انوار اسلام |
س کتاب ک |
بینک کی ملازمت کا تفصیلی حکم آج کل بینک کی ملازمت بھی ایک اہم مسئلہ ہے، بینک کی ملازمت ناجائز ہونے کی دووجہیں ہوسکتی ہیں، ایک وجہ یہ ہے کہ ملازمت میں سود وغیرہ کے ناجائز معاملات میں اعانت ہے، دوسرے یہ کہ تنخواہ حرام مال سے ملنے کا احتمال ہے، ان میں سے پہلی وجہ یعنی حرام کاموں میں مدد کا جہاں تک تعلق ہے، شریعت میں مدد کے مختلف درجے ہیں، ہردرجہ حرام نہیں؛ بلکہ صرف وہ مدد ناجائز ہے جوبراہِ راست حرام کام میں ہو، مثلاً سودی معاملہ کرنا، سود کا معاہدہ لکھنا، سود کی رقم وصول کرنا وغیرہ؛ لیکن اگربراہِ راست سودی معاملے میں انسان کوملوث نہ ہونا پڑے؛ بلکہ اس کے کام کی نوعیت ایسی ہوجیسے ڈرائیور، چپراسی، یاجائز ریسرچ وغیرہ تواس میں چونکہ براہِ راست مدد نہیں ہے؛ اس لیے اس کی گنجائش ہے؛ جہاں تک حرام مال سے تنخواہ ملنے کا تعلق ہے، اس کے بارے میں شریعت کا اُصول یہ ہے کہ اگرایک مال حرام اور حلال سے مخلوط ہو اور حرام مال زیادہ ہوتواس سے تنخواہ یاہدیہ لینا جائز نہیں؛ لیکن اگرحرام مال کم ہوتوجائز ہے، بینک کی صورتِ حال یہ ہے کہ اس کا مجموعی مال کئی چیزوں سے مرکب ہوتا ہے: (۱)اصل سرمایہ (۲)ڈپازیٹرز کے پیسے (۳)سود اور حرام کاموں کی آمدنی (۴)جائز خدمات کی آمدنی، اس سارے مجموعے میں صرف نمبر تین حرام ہے، باقی کوحرام نہیں کہا جاسکتا اور چونکہ ہربینک میں نمبرایک اور نمبردو کی اکثریت ہوتی ہے اس لیے یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ مجموعے میں حرام غالب ہے؛ لہٰذا کسی جائز کام کی تنخواہ اس سے وصول کی جاسکتی ہے۔ یہ بنیاد ہے جس کی بناء پرعلماء نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ بینک کی ایسی ملازمت جس میں خود کوئی حرام کام کرنا نہ پڑتا ہو، جائز ہے؛ البتہ احتیاط اس میں ہے کہ اس سے بھی اجتنا ب کیا جائے۔ (فتاویٰ عثمانی:۳/۳۹۵،۳۹۶۔ جدیدفقہی مسائل:۱/۴۰۰)