انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** تبجیل الرسول برکت اندوزی صحابہ کرام مختلف طریقوں سے رسول اللہ ﷺ کی ذات سے برکت اندوز ہوتے رہتے ؛مثلا بچے بیمار پڑتے یا پیدا ہوتے تو ان کو آپ کی خدمت میں حاضر کرتے آپ بچے کے سرپر ہاتھ پھیرتے اپنے منہ میں کھجور ڈال کر اس کے منہ میں ڈالتے اوراس کے لئے برکت کی دعا فرماتے، حضرت سائب بن یزید ؓ کہتے ہیں کہ میں بیمار پڑا تو میری خالہ مجھ کو آپ کی خدمت میں لے گئیں، آپﷺ نے میرے سرپر ہاتھ پھیرا اوردعائے برکت کی اس کے بعد آ پ نے وضو کیا تو میں نے آپ کے وضو کا پانی پیا ،حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کے لڑکا پیدا ہوا تو آپ کی خدمت میں لائے ،آپ نے اس کا نام رکھا، اپنے منہ میں کھجور ڈال کے اس کے منہ میں ڈالی اوراس کو برکت کی دعا دی حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ پیدا ہوئے تو ان کی والدہ حضرت اسماءؓ ان کو لے کر آ ئیں اورآپ کی گود میں رکھ دیا، آپ نے کھجور منگا کر چبائی اوراس کو ان کے منہ میں ڈال دیا، پھر برکت کی دعا کی ،آپ ﷺبعض بچوں کے منہ میں کلی کردیتے بعض کے منہ میں لعاب دہن ڈال دیتے اوربعض کی آنکھوں پر ہاتھ پھیرتے ۔ (بخاری ،کتاب الدعوات ، بَاب الدُّعَاءِ لِلصِّبْيَانِ بِالْبَرَكَةِ وَمَسْحِ رُءُوسِهِمْ،حدیث نمبر:۵۸۷۵۔۵۸۷۹) (بخاری ،کتاب العقیقہ، بَاب تَسْمِيَةِ الْمَوْلُودِ غَدَاةَ يُولَدُ لِمَنْ لَمْ يَعُقَّ عَنْهُ وَتَحْنِيكِهِ،۵۰۴۵۔۵۰۴۸) حضرت زہرہ ابن معبدؓ ایک صحابی تھے بچپن ہی میں ان کی والدہ اُن کو آپ ﷺکی خدمت میں لائیں اورکہا کہ اس سے بیعت لی جیے، آپ نے فرمایا ابھی بچہ ہے یہ کہہ کر ان کے سرپر ہاتھ پھیرا اوردعادی ،چنانچہ جب ان کو لے کر ان کے دادا غلہ خریدنے کے لئے بازار جاتے تھے اورحضرت عبداللہ بن عمرؓ اورحضرت ابن زبیرؓ سے ملاقات ہوتی تھی تو کہتے تھے کہ ہم کو بھی شریک کرو ؛کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے تم کو برکت کی دعا دی ہے۔ (بخاری، کتاب الشرکۃ ،باب الشرکۃ فی الطعام،حدیث نمبر:۲۳۲۰) حافظ ابن حجر اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں: وَتَوَفُّر دَوَاعِي الصَّحَابَةِ عَلَى إِحْضَارِ أَوْلَادِهِمْ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِالْتِمَاس بَرَكَته یعنی اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے برکت حاصل کرنے کے لئے صحابہ کرام کو آپ کی خدمت میں اپنی اولاد کے حاضر کرنے کا بڑا شوق تھا۔ (فتح الباری،۷/۴۹۱) نماز فجر کے بعد صحابہ کرام کے ملازم برتنوں میں پانی لیکر حاضر ہوتے آپﷺ ان میں دست مبارک ڈال دیتے وہ متبرک ہوجاتا۔ (مسلم ،کتاب الفضائل ،باب فی قرب النبی من الناس وتبرکہم بہ،حدیث نمبر:۴۲۹۱) جب پھل پختہ ہوتے تو پہلا پھل آپﷺ کی خدمت میں پیش کرتے ،آپﷺ برکت کی دعا فرماتے اورسب سے چھوٹا بچہ جو موجود ہوتا اس کو دے دیتے ۔ (ترمذی ،کتاب الدعوات ،باب مایقول اذارای الباکورۃ من الثمر،حدیث نمبر:۳۳۷۶) آپ ﷺکے وضو کا بچا کھچا پانی صحابہ کے لئے آب حیات تھا جس پر وہ جان دیتے تھے، ایک بار حضرت بلالؓ نے آپ کے وضو کا بچا ہوا پانی نکالا تو تمام صحابہ نے اس کو جھپٹ لیا۔ (نسائی ،کتاب الطہارۃ، باب الانتفاع بفضل الوضو،حدیث نمبر:۱۳۷) ایک دن آپ نے وضوکیا، پانی بچ گیا تو تمام صحابہ نے اس کو لے کر جسم پر مل لیا۔ (بخاری، کتاب الوضو ،باب استعمال فضل وضوء الناس،حدیث نمبر:۱۸۱) ایک بار آپ سرمنڈوارہے تھے،صحابہ کرام نے آپ کو گھیر لیا، حجام سرمونڈتا جاتا تھا اورصحابہ اوپر ہی اوپر سے بالوں کو اچک لینا چاہتے تھے۔ (مسلم، کتاب الفضائل ،باب فی قرب النبی ﷺ وتبرکہم،حدیث نمبر:۴۲۹۲) ایک بار رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابومحذورہ ؓ کی پیشانی پر ہاتھ پھیر دیا، اس کے بعد انہوں نے عمربھر نہ سرکے آگے کے بال کٹوائے ،نہ مانگ نکالی(بلکہ اس کو بطور متبرک یادگار کے قائم رکھا) (ابوداؤد ،کتاب الصلوٰۃ ،باب کیف الاذن،حدیث نمبر:۴۲۲) ۔ آپ ﷺجب صحابہ کرامؓ کے مکان پر تشریف لاتے تو وہ آپ سے برکت حاصل کرنے کی درخواست کرتے ،ایک بار آپﷺ ایک صحابی کے گھر پر تشریف لائے،انہوں نے دعوت کی، جب چلنے لگے تو گھوڑے کی باگ پکڑ کر عرض کی کہ میرے لئے دعا فرمایئے، آپ نے دعائے برکت ودعائے مغفرت فرمائی۔ (ابوداؤد، کتاب الاشربہ فی النفح فی الشراب،حدیث نمبر:۳۲۴۱) ایک بار آپﷺ حضرت سعدؓ کے گھر تشریف لائے اور دروازے پر کھڑے ہو کر سلام کیا، انہوں نے آہستہ سے جواب دیا ان کے صاحبزادے نے کہا رسول اللہ ﷺ کو اذن نہیں دیتے؟ بولے چپ رہو مقصد یہ ہے کہ آپ ہم پر بار بار سلام کریں ، آپﷺ نے دوبارہ سلام کیا، پھر اسی قسم کا جواب ملا،تیسری بار سلام کرکے آپ واپس چلے تو حضرت سعدؓ پیچھے پیچھے دوڑے ہوئے آئے اورکہا کہ میں آپ کا سلام سنتا تھا؛لیکن جواب اس لئے آہستہ سے دیتا تھا کہ آپ ہم پر متعدد بار سلام کریں۔ (ابوداؤد، کتاب الادب ،باب كَمْ مَرَّةً يُسَلِّمُ الرَّجُلُ فِي الِاسْتِئْذَانِ،حدیث نمبر:۴۵۱۱) محافظت یادگارِرسول صحابہ کرام کے زمانے میں رسول اللہ ﷺ کی اکثر یادگاریں محفوظ تھیں جن کو وہ جان سے زیادہ عزیز رکھتےتھے اوران سے برکت حاصل کرتے تھے، حضرت علی بن حسینؓ کابیان ہے کہ جب ہم لوگ حضرت امام حسینؓ علیہ السلام کی شہادت کے زمانے میں یزید کے دربار سے پلٹ کر مدینہ میں آئے تو حضرت مسوربن مخرمہؓ ملے اورمجھ سے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کی تلوار مجھے دے دو ایسا نہ ہو کہ یہ لوگ اس کو چھین لیں ،خدا کی قسم اگر تم نے مجھے یہ تلوار دی تو جب تک جسم میں جان باقی ہے کوئی شخص اس کی طرف ہاتھ نہیں بڑھا سکتا۔ (ابوداؤد، کتاب النکاح ،بَاب مَا يُكْرَهُ أَنْ يُجْمَعَ بَيْنَهُنَّ مِنْ النِّسَاءِ،حدیث نمبر:۱۷۷۲) حضرت عائشہؓ کے پاس آپ کا ایک جبہ محفوظ تھا، جب ان کا انتقال ہوا تو حضرت اسماءؓ نے اس کو لے لیا اورمحفوظ رکھا،چنانچہ جب ان کے خاندان میں کوئی شخص بیمار ہوتا تھا تو شفاء حاصل کرنے کے لئے دھوکر اس کا پانی پلاتی تھیں۔ (مسند ابن حنبل جلد ۶:۳۴۸) بہت سے صحابہ ان یادگاروں کو زاد آخرت سمجھتے تھے اوران کو بعد مرگ بھی اپنے پاس سے جدا کرنا پسند نہیں کرتے تھے ،جب آپﷺ حضرت انس ؓ کے گھر تشریف لاتے تھے تو ان کی والدہ آپ کے پسینہ کو ایک شیشی میں بھر کر اپنی خوشبو میں ملادیتی تھیں؛ چنانچہ جب حضرت انسؓ نے انتقال کیا تو وصیت کی کہ یہ خوشبو ان کے حنوط میں شامل کیا جائے۔ (بخاری، کتاب الاستیذان، باب من زار قوماً فقال عندھم،حدیث نمبر:۵۸۰۹) اس روایت میں یہ بھی ہے کہ وہ آپ کے بال کو بھی شیشی میں بھر لیتی تھیں؛ حافظ ابن حجر نے لکھا ہے کہ بعض لوگوں کے نزدیک اس سے وہ بال مراد ہیں جو کنگھی کرنے میں آپ کے سرسے جھڑ جاتے تھے،پھر حضرت انسؓ سے ایک روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب منی میں اپنے بال مونڈوائے تو حضرت ابو طلحہ ؓ نے آپ کے بال لے لئے اوران کو حضرت انسؓ کی والدہ کے حوالے کیا،جن کو انہوں نے اپنی خوشبو میں شامل کرلیا، اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جس خوشبو میں یہ بال شامل تھے اسی میں وہ پسینے کو بھی شامل کرلیتی تھیں۔ (فتح الباری،۱۸/۲۵) غزوۂ خیبر میں آپﷺ نے ایک صحابیہ کو خود دستِ مبارک سے ایک ہار پہنایا تھا وہ اس کی اس قدرقدر کرتی تھیں کہ عمربھر گلے سے جدا نہیں کیا اورجب انتقال کرنے لگیں ،تووصیت کی کہ ان کے ساتھ وہ بھی دفن کردیا جائے۔ (مسند احمد بن حنبل ج۶:۳۸۰ ) حضرت امیر معاویہؓ کے پاس آپ کی ایک قمیص،ایک تہبند ،ایک چادر اورچند موئے مبارک تھے،انہوں نے وفات کے وقت وصیت کی کہ یہ کپڑے کفن میں لگائے جائیں اورموئے مبارک منہ اورناک میں بھردیے جائیں۔ (نزہتہ الابرار تذکرہ حضرت معاویہؓ ) رسول اللہ ﷺ نے جن کپڑوں میں انتقال فرمایا تھا،حضرت عائشہ نے ان کو محفوظ رکھا تھا،چنانچہ ایک دن انہوں نے ایک صحابی کو ایک یمنی تہ بند اورایک کمبل دکھا کر کہا کہ خدا کی قسم آپ نے ان ہی کپڑوں میں انتقال فرمایاتھا۔ (ابوداؤد، کتاب اللباس، بَاب لِبَاسِ الْغَلِيظِ،حدیث نمبر:۳۵۱۸) ایک صحابی کو آ پﷺنے سیاہ ریشم کا ایک عمامہ عطا فرمایا،انہوں نے اس کو محفوظ رکھا تھا اوراس پر فخر کیا کرتے تھے، چنانچہ ایک بار بخارا میں خچر پر سوار ہوکر نکلے تو عمامہ دکھا کر کہاکہ اس کو رسول اللہ ﷺ نے مجھ کو عنایت فرمایا تھا۔ (ابوداؤد، باب ماجاء فی الخز،حدیث نمبر:۳۵۲۰) آپ کے چند بال حضرت ام سلمہؓ نے بطور یادگار کے محفوظ رکھے تھے اورجب کوئی شخص بیمار ہوتا تھا تو ایک برتن میں پانی بھر کر بھیج دیتا تھا اوروہ اس میں بالوں کو دھوکر واپس کر دیتی تھیں جس کو وہ شفا حاصل کرنے کے لیے پی جاتا تھا یا اس سے غسل کرلیتا تھا۔ (بخاری، کتاب اللباس، باب مایذکر فی الشیب مع فتح الباری،حدیث نمبر:۵۴۴۶) خلفاء ان یادگاروں کی نہایت عزت کرتے تھے،اوران سے برکت اندوز ہوتے تھے،ایک بار آپ نے کسی عجمی بادشاہ کے نام خط لکھنا چاہا تو لوگوں نے کہا کہ جب تک خط پر مہر نہ ہو اہل عجم اس کو نہیں پڑھتے، اس لئے اپ نے ایک چاندی کی انگوٹھی تیار کروائی جس کے نگینہ پر محمد رسول اللہ کندہ تھا، اس انگوٹھی کو خلفائے ثلاثہ نے محفوظ رکھا تھا،اخیر میں حضرت عثمان ؓ کے ہاتھ سے کنویں میں گرپڑی ،انہوں نے تمام کنویں کا پانی نکلوا ڈالا لیکن یہ گوہر نایا ب نہ مل سکا۔ (ابوداؤد، کتاب الخاتم،بَاب مَا جَاءَ فِي اتِّخَاذِ الْخَاتَمِ،حدیث نمبر:۳۶۸۱) حضرت کعب بن زہیرؓ کے قصیدے کے صلے میں رسول اللہ ﷺ نے خود اپنی چادر عنایت فرمائی تھی، یہ چادر امیر معاویہؓ نے ان کے صاحبزادے سے خرید لی،اوران کے بعد تمام خلفاء عیدین میں وہی چادر اوڑھ کر نکلتے تھے۔ (اصابہ ،تذکر ۃ،حضرت کعب بن زہیر) آپ جس پیالے میں پانی پیتے تھے وہ حضرت انس بن مالکؓ کے پاس محفوظ تھا، ایک بار وہ ٹوٹ گیا تو انہوں نے اس کو چنادی کے تار سے جڑوایا اس میں ایک لوہے کا حلقہ بھی لگا ہوا تھا لیکن بعد کو حضرت انسؓ نے اس میں سونے یا چاندی کا حلقہ لگوانا چاہا؛ لیکن حضرت طلحہ نے منع کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے جو کام کیاہے اس میں تغیر نہیں کرنا چاہئے آپﷺ کے دواور پیالے حضرت سہل ؓ اورحضرت عبداللہ بن سلامؓ کے پاس محفوظ تھے۔ (بخاری ،کتاب الاشربہ، باب الشرب من قدح النبیؐ،حدیث نمبر:۵۲۰۷ ) ایک دن آپ حضرت ام سلیم ؓ کے مکان پر تشریف لائے گھر میں ایک مشکیزہ لٹک رہا تھا، آپ نے اس کا دہانہ اپنے منہ سے لگایا اورپانی پیا،حضرت ام سلیمؓ نے مشکیز ے کے دہانے کو کاٹ کر اپنے پاس بطور یادگار کے رکھ لیا۔ (طبقات ابن سعد ،تذکرہ حضرت ام سلیمؓ) آپ حضرت شفاء بنت عبداللہ کے یہاں کبھی کبھی قیلولہ فرماتے تھے اس غرض سے انہوں نے آپ کے لئے ایک خاص بستر اورایک خاص تہبند بنوالیا تھا، جس کو پہن کر آپ استراحت فرماتے تھے، یہ یادگاریں ایک مدت تک ان کےپاس محفوظ رہیں اخیر میں مروان نے ان سے لے لیا (اسدالغابہ، تذکرہ حضرت شفاء بنت عبداللہ) ان یادگاروں کے علاوہ صحابہ کرام آپ ﷺکی ہر چیز کو یاد گار سمجھتے تھے اورلوگوں کو اس کی زیارت کرواتے تھے، حضرت نافع کا بیان ہے کہ مجھ کو حضرت عبداللہ بن عمرؓ نےمسجد میں وہ جگہ دکھائی جہاں آپ معتکف ہوتے تھے۔ (ابوداؤد، کتاب الصیام ،باب ان یکون الاعتکاف،حدیث نمبر:۲۱۰۹) ادب رسول اللہ ﷺ صحابہ کرام جس طرح رسول اللہ ﷺ کا ادب و احترام کرتے تھے، اس کا اظہار سینکڑوں طریقہ سے ہوتا تھا آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے تو دربار نبوت کے ادب وعظمت کے لحاظ سے خاص طورپر کپڑے زیب تن کرلیتے ،ایک صحابیہ فرماتی ہیں کہ جمعت علی یثابی حین امسیت فاتیت رسول اللہ ﷺ (ابوداؤد، کتاب الطلاق ،باب فی عدۃ الحامل،حدیث نمبر:۱۹۶۲) شام ہوئی تو میں نے تمام کپڑے پہن لئے اورآپ کی خدمت میں حاضر ہوئی بغیرطہارت کے آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہونا اورآپ سے مصافحہ کرنا گوارانہ کرتے، مدینہ کے کسی راستے میں آپﷺ سے حضرت ابوہریرہؓ کا سامنا ہوگیا ان کو نہانے کی ضرورت تھی گوارا نہ کیا کہ اس حالت میں آپ کے سامنے آ ئیں، اس لئے آپ کو دیکھاتو کتراگئے اورغسل کرکے خدمت اقدس میں حاضر ہوئے، آپﷺ نے دیکھا تو فرمایا کہ ابوہریرہ کہاں تھے؟ بولے میں پاک نہ تھا اس لئے آپ کے پاس بیٹھنا پسند نہیں کرتا تھا۔ (ابوداؤد، کتاب الطہارۃ، باب فی الجنب یصافح،حدیث نمبر:۲۰۰) آپ کے سامنے بیٹھتے تو فرط ادب سے تصویر بن جاتے ،احادیث میں اسی حالت کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا گیا ہے "كَأَنَّمَا عَلَى رُءُوسِهِمْ الطَّيْر" یعنی صحابہ آپ کے سامنے اس طرح بیٹھتے تھے گویا ان کے سروں پر چڑیا بیٹھی ہوئی ہے۔ (ابوداؤد، کتاب الطب، باب الرجل یتداوی،حدیث نمبر::۳۵۷) گھر میں بچے پیدا ہوتے تو ادب سے ان کا نام محمد نہ رکھتے ، ایک دفعہ ایک صحابی کے گھر میں بچہ پیدا ہوا تو انہوں نے محمد نام رکھا ؛لیکن ان کی قوم نے کہا ہم نہ یہ نام رکھنے دیں گے نہ اس کنیت سے تم کو پکاریں گے، تم اس کے متعلق خود رسول اللہ ﷺ سے مشورہ کرلو وہ بچے کو لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور واقعہ بیان کیا تو ارشاد ہوا کہ میرے نام پر نام رکھو؛ لیکن میری کنیت نہ اختیار کرو۔ (مسلم ،کتاب الاداب ، بَاب النَّهْيِ عَنْ التَّكَنِّي بِأَبِي الْقَاسِمِ وَبَيَانِ مَا يُسْتَحَبُّ مِنْ الْأَسْمَاءِ،حدیث نمبر:۳۹۷۶) اگر راستے میں کبھی ساتھ ہوجاتا تو ادب سے آپ ﷺکی سواری پر سوار ہونا پسند نہ کرتے ،ایک بارحضرت عقبہ بن عامرؓ آپ کا خچر ہانک رہے تھے، آپ نے کہا سوارکیوں نہیں ہولیتے؟ لیکن انہوں نے اس کو بڑی بات سمجھا کہ آپ کے خچر پر سوار ہوں تاہم امتثالاً للامر تھوڑی دور تک سوار ہوئے۔ (نسائی، کتاب الاستعاذہ :۸۰۳) فرط ادب سے کسی بات میں آپ سے تقدم یا مسابقت گوارانہ کرتے ،ا ٓپ غزوہ تبوک کے سفر میں قضائے حاجت کے لیے صحابہ سے الگ ہوگئے، نماز فجر کا وقت آگیا تو صحابہ نے آپ کے آنے سے پیشتر ہی حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کی امامت میں نماز شروع کردی، آپ پہنچے تو ایک رکعت نماز ہوچکی تھی ،اس لئے آپ دوسری رکعت میں شریک ہوئے ،نماز ہوچکی تو تمام صحابہ نے اس کو بے ادبی بلکہ گناہ خیال کیا اورسب کے سب بطورا استعفار کے سبحان اللہ سبحان اللہ کہنے لگے، آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کہ تم نے اچھا کیا۔ (ابوداؤد، کتاب الطہارۃ، باب المسح علی الحفین،حدیث نمبر:۱۲۸) ایک بار آپ کسی نزاع چکانے کے لئے قبیلہ بنوعمروبن عوف میں گئے ،نماز کا وقت آگیا تو مؤذن حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں آئے اور عرض کیا کہ آپ نمازپڑھا دیجئے ،وہ نماز پڑھا رہے تھے کہ آپ آکر شریک جماعت ہوگئے ،لوگوں نے تالیاں بجانا شروع کیں،حضرت ابوبکرؓ اگرچہ نماز میں کسی طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے تاہم جب لوگوں نے مسلسل تالیاں بجائیں تو مڑ کر دیکھ کہ رسول اللہ ہیں آپ نے اشارہ کیا کہ اپنی جگہ قائم رہو، انہوں نے پہلے تو خدا کا شکر کیا کہ آپﷺ نے ان کی امامت کو پسندفرمایا، پھر پیچھے ہٹ آئے اورآپ نے آگے بڑھ کر نماز پڑھائی،نماز سے فارغ ہوکر فرمایا کہ جب میں نے حکم دیا تو تم کیوں اپنی جگہ سے ہٹ آئے؟ بولے کہ ابن قحافہ کا یہ منہ نہ تھا کہ رسول اللہﷺ کے آگے نماز پڑھائے۔ (ابوداؤد،کتاب الصلوۃ، باب التصیفق فی الصلوٰۃ،حدیث نمبر:۸۰۵) ایک بار آپ پیدل جارہے تھے کہ اس حالت میں ایک صحابی گدھے پر سوار آئے، آپ کو پیدل دیکھا تو خود بڑے ادب سے پیچھے ہٹ گئے اورآپ کو آگے سوار کرنا چاہا ؛لیکن آپﷺ نے فرمایا، تم آگے بیٹھنے کے زیادہ مستحق ہو،البتہ اگر تمہاری اجازت ہو تو میں آگے بیٹھ سکتا ہوں۔ (ابوداؤد، کتاب الجہاد،بَاب رَبُّ الدَّابَّةِ أَحَقُّ بِصَدْرِهَا،حدیث نمبر:۲۲۰۸) اگر کبھی آپﷺ کے ساتھ کھانا کھانے کا اتفاق ہوتا تو جب تک آپ کھانا شروع نہ کرتے تمام صحابہ فرط ادب سے کھانے میں ہاتھ نہ ڈالتے۔ (ابوداؤد،کتاب الاطعمۃ، باب التسمیۃ علی الطعام،حدیث نمبر:۳۲۷۴) ادب کے مارے آپ سے آگے چلنا پسند نہیں کرتے، ایک سفر میں حضرت ابن عمرؓ ایک سرکش اونٹ پر سوار تھے،جو رسول اللہﷺ سے آگے نکل نکل جاتا تھا، حضرت عمرؓ نے ان کو ڈانٹا کہ کوئی آپﷺ سے آگے نہ بڑھنے پائے۔ (بخاری، کتاب الہبہ، بَاب مَنْ أُهْدِيَ لَهُ هَدِيَّةٌ وَعِنْدَهُ جُلَسَاؤُهُ فَهُوَ أَحَقُّ،حدیث نمبر:۲۴۱۹) کسی چیز میں آپﷺ کے مقابلہ کی جرأت نہ کرتے ،ایک بار چند صحابہ جو قبیلہ اسلم سے تعلق رکھتے تھے، باہم تیراندازی میں مقابلہ کررہے تھے،آپ نے فرمایا اے بنو اسمعیل تیر پھینکو، کیونکہ تمہارا باپ تیرا انداز تھا اورمیں فلاں قبیلہ کےساتھ ہوں،دوسرے گروہ کے لوگ فوراً رک گئے، آپﷺ نے پوچھا کہ تیر کیوں نہیں پھینکتے ؟ بولے اب کیونکر مقابلہ کریں، جب کہ آپ ان کے ساتھ ہیں،فرمایا تیر پھینکو میں تم سب کے ساتھ ہوں۔ (بخاری، کتاب الجہاد،بَاب التَّحْرِيضِ عَلَى الرَّمْيِ،حدیث نمبر:۲۶۸۴) حافظ ابن حجر اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ یہ لوگ اس لئے رک گئے کہ اگر وہ اپنے فریق پر غالب آئے ،درانحالیکہ رسول اللہ ﷺ بھی ان کے ساتھ ہیں، تو آپ بھی مغلوب ہوجائیں گے، اس لیے انہوں نے ادب سے مقابلہ ہی کرنا چھوڑدیا۔(فتح الباری،۹/۵۱) اس ادب و احترام کا نتیجہ یہ تھا کہ آپ کی نسبت کسی قسم کی سوء ادبی گوارانہ کرتے ،آپﷺ ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو حضرت ابو ایوب انصاری کے مکام میں قیام فرمایا، اورآپ نیچے کے حصے میں اوران کے اہل عیال اوپر کے حصے میں رہنے لگے، ایک رات حضرت ابو ایوب انصاری بیدار ہوئے توکہا کہ ہم اوررسول اللہ ﷺ کے اوپر چلیں پھیریں، اس خیال سے تمام اہل وعیال کو ایک کونے میں کردیا صبح کو آپ کی خدمت میں گذارش کی کہ آپ اوپر قیام فرمائیں، ارشاد ہوا کہ نیچے کا حصہ ہمارے لیے زیادہ موزوں ہے بولے کہ جس چھت کے نیچے آپ ہوں ہم اس پر نہیں چڑھ سکتے،مجبوراً آپ کو بالا خانہ پر قیام کرنا پڑا۔ (مسلم ،کتاب الاشربہ، بَاب إِبَاحَةِ أَكْلِ الثُّومِ وَأَنَّهُ يَنْبَغِي لِمَنْ أَرَادَ خِطَابَ الْكِبَارِ تَرْكُهُ وَكَذَا مَا فِي مَعْنَاهُ،حدیث نمبر:۳۸۲۸) بعض صحابہ آپ سے سن میں بڑے تھے ؛لیکن ان کو فرط ادب سے یہ گوارا نہ تھا کہ ان کو آپ سے بڑا کہا جائے ،ایک بار حضرت عثمانؓ نے ایک صحابی سے پوچھا، آپ بڑے ہیں یا رسول اللہ بولے بڑے تو رسول اللہ ﷺ ہیں، البتہ میں آپ سے پہلے پیدا ہوا تھا۔ (ترمذی، ابواب المناقب عن رسول اللہ ﷺ، باب ماجاء فی میلاد النبی ﷺ،حدیث نمبر:۳۵۵۲) اگر نادانستگی میں بھی آپ کی شان میں کوئی گستاخانہ کلمہ نکل جاتا تو اس کی معافی چاہتے،ایک صحابیہ کا بچہ مرگیا تھا اوروہ اس پر رو رہی تھیں، آپ کا گذر ہوا تو فرمایا، خدا سے ڈرو اورصبر کرو،بولیں تمہیں میری مصیبت کی کیا پرواہ ہے، آپ چلے گئے ،تولوگوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ تھے،دوڑی ہوئی آئیں اورعرض کی کہ میں نے حضور ﷺکو نہیں پہنچانا تھا۔ (ابوداؤد، کتاب الجنائز، باب الصبر عند الصدمہ،حدیث نمبر:۲۷۱۷) اگر کسی دوسرے شخص کے متعلق آپ کی نسبت گستاخی کا خیال ہوتا تو صحابہ کرام سخت برہم ہوتے،ایک بارحضرت ابوبکرؓ کا شانہ نبوت میں آئے، دیکھا کہ حضرت عائشہ بآواز بلند بول رہی ہیں، فوراً طمانچہ اُٹھایا اورکہا کہ اب کبھی آپ کے سامنے آواز بلند نہ ہونے پائے۔ (ابوداؤد، کتاب الادب ،باب ماجاء فی المزاح،حدیث نمبر:۴۳۴۷) آپ پر ایک شخص کا کچھ قرض آتا تھا، اس نے گستاخانہ طریقے سے تقاضا کیا ،تو تمام صحابہ اس پر ٹوٹ پڑے ،بالآخر خود آپ نے بیچ بچاؤ کیا۔ (ابن ماجہ، ابواب الصدقات ،باب لصاحب الحق سلطان،حدیث نمبر:۲۴۱۶) ایک بار آپ سفر میں تھے ایک بدو آیا اوروحشیانہ لہجہ میں بآواز بلند پکارا، یا محمد، یا محمد، صحابہ کرامؓ نے کہا ،ہیں ہیں،یہ کیا؟ یہ منع ہے۔ (ترمذی ،کتاب الدعوات ،باب ماجاء فی فضل التوبہ الاستغفار وماذکر من رحمۃ اللہ العبادہ،حدیث نمبر:۳۴۵۸) ایک بارآپ ﷺنے فرمایا کہ انصار کے خاندانوں میں سب سے افضل بنو نجار ہیں پھر بنو عبدالاشہل، پھر بنو حرث بن خزرج، پھر بنو ساعدہ ان کے علاوہ انصار کے تمام خاندان اچھے ہیں، حضرت سعدبن عبادہ قبیلہ بنو ساعدہ سے تھے، ان کو جب معلوم ہوا کہ آپ نے ان کے قبیلہ کو چوتھے نمبر پر رکھا تو ان کو کسی قدر ناگوار ہوا، بولے میرے گدھے پر زین کسو میں خود رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق گفتگو کروں گا، لیکن ان کے بھتیجے حضرت سہلؓ نے کہا کیا آپ رسول اللہ ﷺ کی تردید کے لئے جاتے ہیں؟ حالانکہ رسول اللہ ﷺ وجوہ فضیلت کے سب سے زیادہ عالم ہیں، یہ کیا کم ہے کہ آپ کا چوتھا نمبر ہے۔ (مسلم ،کتاب الفضائل، باب فی خیر دورالانصاری،حدیث نمبر:۴۵۶۸) صلح حدیبیہ کے بعد کافروں اورمسلمانوں میں اختلاط ہوگیا حضرت سلمہؓ آئے اورایک درخت کے نیچے لیٹ گئے،چارمشرک بھی اس جگہ آئے اوررسول اللہ ﷺ کو برا بھلا کہنا شروع کیا،ان کو گوارانہ ہوسکا، اُٹھ گئے،دوسری جگہ چلے گئے اورچاروں مشرک بھی ہتھیار کو لٹکا کر سورہے اسی حالت میں شور ہوا کہ ابن زنیم قتل کردیا گیا، حضرت سلمہؓ نے موقع پاکر تلوار میان سے کھینچ لی، اورچاروں پر حالت خواب میں حملہ کرکے ان کے تمام ہتھیاروں پر قبضہ کرلیا اورکہا کہ اس ذات کی قسم جس نے محمد کو عزت دی تم میں سے جو شخص سر اُٹھائے گا اس کا دماغ پاش پاش کردیا جائے گا۔ (مسلم ،کتاب الجہاد، باب غزوہ ذی قردوغیرہا،حدیث نمبر:۳۳۷۲) ایک شخص کا نام محمد تھا، حضرت عمرؓ نےدیکھا کہ ایک آدمی ان کو گالیاں دے رہا ہے،بلاکر کہا کہ دیکھو تمہاری وجہ سے محمد کو گالی دی جارہی ہیں، اب تادمِ مرگ تم اس نام سے پکارے نہیں جاسکتے،چنانچہ اسی وقت ان کا نام عبدالرحمن رکھ دیا، پھر بنوطلحہ کے پاس پیغمام بھیجا کہ جو لوگ اس نام کے ہوں سب کے نام بدل دیے جائیں، اتفاق سے وہ لوگ سات آدمی تھے اوران کے سردار کا نام محمد تھا، لیکن انہوں نے کہا خود رسول اللہ ﷺ ہی نے میرا نام محمد رکھا ہے،بولے ،اب میرا اس پر کچھ زور نہیں چل سکتا۔ (مسند احمد،حَدِيثُ مُحَمَّدِ بْنِ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ،حدیث نمبر:۱۷۲۲۳) چھوٹے چھوٹے بچے بھی اگر آپ کے ساتھ کسی قسم کی گستاخی کرتے تو صحابہ کرامؓ ان کو ڈانٹ دیتے ،حضرت ام خالدؓ اپنے باپ کے ساتھ حاضر خدمت ہوئیں،اوربچپن کی وجہ سے خاتم النبوۃؐ سے کھیلنے لگیں ان کے والد نے ڈانٹا لیکن آپ نے فرمایا کھیلنے دو۔ (بخاری، کتاب الجہاد، بَاب مَنْ تَكَلَّمَ بِالْفَارِسِيَّةِ وَالرَّطَانَةِ ،حدیث نمبر:۲۸۴۲) جو چیزیں شان نبوت کے خلاف ہوتیں صحابہ کرام آپ کے سامنے ان کے ذکر تک کو سوء ادبی سمجھتے، آپﷺ نے جب عمرۂ قضا ادا فرمایا تو حضرت عبداللہ بن رواحہؓ آپ کے آگے آگے اشعار پڑھتے چلتے تھے، حضرت عمرؓ نے سُنا تو فرمایا، رسول اللہ کے سامنے اورحدود حرم کے اندر شعرپڑھتے ہو؛لیکن آپ نے خود اس کو مستحسن خیال فرمایا۔ (ترمذی،بَاب مَا جَاءَ فِي إِنْشَادِ الشِّعْرِ،حدیث نمبر:۲۷۷۴،آگے امام ترمذی لکھتے ہیں ہے کہ اشعار حضرت کعب بن مالک نے پڑھے تھے اوریہی صحیح بھی ہے) ایک دفعہ کچھ لوگوں نے جمعہ کے دن آپ ﷺکے منبر کے سامنے شوروغل کرنا شروع کیا،حضرت عمرؓ نے ڈانٹا کہ آپ کے منبر کے سامنے آواز اونچی نہ کرو۔ (مسلم، کتاب الامارۃ ،باب فضل الشہادۃ فی سبیل اللہ تعالی،حدیث نمبر:۳۴۹۱) یہ تعظیم یہ ادب یہ عزت آپ ﷺکی زندگی ہی کے ساتھ مخصوص نہ تھی؛بلکہ آپ کے وصال کے بعد بھی صحابہ کرام آپ کا اسی طرح ادب کرتے تھے، آپﷺ کے وصال کے بعد قبر کے متعلق اختلاف ہواکہ لحد کھودی جائے یا صندوق اس پر لوگوں نے شوروغل کرنا شروع کیا،حضرت عمرؓنے فرمایا آپ کے سامنے موت وحیات دونوں حالتوں میں شوروشغب نہ کرو۔ ( ابن ماجہ، کتاب الجنائز ،باب ماجاء فی الشق،حدیث نمبر:۱۵۴۷ ) صحابہ کرام کے ادم واحترام کا منظر صلح حدیبیہ میں عروہ کو نظر آیا تو وہ سخت متاثر ہوا، اس نے صلح کے متعلق آپﷺ سے گفتگو کی تو عرب کے طریقے کے مطابق ریش مبارک کی طرف ہاتھ بڑھانا چاہا؛ لیکن جب ہاتھ بڑھاتا تھا، حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ تلوار کے ذریعہ سے روک دیتے تھے اس واقعہ سے عروہ کو اس طرف توجہ ہوگئی اوراس نے صحابہ کے طرز عمل کو بغور دیکھنا شروع کیا تو اس پر یہ اثر پڑا کہ پلٹا توکفار سے بیان کیا کہ میں نے قیصر وہ کسریٰ اورنجاشی کے دربارد یکھے ہیں؛ لیکن محمد ﷺ کے اصحاب جس قدر محمد ﷺ کی تعظیم کرتے ہیں اس قدر کسی بادشاہ کے رفقاء نہیں کرتے اگر وہ تھوکتے ہیں تو ان لوگوکے ہاتھوں میں اک کا تھوک گرتا ہے اوروہ اپنے جسم وچہرہ پر اس کو مل لیتے ہیں،اگروہ کوئی حکم دیتے ہیں تو ہرشخص مسابقت کرنا چاہتا ہے، اگر وہ وضو کرتے ہیں تو وہ لوگ بچے کھچے پانی کے لیے باہم لڑپڑتے ہیں،اگر ان کے سامنے بولتے ہیں، تو ان کی آوازیں پست ہوجاتی ہیں اوران کی طرف آنکھ بھر کر نہیں دیکھتے۔ (بخاری، باب الشروط فی الجہاد والمصالح مع اہل الحرب ،حدیث نمبر:۲۵۲۹) جان نثاری صلح حدیبیہ میں جب عروہ نے رسول اللہ ﷺ سے کہا کہ میں آپ کے سامنے ایسے چہرے اورمخلوط آدمی دیکھتا ہوں جو آپ کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے،توحضرت ابوبکرؓ کے دل پر اس طنز آمیز فقرہ نے نشتر کا کام دیا، اورانہوں نے برہم ہوکے کہا ہم اورآپ کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے یہ ایک قول تھا جس کی تائید ہر موقع پر صحابہ کرام ؓ نے اپنے عمل سے کی۔ (بخاری، باب الشروط فی الجہاد والمصالح مع اہل الحرب ،حدیث نمبر:۲۵۲۹) ابتدائے اسلام میں ایک بار آپ نماز پڑھ رہے تھے عقبہ بن ابی معیط آیا اورآپ کا گلا گھونٹنا چاہا ،حضرت ابوبکرؓ نے اس کوڈھکیل دیا اورکہا کہ ایک آدمی کو صرف اس لئے قتل کرتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا خدا اللہ ہے ،حالانکہ وہ تمہارے خدا کی جانب سے دلائل لے کر آیا ہے۔ (بخاری، کتاب المناقب، فضائل ابی بکرؓ،حدیث نمبر:۳۴۰۲) ہجرت کے بعد آپ ﷺاوربھی خطرات میں مبتلا ہوگئے تھے کفارکے علاوہ اب منافقین اوریہود نئے دشمن پیدا ہوگئے تھے، جن کا رات دن ڈرلگارہتا تھا، اس لئے آپ کو اکثر پاسبانی کی ضرورت ہوتی تھی، اورصحابہ کرامؓ آپ کی حفاظت کے لئے اپنے آپ کو ان تمام خطرات میں ڈال دیتے تھے،چنانچہ ابتدائے ہجرت میں آپ ایک شب بیدار ہوئے تو فرمایا ،کاش آج کی رات کوئی صالح بندہ میری حفاظت کرتا تھوڑی دیر کے بعد ہتھیار کی جھنجھناہٹ کی آواز آئی، آپ نے آواز سن کر فرمایا کون؟ جواب ملا میں سعد بن ابی وقاصؓ فرمایا کیوں آئے، بولے میرے دل میں آپ کی نسبت خوف پیدا ہوا اس لئے حفاظت کے لئے حاضر ہوا۔ (ترمذی، کتاب الفضائل، مناقب سعد بن ابی وقاص،حدیث نمبر:۳۶۸۹) ان خطرات کی وجہ سے اگر آپ تھوڑی دیر کے لئے بھی آنکھ سے اوجھل ہوجاتے تھے تو جان نثاروں کے دل دھڑکنے لگتے تھے،آپﷺ ایک دن صحابہ کرام کے حلقے میں رونق افروز تھے،کسی ضرورت سے اٹھے تو پلٹنے میں دیر ہوگئی،صحابہ کرام گھبراگئے کہ خدا نخواستہ دشمنوں کی طرف سے کوئی چشم زخم تو نہیں پہنچا، حضرت ابوہریرہؓ اسی پریشانی کی حالت میں گھبراکر آپ کی جستجو میں انصار کے ایک باغ میں پہنچے دروازہ ڈھونڈا تو نہیں ملا دیوار میں پانی کی ایک نالی نظر آئی، اس میں گھس کر آپ تک پہنچے اورصحابہ کی پریشانیوں کی داستان سنائی۔ (مسلم ،کتاب الایمان ،باب مابقی اللہ من الایمان وہو غیر شاک فیہ دخل الجنۃ وحرم علی النار) غزوات میں یہ خطرات اور بھی بڑھ جاتے تھے اس لئے صحابہ کرام کی جان نثاری میں اور بھی ترقی ہوجاتی تھی۔ غزوہ غزوات الرفاع میں ایک صحابی نے ایک مشرک کی بی بی کو گرفتار کیا اس نے انتقام لینے کے لئے قسم کھالی کہ جب تک اصحاب محمد ﷺ میں کسی صحابی کے خون سے زمین کو رنگین نہ کرلوں گا چین نہ لوں گا، اس لئے جب آپ ﷺواپس ہوئے تو اس نے تعاقب کیا آپﷺ منزل پر فروکش ہوئے تو دریافت فرمایا کہ کون میری حفاظت کی ذمہ داری اپنے سر لے گا؟مہاجرین وانصار دونوں میں سے ایک ایک بہادر اس شرف کے حاصل کرنے کے لئے اُٹھے،آپ نے حکم دیا کہ گھاٹی کے دہانے پر جاکر متمکن ہوجائیں کہ وہی کفار کا کمین گاہ ہوسکتا تھا، دونوں بزرگ وہاں پہنچے تو مہاجر بزرگ سوگئے اورانصاری بزرگ نے نماز پڑھنا شروع کردی مشرک آیا ااورفوراً تاڑ گیا کہ یہ محافظ اورنگہبان ہیں، تین تیرمارے اورتینوں کے تینوں ان کے جسم میں ترازو ہوگئے ؛لیکن وہ اپنی جگہ سے نہ ہٹے۔ (ابوداؤد ،کتاب الطہارۃ ،باب الوضو من الدم،حدیث نمبر:۱۷۰) آپ غزوۂ حنین کے لئے نکلے تو ایک صحابی نے شام کے وقت خبردی کہ میں نے آگے جاکر پہاڑ کے اوپر سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ قبیلہ ہوازن کے زن ومردچارپایوں اورمویشیوں کو لے کر اُمنڈآئے ہیں، آپ مسکرائے اورفرمایا کہ آج میری پاسبانی کون کرے گا، حضرت انسؓ بن ابی مرثد غنو ی نے کہا میں یا رسول اللہ ارشاد ہوا کہ سوار ہوجاؤ وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہوکر آئے تو فرمایا کہ اس گھاٹی کے اوپر چڑھ جاؤ، آپ نماز فجر کیلئے اُٹھے تو صحابہ سے فرمایا: کہ تمہیں اپنے شہ سوار کی خبر ہے؟ صحابہ نے عرض کیا ہمیں تو کچھ خبر نہیں،جماعت قائم ہوئی تو آپ نماز پڑھانے جاتے تھے اورمڑ مڑ کے گھاٹی کی طرف دیکھتے جاتے تھے ،نماز ادا کرچکے تو فرمایا،لومبارک تمہارا شہ سوار آگیا، صحابہ نے گھاٹی کے درختوں کے درمیان سے دیکھا تو وہ آپہنچے اورخدمت مبارک میں حاضر ہو کر سلام کیا اورکہا کہ میں گھاٹی کے بلند ترین حصے پر جہاں آپ نے مامور فرمایا تھا چڑھ گیا صبح کو دونوں گھاٹیاں بھی دیکھیں تو ایک متنفس بھی نظر نہ آیا، آپﷺ نے فرمایا کبھی نیچے بھی اترے تھے؟ بولے صرف نماز اورقضائے حاجت کے لئے، ارشاد ہوا: تم کو جنت مل چکی ، اس کے بعد اگر کوئی عمل نہ کرو، تو کوئی حر ج نہیں۔ (ابوداؤد، کتاب الجہاد ،باب فی فضل الحرس فی سبیل اللہ عزوجل ،حدیث نمبر:۲۱۴۰) ایک غزوہ میں صحابہ کرام نے ایک ٹیلے پر قیام فرمایا اس شدت سے سردی پڑی کہ بعض لوگوں نے زمین میں گڑھا کھودا اوراس کے اندر گھس کر اوپر سے ڈھال ڈال لی آپ ﷺنے یہ حالت دیکھی تو فرمایا کہ آج کی شب میری حفاظت کون کرے گا؟ میں اس کو دعادوں گا، ایک انصاری نے کہا کہ میں یا رسول اللہ، آپﷺ نے قریب بلا کر ان کا نام پوچھا اوردیر تک دعا دیتے رہے، حضرت ابوریحانہ ؓ نے یہ دعا سنی تو کہا کہ میں دوسرانگہبان بنوں گا، آپﷺ نے قریب بلا کر نام پوچھا اوران کو بھی دعادی۔ (مسند احمد،حدیث ابی ریحانہ ؓ،حدیث نمبر:۱۶۵۸۱) غزوۂ بدر میں جب آپﷺ نے کفار کے مقابلہ کے لئے صحابہ ؓ کرام کو طلب کیا تو حضرت مقداد ؓ بولے ہم وہ نہیں ہیں جو موسیٰ کی قوم کی طرح کہہ دیں: فَاذْہَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَآ (المائدۃ:۲۴) تم اورتمہارا خدا (دونوں) جاؤ اور لڑو بلکہ ہم آپ کے دائیں سے بائیں سے آگے سے پیچھے سے لڑیں گے، آپﷺ نے یہ جان نثارانہ فقرے سنے تو چہرہ مبارک فرط مسرت سے چمک اُٹھا۔ (بخاری ،کتاب المغازی، باب غزوہ ٔبدر،حدیث نمبر:۳۶۵۸) صحابہ کرام ؓ کے جان نثارانہ جذبات کا ظہور سب سے زیادہ غزوہ ٔاحد میں ہوا، چنانچہ اس غزوہ میں کسی مقام پر رسول اللہ ﷺ کے ساتھ صرف نوصحابہ جن میں سات انصاری اوردوقریشی تھے(یعنی حضرت طلحہؓ اورحضرت سعدؓ رہ گئے)اس حالت میں کفار آپ پر دفعۃ ٹوٹ پڑے تو آپ نے ان جان نثاروں کی طرف خطاب کرکے فرمایا کہ ان اشقیا کو کون میرے پاس سے ہٹا سکتا ہے، ایک انصاری فوراً آگے بڑھے اورلڑکر آپ پر قربان ہوگئے،اسی طرح کفار برابر آپ پر حملہ کرتے جاتے اورباربار پکارتے جاتے تھے اورایک ایک انصاری بڑھ کر آپ پر اپنی جان قربان کرتا جاتا تھا، یہاں تک کہ ساتوں بزرگ شہید ہوئے، ( مسلم ، بَاب غَزْوَةِ أُحُدٍ ،حدیث نمبر:۳۳۴۴) حضرت طلحہ ؓ اورحضرت سعدؓ کی جان نثار ی کا وقت آیا تو حضرت سعدؓ کے سامنے آپ نے خود اپنا ترکش بکھیر دیا اورفرمایا کہ تیر پھینکو میرے ماں باپ تم پر قربان، حضرت ابوطلحہؓ سپرلے کر آپ کے سامنے کھڑے ہوگئے اور تیر چلانے لگے اس شدت سے تیر اندای کی کہ دو تین کمانیں ٹوٹ گئیں اگر آپ گردن اٹھا کر کفار کی طرف دیکھتے تو وہ کہتے تھے میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں گردن اٹھا کر نہ دیکھئے مبادا کوئی تیر نہ لگ جائے، میرا سینہ آپ کے سینہ کے سامنے ہے۔ (بخاری، بَاب غَزْوَةِ أُحُدٍ،حدیث نمبر:۳۷۵۷) اس غزوہ میں حضرت شماشؓ بن عثمان کی جان نثاری کا حال یہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ دائیں بائیں جس طرف نگاہ اٹھا کر دیکھتے تھے ان کی تلوار چمکتی ہوئی نظر آتی تھی، آپ پر غشی طاری ہوئی تو انہوں نے اپنے آپ کو آپ کی سپربنالیا یہاں تک کہ اسی حالت میں شہید ہوئے۔ (طبقات ابن سعد،تذکرہ حضرت شماش بن عثمانؓ) اس غزوہ میں آپ نے ایک صحابی کو حضرت سعد بن ربیع انصاری کی تلاش میں روانہ فرمایا وہ لاشوں کے درمیان ان کو ڈھونڈنے لگے، تو حضرت سعدؓ بن ربیع خود بول اُٹھے،کیا کام ہے جواب دیا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے تمہارا ہی پتہ لگانے کے لئے بھیجا ہے، بولے جاؤ آپ ﷺکی خدمت میں میرا سلام عرض کردو اورکہو کہ مجھے نیز ے کے بارہ زخم لگے ہیں، اوراپنے قبیلہ میں اعلان کردو کہ اگر رسول اللہ شہید ہوگئے اوران میں ایک متنفس بھی زندہ رہاتو خدا کے نزدیک اُن کا کوئی عذر قابل سماعت نہ ہوگا۔ (موطا مالک، کتاب الجہاد، باب الترغیب فی الجہاد،حدیث نمبر:۸۸۴) نہ صرف مرد بلکہ عورتیں بھی آپ کی جان نثاری کی آرزو رکھتی تھیں، حضرت طلیب بن عمیرؓ اسلام لائے اوراپنی ماں اروی بنت عبدالمطلب کو اس کی خبردی تو بولیں کہ تم نے جس شخص کی مدد کی وہ اس کا سب سے زیادہ مستحق تھا، اگر مردوں کی طرح ہم بھی استطاعت رکھتے تو آپﷺ کی حفاظت کرتے اورآپ کی طرف سے لڑتے ۔ (استیعاب، تذکرہ حضرت طلیب بن عمیر) خدمت رسول صحابہ کرامؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت کو اپنا سب سے بڑاشرف خیال کرتے تھے، اس لیے متعدد بزرگوں نے اپنے آپ کو آپ کی خدمت کے لئے وقت کردیا تھا، حضرت بلالؓ نے ابتدائے بعثت ہی سے آپ کی خانہ داری کے تمام کاروبار کا انتظام اپنے ذمے لے لیا تھا اوراس کے لئے طرح طرح کی ذلتیں اورتکلیفیں برداشت کرتے تھے؛ لیکن آپﷺ کے شرف خدمت کا چھوڑنا کبھی گوارا نہیں کرتے تھے، آپ ﷺکا معمول تھا کہ جب کوئی غریب مسلمان خدمت مبارک میں حاضر ہوتا اوراس کے بدن پر کپڑے نہ ہوتے تو آپﷺ حضرت بلالؓ کو حکم دیتے اورقرض دام لیکر اس کی خوراک و لباس کا انتظام کرتے، ایک بار کسی مشرک سے اس غرض کیلئے قرض لیا؛لیکن ایک دن اس نے دیکھا تو نہایت سخت لہجے میں کہا او حبشی تجھے معلوم ہے کہ اب مہینے میں کتنے دن رہ گئے ہیں؟ صرف چاردن ،اسی عرصہ میں قرض وصول کرلوں گا ورنہ جس طرح تو پہلے بکریاں چرایا کرتا تھا اُسی طرح بکریاں چرواؤں گا، حضرت بلال ؓ کو اس سے سخت رنج ہوا، عشاء کےبعد آپ کی خدمت میں آئے اورکہا کہ مشرک نے مجھے یہ کچھ کہا ہے ،آپﷺ کے پاس اور نیز میرے پاس قرض کے ادا کرنے کا کوئی سامان نہیں اوروہ مجھے ذلیل کررہا ہے، فرمائیے توجب تک قرض نہ ادا ہوجائے مسلمان قبائل میں بھاگ کر پناہ لوں، گھر واپس آئے تو بھاگنے کا تمام سامان بھی کرلیا ؛لیکن رزاق عالم نے صبح تک خود قرض کے ادا کرنے کا سامان کردیا۔ (ابوداؤد، کتاب الخراج، بَاب فِي الْإِمَامِ يَقْبَلُ هَدَايَا الْمُشْرِكِينَ،حدیث نمبر:۲۶۵۶) حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کو یہ شرف حاصل تھا کہ جب آپ کہیں جاتے تو وہ پہلے آپ کو جوتیاں پہناتے پھرآگے آگے عصالے کر چلتے، آپﷺ مجلس میں بیٹھنا چاہتے تو آپ کے پاؤں سے جوتیاں نکالتے پھر آپ کو عصادیتے آپ اُٹھتے تو پھر اسی طرح جوتیاں پہناتےآگے آگے عصا لے کر چلتے اورحجرۂ مبارک تک پہنچاجاتے ،آپﷺ نہاتے تو پردہ کرتے ،آپﷺ سوتے تو بیدار کرتے ،آپﷺ سفر میں جاتے تو آپﷺ کا بچھونا،مسواک، جوتا، اوروضو کا پانی ان کے ساتھ ہوتا، اس لیے وہ صاحب سوار رسول اللہ یعنی آپ کے میر سامان کہے جاتے تھے۔ (طبقات ابن سعد، تذکرہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ) حضرت ربیعہ اسلمیؓ بھی شب وروز آپ کی خدمت میں مصروف رہتے، جب آپ عشاء کی نماز سے فارغ ہوکر کاشانہ نبوت میں تشریف لے جاتے تو وہ دروازہ پر بیٹھ جاتے کہ مبادہ آپ کو کوئی ضرورت پیش آجائے. (مسند احمد،حدیث ربیعہ ابن کعب اسلمیؓ،حدیث نمبر:۱۵۹۸۴) آپ ﷺنے اُن کو شادی کرنے کا مشورہ دیا بولے،یہ تعلق آپ کی خدمت گذاری میں خلل انداز ہوگا جس کو میں پسند نہیں کرتا ؛لیکن آپ کے بار بارے کے اصرار سے شادی کرنے پر مجبور ہوگئے۔ (مسنداحمد،حدیث ربیعہ ابن کعب اسلمیؓ،حدیث نمبر:۱۵۹۸۲) حضرت عقبہ بن عامرؓ آپﷺ کے مستقل خدمت گذار تھے،ان کاکام یہ تھاکہ سفر میں آپ کی اونٹنی کو ہانکتے ہوئے چلتے تھے۔ (ابوداؤد، کتاب الصلوٰۃ، ابواب شہر رمضان ،باب فی المعوذتین،حدیث نمبر:۱۲۵۰) حضرت انس ؓ بن مالک کو بچپن ہی سے ان کی والدہ نے آپ کی خدمت کے لئے وقف کردیا تھا۔ حضرت سلمیٰؓ ایک صحابیہ تھیں،جنہوں نے اس استقلال کے ساتھ آپ کی خدمت کی کہ ان کو خادمہ رسول اللہ کا لقب حاصل ہو۔ (ابوداؤ،د کتاب الطب، باب الحجامۃ،حدیث نمبر:۳۶۶۰) حضرت سفینہؓ حضرت سلمیٰؓ کی والدہ کے غلام تھے، انہوں نے ان کو اس شرط پر آزاد کرنا چاہا کہ وہ اپنی عمر آپ کی خدمت گذاری میں صرف کردیں، انہوں نے کہا کہ اگر آپ شرط نہ بھی کرتیں تب بھی میں آخری دم تک آپ کی خدمت سے علیحدہ نہ ہوتا۔ (ابوداؤد، کتاب العتق، باب علی الشرط،حدیث نمبر:۳۴۳۰) ان بزرگوں کے علاوہ جو صحابہ اکثر آپ کی خدمت میں حاضر رہتے تھے،ان کو بھی عموماً شرف خدمت حاصل ہوتا رہتا تھا،ایک بارآپﷺطہارت کے لئے بیٹھے تو حضرت عمرؓ آپ کے پیچھے پانی کا کوزہ لے کر کھڑے رہے ،آپ ﷺنے پوچھا کہ عمرؓ کیا ہے؟ بولے کے وضو کا پانی، فرمایا کہ ہروقت اس کی ضرورت نہیں۔ (قَالَ مَا أُمِرْتُ كُلَّمَا بُلْتُ أَنْ أَتَوَضَّأَ وَلَوْ فَعَلْتُ لَكَانَتْ سُنَّة) (ابوداؤد، کتاب الطہارۃ، باب فی الاستبراء،حدیث نمبر:۳۸) حضرت ابوہریرہ کو جو ہمیشہ خدمت مبارک میں حاضر رہتے تھے اکثر یہ شرف حاصل ہوتا کہ جب آپ رفع ضرورت کے لئے تشریف لے جاتے تو وہ کسی طشت یاکوزہ میں پانی لاتے اور آپ وضو کرتے۔ (ابوداؤد، کتاب الطہارۃ، بَاب الرَّجُلِ يَدْلُكُ يَدَهُ بِالْأَرْضِ إِذَا اسْتَنْجَىٰ،حدیث نمبر:۴۱) ایک بار حضرت حسینؓ نے آپ کی گود میں پیشاب کردیا ،حضرت لبابہ ؓ نے کہا کہ آپ دوسرا کپڑا پہن لیں اوراپنا تہ بند مجھے عنایت فرمائیں کہ میں دھولاؤں ،ارشاد ہوا کہ بچے کے پیشاب پر صرف پانی چھڑک دینا کافی ہے۔ (ابوداؤد، کتاب الطہارۃ ،باب بول الصبی یصیب الثوب،حدیث نمبر:۳۲۰) حضرت ابوالسمح ؓ ہمیسہ آپ کی خدمت میں مصروف رہتے تھے ؛چنانچہ جب آپ غسل فرماتے تو وہ پیٹھ پھیر کر کھڑے ہوجاتے اورآپ ان کی آڑ میں نہالیتے ،ایک بار امام حسنؓ یا حسین ؓنے آپ کے سینے پر پیشاب کردیا، انہوں نے سینہ مبارک کو دھونا چاہا؛ لیکن آپ نے فرمایا کہ لڑکے کے پیشاب پر صرف پانی چھڑک دینا چاہئے۔ (ابوداؤد، کتاب الطہارۃ ،باب بول الصبی یصیب الثوب،حدیث نمبر:۳۲۱) جب آپ نے حجۃ الوداع میں رمی جمرہ کرناچاہی تو خدام بارگاہ میں حضرت اسامہؓ اور حضرت بلالؓ ساتھ ساتھ تھے، ایک کے ہاتھ میں ناقہ کی نکیل تھی اوردوسرے بزرگ آپ کے سرپر اپنا کپڑا تانے ہوئے چلتے تھے تاکہ آپ کو گرمی سے بچائیں ۔ (ابوداؤد، کتاب المناسک، باب فی المحرم یظلل،حدیث نمبر:۱۵۶۳) محبت رسول حدیث شریف میں ہے: لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ (بخاری،بَاب حُبُّ الرَّسُولِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْإِيمَانِ،حدیث نمبر:۱۴) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب تک میں تم کو تمہارے باپ ،لڑکے اورتمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں تم لوگ مؤمن نہیں کہے جاسکتے۔ اورصحابہ کرامؓ کو ایمان کا یہی درجہ کمال حاصل تھا، چنانچہ حضرت جابرؓ کے والد جب غزوہ ٔاحد کی شرکت کے لئے روانہ ہونے لگے تو بیٹے سے کہا کہ میں ضرور شہید ہوں گا اوررسول اللہ ﷺ کے سوا مجھ کو تم سے زیادہ کوئی عزیز نہیں ہے، تم میرا قرض ادا کرنا اوراپنے بھائیوں کے ساتھ اچھاسلوک کرنا۔ (اسد الغابہ، تذکرہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ بن حرام،۲/۱۵۶) اس کے علاوہ صحابہ کرام اوربھی مختلف طریقوں سے آپ کی محبت کا اظہار کرتے تھے۔ ایک بار ایک صحابی آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے،جوش محبت میں آپ کی قمیص اُلٹ دی، اُ س کے اند گھس گئے آپ کو چوما اورآپ سے لپٹ گئے۔ (ابوداؤد، کتاب الزکوٰۃ، باب مالایجوز منعہ،۱۴۲۱) حضرت اسید بن حضیر ؓ ایک شگفتہ مزاج صحابی تھے،ایک روز وہ ہنسی مذاق کی باتیں کر رہے تھے کہ آپ نے ان کے پہلو میں ایک چھڑی سے کونچ دیا،انہوں نے اس کا انتقام لینا چاہا، آپ اس پر راضی ہوگئے ؛لیکن انہوں نے کہا کہ آپ کے بدن پر قمیص ہے، حالانکہ میں برہنہ تھا ،آپ نے قمیص بھی اٹھادی ،قمیص کا اٹھانا تھا کہ وہ آپ سے لپٹ گئے، پہلو چومے اورکہا یا رسول اللہ یہی مقصود تھا۔ (ابوداؤد، کتاب الادب ،باب فی قبلہ الجسد،حدیث نمبر:۴۵۴۷) جب آپ کی خدمت میں وفد عبدالقیس حاضر ہوا تو سواری سے اترنے کے ساتھ ہی سب کے سب دوڑے اورآپ کے ہاتھ اور پاؤں کو بوسہ دیا۔ (ابوداؤد، کتاب الادب ،باب فی قبلہ الجسد،حدیث نمبر:۴۵۴۸) حضرت کردمؓ نے حجۃ الوداع میں آپ کی زیارت کی توآپ کے قدم لیے اور آپ کی رسالت کا اقرار کیا اورآپکی باتیں سنتے رہے (ابوداؤد، کتاب النکاح ،بَاب فِي تَزْوِيجِ مَنْ لَمْ يُولَدْ،حدیث نمبر:۱۷۹۹) حضرت زاہرؓ ایک دیہاتی صحابی تھے جو رسول اللہ ﷺ سے نہایت محبت رکھتے تھے اورآپ کی خدمت میں ہدیہ بھیجا کرتے تھے، آپ ﷺ بھی ان سے محبت رکھتے تھے اورفرمایا کرتے تھے کہ زاہر ہمارے بدوی ہیں اورہم ان کے شہری ہیں، ایک دن وہ اپنا سودافردخت کررہے تھے، آپ نے پیچھے سے آکر ان کو گود میں لے لیا، انہوں نے کہا کون ہے،چھوڑدو؛لیکن مڑکر دیکھا اورمعلوم ہوا کہ آپ ہیں تو اپنی پشت کو بار بار آپ کے سینہ سے چمٹا تے تھے اور تسکین نہیں ہوتی تھی۔ (شمائل ترمذی، باب ماجاء فی صفۃ مزاح رسول اللہ ﷺ،حدیث نمبر:۲۳۷) عرب میں یہ خیال تھا کہ اگر کسی کے پاؤں سوجائیں اوروہ اپنے محبوب کو یاد کرے تو یہ کیفیت زائل ہوجاتی ہے، ایک بار حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے پاؤں سوگئے تو کسی نے کہا اپنے محبوب کو یاد کرلو بولے یا محمدﷺ۔ (ادب المفرد، باب مایقول الرجل اذاخدرت رجلہ،حدیث نمبر:۱۰۰۱) حضرت ام عطیہؓ ایک صحابیہ تھیں وہ جب آپ کا ذکر کرتیں تو فرط مسرت سے کہتیں ،بأبا( یعنی میرے باپ آپ پر قربان)۔ (نسائی، کتاب الحیض، باب شہود الحیض العیدین دعوۃ المسلمین،حدیث نمبر:۳۸۷) عزت اورمحبت کی وجہ سے صحابہ کرام آپ کے آرام اورآسائش کانہایت خیال رکھتے تھے اورآپ کو کسی قسم کی تکلیف گوارانہیں کرتے تھے۔ آپ ایک سفر میں تھے جس میں ایک صحابی نہایت اہتمام کے ساتھ آپ کے لئے پانی ٹھنڈا کرتے تھے۔ (کتاب الزہد، باب حدیث جابر الطویل) ایک عورت تھی جو ہمیشہ مسجد نبویﷺ میں جھاڑودیا کرتی تھی، اس کا انتقال ہوگیا تو صحابہ کرامؓ نے اس کو دفن کردیا اورآپ ﷺکو اطلاع نہ دی، آپ کو معلوم ہوا تو فرمایا کہ مجھے کیوں نہیں خبر کی؟ بولے آپﷺ روزے سے تھے اورقیلولہ فرمارہے تھے، ہم نے تکلیف دینا گوارا نہ کیا، اسی طرح ایک اورصحابی کا انتقال ہوگیا، تو صحابہ نے آپ کو خبر نہ کی اورکہا کہ اندھیری رات تھی حضورﷺ کو زحمت ہوتی۔ ( ابن ماجہ،کتاب الجنائز،باب ماجاء فی الصلوٰۃ علی القبر،حدیث نمبر:۱۵۱۶۔۱۵۱۹) آپ کو جو چیز محبوب ہوتی وہ آپ کی محبت کی وجہ سے صحابہ کرامؓ کو بھی محبوب ہوجاتی، کدو آپ کو نہایت مرغوب تھا، اس لئے حضرت انسؓ بن مالک بھی اس کو نہایت پسند فرماتے تھے؛ چنانچہ ایک روز کدو کھارہے تھے تو بول اُٹھے،اے درخت اس بنا پر کہ رسول اللہ ﷺ سے محبت تھی ،تو مجھے کس قدر محبوب ہے۔ (ترمذی ،کتاب الاطعمہ ،بَاب مَا جَاءَ فِي أَكْلِ الدُّبَّاءِ،حدیث نمبر:۱۷۷۲) آپ ﷺکی محبت نے صحابہ کرام کے نزدیک آپ کی ہر چیز کو محبوب بنادیا تھا ،آپﷺ کا معمول تھا کہ ہر کام کی ابتدا داہنے جانب سے فرماتے ،ایک بار حضرت میمونہ ؓ کے گھر میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ آپﷺ کے دائیں اورحضرت خالد بن ولیدؓ بائیں جانب بیٹھے ہوئے تھے، حضرت میمونہؓ دودھ لائیں تو آپ ﷺنے پی کر حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے فرمایا کہ حق تو تمہارا ہے؛ لیکن اگر ایثار کرو،توخالد کو دے سکتے ہو، بولے کہ میں آپ کا جھوٹا کسی کو نہیں دے سکتا۔ (ترمذی ،ابواب الدعوات ،باب مایقول اذااکل طعاما،حدیث نمبر:۳۳۷۷) ایک مرتبہ آپ نے پانی یا دودھ پی کر حضرت ام ہانی ؓ کو عنایت فرمایا، بولیں میں اگرچہ روزے سے ہوں ؛لیکن آپ کا جھوٹا واپس کرنا پسند نہیں کرتی۔ (مسند احمد،) ایک بار ایک صحابی خدمت مبارک میں حاضر ہوئے ،آپﷺ کھانا کھارہے تھے ،ان کو بھی شریک کرنا چاہا وہ روزے سے تھے، اس لئے ان کو افسوس ہوا کہ ہائے رسول اللہ ﷺ کا کھانا نہ کھایا۔ ( ابن ماجہ، کتاب الاطعمہ ،باب عرض الطعام،حدیث نمبر:) حضور اکرمﷺ سےایسی محبت تھی کہ اگر کسی وجہ سے آپ کو رنج ہوتا تو تمام صحابہ کو بھی رنج ہوتا، آپ کو خوشی ہوتی تو تمام صحابہؓ بھی اس میں شریک ہوتے، آپ نے ایک مہینے کے لئے ازواج مطہرات سے علیحدگی اختیار کرلی تو تمام صحابہ ؓ نے مسجد میں آکر گریہ وزاری شروع کردی۔ (مسلم، بَاب فِي الْإِيلَاءِ وَاعْتِزَالِ النِّسَاءِ وَتَخْيِيرِهِنَّ،حدیث نمبر:۲۷۰۴) آپ ﷺنے جب مرض الموت میں حضرت ابوبکرؓ کو امام بنانا چاہا، توحضرت عائشہ نے کہا کہ وہ رفیق القلب آدمی ہیں جب آپ کو نہ دیکھیں گے تو خود روئیں گے اورتمام صحابہ بھی۔ ( ابن ماجہ، کتاب الصلوٰۃ، باب ماجاء فی صلوۃ رسول اللہ ﷺ فی مرضہ،حدیث نمبر:۱۲۲۲) حضرت عمربن الجموع ایک فیاض صحابی تھے ان کو آپﷺ سے اس قدر محبت تھی کہ جب آپ ﷺنکاح کرتے تو وہ آپ کی جانب سے دعوت ولیمہ کرتے ۔ (اصابہ ، تذکرہ حضرت عمروبن ؓ الجموح،۲/۲۸۵) آپﷺ جب کسی غزوہ میں تشریف لے جاتے تو صحابیات فرط محبت سے آپ کی واپسی اورسلامتی کے لئے نذریں مانتی تھیں، ایک بار آپﷺ کسی غزوہ سے واپس آئے تو ایک صحابیہ (جَارِيَةٌ سَوْدَاء) نے کہا کہ یا رسول اللہ میں نے نذر مانی تھی کہ اگر خدا آپ کو صحیح وسالم واپس لائے گا،تو آپ کے سامنے دف بجا بجا کے گاؤں گی۔ (ترمذی، کتاب المناقب، مناقب ابی الحفص عمربن الخطاب،حدیث نمبر،۳۶۲۳) آپ عموماً فقر وفاقہ کے ساتھ زندگی بسر کرتے تھے، صحابہ کرام کے سامنے آپ کی خانگی زندگی کا منظر آجاتا تو فرط محبت سے آبدیدہ ہوجاتے ایک بار حضرت عمرؓ کا شانۂ نبوت میں تشریف لے گئے، تو دیکھا کہ آپ چٹائی پر لیٹے ہوئے ہیں جس پر کوئی بستر نہیں ہے، جسم مبارک پر تہبند کے سوا کچھ نہیں پہلو میں بدھیاں پڑ گئی ہیں، توشہ ٔخانہ میں مٹھی بھر جو کے سوا اورکچھ نہیں، آنکھوں سے بے ساختہ آنسو نکل آئے، ارشاد ہوا کہ عمرؓ کیوں روتے ہو؟ کیوں نہ رؤں آپ کی یہ حالت ہے، اور قیصروکسریٰ دنیا کے مزے اُڑارہے ہیں، فرمایا کیا تمہیں یہ پسند نہیں کہ ہمارے لئے آخرت اوران کے لئے دنیا ہو۔ (مسلم، بَاب فِي الْإِيلَاءِ وَاعْتِزَالِ النِّسَاءِ وَتَخْيِيرِهِنَّ،حدیث نمبر:۲۷۰۴) آپ کے وصال کے بعد صحابہ کرامؓ کو جب آپ کی یہ حالت یاد آتی تھی تو آنکھوں سے آنسو نکل پڑتے تھے، ایک بار حضرت ابوہریرہ ؓکے سامنے چپاتیاں آئیں تو دیکھ کر روپڑے کہ آپﷺ نے اپنی آنکھوں سے چپاتی نہیں دیکھی۔ ( ابن ماجہ، کتاب الاطعمہ، باب الرقاق،حدیث نمبر:۳۳۲۹) ایک دن حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے اپنے دوستوں کو گوشت روٹی کھلایا تو رو پڑے اور کہا کہ رسول اللہ ﷺ کا وصال بھی ہوگیا اورآپ نے پیٹ بھر جو کی روٹی کبھی نہیں کھائی۔ (ترمذی ،باب ماجاء فی عیش النبی ﷺ،حدیث نمبر:) اگر آپ کسی چیز سے متمتع نہ ہوسکتے تو صحابہ کرام ؓ اس سے متمتع ہونا پسند نہ کرتے ،آپﷺ کا وصال ہوا تو آپ کے کفن کے لئے ایک حلہ خریدا گیا ؛لیکن بعد کو آپ دوسرے کپڑوں میں کفنائے گئے، اوریہ حلہ حضرت عبداللہ بن ابی بکر نے اس خیال سے لے لیا کہ اس کو اپنے کفن کے لئے محفوظ رکھیں گے؛ لیکن پھر کہا کہ جب خدا کی مرضی نہ ہوئی کہ وہ رسول اللہ ﷺ کا کفن ہو تو میرا کیوں ہو، یہ کہہ کے اس کو فروخت کرکے اس کی قیمت صدقہ کردی۔ (مسلم ،کتاب الجنائز، باب فی کفن المیت،حدیث نمبر:۱۵۶۴) غزوہ تبوک سخت گرمیوں کے زمانہ میں واقع ہوا تھا ،حضرت ابو خثیمہؓ ایک صحابی تھےجو اس غزوہ میں شریک نہ ہوسکے تھے ،ایک دن وہ گھر میں آئے تو دیکھا کہ بی بیوں نے ان کی آسائش کے لئے نہایت سامان کیا ہے، بالاخانے پر چھڑکاؤ کیا ہے، پانی سرد کیا ہے، عمدہ کھانا تیار کیا ہے ؛لیکن وہ یہ تمام سامانِ عیش دیکھ کر بولے، رسول اللہ ﷺ اس لو اور گرمی میں کھلے ہوئے میدان میں ہوں، اورابو خثمیہ سایہ، سرد پانی، عمدہ غذا، اورخوبصورت عورتوں کے ساتھ لطف اُٹھائے ،خدا کی قسم یہ انصاف نہیں ہے میں ہرگز بالاخانہ پر نہ آؤں گا؛ چنانچہ اسی وقت زادِراہ لیا اور تبوک کی طرف روانہ ہوگئے۔ (اسد الغابہ،مالك بن قيس بن خيثمة،۲/۴۶۶،۴۶۷) وصال کے بعد آپﷺ یاد آتے تو صحابہ بے اختیار روپڑتے،ایک دن حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے فرمایا، جمعرات کا دن اورجمعرات کادن کس قدر سخت تھا، اس کے بعد اس قدر روئے کہ زمین کی کنکریاں آنسوؤں سے تر ہوگئیں، حضرت سعید بن جبیرؓ نے پوچھا جمعرات کا دن کیا؟ بولے اس دن آپ کے مرض الموت میں اشتداد ہوا تھا۔ (مسلم، کتاب الوصیۃ ،بَاب تَرْكِ الْوَصِيَّةِ لِمَنْ لَيْسَ لَهُ شَيْءٌ يُوصِي فِيهِ،حدیث نمبر:۳۰۸۹) آپ کی مبارک صحبتوں کی یاد آتی تو صحابہ کرام کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہوجاتے، ایک بار حضرت ابوبکرؓ اورحضرت عباسؓ انصار کی ایک مجلس میں گئے، تو دیکھا کہ سب لوگ رو رہے ہیں، سبب پوچھا تو بولے کہ ہم کو آپ کی مجلس یاد آگئی ۔ (بخاری ،کتاب المناقب، بَاب قَوْلُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اقْبَلُوا مِنْ مُحْسِنِهِمْ وَتَجَاوَزُوا عَنْ مُسِيئِهِمْ،حدیث نمبر:۳۵۱۵) حافظ ابن حجر ؓ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ یہ واقعہ آپ کی بیماری کے زمانہ کا ہے جس میں انصار کو یہ خوف پیدا ہوا کہ اگر اس مرض میں آپ کا وصال ہوا تو پھر آپ کی مجلس میسر نہ ہوگی اس لئے وہ اس غم میں روپڑے۔ (فتح الباری،۱۱/۱۰۸) حضرت عبداللہ بن عمرؓ جب رسول اللہ ﷺ کا تذکرہ فرماتے تھے تو آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے تھے۔ (طبقات ابن سعد، تذکرہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ) اہل بیت اوررسول اللہ ﷺ کے اعزہ واقارب کی عزت ومحبت رسول اللہ ﷺ کے تعلق سے صحابہ کرام اہل بیت کی بھی نہایت عزت ومحبت کرتے تھے ایک بار امام باقر حضرت جابر بن عبداللہ کی خدمت میں حجۃ الوداع کی کیفیت پوچھنے کی غرض سے حاضر ہوئے اس وقت اگرچہ وہ طالب علمانہ اورنیاز مندانہ حیثیت سے آئے تھے، تاہم حضرت جابر بن عبداللہ ؓ نے نہایت تپاک سے ان کا خیر مقدم کیا ،پہلے ان کے سرکی طرف ہاتھ بڑھایا اور ان کے اوپر اور نیچے کے تکمے کھولے ،سینے پر ہاتھ رکھا اورمرحبا کہا، پھر اصل مسئلہ پر گفتگو کرنے کی اجازت دی۔ (ابوداؤد، کتاب المناسک، باب صفہ حجۃ النبی ﷺ،۱۶۲۸) ایک بار ایک عراقی نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے پوچھا کہ مچھر کا خون جو کپڑے پر لگ جاتا ہے اس کا کیا حکم ہے؟ بولے ان کو دیکھو رسول اللہ ﷺ کے نواسے کو توشہید کرڈالا اورمچھر کے خون کا سوال کرتے ہیں۔ (ترمذی ،کتاب المناقب الحسن والحسین) رسول اللہ ﷺ کے وصال کے چند روز بعد ایک دن حضرت ابوبکرؓ ایک راستے سے گذرے ،دیکھا کہ حضرت حسنؓ ؓ کھیل رہے ہیں اُٹھاکر اپنے کندھے پر رکھ لیا اوریہ شعر پڑھا: وَا بِأَبِي شَبَهُ النَّبِيِّ لَيْسَ شَبِيهًا بِعَلِيِّ میراباپ تم پر قربان کہ رسول اللہ ﷺ کے ہمشکل ہو، علی ؓ کے مشابہ نہیں ،حضرت علیؓ بھی ساتھ تھے وہ ہنس پڑے۔ (مسند احمد،مسند ابو بکر صدیقؓ،حدیث نمبر:۳۹) ایک دن حضرت ابوہریرہؓ امام حسنؓ سے ملے اورکہا کہ ذرا پیٹ کھولئے جہاں رسول اللہ نے بوسہ دیا تھا وہیں میں بھی بوسہ دوں گا، چنانچہ انہوں نے پیٹ کھولا اورانہوں نے وہیں بوسہ دیا۔ (مسند احمد) ایک بار بہت سے لوگ مسجد نبوی میں بیٹھے ہوئے تھے اتفاق سے حضرت امام حسینؓ آگئے اورسلام کیا، سب نے سلام کا جواب دیا؛ لیکن حضرت عبداللہ بن عمروبن العاصؓ خاموش رہے، جب سب چپ ہوئے تو بآواز بلند کہا ، وعليك السلام ورحمة الله وبركاتهیہ کہہ کر سب طرف مخاطب ہوکر کہا کہ میں تمہیں بتاؤں کہ زمین کے رہنے والوں میں آسمان والوں کو سب سے محبوب شخص کو ن ہے، یہی جو جارہا ہے ،جنگ صفین کے بعد سے انہوں نے مجھ سے بات چیت نہیں کی اگر وہ مجھ سے راضی ہوجائیں تو یہ مجھے سرخ اونٹوں سے بھی زیادہ محبوب ہے۔ (اسد الغابہ، تذکرہ حضرت عبداللہ بن عمرؓو بن العاصؓ،۲/۱۵۸) حضرت ابولطفیل حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بہت بڑے حامی تھے ،حضرت علی کرم اللہ وجہ کے انتقال کے بعد ایک بار حضرت امیر معاویہؓ نے ان سے پوچھا کہ تمہارے دوست ابوالحسن ؓ کے غم میں تمہارا کیا حال ہے؟ بولے موسیٰ کے غم میں جو حال ان کی ماں کا تھا۔ (استیعاب، تذکرہ ابوالطفیل) حضرت فاطمہؓ نے جب حضرت ابوبکرؓ سے رسول اللہ ﷺ کی وراثت کا مطالبہ کیا اورحضرت علی کرم اللہ وجہہ نے رسول اللہ ﷺ کی قرابت کے حقوق بتائے تو حضرت ابوبکرؓ نے اس موقع پر جو تقریر کی اس میں خاص طورپر اہل بیت کی محبت کا اظہار فرمایا، اورکہا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، رسول اللہ ﷺ کی قرابت کے حقوق کا لحاظ مجھے اپنی قرابت سے زیادہ ہے اورلوگوں کو بھی ان کے حقوق کے لحاظ رکھنے کا حکم دیا۔ (بخاری ،کتاب المناقب، مناقب قرابۃ رسول اللہ ﷺ،حدیث نمبر:۳۴۳۵) ایک بار حضرت عباسؓ نے ایک معاملہ میں حضرت عمرؓ سے اصرار کیا اورکہا کہ یا امیر المومنین اگر موسیٰ کے چچا آپ کے پاس مسلمان ہوکر آتے تو آپ کیا کرتے ؟ بولے ان کے ساتھ سلوک کرتا ،حضرت عباسؓ نے کہا تو پھر میں رسول اللہ ﷺ کا چچا ہوں بولے اے ابوالفضل آپ کی کیا رائے ہے؟ خدا کی قسم آپ کے باپ مجھے اپنے باپ سے زیادہ محبوب ہیں؛ کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کو میرے باپ سے زیادہ محبوب تھے اور میں رسول اللہ کی محبت کو اپنی محبت پر ترجیح دیتا ہوں حضرت عباسؓ کا انتقال ہوا تو بنو ہاشم نے الگ اورحضرت عثمانؓ نے الگ انصار کی تمام آبادیوں میں اس کا اعلان کروایا، لوگ اس کثرت سے جمع ہوئے کہ کوئی شخص تابوت کے پاس نہیں جاسکتا تھا، خود بنو ہاشم کو لوگوں نے اس طرح گھیرلیا کہ حضرت عثمانؓ نے پولیس کے ذریعہ سے ان کو ہٹایا۔ (طبقات ابن سعد، تذکرہ حضرت عباس ؓ) عرب میں جب قحط پڑتا تھا توحضرت عمرؓ ان کے وسیلہ سے بارش کی دعا مانگتے تھے اورکہتے تھے کہ خداوندا ہم پہلے اپنے پیغمبر کو وسیلہ بناتے تھے اور تو پانی برسا تا تھا اوراب پیغمبر کے چچا کوو سیلہ بناتے ہیں،ہمارے لیے پانی برسا۔ (بخاری، کتاب المناقب،بَاب ذِكْرِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،حدیث نمبر) ایک بار حضرت عمرؓ نے شفاء بنت عبداللہ العدویہ کو بلا بھیجا وہ آئیں تو دیکھا کہ عاتکہ بنت ایسد پہلے سے موجد ہیں کچھ یر کے بعد حضرت عمرؓ نے دونوں کو ایک ایک چادر دی لیکن شفاء کی چادر کم درجہ کی تھی، اس لئے انہوں نے کہا کہ میں عاتکہ سے زیادہ قدیم الاسلام اورآپ کی چچا زاد بہن ہوں،آپ نے مجھے خاص اس غرض کے لئے بلایا تھا اورعاتکہ تو یوں ہی آگئی تھیں، بولے میں نے یہ چادر تمہارے ہی دینے کے لئے رکھی تھی؛لیکن جب عاتکہ آگئیں تو مجھے رسول اللہ ﷺ کی قرابت کا لحاظ کرنا پڑا۔ (اصابہ ،تذکرہ عاتکہ بنت اسید) حضرت ہند بن ابی حالہ حضرت خدیجہ ؓ کے بیٹے تھے، صرف اتنے تعلق سے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کی پرورش فرمائی تھی، جب ان کے بیٹے کا بصرے میں بمرض طاعون انتقال ہوا تو پہلے ان کا جنازہ نہایت کس مپرسی کی حالت میں اُٹھایا گیا؛لیکن اس حالت کو دیکھ کر ایک عورت نے پکارا واھند بن ھنداہ وابن ربیب رسول اللہ ،یہ سننا تھا کہ لوگ اپنے مردوں کی تجہیز وتکفین چھوڑ کر ان کے جنازہ میں شریک ہوگئے۔ (استیعاب، تذکرہ ہند بن ابی خالہ) قبیلہ بنوزہرہ میں چونکہ رسول اللہ ﷺ کی نانہال تھی، اس لیے حضرت عائشہ ؓ اس قبیلہ کے پاس خاطر کا نہایت لحاظ کرتی تھیں،چنانچہ وہ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ سے ناراض ہوئیں تو انہوں نے اسی قبیلہ کے چند بزرگوں کو شفیع بنایا۔ (بخاری ،کتاب المناقب، باب مناقب قریش،حدیث نمبر:۳۲۴۳) رسول اللہ ﷺ کے دوستوں کی عزت اورمحبت رسول اللہ ﷺ جن لوگوں سے محبت رکھتے تھے صحابہ کرام بھی ان کی نہایت توقیر وعزت کرتے تھے، حضرت عمرؓ نے حضرت اسامہ ؓ کا عطیہ ساڑھے تین ہزار اوراپنے بیٹے حضرت عبداللہ بن عمرؓ کا تین ہزار مقرر فرمایا، تو انہوں نے اعتراض کیا کہ آپ نے اسامہ ؓ کو مجھ پر کیوں ترجیح دی، وہ تو کسی جنگ میں مجھ سے آگے نہیں رہے؟ بولے زید تمہارے باپ سے زیادہ رسول اللہ ﷺ کو محبوب تھے اورآپﷺ اسامہؓ سے محبت تم سے زیادہ کرتے تھے، اس لئے میں نے اپنے محبوب پر رسول اللہ ﷺ کے محبوب کو ترجیح دی۔ (ترمذی ،کتاب المناقب، مناقب زید بن حارثہؓ،حدیث نمبر:۳۷۴۹) ایک بار حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے دیکھا کہ ایک شخص مسجد کے گوشہ میں دامن گھسیٹتا ہوا پھر رہا ہے بولے یہ کون شخص ہے؟ ایک آدمی نے کہا آپ ان کو نہیں پہنچانتے یہ محمد بن اسلمہؓ ہیں حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے یہ سن کر گردن نیچے جھکالی اورزمین پر ہاتھ مارکر کہا اگر رسول اللہ ﷺ ان کو دیکھتے تو ان سے محبت کرتے۔ (بخاری کتاب المناقب ذکر اسامہ بن زیدؓ)۔ صحابہ کرامؓ نہ صرف آپ کے دوستوں کی عزت کرتے تھے ؛بلکہ آپﷺ نے جن غلاموں کو آزاد کرکے اپنا مولیٰ بنالیا تھا ان کے ساتھ بھی نہایت لطف ومدارات کے ساتھ پیش آتے تھے ،ایک بار آپﷺ نے فرمایا کہ جن غلاموں کے ناک کان کاٹ لئے گئے ہیں یا ان کو جلادیا گیا ہے وہ آزاد ہیں اور اللہ اوراس کے رسول کے مولی ہیں، لوگ یہ سن کر ایک خواجہ سراکو لائے جس کانام سندر تھا آپ نے اس کو آزاد کردیا، آپ کی وفات کے بعد وہ حضرت ابوبکر ؓ اورحضرت عمرؓ کے زمانہ خلافت میں آتا تو دونوں بزرگ اس کے ساتھ عمدہ سلوک کرتے اس نے ایک بار مصر جانا چاہا تو حضرت عمرؓ نے حضرت عمروبن العاص ؓ کو خط لکھ دیا کہ رسول اللہ ﷺ کی وصیت کے موافق اس کے ساتھ عمدہ سلوک کرنا۔ (مسند ابن حنبل جلد ۳ :۲۲۵ دوسری روایت میں ہے کہ حضرت ابوبکرؓ اس کی اوراس کے اہل وعیال کی بیت المال سے کفالت کرتے تھے اورحضرت عمرؓ نے گورنر مصر کو لکھا تھا کہ اس کو کچھ زمین دے دی جائے لیکن اس روایت میں اس کے نام کی تصریح نہیں ہے ممکن یہ ہے کہ یہ دوسرا غلام ہو۔ جلد۲:۸۲) شوق زیارتِ رسولﷺ صحابہ کرامؓ کے دل رسول اللہ ﷺ کے شوق زیارت سے لبریز تھے، اس لیے جب زیارت کا وقت قریب آتا تو یہ جذبہ اوربھی اُبھرجاتا اوراس کا اظہار مقدس نغمہ سنجیوں کی صورت میں ہوتا۔ حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ جب اپنے رفقاء کے ساتھ مدینہ کے قریب پہنچے تو سب کے سب ہم آہنگ ہوکر زبان شوق سے یہ رجز پڑھنے لگے غَدًا نَلْقَى الْأَحِبَّه مُحَمَّدًا وَحِزْبَه ہم کل اپنے دوستوں یعنی محمد اوران کے گروہ سے ملیں گے۔ (مسند احمد،مسند انس بن مالک،حدیث نمبر:۱۱۵۸۸) مصافحہ کی رسم سب سے پہلے ان ہی لوگوں نے ایجاد کی جو اظہار شوق و محبت کا ایک لطیف ذریعہ ہے۔ دربارنبوت کی غیر حاضری صحابہؓ کے نزدیک بڑا جرم تھا ایک دن حذیفہ ؓ کی والدہ نے پوچھا کہ تم نے کب سے رسول اللہ ﷺ کی زیارت نہیں کی؟ بولے اتنے دنوں سے اس پر انہوں نے ان کو برا بھلا کہا ،تو بولے کہ مجھے آپ کی خدمت میں جانے دو تاکہ آپ کے ساتھ مغرب پڑھوں اور اپنے اور تمہارے لیے استغفار کی درخواست کروں۔ (ترمذی، کتاب المناقب، فضائل الحسنؓ والحسینؓ،حدیث نمبر:۳۷۱۴) آپ کے وصال کے بعد یہی شوق تھا جو صحابہ کرام کو آپ کے مزار کی طرف کھینچ لاتا تھا، ایک بار حضرت ابو ایوب انصاری ؓ آئے اور مزار پاک پر اپنے رخسار رکھ دیے،مروان نے دیکھا تو کہا کچھ خبر ہے یہ کیا کرتے ہو بولے میں اینٹ پتھر کے پاس نہیں آیا ہوں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں (مسند ابن حنبل جلد ۵ :۴۲۲) شوق دیدار رسول رسول اللہ ﷺ کا دیدار ازدیاد ایمان کا باعث ہوتا تھا، اس بنا پر صحابہ کرام ؓ اس کے نہایت مشتاق رہتے تھے ،جب آپﷺ ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو تشنگانِ دیدار میں جن لوگوں نے آپ ﷺ کو نہیں دیکھا تھا وہ آپﷺ کو پہچان نہ سکے، لیکن جب دھوپ آئی اورحضرت ابوبکرؓ نے آپ ﷺ کے اوپر اپنی چادر کا سایہ کیا تو سب نے اس سایہ میں آفتاب نبوت کے دیدار سے اپنا ایمان تازہ کیا۔ (بخاری، باب ہجرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم واصحابہ الی المدینہ،حدیث نمبر:۳۶۱۶) حجۃ الوداع میں مشتاقان دیدار نے آفتاب نبوت کو ہالے کی طرح اپنے حلقے میں لے لیا بدوآ آ کہ شربت دیدار سے سیراب ہوتے تھے اورکہتے تھے یہ مبارک چہرہ ہے ۔ (ابوداؤد، کتاب المناسک ،باب المواقیت،حدیث نمبر:) آپ نے مرض الموت کے زمانہ میں جب پردہ اُٹھا کر جھانکا اورصحابہ کرام کی نماز کی حالت ملاحظہ فرما کر مسکرائے تو اس آخری دیدار سے صحابہ کرام پر مسرت کی وہ کیفیت طاری ہوئی کہ خشوع نماز میں خلل پڑنے کا اندیشہ پیدا ہوگیا ،حضرت انسؓ فرماتے ہیں: مَا نَظَرْنَا مَنْظَرًا كَانَ أَعْجَبَ إِلَيْنَا مِنْ وَجْهِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ وَضَحَ لَنَا۔ (بخاری، کتاب الصلوٰۃ، باب اہل علم والفضل حق بالامامۃ،حدیث نمبر:۶۴۰) ہم نے کوئی ایسا خوش گوار منظر نہیں دیکھا جیسا اس وقت نظر آیا جب آپ ﷺکا چہرہ مبارک نمایاں ہوا۔ بعض صحابہ کو آنکھیں صرف اس لیے عزیز تھیں کہ ان کے ذریعہ رسول اللہ ﷺ کا دیدارہوتا تھا؛لیکن جب خدانے ان کو اس شرف سے محروم کردیا تو وہ آنکھوں سے بے نیاز ہوگئے۔ ایک صحابی کی آنکھیں جاتی رہیں، لوگ عیادت کو آئے تو انہوں نے کہا کہ ان سے مقصود توصرف رسول اللہﷺ کا دیدار تھا ؛لیکن جب آپ کا وصال ہوگیا تو اگر میرے عوض تبالہ کی ہرنیاں اندھی ہوجائیں اورمیری بینائی لوٹ آئے تب بھی مجھے پسند نہیں۔ (ادب المفرد، باب العیادۃ من الرمد،حدیث نمبر:۵۵۱) شوق صحبت رسول رسول اللہ ﷺ کا فیض صحبت ایک ایسی دولت جادوانی تھا، جس پر صحابہ کرام ہر قسم کے دنیوی مال و متاع کو قربان کردیتے تھے، ایک بار آپ نے حضرت عمرو بن العاص ؓ سے فرمایا کہ میں تمہیں ایک مہم پر بھیجنا چاہتا ہوں ،خدامال غنیمت دے گا تو تم کو معتدبہ حصہ دوں گا، بولے میں مال کے لئے مسلمان نہیں ہوا، صرف اس لئے اسلام لایا ہوں کہ آپ کا فیض صحبت حاصل ہو۔ ( ادب المفرد،باب المال الصالح للمرءالصالح،حدیث نمبر:۳۰۸) جو صحابہ دنیوی تعلقات سے آزاد ہوجاتے تھے وہ صرف آستانہ نبوت سے وابستگی پیدا کرکے آپ کی صحبت سے فیض یاب ہوتے تھے، حضرت قیلہؓ بیوہ ہوگئیں، تو بچوں کو ان کے چچا نے لے لیا، اب وہ تمام دنیوی جھگڑوں سے آزاد ہوکر ایک صحابی کے ساتھ خدمت مبارک میں حاضر ہوئیں اورآپ کی تعلیمات و تلقینات سے عمر بھر فائدہ اٹھاتی رہیں۔ (طبقات ابن سعد، تذکرہ حضرت قیلہؓ) حضرت عمرؓ مدینہ سے کسی قدر دور مقام عالیہ میں رہتے تھے، اس لیے روزانہ آپ کے فیضِ صحبت سے متمتع نہیں ہوسکتے تھے؛ تاہم یہ معمول کرلیا تھا کہ ایک روز خود آتے تھے اور دوسرے روز اپنے ایک اسلامی بھائی کو بھیجتے تھےتاکہ آپ ﷺکی تعلیمات وارشادات سے محروم نہ رہنے پائیں۔ (بخاری، کتاب العلم بَاب التَّنَاوُبِ فِي الْعِلْمِ ،حدیث نمبر:۸۷) دنیا میں آپ کے فیض ِصحبت سے سیری نہ ہوئی تو بعض صحابہ نے خواہش کی کہ آخرت میں بھی یہ دولت جادوانی نصیب ہو، حضرت ربیعہ بن کعب اسلمیؓ آپ کے خادم تھے اورہمیشہ سفر حضر میں آپ کے ساتھ رہتے تھے ،ایک بار آپﷺ نے ان سے کہا کہ کچھ مانگو، بولے کہ جنت میں آپ کی رفاقت، ارشادہوا کچھ اوربولے صرف یہی ایک چیز،فرمایا خوب نماز پڑھو تو یہ دولت نصیب ہوگی۔ (ابوداؤد،کتاب الصلوٰۃ، باب وقت قیام النبی ﷺمن اللیل ،حدیث نمبر:۱۱۲۵،صاحب استیعاب نے ان کے حال میں لکھا ہے کان یلزم رسول اللہ فی السفرو الحضر) رسول اللہ کی صحبت کا اثر صحابہ کرام چونکہ نہایت خلوص وصفائے قلب کے ساتھ آپﷺ کے ارشاد وہدایت سے فیض یاب ہونے کے لئے آپ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوتے تھے،اس لیے ان پر آپ کی صحبت کا شدت کے ساتھ اثر پڑتا تھا، ایک بار حضرت ابوہریرہؓ نے فرمایا کہ یا رسول اللہ یہ کیا بات ہے کہ جب ہم آپ کے پاس ہوتے ہیں تو ہمارے دل نرم ہوجاتے ہیں،زہد و آخرت کا خیال غالب ہوجاتا ہے، پھر جب آپ کے پاس سے چلے جاتے ہیں، اہل وعیال سے ملتے جلتے ہیں اوربچوں کو سونگھتے ہیں تو وہ بات باقی نہیں رہتی؟ ارشاد ہوا کہ اگر یہی حالت قائم رہتی تو فرشتے خود تمہارے گھروں میں تمہاری زیارت کو آتے۔ (ترمذی، بَاب مَا جَاءَ فِي صِفَةِ الْجَنَّةِ وَنَعِيمِهَا ،حدیث نمبر:۲۴۴۹) ایک بار حضرت حنظلہ اسیدیؓ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پاس روتے ہوئے آئے اورکہا کہ حنظلہ منافق ہوگیا، ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس ہوتے ہیں اور آپ جنت و دوزخ کا ذکر فرماتے ہیں تو ہمارے سامنے ان کی تصویر کھینچ جاتی ہے،پھر گھر میں آکر اہل وعیال سے ملتے ہیں اورکھیتی باڑی کے کام میں مصروف ہوجاتے ہیں تو اس حالت کو بھول جاتے ہیں، انہوں نے کہا ہمارا بھی یہی حال ہوتا ہے چلو خود آپﷺ کے پاس چلیں آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اورواقعہ بیان کیا،توآپﷺ نے فرمایا اگر وہ حالت قائم رہتی تو فرشتے تمہاری مجلسوں میں تمہارے بستروں پر اورتمہارے راستوں میں آکر تم سے مصافحہ کرتے اس حالت کا ہمیشہ قائم رہنا ضروری نہیں۔ ٍ(ترمذی، ابواب الزہد ،حدیث نمبر:۲۴۳۸) استقبال رسول رسول اللہ ﷺ نے ہجرت کی تو آپ کے ساتھ طبل وعَلم، لاؤ لشکر، خیمہ و خرگاہ کچھ نہ تھا، صرف سواری کی دواونٹیناں تھیں اورساتھ میں ایک جان نثار رفیق سفر تھا، لیکن یہ بے سروسامان قافلہ جس دن مدینہ میں پہنچا، مدینہ مسرت کدہ بن گیا، عورتوں اور بچوں کی زبان پر یہ فقرہ تھا، رسول اللہ آئے، رسول اللہ آئے، ہجر ت کی خبر پہلے سے مدینہ میں پہنچ گئی تھی، اس لئے تمام مسلمان صبح سویرے گھر سے نکل کر مدینہ کے باہر استقبال کے لئے جمع ہوتے دوپہر تک انتظار کرکے واپس چلے جاتے ،ایک دن حسب معمول سب لوگ انتظار کرکے چلے گئے تو ایک یہودی قلعہ سے دیکھ کر بآواز بلند پکارا کہ اہل عرب لو تمہارا شاہد مقصود آپہنچا،تمام صحاب دفعۃ ابل پڑے اور ہتھیار سج سج کر گھروں سے نکل آئے ،آپ قباء میں تشریف لائے اورخاندانِ بنو عمروبن عوف کے یہاں اترے تو تمام خاندان نے اللہ اکبر کا نعرہ مارا، انصار ہر طرف سے آتے اورجوش عقیدت کے ساتھ سلام عرض کرتے ،انصار میں جن لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کو اب تک نہیں دیکھا تھا وہ شوقِ دیدار میں بیتاب تھے؛ لیکن آپ کو پہچان نہیں سکتے تھے، حضرت ابوبکرؓ نے دھوپ سے بچانے کے لیے آپ کے سرپر چادر تانی، تو سب کو اس کے سایہ میں آفتاب نبوت نظرآیا۔ آپ قبا سے مدینہ کی خاص آبادی کی طرف چلے تو جان نثاروں کا جھرمٹ ساتھ تھا، ایک مقام پر آپ ٹھہرگئے اورانصار کو طلب فرمایا، سب لوگ حاضر ہوئے ،سلام عرض کیا، اورکہا کہ سوار ہوجایے کوئی خطرہ نہیں، ہم لوگ فرماں برداری کے لئے حاضر ہیں، آپ انصار کی تلوار کے سایہ میں روانہ ہوئے۔ قبا سے مدینہ تک دورویہ جان نثاروں کی صفیں تھیں ،راہ میں انصار کے خاندان آتے تو ہر قبیلہ سامنے آکر عرض کرتا کہ حضور یہ گھرہے یہ مال ہے یہ طاقت ہے کوکبہ نبوت شہر کے متصل پہنچا تو ایک عام غُل پڑگیا، لوگ بالاخانے سے جھانک جھانک کر دیکھتے تھے اورکہتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ آئے ،رسول اللہ ﷺ آئے ۔ (بخاری، باب ہجرۃ النبی،حدیث نمبر: ۳۶۱۶وطبقات جلد سیرۃ نبوی ذکر ہجرت) پردہ نشین خاتونیں اور بچے جوش مسرت میں یہ ترانہ گارہے تھے۔ طلع البد ر علینا کوہ وداع کی گھاٹیوں کے برج سے من ثنیات الوداع بدر کامل طلوع ہوا ہے وجب الشکر علینا جب تک دعا کرنے والے دعا کریں ہم پر مادعی اللہ داعی شکر واجب ہے۔ (دلائل النبوۃ للبیہقی،حدیث نمبر:۷۵۲) جب آپ کی اونٹنی حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے دروازہ پر بیٹھ گئی تو قبیلہ بنونجار کی لڑکیاں دف بجا بجاکر یہ شعر گانے لگیں: نحن جوار من بنی النجار ہم خاندان نجار کی لڑکیاں یاحیذامحمد امن جار محمد ﷺ کیسے اچھے ہمسایہ ہیں (دلائل النبوۃ للبیہقی،حدیث نمبر:۷۵۵) (وفاء الوفا جلد ۱:۱۸۷) ضیافت رسول اگر خوش قسمتی سے کبھی صحابہ کرام کو رسول اللہ ﷺ کی ضیافت و میزبانی کا شرف حاصل ہوجاتا تھا، تو وہ نہایت عزت محبت اورادب واحترام کے ساتھ اس فرض کو بجالاتے تھے، ایک بار ایک انصاری صحابی نے خدمت مبارک میں گذارش کی کہ میں نہایت لحیم و شحیم آدمی ہوں، آپﷺکے ساتھ نماز میں شریک نہیں ہوسکتا ،آپ میرے مکان پر تشریف لاکر نماز ادا فرما لیں؛ تاکہ میں اسی طرح نماز پڑھاکروں ،انہوں نے پہلے سے کھانا بھی تیار کرارکھا تھا؛ چنانچہ آپﷺ تشریف لائے اوردوررکعت نماز ادا فرمائی (ابوداؤد کتاب الصلوٰۃ علی الحصیر) ایک بارآپ ام حرام ؓ کے مکان پر تشریف لے گئے،انہوں نے کھانا کھلایا اوربیٹھ کر آپ کے سر سے جو ئیں نکلالیں۔ (ایضا کتاب الجہاد باب فی رکوع البحر فی الغزد) ایک روز آپﷺ حضرت عمرؓ اورحضرت ابوبکرؓ کے ساتھ حضرت ابولہثیم بن التہیان الانصاری کے مکان پر تشریف لے گئے ،وہ باہر گئے ہوئے تھے، آئے تو آپ سے لپٹ گئے اورقربان ہونے لگے،پھر سب کو باغ میں لے گئے، فرش بچھایا اورکھجوریں توڑ کر آپ کے سامنے رکھ دیں کہ خود دست مبارک سے چن چن کر تناول فرمائیں، اس کے بعد اُٹھے اورایک بکری ذبح کی اورسب نے خوب سیر ہوکر کھایا۔ (ترمذی ابواب الزہد :۳۹) ایک روز آپﷺ نے حضرت جابرؓ کے مکان پر تشریف لے جانے کا وعدہ کیا، انہوں نے نہایت اہتمام کے ساتھ آپ کی دعوت کا سامان کیا اوربی بی سے کہا دیکھو رسول اللہ ﷺ آنے والے ہیں، تمہاری صورت نظر نہ آئے، آپﷺ کو کوئی تکلیف نہ دینا، آپ ﷺسے بات چیت نہ کرنا، آپ تشریف لائے تو بستر بچھایا ،تکیہ لگایا، آپ مصروف خواب استراحت ہوئے،توغلام سے کہا آپ کے جاگنے سے پیشتر بکری کے اس بچے کو ذبح کرکے پکالو،ایسا نہ ہوکہ آپ منہ ہاتھ دھونے کے ساتھ ہی روانہ ہوجائیں، آپ بیدار ہوکر منہ ہاتھ دھونے سے فارغ ہوئے تو فوراً دسترخوان سامنے آیا،آپ کھانا کھاتے تھے اورقبیلہ بنوسلمہ کے تمام لوگ دورہی دورسے آپ کے دیدار سے مشرف ہوتے تھے کہ قریب آتے تو شاید آپ کو تکلیف ہوتی ،آپ کھانے سے فارغ ہوکر روانہ ہوئے تو ان کی بی بی نے پردہ سے کہا یا رسول اللہ میرے لیے اور میرے شوہر کے لیے دعا کیجیے،آپ نے فرمایا خدا تم پر اورتمہارے شوہر پر رحمت نازل فرمائے۔ (مسند ابن حنبل جلد ۳ :۲۹۸) ایک بار آپ ﷺحضرت سعدؓ کے مکان پر تشریف لے گئے ،انہوں نے آپ کو غسل کرایا، نہانے کے بعد زعفرانی رنگ کی چادر اڑھائی ،پھر کھانا کھلایا، آپ رخصت ہوئے تو، سواری حاضر کی اوراپنے بیٹے کو ساتھ کردیا کہ گھر تک پہنچاآئیں۔ (ابوداؤد، کتاب الادب، باب کم مرۃ یسلم الرجل فی الاستیذان) کبھی کبھی آپﷺ خود کسی چیز کی خواہش ظاہر فرماتے اورصحابہ کرام اس کو تیار کرکے پیش کرتے ،ایک بار آپﷺ نے فرمایا، کاش میرے پاس گیہوں کی سفید روٹی، گھی اوردودھ میں چپڑی ہوئی ہوتی، ایک صحابی فوراً اٹھے اورتیار کراکے لائے۔ (ایضا، کتاب الاطعمہ، باب فی الجمع بین الکونین من الطعام) بعض صحابیات خود کوئی نئی چیز پکا کر آپﷺ کی خدمت میں پیش کرتی تھیں، ایک بار حضرت ام ایمنؓ نے آٹا چھانا اوراس کی چپاتیاں تیار کرکے آپﷺ کی خدمت میں پیش کیں، آپ ﷺنے فرمایا یہ کیا ہے؟ بولیں ہمارے ملک میں اسی کا رواج ہے میں نے چاہا کہ آپ کے لیے بھی اسی قسم کی چپاتیاں تیار کروں ؛لیکن آپ ﷺنے کمال زہد و تشقف سے فرمایا کہ آٹے میں چورکر ملا لو پھر گوندھو۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الاطعمہ باب الحواری) نعت رسول قرآن مجید کے مواعظ اوررسول اللہ ﷺ کے کلمات طیبہ نے اگرچہ عہد صحابہ میں شاعری کے دفتر پر پانی پھیردیا تھا ؛تاہم بلبلانِ باغ قدس آپ کی مدح میں کبھی کبھی زمزمہ خوان ہوجاتے تھے اورچونکہ یہ اشعار سچے دل سے نکلتے تھے اورسچی تعریف پر مشتمل ہوتے تھے اس لئے دلوں پر اثر ڈالتے تھے، حضرت عبداللہ بن رواحہؓ ،حضرت کعب بن زہیرؓ اورحضرت حسان بن ثابتؓ کا یہ خاص مشغلہ تھا، حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ کے چند مدحیہ اشعار بخاری میں مذکور ہیں۔ وفینا رسول اللہ یتلوکتابہ اذا انشق معروف من الفجر ساطع ہم میں خدا کا پیغمبر ہے جب صبح نمودار ہوتی ہے تو خدا کی کتاب کی تلاوت کرتا ہے ارانا لاھدی بعد العمی فقلوبنا بہ موقنات ان ماقال راقع گمراہی کے بعد اس نے ہم کو راہ راست دکھائی اس لیے ہمارے دلوں کو یقین ہے کہ جو کچھ اس نے کہا وہ ضرور ہوکر رہیگا۔ یلیت یجافی جنبہ عن فراشہ اذاستثقلت بالمشرکین المضاجع وہ راتوں کو شب بیداری کرتا ہے حالانکہ اس وقت مشرکین گہری نیند میں سوتے ہیں۔ (بخاری، ابواب الوتر ،باب فضل من تعار من اللیل فصلی) حضرت کعب بن زہیرؓ جب آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اوراپنا مشہور قصیدہ بانت سعاد آ پ کے سامنے پڑھا، توآپ نے اس کو سن کر صحابہؓ سے فرمایا کہ اس کو سنو۔ (اسدالغابہ، تذکرہ حضرت کعب بن زہیر) ایک صحابیہ کی شادی میں چھوکریاں دف بجا بجا کر واقعات بدر کے متعلق اشعار گانے لگیں ان میں سے ایک نے یہ مصرع گایا: وفینا بنی یعلم مافی غد ہم میں ایک پیغمبر ہے جو کل کی بات جانتا ہے تو آپ نے روک دیا اورکہا کہ وہی گاؤ جو پہلے گارہی تھیں۔ (بخاری، کتاب النکاح ،باب ضرب الدف فی النکاح والولیمہ) رضا مندی رسول صحابہ کرام رسول اللہ ﷺ کی ناراضگی سے سخت گھبراتے تھے اور اس سے پناہ مانگتے تھے، ایک بار کسی نے حضرت عباسؓ کے آباواجداد میں سے کسی کو برا بھلا کہا ،آپ کو خبرہوئی تو فرمایا کہ عباسؓ مجھ سے ہیں اور میں عباسؓ سے ہوں ،ہمارے مردوں کو برا بھلا نہ کہو جس سے ہمارے زندوں کے دل دکھیں، یہ سن کر صحابہ ؓ نے کہا کہ ہم آپ کی ناراضی سے پناہ مانگتے ہیں ہمارے لئے استغفار کیجئے۔ (نسائی، کتاب الدیات ،باب القودمن الاطمۃ) ایک بار کسی نے آپ سے آپ کے روزے کے متعلق سوال کیا جس پر آپ کو غصہ آگیا حضرت عمرؓ نے یہ حالت دیکھی تو کہا۔ رضینا باللہ رباوبا لاسلام دینا بمحمد نبینا نعوذ باللہ من غضب اللہ وغضب رسولہ ہم نے خدا کو اپنا پروردگار اسلام کو اپنا دین اورمحمد کو اپنا پیغمبر بنایا ہے اورخدا اورخدا کے رسول کے غصہ سے پناہ مانگتے ہیں۔ اسی فقرے کو بار بار دہراتے رہے یہاں تک کہ آپ کا غصہ اترگیا۔ (ابوداؤد، کتاب الصیام، باب فی صوم الدہر تطوعا) اس لیے اگر آپ کسی نوگوار واقعہ سے مکدر ہوجاتے تھے تو صحابہ کرام ہر ممکن تدبیر سے آپ کو راضی کرنا چاہتے تھے ،آپ نے ازواج مطہرات سے ایلا کیا تو تمام صحابہ پر مصیبت کا پہاڑ ٹوٹ پڑا، حضرت عمرؓ نے آپ کو راضی کرنا چاہا اوردر دولت پر تشریف لے گئے دربان نے بے التفاتی کی تو سمجھے کہ شاید آپ کو یہ خیال ہے کہ ان کی لڑکی (حضرت حفصہؓ)کے خاطر آئے ہیں ،اس لیے دعبان سے کہا کہ اگر آپﷺ کا یہ خیال ہے تو کہہ دو کہ خدا کی قسم آپ حکم دیں تو حفصہؓ کی گردن اڑادوں ،حضرت ابوبکرؓ کو پہلے سے بارمل چکا تھا، حضرت عمرؓ آئے تو حضرت ابوبکرؓ نے رسول اللہ ﷺ کے ہنسانے کے لئے کہا کہ اگر بنت خارجہ (حضرت ابوبکرؓ کی بی نبی) مجھ سے نان و نفقہ طلب کرتیں تو میں اُ ٹھ کے ان کی گردن توڑدیتا،آپ ہنس پڑے اور ازواج مطہرات کی طرف اشارہ کرکے فرمایا یہ لوگ مجھ سے نفقہ ہی تو مانگ رہی ہیں، دونوں بزرگ اُٹھے اورحضرت عائشہؓ اورحضرت حفصہ ؓ کی گردن توڑنی چاہی اورکہا کہ رسول اللہ ﷺ سے وہ چیز مانگتی ہو جو آپ کے پاس نہیں ہے۔ (مسلم، بَاب فِي الْإِيلَاءِ وَاعْتِزَالِ النِّسَاءِ وَتَخْيِيرِهِنَّ،حدیث نمبر:۲۷۰۴) حضرت کعب بن مالکؓ سے جب آپ نے ناراض ہوکر قطع کلام کرلیا اورتمام صحابہ کو بھی یہی حکم دیا تو ان کو سب سے زیادہ آپ کی رضا مندی کی فکر تھی،آپ نماز کے بعد مسجد میں تھوڑی دیر تک بیٹھا کرتے تھے اس حالت میں وہ آتے اورسلام کرتے اوردل میں کہتے کہ لبہائے مبارک کو سلام کے جواب میں حرکت ہوئی یا نہیں؟ پھر آپ ہی کے متصل نماز پڑھتے اورکنکھیوں سے آپ کی طرف دیکھتے جاتے۔ (بخاری، کتاب المغازی ،ذکر غزوہ تبوک) آپ ﷺحجۃ الوداع کے لئے تشریف لے گئے تو تمام بیبیاں ساتھ تھیں سواتفاق سے راستہ میں حضرت صفیہؓ کا اونٹ تھک کر بیٹھ گیا وہ رونے لگیں، آپ کو خبر ہوئی تو خود تشریف لائے اوردست مبارک سے ان کے آنسو پوچھے، آپ جس قدر ان کو رونے سے منع فرماتے تھے اسی قدر وہ اورزیادہ روتی تھیں،جب کسی طرح چپ نہ ہوئیں، تو آپ نے ان کو سرزنش فرمائی اورتمام لوگوں کو منزل کرنے کا حکم دیا اورخود بھی اپنا خیمہ نصب کروایا،حضرت صفیہؓ کو خیال ہوا کہ آپ ناراض ہوگئے ،اس لئے آپ کی رضا مندی کی تدبیریں اختیار کیں، اس غرض سے حضرت عائشہ کے پاس گئیں اورکہا کہ آپ کو معلوم ہے کہ میں اپنی باری کا دن کسی چیز کے معاوضہ میں نہیں دے سکتی؛لیکن اگر آپ رسول اللہ ﷺ کو مجھ سے راضی کردیں تو میں اپنی باری آپ کو دیتی ہوں، حضرت عائشہؓ نے آمادگی ظاہر کی اورایک دوپٹہ اوڑھاجو زعفرانی رنگ میں رنگا ہوا تھا،پھر اس پر پانی چھڑکا کہ خوشبواورپھیلے اس کے بعد بن سنورکر آپ کے پاس گئیں اورخیمہ کا پردہ اُٹھایا توآپ نے فرمایا کہ عائشہ یہ تمہارا دن نہیں ہے بولیں : ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشاء یہ خدا کا فضل ہے جس کو چاہتا ہے دیتا ہے۔ (مسند ابن حنبل جلد ۶:۳۳۸) آپﷺ اکثر اپنی ناراضی کا اظہار علانیہ طورپر نہیں فرماتے تھے؛لیکن جب صحابہؓ کو آپ کے چشم ابرو سے اس کا احساس ہوجاتا تھا تو فوراً آپ کو راضی کرتے تھے ،ایک بار آپﷺ ایک راستہ سےگزرے راہ میں ایک بلند خیمہ نظر سے گذرا تو فرمایا یہ کس کا ہے؟ لوگوں نے ایک انصاری کانام بتایا، آپ کو یہ شان وشوکت ناگوار ہوئی، مگر اس کا اظہار نہیں فرمایا ،کچھ دیر کے بعد انصاری بزرگ آئے اور سلام کیا ؛لیکن آپ نے ناراضی سے منہ پھرلیا بار بار یہی واقعہ پیش آیا تو انہوں نے دوسرے صحابہ سے آپ کی ناراضی کی شکایت کی ناراضی کا سبب معلوم ہوا تو انہوں نے خیمہ کو گراکر زمین کے برابر کردیا۔ (ابوداؤد، کتاب الادب ،باب ماجاء فی النساء) ناراضی کے بعد اگر رسول اللہ ﷺ خوش ہوجاتے تو گویا صحابہ کرام کو دولت جاوید مل جاتی ،ایک بار آپ سفر میں تھے، حضرت ابورہم غفاری کی اونٹنی آپ کے ناقہ کے پہلو بہ پہلو جارہی تھی، حضرت ابورہمؓ کے پاؤں میں سخت چمڑے کے جوتے تھے ،اونٹنیوں میں مزاحمت ہوئی تو ان کے جوتے کی نوک سے آپ ﷺکی ساق مبارک میں خراش آگئی اورآپ نے ان کے پاؤں میں کوڑا مار کر کہا تم نے مجھے دکھ دیا، پاؤں ہٹاؤ، وہ سخت گھبرائے کہ کہیں میرے بارے میں کوئی آیت نازل نہ ہوجائے، مقام جعرانہ میں پہنچے تو گوان کی اونٹ چرانے کی باری نہ تھی ؛تاہم اس خوف سے کہ کہیں رسول اللہ ﷺکا قاصد میرے بلانے کے لئے نہ آجائے ،صحرا میں اونٹ چرانے کے لئے نکل گئے، شام کو پلٹے تو معلوم ہوا کہ آپ نے طلب فرمایا تھا، مضطربانہ حاضر خدمت ہوئے ،آپ نے فرمایا، مجھے تم نے اذیت پہنچائی اور میں نے بھی تمہیں کوڑا مارا جس سے تمہیں اذیت پہنچی، اس کے عوض میں یہ بکریاں لو، ان کا بیان ہے کہ آپ ﷺکی یہ رضا مندی میرے لئے دنیا ومافیہا سے زیادہ محبوب تھی۔ (طبقات ابن سعد، تذکرہ حضرت ابورہمؓ غفاری) ماتم رسول رسول اللہ ﷺ کے ساتھ صحابہ کرام کو جو محبت تھی، اس کا اثر آپﷺ کی زندگی میں جن طریقوں سے ظاہر ہوتا تھا، اس کا حل اوپر گذرچکا ؛لیکن آپ ﷺکی وفات کے بعد اس محبت کا اظہار صرف گویہ بکا آہ و فریاد اورنالہ وشیون کے ذریعہ سے ہوسکتا تھا اورصحابہ کرام نے آپ کے ماتم میں یہ درد انگیز صدائیں اس زور سے بلند کیں کہ مدینہ کل عرب کے درودیوار ہل گئے ،آپ پر موت کے اٰثار بتدریج طاری ہوئے، جمعرات کے دن مرض میں اشتداد پیدا ہوا، حضرت عبداللہ بن عباسؓ کو جب یہ دن یاد آتا تھا تو کہتے تھے کہ جمعرات کا دن، جمعرات کا کون سادن؟ وہ جس میں آپ کے مرض میں ترقی ہوئی، نزع کا وقت قریب آیا توغشی طاری ہوئی ،حضرت فاطمہؓ نے یہ حالت دیکھی تو بے اختیار چیخ اٹھیں" واکرب اباہ" ہائے میرے باپ کی تکلیفیں، آپ کا وصال ہوا تو یہ الفاظ کہہ کر آپ پر رو ئیں "یا ابتاہ اجاب ربادعاہ یاابتاہ من جنۃ الفردوس ماواہ یا ابتاہ الی جبرئیل ؑ تعاہ" لوگ آپ کو دفن کرکے آئے تو انہوں نے حضرت انسؓ سے نہایت درد انگیز لہجے میں پوچھا،کیوں انسؓ کیا رسول اللہ پر خاک ڈالنا تم کو گواراتھا۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد مجھے کسی کا مرض الموت نہیں کھلتا۔ یہ تو اہل بیت کی حالت تھی، اہل بیت کے علاوہ اورتمام صحابہ کا حلقہ ماتم مسجد نبویﷺمیں قائم تھا اورحضرت عمرؓ لوگوں کو یقین دلارہے تھے کہ ابھی آپ کا وصال ہی نہیں ہوسکتا، حضرت ابوبکرؓ نے آکر یہ حالت دیکھی تو کسی سے بات چیت نہیں کی سیدھے آپ کی لاش مبارک تک چلے گئے ،منہ کھول کر آپ کے چہرہ مبارک کو بوسہ دیا اورروئے، وہاں سے نکل کر لوگوں کو سمجھا یا تو سب کو آپ کی موت کا یقین آیا۔ (بخاری ،کتاب المغازی، باب مرض النبی) ایک شخص صحابہ کے قلق واضطراب کا یہ عالم دیکھ کر مدینہ سے عمان آیا،تو لوگوں کوآکے وصال کی خبردی اورکہا کہ میں مدینہ کے لوگوں کو ایسے حال میں چھوڑ آیا ہوں کہ ان کے سینے دیگچی کی طرح ابال کھارہے ہیں،( اصابہ تذکرہ خمیصہ) حضرت عبداللہ بن ابی لیلےٰ انصاریؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ کے وصال کے وقت میں بچہ تھا، لوگ اپنے سروں اورکپڑوں پر خاک ڈال رہے تھے اورمیں ان کے گریہ وبکاکو دیکھ کر روتا تھا۔ (اسدالغابہ ،تذکرہ حضرت عبداللہ بن ابی لیلیؓ) مدینہ کے باہر جب یہ وحشتناک خبر پہنچی تو قبیلہ باہلہ کے لوگوں نے اس ماتم میں اپنے خیمے گرادیئے اورمتصل سات دن تک ان کو کھڑا نہیں کیا۔ (اصابہ ،تذکرہ جہم بن کلدہ باہلی) تفویض الی الرسول صحابہ کرام ؓ نے اپنی ذاتی حیثیت بالکل فنا کردی تھی اوراپنی ذات اوراپنی آل واولاد کو رسول اللہ ﷺ کے حوالے کردیا تھا،حضرت فاطمہ بنت قیسؓ ایک صحابیہ تھیں، ان سے ایک طرف تو حضرت عبدالرحمن بن عوف جو نہایت دولتمند صحابی تھے نکاح کرنا چاہتے تھے دوسری طرف آپﷺ نے حضرت اسامہ ؓ بن زیدؓ کے متعلق ان سے گفتگو کی تھی جن کی فضیلت یہ تھی کہ آپ نے فرمایا تھا کہ جو مجھے دوست رکھتا ہے چاہیے کہ اسامہ کو بھی دوست رکھے ؛لیکن حضرت فاطمہ نے آپ کو اپنی قسمت کا مالک بنادیا اورکہا کہ میرا معاملہ آپ کے ہاتھ میں ہے،جس سے چاہے نکاح کردیجئے۔ (نسائی، کتاب النکاح الخطبہ فی النکاح) حضرت ابوامامہ اسعد بن زرادۃؓ انصاری اپنی تین لڑکیوں کے نکاح کے متعلق آپ کو وصیت کر گئے تھے جن میں آپ نے حضرت فریعہؓ کا نکاح بنیط بن جابر سے کردیا۔ (اسد الغابہ تذکرہ فریعہ بنت ابی امامہ) انصار کا یہ معمول تھا کہ آنحضرت ﷺ کی رضا مندی جانے بغیر اپنی بیواؤں کی شادی نہیں کرتے تھے ،ایک دن آپ نے ایک انصاری سے فرمایا تم اپنی لڑکی کا نکاح مجھ سے کردو، وہ تو منتظر ہی تھے باغ باغ ہوگئے؛ لیکن آپ ﷺنے فرمایا کہ میں اپنے لئے نہیں بلکہ جلیبب کے لئے پیغام دیتا ہوں ۔جلیبب ایک ظریف الطبع صحابی تھے جو عورتوں کے ساتھ ظرافت اورمذاق کی باتیں کیا کرتے تھے، اس لئے صحابہ ان کو عموما ناپسند کرتے تھے، انہوں نے جلیبب کا نام سنا تو بولے اس کی ماں سے مشورہ کرلوں، ماں نے جلبیب کانام سنا تو انکار کیا، لیکن لڑکی نے کہا رسول اللہ ﷺ کی بات نا منظور نہیں کی جاسکتی مجھے آپ کے حوالہ کردو آپ مجھے ضائع نہ کریں گے۔ (مسند جلد ۴:۴۲۲) ہیبت رسول ﷺ رسول اللہ ﷺ کے وقار وعظمت کی بناپر صحابہ کرامؓ آپ کے سامنے اس قدر مرعوب ہوجاتے تھے کہ جسم میں رعشہ پڑ جا تا تھا، ایک بار ایک صحابی نے آپ کے ساتھ نماز پڑھی؛لیکن دو شخص جو مسجد کے ایک گوشہ میں تھے شریک نماز نہیں ہوئے،آپ نے ان کو باز پرس کے لئے طلب فرمایا، تو وہ اس قدر مرعوب ہوئے کہ جسم میں لرزہ پڑگیا۔ (ابوداؤد،کتاب الصلوٰۃ، باب فیمن صلی فی منزلہ ثم ادرک الجماعۃ یصلی معہم) ایک صحابی نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ سے بات چیت کی ؛لیکن ان پر اس قدر جلال نبوت طاری ہوا کہ جسم میں رعشہ پڑگیا، آپ نے فرمایا گھبراؤ نہیں میں تو اس عورت کا لڑکا ہوں جو گوشت کے سوکھے ٹکڑے کھایا کرتی تھی۔ (سنن ابن ماجہ ،کتاب الاطعمہ، باب القدیر ) ایک بار ایک صحابیہ نے آپ کو مسجد میں اکڑوں بیٹحے ہوئے دیکھا، ان پر آپ کے اس خصوع وخشوع کی حالت کا یہ اثر پڑا کہ کانپ اٹھیں۔ (شمائل ترمذی، باب ماجاء فی جلستہ رسول اللہ ﷺ) اس رعب وداب کا یہ اثر تھا کہ صحابہ کرام آپ کو کسی بات پر ٹوک نہیں سکتے تھے، ایک بار آپ پر عصر یا ظہر کی نماز میں نسیان طاری ہوگیا، اورصرف دو رکعتیں ادا فرمائیں، بہت سے صحابہ مسجد سے یہ کہتے ہوئے نکل آئے کہ رکعات نماز میں کمی کردی گئی جماعت میں حضرت ابوبکرؓ ،حضرت عمرؓ بھی شریک تھے؛ لیکن آپ کی ہیبت سے کچھ پوچھ نہیں سکتے تھے، بالآخر حضرت ذوالیدین ؓ نے آپﷺسے دریافت فرمایا کہ آپ بھول گئے یا نماز میں کمی ہوگئی، تمام صحابہ نے اس کی تصدیق کی؛ لیکن زبان نہ ہل سکی؛ بلکہ اشاروں میں حضرت ذوالیدینؓ کی تائید کی۔ (ابوداؤد، کتاب الصلوٰۃ ،باب السہونی السجدتین) حضرت عمرو بن العاصؓ فاتح مصر بڑے پایہ کے صحابی تھے؛ لیکن ان کا بیان ہے کہ میں آپ کا حلیہ نہیں بیان کرسکتا ؛کیونکہ میں نے آپﷺکو کبھی آنکھ بھر کر دیکھنے کی جرأت نہیں کی۔ (مسلم، کتاب الایمان ،باب کون الاسلام یہدم ماقبلہ وکذاالحج والہجرۃ ) صحابہ کرام کے بچوں تک کے رگ و ریشہ میں آپ کا رعب وادب سرایت کرگیا تھا، ایک بار حضرت ایاز بچپن میں باپ کے ساتھ آپﷺ کی خدمت میں گئے، آپ کا دیدار ہواتو ان کے باپ نے پوچھا کہ جانتے ہو کہ کون ہیں؟ بولے نہیں کہا کہ رسول اللہ ﷺ ہیں، یہ سننے کے ساتھ ہی ان کے بدن کے رونگٹھے کھڑے ہوگئے ،ان کا خیال تھا کہ آپ کی شکل وصورت آدمیوں سے مختلف ہوگی ؛لیکن ان کو نظرآیا کہ آپ بھی آدمی ہی ہیں اورآپ کے سرپر لمبے لمبے بال ہیں۔ (ابوداؤد، کتاب النکاح ،باب تزویج من لم یولد) اطاعت رسول صحابہ کرام جس طوع ورضاء کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کرتے تھے اس کے متعلق احایث میں نہایت کثرت سے واقعات مذکور ہیں ،ذیل کے چند واقعات سے ان کا اندازہ ہوسکے گا۔ ایک بار حضرت زینبؓ اپنے کپڑے رنگوارہی تھیں ،آپ ﷺگھر میں آئے تو اُلٹے پاؤں واپس گئے، آپﷺنے اگرچہ منہ سے کچھ نہیں فرمایاتھا، تاہم حضرت زینب ؓ آپ کی نگاہ عتاب کو تاڑ گئیں اورتمام کپڑوں کے رنگ کو دھوڈالا۔ آپﷺ نے ایک صحابی کو ایک رنگین چادر اوڑھے ہوئے دیکھا تو فرمایا یہ کیا ہے؟ وہ سمجھ گئے کہ آپ نے ناپسند فرمایا،فوراً گھر میں آئے اوراس کو چولہے میں ڈال دیا۔ (ابوداؤد، کتاب اللباس ،باب فی الحمرۃ) حضرت خریم اسدیؓ ایک صحابی تھے جو نیچی تہ بند باندھتے تھے اورلمبے بال رکھتے تھے ،ایک روز آپﷺ نے فرمایا خریم اسدی کتنا اچھا آدمی تھا اگر لمبے بال نہ رکھتا اورنیچی تہبند نہ باندھتا،ان کو معلوم ہوا تو فوراً قینچی منگوائی ،اس سے بال کترے اورتہبند اونچی کرلی۔ (ایضاً باب ماجاء فی اسبال لازار) بی بی سب کو عزیز ہے؛ لیکن جب آپ نے تخلفِ غزوہ تبوک کی بناپر تمام مسلمانوں کو حضرت کعب بن مالکؓ سے قطع تعلق کرلینے کا حکم دیا اوراخیر میں ان کو بی بی سے بھی علیحدگی اختیار کرنے کی ہدایت فرمائی تو بولے طلاق دے دوں یا اورکچھ ؛لیکن آپ کے قاصد نے کہا صرف علیحدگی مقصود ہے؛ چنانچہ انہوں نے فوراً بی بی کو میکے میں بھیج دیا۔ (بخاری، کتاب المغازی، باب غزوہ تبوک) شادی بیاہ کا معاملہ نہایت نازک ہوتا ہے ؛لیکن صحابہ کرام کو اطاعت رسول نے ان معاملات میں غور وفکر کرنے سے بے نیا زکردیاتھا حضرت ربیعہ اسلمیؓ ایک نہایت مفلس صحابی تھے ایک بار آپ نے ان کو نکاح کرنے کا مشورہ دیا اورکہا کہ جاؤ انصار کے فلاں قبیلہ میں نکاح کرلو وہ آئے اورکہا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے تمہارے یہاں فلاں لڑکی سے نکاح کرنے کے لئے بھیجا ہے، سب نے ان کا خیر مقدم کیا اورکہا کہ رسول اللہ ﷺ کا قاصد ناکامیاب نہیں جاسکتا؛ چنانچہ فوراانہوں نے اس کی تعمیل کی۔ (مسند ابن حنبل جلد ۴:۵۸) پابندی احکام رسول رسول اللہ ﷺ کے جو احکام وقتی ہوتے تھے صحابہ کرام فوراً ان کی تعمیل کرتے تھے اورجو دائمی ہوتے ہمیشہ ان کے پابند رہتے تھے اوراس کے خلاف کبھی ان سے کوئی حرکت صادر نہیں ہوتی تھی۔ آپ کے زمانہ میں عورتیں بھی شریک جماعت ہوتی تھیں، اس حالت میں اقتضائے کمالِ عفت وعصمت یہ تھا کہ ان کے لئے مسجد کا ایک دروازہ مخصوص کردیا جائے اس بناء پر آپ نے ایک روز ارشاد فرمایا: لوترکنا ھذاالباب للنساء کاش ہم یہ دروازہ صرف عورتوں کے لئے چھوڑدیتے حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے اس شدت کے ساتھ اس کی پابندی کی کہ تادم مرگ اس دروازہ سے مسجد میں داخل نہیں ہوئے۔ (ابوداؤد ،کتاب الصلوٰۃ ،باب التشدید فی ذلک) رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا تھا: من زارقو مافلایومھم ولیومھم رجل منھم جو شخص کسی قوم کے یہاں جائے وہ ان کی امامت نہ کرے بلکہ خود اسی قوم کا کوئی شخص ان کی امامت کرے۔ ایک بار حضرت مالک بن حویرثؓ ایک قوم کی مسجد میں آئے لوگوں نے امامت کی درخواست کی تو انہوں نے انکار کردیا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے۔ (ابوداود ،کتاب الصلوٰۃ ،باب امامۃ الزائر) ایک بار حضرت ابو سعید خدریؓ نماز پڑھ رہے تھے ایک قریشی نوجوان سامنے سے گزرا انہوں نے اس کو ڈھکیل دیا وہ باز نہ آیا، پھر ڈھکیلا وہ نہ رکا تیسری بار پھر ڈھکیلا نماز پڑھ چکے تو فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ نماز کو اگرچہ کوئی چیز توڑ نہیں سکتی ،تاہم اگر کوئی چیز سامنے آجائے تو جہاں تک ممکن ہو اس کو دفع کرو، کیونکہ وہ شیطان ہے۔ (ابوداؤد، کتاب الصلوٰۃ، باب من قال لایقطع الصلوٰۃ شی) ایک بار آپﷺ نے فرمایا کہ جس شخص نے غسل جنابت میں ایک بال کو بھی خشک چھوڑدیا، اس پر دوزخ میں یہ عذاب ہوگا، حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اس پر جس شدت سے عمل کیا اس کو خود انہوں نے بیان کیا ہے فمن ثم عادیت راسی فمن ثم عادیت راسی (ابوداؤد، کتاب الطہارت ،باب فی غسل من الجنابۃ حدیث میں ہے کہ یہ فقرہ انہوں نے تین مرتبہ فرمایا) یعنی اس دن سے میں نے اپنے سر سے دشمنی کرلی، دشمنی کرلی، یعنی برابر بال ترشواتے رہے رسول اللہ ﷺ نے شوہر کے علاوہ اوراعزہ کے ماتم کے لئے صرف تین دن مقرر فرمائے تھے، صحابیات نے اس کی اس شدت کے ساتھ پابندی کی کہ جب حضرت زینب ؓ بنت جحشؓ کے بھائی کا انتقال ہوگیا، تو غالباً چوتھے دن انہوں نے خوشبو لگائی اورکہا کہ مجھ کو خوشبوکی کوئی ضرورت نہ تھی ؛لیکن میں نے آپﷺ سے منبر پر سنا ہے کہ کس مسلمان عورت کو شوہر کے سوا تین دن سے زیادہ کسی کا ماتم کرنا جائز نہیں، اس لئے یہ اسی حکم کی تعمیل تھی۔ جب حضرت ام حبیبہؓ کے والد نے انتقال کیا تو انہوں نے تین روز کے بعد اپنے رخساروں پر خوشبوملی اورکہا کہ مجھے اس کی ضرورت نہ تھی صرف اس حکم کی تعمیل مقصود تھی۔ (ابوداؤد، کتاب الطلاق ،باب احداد المتوفی عنہا زوجہا) پہلے یہ دستور تھا کہ جب صحابہ کرام سفر جہاد میں منزل پر قیام فرماتے تھے تو ادھر ادھر پھیل جاتے تھے، ایک بار آپ نے فرمایا کہ یہ تفرق وتشتت شیطان کا کام ہے ،اس کے بعد صحابہ کرامؓ نے اس کی اس شدت کے ساتھ پابندی کی کہ جب منزل پر اترتے تھے تو اس قدر سمٹ جاتے تھے کہ اگر ایک چادر تان لی جاتی تو سب کے سب اس کے نیچے آجاتے۔ (ایضا ،کتاب الجہاد ،باب یومر من انضمام السکر) رسول اللہ ﷺ نے تجارت کے متعلق جو احکام جاری فرمائے تھے ان میں ایک یہ تھا: لا یبیع حاضر لباد شہری آدمی بددؤں کا مال نہ بکوائے ( یعنی اس کا دلال نہ بنے) ایک بار ایک بدو کچھ مال لے کر آیاتوحضرت طلحہ ؓ بن عبید اللہ کے یہاں اترا ؛لیکن انہوں نے کہا کہ میں خود تو تمہارا سودا نہیں بکواسکتا ،البتہ بازار میں جاؤ بائع کی تلاش کرو میں صرف مشورہ دے دوں گا۔ (ایضا، کتاب البیوع ،باب فی النہی ان بیع حاضر لباد) حضرت حذیفہؓ کے سامنے مداین کے ایک رائیس نے چاندی کے برتن میں پانی پیش کیا، انہوں نے اس کو اُٹھا کر پھینک دیا، اورفرمایا کہ میں نے اس کو منع کیا تھا یہ باز نہ آیا، رسول اللہ ﷺ نے اس کی ممانعت فرمائی ہے۔ (ایضا ،کتاب الاشربہ، باب الشرب فی آنیۃ الذہب دالفضۃ) رسول اللہ ﷺ نے پہلے یمن کی گورنری پر حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کو روانہ فرمایا، ان کے بعد حضرت معاذ بن جبلؓ کو بھیجا ،حضرت معاذ بن جبلؓ آئے تو حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کے سامنے ایک مجرم کو دیکھا، حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ نے سواری سے اتر نے کے لئے کہا ؛لیکن انہوں نے مجرم کی طرف اشارہ کرکے پوچھا یہ کون ہے بولے یہودی تھا، اسلام لاکر مرتد ہوگیا ہے، فرمایا جب تک خدا اوررسول کے حکم کے مطابق قتل نہ کردیا جائے گا میں نہ بیٹھوں گا انہوں نے بیٹھنے پر اصرار کیا؛ لیکن ان کا یہی جواب تھا چنانچہ جب وہ قتل ہوچکا تو سواری سے اترے۔ (ابوداؤد، کتاب الحدود ،باب الحکم فی من ارتد؛لیکن اس کے بعد کی روایت میں ہے کہ حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ نے اس کو تقریبا۲۰ دن تک سمجھایا،پھر حضرت معاذ ؓ نے بھی اس کو سمجھا یا؛لیکن جب وہ راہ راست پر نہ آیا تو قتل کردیا) ایک بار حضرت ابوبکرؓ ایک مجلس میں آئے، ایک شخص نے اُٹھ کر ان کے لئے اپنی جگہ خالی کردی ،تو انہوں نے اس کی جگہ بیٹھنے سے انکار کیا اورکہا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے۔ (ایضا ،کتاب الادب ،باب فی التحلق) ایک بار حضرت عائشہ ؓ کے پاس ایک سائل آیا انہوں نے اس کو روٹی کا ایک ٹکڑا دے دیا،پھر اس کے بعد ایک خوش لباس شخص آیا، تو انہوں نے اس کو بٹھا کر کھانا کھلایا، لوگوں نے اس تفریق پر اعتراض کیا تو بولیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ انزلو الناس منازلھم (ابوداؤد، کتاب الادب ،باب فی تنزیل الناس منازلہم) ہر شخص سے اس کے درجہ کے مطابق برتاؤ کرو۔ ایک بارآپﷺ مسجد سے نکل رہے تھے دیکھا کہ راستے میں مرد اور عورتیں مل جل کے چل رہے ہیں، عورتوں کی طرف مخاطب ہوکر فرمایا،پیچھے رہو تم وسط راہ سے نہیں گذرسکتیں، اس کے بعد یہ حال ہوگیا کہ عورتیں اس قدر گلی کے کنارے سے چلتی تھیں کہ ان کے کپڑے دیواروں سے الجھ جاتے تھے۔ (ابوداؤد، کتاب الادب، بَاب فِي مَشْيِ النِّسَاءِ مَعَ الرِّجَالِ فِي الطَّرِيقِ،حدیث نمبر:۴۵۸۸) حضرت محمد بن اسلمؓ نہایت کبیر السن صحابی تھے؛ لیکن جب بازار سے پلٹ کر گھر آتے اور چادر اتارنے کے بعد یاد آتا کہ انہوں نے مسجد نبوی میں نماز نہیں پڑھی تو کہتے کہ خدا کی قسم میں نے مسجد رسول اللہ میں نماز نہیں پڑھی،حالانکہ آپ نے ہم سے فرمایا تھا کہ جو شخص مدینہ میں آئے تو جب تک اس مسجد میں دو رکعت نماز پڑھ لے گھر کو واپس نہ جائے یہ کہہ کر چادر اُٹھاتے اورمسجد نبوی میں دورکعت نماز پڑھ کے گھر واپس آتے۔ (اسد الغابہ، تذکرہ حضرت محمد بن اسلم) غزوہ ٔاحزاب میں آپﷺنے حضرت حذیفہ ؓ کو حکم دیا کہ کفار کی خبر لائیں، لیکن ان سے چھیڑ چھاڑ نہ کریں وہ آئے تو دیکھا کہ ابوسفیان آگ تاپ رہے ہیں کمان میں تیر جوڑلیا اورنشانہ لگانا چاہا؛ لیکن رسول اللہ کا حکم یاد آگیا اوررک گئے۔ (مسلم ،کتاب الجہاد ،باب غزوۃ الاحزاب) جو صحابہ رافع بن ابی الحقیق یہودی کے قتل کرنے کے لئے گئے تھے ان کو رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا تھا کہ اس کے بچوں اور عورتوں کو نہ قتل کریں ، ان لوگوں نے اس شدت کے ساتھ اس حکم کی پابندی کی کہ ابن ابی الحقیق کی عورت نے باوجود یکہ اس قدر شور کیا کہ قریب تھا کہ ان کا راز فاش ہوجاتا ؛لیکن ان لوگوں نے صرف آپ کے حکم کی بنا پر اس پر ہاتھ اُٹھانا پسند نہ کیا۔ (موطا مالک، کتاب الجہاد، باب النہی عن قتل النساء والولدان فی الغزو) ادب حرم نبوی رسول اللہ ﷺ کے تعلق سے صحابہ کرام ازواج مطہرات کا اس قدر ادب کرتے تھے کہ جب آپ کی ایک حرم محترم نے انتقال کیا تو حضرت عبداللہ بن عباسؓ سجدے میں گرپڑے لوگوں نے کہا آپ اس وقت سجدہ کرتے ہیں؟ بولے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جب قیامت کی کوئی نشانی دیکھو تو سجدہ کرلیا کرو پھر ازواج مطہرات کی موت سے بڑھ کر قیامت کی کون سی نشانی ہوگی۔ (ابوداؤد، کتاب الصلوٰۃ، باب السجود عند الآیات) مقام سرف میں حضرت میمونہ کا جنازہ اٹھایا گیا،توحضرت عبداللہ بن عباسؓ بھی ساتھ تھے بولے کہ یہ میمونہ ؓ ہیں، ان کا جنازہ اٹھاؤ تو مطلق حرکت و جنبش نہ دو۔ (نسائی، کتاب النکاح، ذکر امر رسول اللہ ﷺ فی النکاح وازواجہ وما اباح اللہ عزوجل النبیہ ﷺ) بعض صحابہؓ عزت ومحبت کی وجہ سے ازواج مطہرات پر اپنی جائدادیں وقف کرتے تھے؛ چنانچہ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے ازواج مطہرات کو ایک جائداد دی تھی،جو چالیس ہزار پرفروخت کی گئی اورایک باغ بھی وقف کیا تھا جو چار لاکھ پر فروخت کیا گیا۔ (ترمذی ،کتاب المناقب ،مناقب حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ ) خلفاء ازواج مطہرات کے ادب واحترام کا اس قدر لحاظ رکھتے تھے کہ حضرت عمرؓ نے اپنے زمانہ خلافت میں ازواج مطہرات کی تعداد کے لحاظ سے نوپیالے تیار کرائے تھے، جب ان کے پاس میوہ یا اورکوئی عمدہ چیز آتی تو ان پیالوں میں رکھ کے تمام ازواج مطہرات کی خدمت میں بھیجتے تھے۔ (موطامالک ،کتاب الزکوٰۃ، باب جزیۃ اہل الکتاب والمجوس ) ۳۲ھ میں جب حضرت عمرؓ نے حج کیا تو ازواجِ مطہرات کو بھی نہایت ادب واحترام کے ساتھ ہمراہ لے گئے ،حضرت عثمانؓ اورحضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کو سواریوں کے ساتھ کردیا تھا، یہ لوگ آگے پیچھے چلتے تھے، اورکسی کو سواریوں کے قریب نہیں آنے دیتے تھے،ازواج مطہرات منزل پر اترقی تھیں توخود حضرت عمرؓ کے ساتھ قیام کرتی تھیں، حضرت عثمانؓ اورحضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کسی کو قیام گاہ کے متصل آنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ (طبقات ابن سعد، تذکرہ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ)