میں کہیں پتہ نہیں۔ (فوائد القرآن:۳۹۸، سورۂ مریم، پارہ:۱۶) (۶)سبائی کہتے ہیں حضورﷺ نے صحابہ کی موجودگی میں حضرت علیؓ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا تھا: "ہٰذا وصیی واخی الخلیفۃ من بعدی فاسمعوا لہ واطیعوہ" ملاعلی قاریؒ اس کے بارے میں صرف اس پر اکتفا کرتے ہیں "فَلَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَافِرِينَ" (البقرۃ:۸۹) (موضوعاتِ کبیر:۹۴) حافظِ ابنِ کثیرؒ (۷۷۴ھ) "وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ" (الشعراء:۲۱۴) کے تحت لکھتے ہیں: (تفسیرابن کثیر:۳/۳۵۰، وکذلک صرح المدراسی فی کشف الاحوال، میزان الاعتدال:۳/۳۵۱) یہ روایت کہ اس آیت کے نازل ہونے پر حضورﷺ نے حضرت علی کی گردن پر ہاتھ رکھا اور فرمایا یہ میرا بھائی ہے اس کی سنو اور اس کی اطاعت کرو، اس میں عبدالغفار بن قاسم کذاب تنہا ہے/ علی بن المدینی نے اسے وضع حدیث سے متہم قرار دیا ہے: "متروک کذابِ شیعی اتھمہ علی بن المدینی وغیرہ بوضع الحدیث"۔ (۷)"موتوا قبل ان تموتوا" کتنی مشہور روایت ہے ملاعلی قاری حافظ ابن حجر عسقلانی سے نقل کرتے ہیں کہ یہ حدیث کہیں ثابت نہیں۔ (موضوعات:۷۵) (۸)حسن پرستوں نے اپنے ذوق کوتسکین دینے کے لیے یہ حدیث گھڑلی ہے "النظر الی الوجہ الجمیل عبادۃ" خوبصورت چہروں کو دیکھنا عبادت ہے۔ حافظ ابنِ تیمیہؒ فرماتے ہیں: "ھٰذا کذب باطل علی رسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام لویروہ احد باسناد صحیح بل ھو من الموضوعات"۔ (موضوعات:۷۷) (۹)فرض نمازوں کے بعد جودعا مانگتے ہیں اس میں یہ الفاظ "والیک یرجع السلام حینا ربنا بالسلام" حدیث میں اضافہ کئے گئے ہیں معلوم نہیں کس نے یہ جملے حدیث میں ڈال دیئے ہیں، ملا علی قاری لکھتے ہیں "فلااصل لہ" (موضوعات:۸۹) اس حدیث کی کوئی اصل نہیں، حدیث اپنی جگہ موجود ہو اور کچھ الفاظ زیادہ کردیئے جائیں یہ روایت ان کی مثال ہے بعض علماء نے الفاظ تبدیل کررکھے ہیں حدیث میں تھا "اتقوا فراسۃ المؤمن فانہ ینظر بنوراللہ" (جامع صغیر:۱/۹) انہوں نے بدل کر "من نوراللہ" بنادیا (ملفوظات:۱/۱۰۸) حضورﷺ کی خدمت میں ایک شخص پیتل کی انگوٹھی پہنے حاضرہوا آپ نے اسے کہا: "مَالِي أَجِدُ مِنْكَ رِيحَ الْأَصْنَامِ"۔ (ابوداؤد، كِتَاب الْخَاتَمِ،بَاب مَاجَاءَ فِي خَاتَمِ الْحَدِيدِ،حدیث نمبر:۳۶۸۷، شاملہ، موقع الإاسلام) ترجمہ:میں تجھ میں بتوں کی ہوا کیا محسوس کررہا ہوں۔ اسے یوں بدلا "مَالِیْ اَرَفِیْ یَدک حلیۃ الاصنام" (ملفوظات:۳/۲) تیرے ہاتھ میں بتوں کا زیور کیوں دیکھ رہا ہوں۔ اگرکوئی شخص کھانا شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑھنا بھول جائے توکھانے کے دوران "بِسْمِ اللہِ فِیْ أَوَّلہ وآخرہ" پڑھ لے ان صاحب نے یہاں بھی لفظ فی کو علی سے بدل دیا؛ حالانکہ حدیث میں یہ الفاظ نہ تھے؛ انہوں نے اُسے یوں بنادیا "بسم اللہ علیہ اولہ وآخرہ" (ملفوظات:۲/۹۵) استغفراللہ۔ وضع حدیث کا کام صدیوں سے رکا ہوا تھا مرزا غلام احمد نے پھر سے اسے زندہ کیا اور لکھا، احادیث صحیحہ میں آیا ہے کہ مسیح موعود صدی کے سرپر آئے گا اور وہ چودھویں صدی کا مجدد ہوگا (ضمیمہ براہین احمد:۵/۱۸۸) اس شخص سے منحرف مت جاؤ جس کا آنا اس صدی پر صدی کے مناسب حال ضروری تھا اور جس کی ابتداء سے نبی کریمﷺ نے خبر دی تھی۔ (دافع الوساوس:۲۵۲) آنحضرتؐ زندگی بھرچودھویں صدی کا لفظ اپنی زبان پر نہیں لائے نہ کبھی کہا کہ قیامت چودھویں صدی کے ختم پر آئے گی، مرزا غلام احمد نے خود ہی یہ بات تجویز کی اور خود ہی اس کی علامات پورا کرنے کے لیے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کردیا اور چودھویں صدی کی روایات گھڑی اور اسے حضور اکرمﷺ کے ذمہ لگادیا اور پھریہ روایات بھی گھڑی کہ مسیح موعود تمہارا امام تم ہی میں سے ہوگا: "بل ھو امامکم منکم"۔ (ازالہ اوہام:۱/۲۳) "بَلْ ھُوَ" کے الفاظ کتبِ احادیث میں کہیں نہیں ہیں، مرزا غلام احمد قادیانی نے یہ خود گھڑے ہیں، معلوم ہوا اہلِ باطل وضع احادیث کا سلسلہ اب تک جاری رکھے ہوئے ہیں، حدیث کے اصل الفاظ یہ تھے: "كَيْفَ أَنْتُمْ إِذَانَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ فِيكُمْ وَإِمَامُكُمْ مِنْكُمْ"۔ (مسلم،كِتَاب الْإِيمَانِ،بَاب نُزُولِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ حَاكِمًا بِشَرِيعَةِ نَبِيِّنَا مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،حدیث نمبر:۲۲۲، شاملہ، موقع الإاسلام) ترجمہ: تمہارا کیا حال ہوگا جب ابنِ مریم تم میں اتریں گے اور اس وقت تمہارا امام تم میں سے ہوگا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ حدیثیں وضع کرنے والے اعتراض کے تحت حدیثیں گھڑتے تھے اور باطل فرقوں کا یہ عام طریقہ رہا ہے۔