انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** سلطان بایزیدخاں یلدرم کے بیٹوں کی خانہ جنگی جنگ انگورہ کے بعد سلطنت عثمانیہ کے تباہ وبرباد ہوجانے میں بظاہر کوئی کسر باقی نہیں معلوم ہوتی تھی کیونکہ تیمور نے ایشیائے کوچک کے بہت سے علاقے ان سلجوقی خاندانوں کے رئیسوں کو دے دئے تھے جو سلطنت عثمانیہ سے پہلے ایشیا ئے کوچک میں چھوٹی چھوٹی ریاستیں رکھتےتھے بعض علاقوں میں اس نے اپنی طرف سے نئی ریاستین قائم کردی تھیں، بایزید یلدرم جب ایشیائے کوچک کی طرف تیمور کے مقابلے کے لئے آیا تھا تو اپنے سب سے بڑے بیٹے سلیمان کو ایڈریانوپل میں اپنا قائم مقام بنا آیا تھا،جنگ انگورہ کے نتیجہ سے مطلع ہوکر عیسائیوں نے اپنے علاقوں کو پھر واپس لینے کی جرأت کی اور ایڈریانوپل اور اُس کے نواحی علاقوں کے سوا پاقی حصہ یورپی مقبوضات کا سلطنت عثمانیہ سے نکل گیا،قیصر قسطنطنیہ نے بھی جواس جنگ کے نتیجے کا بے صبری سے انتظار کررہا تھا اپنے مقبوضات کو وسیع کیا اوریورپ کے عیسائیوں کو اطمینان کا سانس لینا نصیب ہوا،مگر عثمانیوں کے ساتھ گذشتہ زمانے میں جو لڑائیاں ہوچکی تھیں اُن کا رُعب پھر بھی عیسائیوں کے دلوں پر اس قدر غالب تھا کہ وہ عثمانیوں کو ایڈر یا نوپل سے خارج کرنے پر فوراً آمادہ نہ ہوسکے،سلطنتِ عثمانیہ کا رقبہ بہت ہی محدود ومختصر رہ گیا تھا جس میں ایک چھوٹا سا ٹکڑا یورپ کا اورایک چھوٹا سا حصہ ایشیائے کوچک کا شامل تھا،پھر سب سے بڑی مصیبت یہ پیش آئی کہ بایزید یلدرم کےبیٹوں میں خانہ جنگی شروع ہوگئی۔ بایزید یلدرم کے ساتھ یا آٹھ بیٹے تھے جن میں سے پانچ چھ جنگ انگورہ کے بعد باقی رہے جن کے نام یہ ہیں،سلیمان خاں جو ایڈر یا نوپل میں باپ کا قائم مقام تھا،موسیٰ جو باپ کے ہمراہ قید تھا،عیسیٰ جو جنگ انگورہ سے بچ کر بروصہ کی طرف بھاگ آیا اوریہاں کا حاکم بن بیٹھا تھا، مجھ جو بایزید کا سب سے چھوٹا اور سب سے زیادہ لائق بیٹا یہ ایشیائے کوچک ہی کے ایک دوسرے شہر میں حکومت کرنے لگا، قاسم جو کوئی حوصلہ نہ رکھتا تھا اور محمد یا عیسیٰ کے ساتھ رہتا تھا،اس طرح بایزید کی گرفتاری کے بعد ایشیا کے بچے ہوئے عثمانی علاقے میں محمد اور عیسیٰ دونوں الگ فرماں روائی کرنے لگے اوریورپی علاقے پر سلیمان قابض رہا بہت ہی جلد عیسیٰ اورمحمد میں لڑائی ہوئی تاکہ اس بات کا فیصلہ ہوسکے کہ ایشیائے کوچک کے عثمانی مقبوضہ پر ان دونوں میں سے کون فرما نروائی کرے گا سخت خونخوار جنگ کے بعد محمد نے عیسیٰ کوشکست دے کر بروصہ پر قبضہ کرلیا اورعیسیٰ ایشیائے کوچک سے بھاگ کر اپنے بھائی سلیمان کے پاس ایڈریا نوپل میں پہنچا کہ اُس کو محمد کے اوپر ایشیائے کوچک سے بھاگ کر اپنے بھیا سلیمان کے پاس ایڈریا نوپل میں پہنچکا کہ اُس کو محمد کے اوپر ایشیائے کوچک میں چڑھا کر لائے؛چنانچہ سلیمان اپنی فوج کو لیکر ایشیائے کوچک میں آیا اوربروصہ وانگورہ کو فتح کرلیا،کس قدر عبرت کا مقام ہے کہ بایزید یلدرم تیمور کی قید میں سختی وذلت برداشت کررہا تھا اوراس کے بیٹے آپس میں مصروفِ جنگ تھے کہ سلطنت کے بچے ہوئے چھوٹے سے ٹکڑے پر کون فرماں روائی کرے،وہ جس وقت آپس میں چھری کٹاری ہورہے تھے تو اُن کو یقیناً اپنے باپ کا مطلق خیال نہ آتا تھا اور وہ اُس کی تکلیفوں اورذلتوں کا کوئی تصور نہ کرتے تھے ورنہ اس طرح آپس میں ایک دوسرے کے خون کی خواہش نہ کرتے، انہیں ایام میں جبکہ سلیمان ایشیائے کوچک میں آکر محمد سےلڑرہا تھا جنگِ انگورہ کے آٹھ ماہ بعد بایزید یلدرم نے قید میں وفات پائی اور تیمور نے اُس کے بیٹے موسیٰ کو قید سے رہا کرکے باپ کی لاش کے لے جانے کی اجازت دی، موسیٰ باپ کی لاش لئے ہوئے آرہا تھا کہ راستہ میں قرمانیہ کے سلجوقی رئیس نے موسیٰ کو گرفتار کرلیا، موسیٰ نے جو سلیمان سے شکست کھا کر ملک میں آوارہ اورسلیمان کے مقابلے کے لئے طاقت بہم پہنچانے کی فکر میں تھا اس خبر کو سُن کر فرماں روائے قرمانیہ کو لکھا کہ آپ براہِ کرم میرے بھائی موسیٰ کو رہا کردیجئے تاکہ میں اور وہ دونوں مل کر سلیمان کا کچھ تدارک کرسکیں، حاکم قرمانیہ نے سلیمان اوراُس کے بھائیوں میں معرکہ آرائی کو اس لئے غنیمت سمجھا کہ عثمانی سلطنت کی رہی سہی طاقت اس خانہ جنگی سے زائل ہوسکے گی؛چنانچہ اُس نے محمد خان کی سفارش کو فوراً قبول کرکے اُس کے بھائی موسیٰ کو رہا کردیا جو باپ کی تدفین سے فارغ ہوتے ہی فوراً اپنے بھائی محمد خان سے آملا ،موسیٰ چونکہ باپ کے ساتھ قید میں رہا تھا اُس لئے اُس کی قبولیت عثمانی امرا اورسپاہیوں میں قدرتاً زیادہ تھی،اُس کے شریک ہوتے ہی محمد خان کی طاقت بڑھ گئی اور بڑے زور شور سے ایشیائے کوچک کے میدانوں میں لڑائیوں کا سلسلہ جاری ہوا، ایک طرف محمد و موسیٰ اوردوسری طرف سلیمان وعیسیٰ تھے،آخر عیسیٰ تو نہ ہونے دیا، کئی مرتبہ محمد و موسیٰ کو شکست بھی ہوئی، آخر موسیٰ نے اپنے بھائی سے کہا کہ آپ مجھ کو تھوڑی سے فوج دے کر یورپی علاقےمیں بھیج دیجئے تاکہ میں وہاں جاکر قبضہ کروں اورسلیمان کو مجبوراً ایشیائے کوچک چھوڑ کر اُس طرف متوجہ ہونا پڑے، محمد کو بھائی کی یہ رائے بہت پسند آئی؛چنانچہ موسیٰ فوج لے کر ایڈریا نوپل پہنچ گیا، یہ خبر سنتے ہی سلیمان بھی اُس طرف متوجہ ہوا اورموسیٰ وسلیمان میں ایک خونخوار جنگ ہوئی، سلیمان چونکہ بڑا بیٹا تھا اوراپنے آپ کو تمام سلطنتِ عثمانیہ کا واحد فرماں روا سمجھتا تھا،لہذا اُس کو فوجی سرداروں کے ساتھ غیر معمولی رعایتیں کرنے اوراُن کو خوش رکھنے کا زیادہ خیال نہ آتا تھا،لیکن موسیٰ ومحمد چونکہ سلیمان سے حکومت چھیننا چاہتے تھے اورچھوٹا ہونے کی وجہ سے اپنے ھق کو خود بھی پست ترجانتے تھے لہذا ان کا برتاؤ اپنی فوج کے ساتھ بہت ہی اچھا تھا اوریہ اپنے فوجی سرداروں کو خوش رکھنے اوراُن کی عزتیں بڑھانے میں کسی موقع کو فروگذاشت نہ ہونے دیتے تھے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ فوجی سرداروں نے سلیمان پر موسیٰ کو ترجیح دی اورنہیں کی وجہ سے سلیمان کو موسیٰ کے مقابلے میں شکست فاش حاصل ہوئی سلیمان شکست یاب اورمفرور ہوکر قسطنطنیہ کے قیصر کی خدمت میں جارہا تھا کہ راستے میں ۱۸۱۳ھ میں گرفتار ہوکر مقتول ہوا،اب صرف دو بھائی باقی رہ گئے یعنی محمد اورموسیٰ ،سلطنت عثمانیہ کا یورپی حصہ موسیٰ کے قبضے میں آگیا اورایشیائی حصے پر محمد قابض رہا۔ موسیٰ کو چونکہ یہ معلوم تھا کہ قیصر مینو ٹل پلیولوگس فرماں روائے قسطنطنیہ سلیمان کی طرف داری کرتا تھا اوراسی لئے سلیمان اُس کے پاس بھاگ کر جانا چاہتا تھا لہذا اُس نے ارادہ کرلیا کہ قیصر قسطنطنیہ کو بھی سزادے مگر اس سے پہلے اس کے لئے ضروری ہوگیا تھا کہ وہ اسٹیفن حاکم سرویا کو سزا دے کیونکہ حاکم سرویا اسٹیفن نے علانیہ سلیمان کی حمایت کی تھی لہذا اُس نے اوّل سردیا پر چڑھائی کی اور سرویا کی فوج کو میدانِ جنگ میں ایسی شکست فاش دی کہ اُس کی کمر ٹوٹ گئی اور پھر سرحدی اضلاع میں عثمانیوں کا رعب اور عیسائیوں کے دلوں میں خوف طاری ہوگیا، موسیٰ کا یہ حملہ جو اس نے سرویا پر کیا سلطنت عثمانیہ کے لئے بہت ہی مفید ثابت ہوا کیونکہ اس سے یورپ کے عیسائیوں کا وہ خیال کہ اب عثمانی بہت کمزور ہوگئے ہیں بدل گیا، اس کے بعد موسیٰ نے قسطنطنیہ پر چڑھائی کرکے محاصرہ کرلیا اورقیصر قسطنطنیہ کو سزا دینا ضروری سمجھا قیصر نیوٹل بھی بہت ہوشیار اورچوکس آدمی تھا اُس نے اس فرصت میں محمد خان کے ساتھ اپنے تعلقات بڑھالئے تھے جو ایشیائے کوچک میں تنہا قابض و فرماں روا ہوکر کافی طور پر مضبوط ہوچکا تھا اوراُن چھوٹ چھوٹی ریاستوں کو جو تیمور نے قائم کردی تھیں،اپنی حکومت میں شامل کررہا تھا، بظاہر یہ معلوم ہوتا تھا کہ موسیٰ و محمد دونوں بھای اس تقسیم پررضا مند ہیں کہ موسیٰ یورپی علاقے پر قابض رہے اورمحمد ایشیائی علاقے میں حکومت کرے اگرچہ اس کے متعلق کوئی معاہدہ اورباقاعدہ فیصلہ نہ ہوا تھا،مگر قیصر کی رشیہ دوانیوں اور چالاکیوں نے بہت ہی جلد ایک پیچیدگی پیدا کردی،جب موسیٰ نے قسطنطنیہ کا محاصرہ کیا تو قیصر نے محمد خان سے امداد اعانت طلب کی اورمحمد خان نے بلا تامل اس محاصرہ کے اٹھانے کے لئے یورپ کے ساحل پر فوج لے کر جانا ضروری سمجھا،اس طرح قسطنطنیہ کے محاذ جنگ پر یورپی ترک اورایشیائی ترک آپس میں مصروفِ جنگ ہوئی اوردونوں بھائیوں میں مخالفت کی بنیاد رکھی گئی، ابھی موسیٰ کا محاصرہ بدستور قائم تھا کہ محمد خان کو اپنے ایشیائی علاقے میں ایک ماتحت رئیس کے باغی ہونے کی خبر پہنچی اورفوراً ایشیائے کوچک میں بغاوت کرنے چلا گیا، یہ بغاوت موسیٰ کے اشارے سے ہوئی تھی تاکہ محمد خان ایک عیسائی بادشاہ کی مدد نہ کرسکے، محمدخان بہت جلدبغاوت کے فرو کرنے میں کامیاب ہوا،اُدھر اُس کی غیر موجودگی میں موسیٰ نے محاصرہ میں سختی کی اورقیصر قسطنطنیہ کا حال بہت ہی پتلا ہونے لگا، محمد خان فارغ ہوکر دوبارہ قسطنطنیہ پہنچ گیا اوراُس نے اسٹیفن شاہ سرویا کو لکھا کہ تم موسیٰ کے خلاف خروج کرو ہم تمہاری مدد کریں گے ،محمد خان کا سہاراپاکر شاہ سرویا جو پہلے ہی سے موسیٰ کے ذریعہ آزار رسیدہ تھا اُٹھ کھڑا ہوا، موسیٰ کو جب شاہ سرویا کے خروج کا حال معلوم ہوا تو وہ قسطنطنیہ سے محاصرہ اٹھا کر سرویہ کی طرف متوجہ ہوا، ادھر سے اُس کے متعاقب محمد خان اپنی فوج لے کر پہنچا، سرودیہ کی جنوبی سرحد پر مقام جرلی کے میدان میں دونوں فوجوں کا مقابلہ ہوا، اور نتیجہ یہ ہوا کہ موسیٰ لڑائی میں مارا گیا اور محمد خان ابن بایزید یلدرم مظفر و منصور ہوکر ایڈریا نوپل میں تخت نشین ہوا اور تمام عثمانیہ مقبوضات میں وہی تنہا فرماں روا تسلیم کیا گیا،چونکہ اب بایزید کی اولاد میں وہی تنہا قابل حکومت شخص رہ گیا تھا،لہذا خانہ جنگی کا خاتمہ ہوا، محمد خان نے ایڈریا نوپل میں تخت نشین ہوکر اپنی رعایا،فوج اورسرداروں سے وفاداری کا حلف لیا اورسلیمان کے بیٹے کو جس سے بغاوت کا قوی اندیشہ تھا نیز اپنے بھائی قاسم کو جو بروصہ میں مقیم تھا محض اس لئے کہ آئندہ فتنہ برپانہ ہوسکے اندھا کرادیا اورنابینا کرانے کے بعد اُن کو نہایت آرام و عزت وآسائش سے رکھا، یہ واقعات ۸۱۶ھ میں وقوع پذیر ہوئے، اس طرح جنگِ انگورہ کے بعد گیارہ سال تک خاندانِ عثمانیہ میں خانہ جنگی کا سلسلہ جاری رہا، اس گیارہ سال کی خانہ جنگی میں سلطنتِ عثمانیہ کا قائم رہنا اورپھر ایک شان دار مضبوط شہنشاہی کی شکل میں نمودار ہوجانا دنیا کے عجائیبات میں سے شمار ہوتا ہے ،تاریخ عالم میں بہت ہی کم ایسی مثالیں نظر آسکتی ہیں کہ اتنے بڑے دھکے کو سہہ کر اورایسے خطرناک حالات میں گذر کر اتنی جلد کسی خاندان یا کسی قوم نے اپنی حالت کو سنبھال لیا ہو۔