انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** مصر میں مملوکیوں اور عثمانیوں کی معرکہ آرائی غزہ کے معرکہ میں غزالی بے شکست کھاکر قاہرہ کی جانب واپس آیا اورطومان بے نے ترکی توپ خانہ کی ہلاکت آفرینی کے حالات سنے تو اس کی ہمت اور شجاعت میں بجائے اس کہ کمی ہوتی اور بھی اضافہ ہوگیا، اس نے قاہرہ کے متصل شام کی طرف جانے والی سڑک کے کنارے موضع رضوانیہ کے قریب فوج کو جمع کیا اورسلیم کی فوج کا انتظار کرنے لگا، سلطان طومان بے ایک اعلیٰ درجہ کا بہادر اورشریف شخص تھا،مگر بعض اوقات نہایت شریف اورنیک آدمیوں کے خلاف بھی سازشیں بارآر ہوجایا کرتی ہیں اور بھلے آدمیوں کے خلاف حاسدوں اورشریروں کی ایک جماعت ضرور ہی مصروف کار رہا کرتی ہے؛چنانچہ طوفان بے جو بڑا ہی لائق فائق،بہادر پاک طینت اورہر طرح قابلِ تعریف شخص تھا جب مصر کا سلطان منتخب ہوا تو مملوکی سرداروں ہی میں سے بعض سرداروں کو یہ انتخاب نا پسند ہوا مگر وہ کچھ نہ کہہ سکے اوردل ہی دل میں گڑھتے رہے اگر طومان بے کو اطمینان کا زمانہ میسر ہوتا تو وہ اپنے اخلا ق فاضلہ سے رفتہ رفتہ ان لوگوں کی سوزش قلبی کو فرو کردیتا لیکن اس کو برسرِ حکومت ہوتے ہی لڑائیوں کا بندوبست کرنا پڑا۔ ان حسد پیشہ سرداروں میں دو شخص خصوصیت سے قابل تذکرہ ہیں ایک غزالی بے اور دوسرا خیری ،ان دونوں نے طومان بے کو مصر کے بچانے اور عثمانیہ لشکر کو شکست دینے کی کوششوں میں مصروف دیکھ کر یہ کوشش درپردہ شروع کردی کہ طومان بے کو اپنی کوششوں میں کامیابی حاصل نہ ہو، ؛چنانچہ ان غداروں نے سلطان سلیم سے خفیہ سلام پیام اور خط و کتابت کا سلسلہ شروع کرکے طومان بے کی تمام تیاریوں اور تدبیروں سے سلطان عثمانی کو مطلع کردیا طومان بے نے سلیم کے توپ خانہ کو بیکار کردینے کے لئے یہ بہترین تدبیر سوچی تھی کہ جس وقت سلیم کا لشکر کوچ کرتا ہوا قریب پہنچے تو اسی حالت میں اس کے فروکش ہونے سے پہلے اس کے بازوؤں کی طرف سے مصری سواروں کے دستے حملہ آور ہوں اور توپ خانہ پر قابض ہوکر دست بدست تلوار وخنجر کی لڑائی شروع کردیں،اند ونوں غداروں نے سلیم کو طومان بے کے اس ارادے کی بھی عین وقت پر اطلا ع کردی اور طامان بے کی یہ تدبیر بھی پوری نہ ہونے پائی ،سلطان سلیم عثمانی کی یہ بڑی خوش قسمتی تھی کہ خود مملوکیوں کے سرداروں میں اس کے ہوا خواہ پیدا ہوگئے۔ ۲۲ جنوری ۱۵۱۷ء مطابق ۹۲۲ھ میں مقام رضوانیہ کے متصل جہاں مصری فوج خیمہ زن تھی دونوں فوجوں کا مقابلہ ہوا چونکہ سلیم پہلے ہی سے واقف ہوچکا تھا،لہذا طومان بے کو اپنی سوچی ہوئی تدبیر کے موافق لڑائی کے لئے اچھا موقعہ نہ مل سکا اوراس کو عین توپ خانہ کے مقابل ہوکر لڑنا پڑا، لڑائی کے شروع ہوتے ہی خیر ی بے اور غزالی بے دونوں غدار مملوکی سلطان سلیم کے پاس فوراً چلے آئے،توپوں کے گولوں کی بارش اوربندوقوں کی گولیوں کی بوچھاڑ میں مملوکیوں نے اس بے جگری کے ساتھ حملے کئے اوراس طرح حق شجاعت ومردانگی ادا کیا کہ اس کے بعد شاید کسی کو اس طرح بہادری کے ساتھ جان قربان کرنے کا موقعہ نہیں مہا ہوگا، طومان بے نے اپنے مملوک شہ سواروں کی ایک جماعت لے کر جو خود وزرہ وجوشن وغیرہ میں سرسے پاؤں تک غرق فولاد تھی ایک حملہ یونانیوں عثمانیوں کے قلب لشکر پرکیا، سلطان طومان بے کے ہمراہ دو اور بہادر مملوکی سرداراالان بے اورقرط بے بھی تھے ان دونوں سرداروں ے قسم کھائی کہ ہم سلطان سلیم کو یا تو زندہ گرفتار کرلیں گے ورنہ اس کو قتل کردیں گے۔ مملوکیوں کی اس مختصر جماعت کا یہ حملہ ایک زلزلہ تھا جس نے تمام عثمانی لشکر میں تزلزل برپا کردیا،مملوکیوں کا سلطان طومان بے اور اس کے مٹھی بھر ہمراہی گویا شیر تھے جو بکریوں کے گلے میں داخل ہوگئے تھے،ان لوگوں کو قلب لشکر تک پہنچنے سے عثمانیہ لشکرکی کوئی طاقت نہ روک سکی کائی سی بھاڑتے ہوئے اورکُشتوں کے پُشتے لگاتے ہوئے یہ لوغ ٹھیک اس مقام تک پہنچ گئے جہاں سلیم کھڑا ہوا اپنی فوج کے مختلف دستوں کو احکام بھیج رہا تھا،مگر حسن اتفاق سے طومان بے نے سنان پاشا کو جو سلطان سلیم کے قریب کھڑا تھا سلیم سمجھا اوراس غلط فہمی کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس نے آتے ہی سنان پاشا کو سلیم کہہ کر للکارا اورایک ایسا جچا تلا نیزہ کا وار کیا کہ نیزہ سنان پاشا کو چھید کر پار نکل گیا اوربغیر اس کے کہ وہ خود کوئی حرکت کرسکے یا کوئی اس کو بچانے کی کوشش کرے مردہ ہوکر زمین پر گرپڑا، اسی طرح الان بے اورقراط بے نے بھی دواور عثمانی سپہ سالاروں کو قتل کیا مگر سلطان سلیم کو کوئی شناخت نہ کرسکا، اس طرح یہ تینوں مملوکی سردار تین عثمانی سپہ سالاروں کو سلطان سلیم کے سامنے عین قلبِ لشکر میں قتل کرکے صاف نکل گئے اور کسی کو جرأت نہ ہوئی کہ ان کو روک سکے،اپنے پندار میں وہ سلطان سلیم کو قتل کرکے قصہ پاک کرچکے تھے مگر خوبی قسمت سے سلطان سلیم بچ گیا اورمیدان کارازار بدستور گرم رہا، اس حملہ میں صرف الان بے کے پاؤں میں بندوق کی ایک گولی لگی جس سے وہ زخمی ہوا مگر کوئی اس کو گرفتار نہ کرسکا، صاف بچ کر نکل گیا۔ سلطان سلیم مملوکیوں کی اس بہادری کو دیکھ کر حیران وششد ر تھا اوراپنے دل میں کہتا تھا کہ اگر آج میرے پاس توپ خانہ اور بندوقوں سے مسلح دستے نہ ہوتے تو مملوکیوں کے مقابلے میں لشکر کی کثرت کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی تھی، سلطان سلیم نے بڑی ہوشیاری اور مستعدی کے ساتھ برق انداز دستوں اور توپوں کو مصروفِ کار رکھا،مملوکیوں کی حالت یہ تھی کہ ان کا ایک ایک سردار اپنا اپنا ماتحت دستہ لے کر حملہ آور ہوتا تھا اورگولوں اورگولیوں کی بارش میں عثمانیوں کی صف اوّل تک پہنچنے سے پہلے پہلے یہ سب ختم ہوجاتے تھے ،مگر ان میں سے کوئی شخص پیچھے ہٹنے اوربھاگنے کا نام نہ لیتا تھا،یہ لڑائی اس اعتبار سے دنیا کی بے نظیر لڑائی تھی کہ اس میں مملوکیوں نے محض اپنی بہادری کا ثبوت پیش کرنے کے لئے دیدہ ودانستہ اپنے آپ کو توپوں اوربندوقوں کے منہ میں جھونک دیا مگر اس عار کو گوارانہ کیا کہ بارود کی طاقت بہادروں کی بہادری کو بُزدلی سے تبدیل کرسکتی ہے،آخر نتیجہ یہ ہوا کہ پچیس ہزار مملوک رضوانیہ کے میدان میں کھیت رہے اور صرف چند شخص باقی رہے، جو باصرار تمام سلطان طومان بے کو اس میدان سے لوٹا کر مقام عضوبیہ کی طرف لے گئے،اس لڑائی میں جس قدر مملوک مارے گئے وہ سب کے سب توپ کے گولوں اور بندوق کی گولیوں سے مرے،لیکن عثمانیہ لشکر کے جس قدر آدمی کامآئے وہ سب تلواروں اور برچھوں سے مارے گئے کیونکہ مملوکیوں کے پاس قسم کھانے کو ایک بھی بندوق نہ تھی اور وہ بندوق کو ہاتھ لگانا بھی نامردی کی بات سمجھتے تھے چونکہ سلطان طومان بے میدان رضوانیہ سے مقام عضوبیہ میں چلا گیا تھا اور قہاہر خالی تھا لہذا جنگ رضوانیہ سے ساتویں روز سلطان سلیم نے قاہرہ پر قبضہ کرلیا،اس عرصہ میں مملوکی سپاہی جو ادھر ادھر ملک إیں منتشر تھے آ آ کر عضوبیہ میں طومان بے کے پاس جمع ہوئے اورایک مختصر سی فوجی پھر طومان بے کے ماتحت فراہم ہوگئی۔ یہ سُن کر کہ سلطان سلیم نے قاہرہ پر قبضہ کرلیا ہے طومان بے نے اس مختصر سی فوج کو لے کر قاہرہ پر حملہ کیا، سلیم احتیاطاً شہر سے باہر اپنے فوجی کیمپ میں مقیم تھا ،طومان بے نے دوسری طرف سے یکایک شہر میں داخل ہوکر ترکوں کو جو فاتحانہ شہر پر قابض اور متصرف ہوگئے تھے قتل کرنا شروع کیا،اس داروگیر میں ایک بھی عثمانی سپاہی جو اس وقت شہر کے اندر تھا زندہ نہ بچا،سب کے سب قتل کردیئے گئے اور طومان بے نے شہر پر دوبارہ قابض ہوکر کوچوں گلیوں اور شہر کے مکانوں کے ذریعہ مورچہ بندی کی شہر قاہرہ کی کوئی فصیل نہ تھی جو اس حالت میں مددم پہنچاتی سلطان سلیم نے اپنی فوج لے کر شہر میں داخل ہونا چاہا تو ہر ایک گلی کوچہ مورچہ بند اورسدّراہ نظر آیا سلیم کو اب بڑی مشکلات کا سامنا تھا اورایک ایسا شہر بھی جو اپنی کوئی فصیل نہیں رکھتا فتح نہیں ہوسکتا سلطان سلیم کے لئے بڑی ہی ذلت کی بات تھی اوراس کی شہرت کو یقینا سخت صدمہ پہنچتا اگر وہ قاہرہ کو چھوڑ کر واپس چلا جاتا،یہ ایسا گرم دودھ تھا جس کو نہ نگل سکتا تھا نہ اُگل سکتا تھا تین دن تک برابر قاہرہ کی گلیوں یعنی بیرونی محلوں میں جنگ وپیکار کا بازار گرم رہا مگر سلیم قاہرہ کے کسی محلہ میں اپنے قدم نہ جماسکا، سلطان سلیمنے جب دیکھا کہ طومان بے کو قاہرہ سے بے دخل کرنا دشوار ہے اورمشکلات بڑھتی چلی جاتی ہیں تو اس نے مملوکی سردار خیری بے کو جو جنگ رضوانیہ ہی میں اس کے پاس چلا گیا تھا بلوایا اورکہا کہ اب تم ہی کوئی تدبیر بتاؤ،خیری بے نے کہا کہ آپ اب یہ اعلان کرادیجئے کہ جو مملوکی ہتھیار رکھ دے گا اورہمارے پاس چلا آئے گا اس کے جان ومال کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا جائے گا اوراس کے ساتھ مہربانی کا برتاؤ کیا جائے گا اس اعلان کے ہوتے ہی لڑائی رک گئی اورسلیم نے بھی اپنی فوج شہر کے اطراف سے واپس اپنے کیمپ میں بلا لی بعض مملوکی خود اس معافی کے وعدے پر اعتماد کرکے سلیم کے لشکر میں آکر حاضر ہوگئے اوربعض شہر والوں نے باصرار لشکر سلطانی میں حاضر ہوجانے پر مجبور کیا اس طرح آٹھ سو مملوکی سلطان سلیم کے لشکر میں حاضر ہوکر سلطان کے قیدی بن گئے،ان کو توقع تھی کہ اپنے وعدے کے موافق سلطان ہمارے ساتھ نیک سلوک کرے گا ،لیکن جب یہ معلوم ہوگیا کہ یہی آٹھ سو مملوکی سردار قاہرہ کی سب سے بڑی طاقت تھے تو خیری بے کے مشورہ کے موافق سلطان سلیم نے ان سب کو قتل کرادیا اوراسکے بعد شہر قاہرہ میں قتل عام کا حکم دیا۔ طومان بے یہ دیکھ کر کہ اب مقاومت اورمدافعت کی طاقت موجود نہیں رہی قاہرہ سے نکل کر ریگستان کی طرف عربی قبائل میں چلا گیا اور سلطانی فوج نے شہر میں قتل عام شروع کیا اس قتل میں بچاس ہزار آدمی مارے گئے،قرط بے جوطومان بے کادستِ راست اور بڑاہی بہادر شخص تھا قاہرہ کے اندر ایک مکان میں روپوش رہا قتل عام سے فارغ اور شہر والوں کو کافی طور پر کمزور وخائف بناکر سلطان نے طومان بے اورقراط بے کے تلاش کرنے کا حکم دیا،آخر معلوم ہوا کہ طومان بے توقاہرہ سے نکل گیا ہے لیکن قرط بے ابھی تک قاہرہ میں موجود اورروپوش ہے سلیم نے قرط بے کے پاس پیغام بھیجا کہ اب مملوکیوں کی طاقت ٹوٹ چکی ہے ہم تمہاری بہادری دیکھ چکے ہیں تم بلا تامل ہمارے پاس چلے آؤ تم کو جان کی امان دی جاتی ہے،قرط بے نے جب دیکھا کہ اب اگر سلیم کے اس وعدہ معافی کو قبول نہیں کرتا ہوں تب بھی گرفتار ہوکر اس کے سامنے پیش ہوں گا فوراً سلطان سلیم کے پاس چلا آیا۔ سلیم نے اس کو دیکھ کر کہا کہ جنگ رضوانیہ کے دن میں نے تجھ کو گھوڑے پر سوار دیکھا تھا تو بڑی بہادری اوربے باکی کا اظہار کرتا تھا مگر اس وقت تو توبہت خاموش نظر آتا ہے،قرط بے نے کہا میں اب بھی ویسا ہی بہادر ہوں لیکن تم عثمانی بڑے بزدل اورنا مرد ہو،تمہاری ساری بہادری اورفتح مندی بندوق کی بدولت ہے،ہمارے سلطان قالضو غازی کے زمانے میں ایک فرنگی بندوق لے کر آیا اوراس نے سلطان قالضو غازی کی خدمت میں عرض کیا کہ تمام مملوکی فوج کو بندوقیں فراہم کردی جائیں تو یہ مفید ہوگا،ہمارے سلطان اور تمام اراکین دربار نے کہا کہ لڑائی میں بندوقوں سے کام لینا بڑی نامردی کی بات ہے ہم اس کو ہاتھ لگانا بھی پسند نہیں کرتے اُس وقت اُس فرنگی نے سردربار یہ کہا تھا کہ تم دیکھ لوگے ایک روز انہیں بندوقوں کی بدولت سلطنتِ مصر تمہارے قبضے سے نکل جائے گی،ہم نے آج اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ تم نے بڑی نامردی کے ساتھ محض ان بندوقوں کی بدولت ہم پر فتح پالی لیکن ہمارا عقیدہ ہے کہ بندوق فتح وشکست کا اصل سبب ہرگز نہیں ہوسکتی فتح وشکست کے لئے تلوار وتیر ہی سب ہی زیادہ مؤثر چیزیں ہیں،ہم کو یہ شکست اس لئے ہوئی ہے کہ ہماری حکومت وسلطنت خدائے تعالیٰ کو اس سے زیادہ رکھنی منظور نہ تھی اسی طرح تمہاری حکومت وسلطنت بھی ایک روز ضرور ختم ہوجائے گی،دنیا میں جس طرح انسانوں کی عمریں محدود ہوتی ہیں اسی طرح سلطنتوں اور حکومتوں کی بھی ایک عمر ہوتی ہے جس کے بعد وہ ختم ہوجاتی ہیں،تم ہرگز ہرگز یہ خیال نہ کرو کہ ہم سے زیادہ بہادر ہونے کی وجہ سے تم نے فتح پائی سلطان سلیم نے کہا اگر تو ایسا ہی بہادر ہے تو اس وقت میرے سامنے ایک قیدی کی حیثیت سے کیوں موجد ہے؟ قرط بے نے کہ بخدا میں اپنے آپ کو تیرا قیدی نہیں سمجھتا میں تو تیرے وعدے پر ہی اعتماد کرکے اپنی خوشی سے تیرے پاس چلا آیا ہوں اوراپنے آپ کو بالکل آزاد سمجھ رہا ہوں،سلطان سلیم اورقرط بے کی گفتگو یہیں تک ہونے پائی تھی کہ قرط بے کی نظر خیری بے پر پڑی جو سلیم کے ہوا خواہوں اور امیروں میں شامل ہوچکا تھا، اسنے فورا خیری بے کی طرف متوجہ ہوکر اس کو سخت لعنت ملامت کی جس سے اس کی اس مجلسمیں بڑی بے عزت ہوئی اورپھر سلطان سلیم سے مخاطب ہوکر کہا کہ تیرے لئے مناسب یہی ہے کہ اس دغا باز کا سر اڑادے اوراس کو اس کی مکاری کی سخت سزا دے ورنہ یہ تجھ کو بھی اپنے ساتھ دوزخ میں لے جائے گا، یہ سُن کر سلطان سلیم نے طیش اور غصہ کے لہجہ میں جواب دیا کہ میرا ارادہ تھا کہ مجھ کو آزاد کرکے کوئیبڑا جنگی عہدہ تجھ کو عطا کروں مگر تونے اب تک بڑی ہی بد تہذیبی کی گفتگو کی ہے اورآداب دربار سلطانی کو مطلق ملحوظ نہیں رکھا گیا تو نہیں جانتا کہ جو شخص دربارِ سلطانی میں بد تہذیبی کا مرتکب ہوتاہے وہ ذلت ونقصان اٹھاتا ہے،قرط بے نے نہایت آزادانہ اوربے باکانہ لہجہ میں جواب دیا کہ خدا وہ دن نہ لائے کہ میں تیرے نوکروں اور ہواخواہوں میں شامل ہوں،یہ سنتے ہی سلطان کا طیش و غضب بھڑک اٹھا اوراس نے جلادوں کو آوازدی ،قرط بے نے کہا تو تنہا میرے سر کو کٹوا کر کیا کرے گا جب کہ مجئھ جیےس اور بھی ہزاروں بہادر ابھی تیرے سر کی تلاش اورفکر میں موجود ہیں اور طومان بے بھی زندہ اور تجھ سے بدلہ لینے کی کوشش میں مصروف ہے،جلاد آئے اورانہوں نے تلوار نکال کر قرط بے کی طرف اس کا سر اڑانے کے لئے حملہ کیا تو قرط بے نے خیری بے کی طرف متوجہ ہوکر کہاکہ لے اب میرے سر کو لے جاکر اپنی جوروکی گود میں رکھ دے، یہ الفاظ اس کی زبان سے نکلرہے تھے کہ تلوار نے ا بہادر کے سرکو جسم سے جدا کردیا۔ طومان بے نا قاہرہ کے دوبارہ مفتوح ہونے پر قاہرہ سے نکل کر عربی قبائل کو بھرتی کرنا شروع کیا اورایک معقول جمعیت فراہم کرکے سلیم کی فوج پر حملے شروع کئے سلیم نے فوج کے دستے اس کے مقابلہ پر روانہ کرنا شروع کئے اور طومان بے نے ہمیشہ ان کو شکست دے دے کر بھگا دیا طومان بے کی فوج دو حصوں میں منقسم تھی یعنی کچھ تو یقیۃ السیف مملوکی اس کے پاس آگئے تھے اور کچھ عرب قبائل شامل ہوگئے تھے مملوکیوں اورعربوں کو عثمانیوں یعنی اپنے نئے فاتحوں سے یکساں نفرت تھی اور اسی لئے وہ مل کر عثمانی فوج کے دستوں کو بار بار شکست دے چکے تھے لیکن خود عربوں اورمملوکیوں کے درمیان بھی رقابت موجود تھی اوریہ سب سے بڑی مصیبت طومان بے کے لئے تھی۔ سلطان سلیم نے طومان بے کی بار بار کی حملہ آوریوں سے مجبور ہوکر اس کے پاس پیغام بھیجا کہ اگر تم اطاعت وفرماں برداری کا اقرار کرو تو میں تم کو ملک مصر کا بادشاہ تسلیم کرکے یہاں سے چلا جاؤں گا اوراس ملک کی حکومت تمہارے لئے چھوڑدوں گا،لیکن چونکہ سلطان سلیم مملوکیوں کے نہایت محبوب سردار قرطہ بے کو قتل کراچکا تھا اوراس نے قاہرہ میں قتل عام کرایا تھا،لہذا سلطان سلیم کا سفیر مصطفی پاشا جب یہ پیغام لے کر طومان بے کے پاس پہنچا تو مملوکیوں نے سلیم کے اس سفیر اوراس کے ہمراہیوں کو جوش غضب میں فوراً ٹکڑے ٹکڑے کرڈالا،سلطان کو جب یہ حال معلوم ہوا تو اس نے اس کے عوض تین ہزار قیدیوں کو قتل کرادیا اورطومان بے کے مقابلے کو ایک نہایت زبردست فوج معہ توپہ خانہ روانہ کی،طرفین میں اہرام مصری کے قریب جنگِ عظیم برپا ہوئی عین معرکہ جنگ میں مملوکی اورعرب لوگ ایک دوسرے سے لڑ پڑے،ادھر مملوکی عربوں کو اورعرب مملوکیوں کو قتل کررہے تھے اُدھر عثمانی توپ خانہ دونوں کی صفائی کررہا تھا لہذا طومان بے کی فوج کے برباد ہونے میں وقت کچھ زیادہ صرف نہیں ہوا، اس طرح اس فوج کے بربادی کے بعد طومان بے وہاں سے ایک عرب سردار کے پاس جس پر اس نے بڑے بڑے احسانات کئے تھے چلا گیا،اس محسن کش نے اس بہادر اورشریف مملوکی سلطان کو گرفتار کرکے سلطان سلیم کے پاس بھیج دیا۔ جس وقت سلطان سلیم کے پاس یہ خبر پہنچی کہ طومان بے گرفتار ہوگیا ہے تو اس نے جوش مسرت میں کہا کہ اب مصر کا ملک فتح ہوگیا،جس وقت طومان بے قریب پہنچا تو سلطان سلیم نے اس کا بادشاہوں کی طرح استقبال کیا اوربڑی تعظیم وتکریم کے ساتھ پیش آیا اور نہایت عزت و توقیر کے ساتھ بطور ایک معزز مہمان کے ٹھہرایا،سلطان سلیم کا یہ برتاؤ طومان کے کے ساتھ دیکھ کر خیری بے اور غزالی بے کو سخت فکر ہوئی،یہ دونوں غدار طومان بے کے جانی دشمن تھے،ادھر سلطان سلیم کا یہ ارادہ تھا کہ طومان بے کو بدستور ملکِ مصر کا بادشاہ بناکر اس پر احسان کرے اوراس ملک کی حکومت اس کو سپرد کرکے خود قسطنطنیہ کی طرف روانہ ہوجائے،غزالی بے اور خیری بے نے اس موقعہ کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا،انہوں نے نہایت چالاکی کے ساتھ سلطان تک ایسی خبریں پہنچائیں اورپہنچوائیں کہ ایک بڑی زبردست سازش طومان بے کو چھڑانے اورمصر کا سلطان بنانے کے لئے ہورہی ہے اور طامان کےبہت جلد آزاد ہوکر سلطان کے لئے سخت خطرے کا موجب بننے والا ہے چونکہ سلطان سلیم اب تک طومان بے کی وجہ سے سخت مشکلات کا مقابلہ کرچکا تھا اس لئے اس نے فوراً طومان بے کے قتل کئے جانے کا حکم دے دیا اوراس طرح ۱۷اپریل ۱۵۱۷ء مطابق ۹۲۲ھ مملوکیوں کا یہ آخری سلطان مقتول ہوا۔ طومان بے کے قتل ہونے پر سلطان سلیم کو مصر کی حکومت کے متعلق کوئی خطرہ باقی نہ رہا تھالیکن وہ جانتا تھا کہ مصر کو فتح کرلینے کے بعد اس پر قبضہ رکھنا آسان کام نہیں ہے کئی سو برس سے مملوکی مصر پفر فرماں روا تھے،مملوکی مصر کے اصلی باشندے نہ تھے ، وہ ہمیشہ سرکیشیا و کوہ قاف کے علاقوں سے غلام خرید خرید کر منگاتے اوراپنی تعداد کو پورا رکھتے تھے،مصر میں ان کی نسلیں بھی بڑھ گئی تھیں اور اب وہ ایک حکمران قوم کی حیثیت سے مصر میں کافی اقتدار رکھتے تھے دوسری طرف عربوں کی تعداد بھی مصر میں اس قدر موجود تھی کہ مصر کا ملک ایک عربی ملک سمجھا جاتا تھا،دینی ومذہبی اعتبار سے عربوں کی عزت وسرداری عام طور پر مسلم تھی اورمصرکے عرب باشندے شام و حجاز کے عربوں سے تعلقات رکھنے کے سبب ایک زبردست سیاسی اہمیت رکھتے تھے مصر کے قدیم باشندے یعنی قبطی قوم اوریہودی نسلیں بھی زراعت پیشہ اور دفتروں میں حساب کے کاموں پر مامور ہونے کی وجہ سے بہت کچھ اثر رکھتے تھے اُدھر مصر کے مغربی وجنوبی سمتوں کے سرحدی صوبوں اور علاقوں کی قومیں بھی مصر پر چڑھائی کرنے اور قابض ہونے کی استعداد رکھتی تھیں، اندرین صورت اگر سلطان سلیم کسی گورنر کو مصر کی حکومت پر مامور کرتا تو وہ موقعہ رکھتا تھا کہ شام وحجاز اور مغربی ممالک کی قوموں کو اپنے ساتھ شریک کرکے خود مختار کا اعلان کردے، اگر ایسا حاکم مقرر کرتا جو عالی حوصلہ اور اول العزم نہ ہوتا اوربغاوت کا خیال بھی دل میں نہ لاسکتا تو اس سے ملک کے اندر امن وامان قائم نہ رہ سکتا تھا، سلطان سلیم اگر مصر کو فتح کرنے کے بعد فوراً ہی واپس چلا جاتا تو یقیناً ملک مصر فوراً اپنی خود مختاری کا پھر اعلان کردیتا اوردوبارہ سلطان کو پھر اسی قدر زحمت گوارا کرنی پڑتی سلطان نے مصر کو فتح کرنے کے بعد مصر میں بہت دنوں قیام رکھا اوریہاں کے حالات کا بغور مطالعہ کرتا رہا، اس کا ارادہ تھا کہ وہ طرابلس وغیرہ کی طرف بڑھ کر تمام شمالی افریقہ کو مراقش تک فتح کرے،اگر ایسا ہوتا تو بہت خوب ہوتا کیوں کہ پھر اندلس کا فتح کرلینا کوئی بڑی بات نہ تھی مگر اس کی فوج نے آگے بڑھنے سے انکار کیا اور سلطان سلیم کو مجبوراً قستطنطنیہ کی طرف واپس لوٹنا پڑا۔ مملوکیوں سے مصر کی حکومت چھین نے کے بعد سلطان سلیم کے لئے بہت آسان تھا کہ وہ مملوکیوں کی قوم کو مصر سے نیست و نابود کرنے کی کوشش کرتا لیکن اس نے بڑی دانائی اورنہایت عقلمندی کے ساتھ مملوکیوں کی طاقت وتعداد کو قائم رکھا اوراپنی طرف سے مملوکیوں کے سردار یعنی غدار خیر ی بے کو مصر کی گورنری پر مامور کیا اوراجازت دی کہ جس طرح مملوکیوں کی کونسل یا پارلیمنٹ چوبیس سرداروں پر مشتمل ہوا کرتی تھی وہ اب بھی اسی طرح قائم ہو مملوکیوں میں دستور تھا کہ چوبیس مملوکی سردار جو اعلیٰ عہدوں پر معمور ہوا کرتے تھے اپنے سلطان کے فوت یا قتل یا معزول ہونے پر اپنی کثرت رائے سے کسی ایک سردار کو سلطان منتخب کرلیا کرتے تھے،ان سرداروں کی تعداد بدستور قائم رکھی گئی اوران کے عہدے بھی بدستور بحال رہے مگر مبصر کے عہد سلطان عثمانی کی منظوری سے مقرر ہونا تجویز ہوا،ساتھ ہی یہ اصلاح بہت معقول کی گئی کہ قاضی القضاۃ اور مفتی وغیرہ کے تمام مذہبی عہدے عرب سرداروں کے ساتھ مخصوص کئے گئے،روپیہ کی تحصیل ووصولی کا کام اورمالی عہدے قبطیوں اوریہودیوں کو دیئے گئے،اس طرح دو عملی بلکہ سہ عملی نظام قائم کرکے پانچ ہزار سوار اورپانچ سو پیدل سلطان سلیم نے اپنی فوج میں سے قاہرہ میں تعینات کئے اور خیر الدین نامی سردار کو اس فوج کا سپہ سالامقرر کرکے حکم دیا کہ شہر قاہرہ اورمرکزی قلعوں پر تمہارا قبضہ رہنا چاہئے اورکسی حالت میں بھی تم کو شہر یا قلعہ سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہے، اس طرح تمام خطرات کا سدِّ باب ہوگیا۔ سلطان نے قاہرہ کی فتح کے بعد جب کہ جمعہ کا دن آیا تو مصر کی جامع مسجد میں نماز جمعہ ادا کی سلطان کے لئے پہلے سے نہایت قیمتی قالین مسجد میں بچھا دیا گیا تھا،جب سلطان سلیم مسجد میں پہنچا تو اس نے اس امتیازی مصلے کو فوراً اٹھوادیا اورعام نمازیوں کی طرح نماز ادا کی اور نماز میں سلطان پر اس قدر رقت طاری ہوئی کہ اس کے آنسوؤں سے زمین تر ہوگئی ،فتح مصر کے بعد سلطان نے مصر سے اعلیٰ درجہ کے معماروں اورصنا عوں کی ایک تعداد بذریعہ جہاز قسطنطنیہ روانہ کردی تھی جیسا کہ اس نے تبریز سے بھی بہت سے کاریگروں کو قسطنطنیہ بھیج دیا تھا، اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ سلطان سلیم کی نظر کس قدر وسیع اور عمیق تھی اوراپنے دار السلطنت کی رونق اور عظمت کے بڑھانے کا اس کو کس قدر خیال تھا،عجیب تر بات یہ ہے کہ مصر میں اس قدر زیادہ مدّت رہنے کے باوجود اس نے اہرام مصری کی طرف مطلق التفات نہ کیا نہ ان کی سیر کے لئے گیا،ہاں اس نے مصر کی مساجد اورمدرسوں کی طرف خصوصی توجہ مبذول رکھی،علمأ کی عزت بڑھائی، ان کے روزینوں میں اضافہ کیا،سلطان نے مصر ہی میں اس بات کو سوچ لیا تھا کہ ملک عرب پر بھی قبضہ و تسلط ہونا ضروری ہے،ملکِ عرب کے مقدس شہروں مثلاً مدینہ و مکہ وغیرہ میں عرب سرداروں کی سیادت قائم تھی،ان شہروں میں کسی جنگی نمائش اورفوجی کاروائیوں کی مطلق ضرورت نہ تھی ؛بلکہ سب سے زیادہ ضرورت ان شہروں کے باشندوں کو رضا مند کرنے اور ان کے قلوب پر قبضہ کرنے کی تھی؛چنانچہ سلطان سلیم نے اس مقصد کے حاصل کرنے میں مطلق دھوکا نہیں کھایا اوراس نے احسانات کی بارشوں سے عرب سرداروں کے قلوب کو اپنے ہاتھ میں لے لیا اس سے پیشتر عرب یعنی حجاز کے شہشناہ مملوکی سمجھے جاتے تھے اب ان کی حکومت مٹ جانے کے بعد سلطان سلیم ملکِ حجاز کا بادشاہ سمجھا گیا لیکن اگر عرب سردار چاہتے تو سلطان سلیم کو اپنا بادشاہ تسلیم نہ کرتے اورمقابلہ سے پیش آتے مگر سلطان سلیم کو عربوں پر مہر بان دیکھ کر عرب سرداروں نے خود بخود اس کے پاس مبارکباد کے پیغام بھیجے اوراس کو کادم الحرمین الشریفین کا خطاب دیا،جیسا کہ اوپر بیان ہوچکا ہے مصر میں عباسی خلیفہ مملوکیوں کے پاس اسی طرح شان وشوکت اورخوّت کے ساتھ رہتے تھے جیسے روما میں پوپ یادھلی میں اکبر ثانی اوربہادر شاہ آخری سلاطین مغلیہ رہا کرتے تھے،ان عباسی خلفاء کی حکومت تو کچھ نہ تھی نہ کسی ملک پر ان کا قبضہ تھا نہ کوئی فوج ان کے ماتحت تھی مگر نہ صرف مصر کے مملوکی سلاطین ؛بلکہ دوسرے اسلامی ممالک کے فرماں روا بھی ان سے خطابات اورسندِ حکومت حاصل کرنے کو موجبِ فخر جانتے تھے اور وہ مذہبی پیشوا سمجھے جاتے تھے۔ سلطان سلیم نے خلفائے عباسیہ کی اس اہمیت اورعہدۂ خلافت کے اثر کو بخوبی محسوس کرلیا تھا،اس نے مصر کے موجودہ آکری خلیفہ کو اس بات پر رضا مند کرلیا کہ وہ خود ہی عہدٔ خلافت سے دست بردار ہوکر ان چند تبرکات کو جن کو وہ بطورِ نشان خلافت وراثتاً اپنے قبضہ میں رکھتا تھا،سلطان سلیم کے سپرد کرے اورسلطان سلیم کو مسلمانوں کا خلیفہ مان لے،ان تبرکات میں ایک علم ایک تلوار اورایک چادر تھی، یہ چیزیں عباسی خلیفہ نے سلطان سلیم کو دے کر اس کے ہاتھ پر بیعت کرلی اوراس طرح مسلمانوں میں ایک نام کے خلیفہ کی جگہ حقیقی معنوں میں خلیفہ موجود ہوگیا، خلیفہ کے معنی درحقیقت مسلمانوں کے سب سے بڑے شہنشاہ اوربادشاہ کے ہیں،سلطان سلیم کے سوا اس وقت کی اسلامی دنیا میں کوئی شخص خلافت کا مستحق بھی نہ تھا، ۹۲۳ھ کے آخر ایام میں سلطان سلیم مصر سے ایک ہزار اونٹ چاندی سونے سے لدے ہوئے لے کر روانہ ہوا اورآخری عباسی خلیفہ کو بھی اپنے ساتھ لے لیا، روانگی کے وقت جب کہ ابھی سلطان کے لشکر نے قاہرہ سے کوچ کرکے چند ہی میل کا فاصلہ طے کیا تھا سلیم عثمانی نے اپنے وزیراعظم یونس سے جو اس کے برابر گھوڑے پر سوار باتیں کرتا ہوا جارہا تھا کہا کہ اب بہت جلد ہم سرحدِ شام میں پہنچ جائیں گے، وزیر نے کہا کہ ہم اس سفر میں نصف فوج ضائع کرکے واپس ہورہے،ہیں اور مصر کا م ملک پھر انہیوں لوگوں کو دیئے جاتے ہیں جن سے اس قدر محنت کے بعد فتح کیا تھا ،وزیر یونس نے یہ بھی کہا کہ میں نہیں سمجھ سکتا کہ مصر پر حملہ آور ہوکر ہم نے کیا نفع حاصل کیا، یہ سنتے ہی سلطان نے اپنے ہمراہی سواروں کو حکم دیا کہ اس کا سر اُڑادو؛چنانچہ فوراً یونس پاشا کا سر اڑادیا گیا،سلطان سلیم اپنے وزیروں اورمصاحبوں کے لئے بڑا سخت گیر تھا مگر بخلاف اس کے وہ علماء کی ہر گساتخٰ اور سختی کو نجندہ پیشانی برداشت کرلیتا تھا،حقیقت یہ ہے کہ یونس شروع ہی سے مصر کی فتح کے خلاف تھا اور حالانکہ سلطان سلیم نے مصر کو فتح کرکے سلطنتِ عثمانیہ کی ع کی عظمت کو بہت ترقی دے دی تھی،اس حملہ آوری اورمصر سے واپس آنے تک سلطان سلیم کے قریباً دو سال صرف ہوئے،لیکن شام، عرب اور مصر تین ملکوں کا اضافہ سلطنتِ عثمانیہ میں ہوگیا، اس سے بھی بڑےھ کر یہ نفع حاصل ہوا کہ سلطان سلیم عثمانی حملہ آوری کے وقت محض سلطان سلیم تھا اوراب واپسی کے وقت وہ خلیفہ المسلمین سلطان سلیم تھا اورخلیفۃ المسلمین ہونے کی وجہ سے تمام عالم اسلامی میں وہ مقتدا اور پیشوا سمجھے جانے کا استحقاق حاصل کرچکا تھا۔ مصر سے واپس آکر سلطان سلیم نے دمشق میں کئی مہینے قیام کیا بعض روایتوں کے موافق وہ دمشق سے حج بیت اللہ کے لئے گیا مگر عام طور پر یہی مشہور ہے ہے کہ سلطان سلیم یا اورکوئی عثمانی سلطنت حج بیت اللہ کے لئے کبھی نہیں گیا، دمشق میں رہ کر سلطان سلیم نے عرب سرداروں سے اطاعت کے اقرار لئے اور ان کے ساتھ تعلقات بڑھائے،دمشق سے روانہ ہوکر حلب میں آیا اوریہاں ببھی بہت دنوں مقیم رہااس سفر یعنی واپسی میں اس نے حجاز و شام کے متعلق اپنی حکومت و سلطنت کے استحکام کی تدبیروں سے کام لیا اوراملک شام کو بہت سے چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کر کے ہر ایک کمشتری یا ضلع میں الگ الگ عامل مقرر کئے جس سے کسی خطرناک بغاوت کا امکان جاتا رہا، یہاں سے فارغ ہوکر ۹۲۴ھ میں سلطان سلیم قسطنطنیہ واپس پہنچا۔ سلطان سلیم نے قسطنطنیہ واپس آکر ریاست وینس سے جزیرہ( قبرص(سائپرس) کا خراج وصول کیا وینس والے اس جزیرے کا خراج مصر کے مملوکی سلطان کو ادا کیا کرتے تھے،اب جبکہ مصر سلطان عثمانی کے قبضے میں آگیا تو سلطان عثمانی کی خدمت میں خراج ادا کرتے رہیں گے۔ اندلس کی عیسائی سلطنت نے سلطان کی خدمت میں ایک سفارت بھیج کر استدعا کی کہ جو عیسائی شام وفلسطین کے مقدس شہروں کی زیارت کو جائیں ان کی حفاظت کی جائے،سلطان سلیم نے اس درخواست کو فوراً منظور کرلیا اور وعدہ کیا کہ عیسائی زائرین کو میرے حدود سلطنت میں کوئی آزارنہ پہنچایا جائےگا،شاہ ہنگری سے جو صلح قائم تھی اس کی میعاد قریب الختم ہونے کے سبب شاہ ہنگری نے میعاد صلح کی توسیع چاہی اورسلطان نے اس درخواست کو بلا تامل منظور کرلیا، سلطان سلیم کی فتوحات جو اسے ایشیا وافریقہ میں حاصل ہوئی تھیں ایسی نہ تھیں کہ ان کا اثر یوروپ والوں پر نہ ہوتا،سلطان سلیم نے ایک طرف اپنی حدود سلطنت کو بہت وسیع کیا دوسری طرف خلیفۃ المسلمین ہوجانے کی وجہ سے اس کی عظمت و شوکت میں بہت ترقی ہوگئی تھی یورپ کے تمام سلاطین لرزرہے، تھے کہ یہ ابربارندہ کہیں ہم پر نہ برس بڑے اوریہ برق جہندہ کہیں یورپ میں ہمارے خرمن ہستی کو نہ جلادے سلطان سلیم کے مصر سے واپس آنے کے بعد ہی عیسائی سلاطین نے پیغاماتِ صلح بھیجنے شروع کئے اور سفارش کے ذریعہ اپنی نیاز مندی کا یقین دلانے لگے، سلطان سلیم اگرچہ بے حد سخت گیر وغضب ناک شخص تھا مگر انتہا درجہ کا مآل اندیش اوردوربین بھی تھا، وہ ایسا بے وقوف نہ تھا کہ ان خوشامدی لوگوں کی باتوں میں آکر عواقب امور سے غافل رہتا، وہ عیسائیوں کی شرارتوں اورریشہ دوانیوں سے خوب واقف تھا اس نے مصر و شام حجاز وعراق و مغربی ایران کو اپنی حدودِ حکومت میں داخل کرکے ایک عظیم الشان شہنشاہی قائم کرلی تھی جو ایشیا اورافریقہ ویورپ تینوں براعظموں میں پھیلی ہوئی تھی،اس کے بعد اب اس کے لئےیورپی عیسائی ممالک ہی باقی تھے اوروہ ان ملکوں کی فتح کے خیال سے ہر گز غافل نہیں رہ سکتا تھا جن کی فتح کے لئے اس کے بزرگوں نے مسلسل کوششیں جاری رکھیں تھیں،سلطان سلیم کے بزرگوں کی اکثر زور آزمائیاں عیسائی سلاطین کے ساتھ رہی تھیں، تمام مورخ اس بات پر متفق ہیں کہ سلطان سلیم اعلیٰ درجہ کا مذہبی شخص تھا اور اس میں دینی غیرت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی لیکن حیرت ہوتی ہے کہ سلطان سلیم نے اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیا تھا کہ مسلمانوں کے اندر خالص دینی جذبہ بہت کمزور ہوگیا ہے اور رذائل نے مسلمانوں کے اخلاق میں دخل پاکر مصالح دینی کو برباد کردیا ہے تیمور و بایزید کی جنگ اس خطرے کا سب سے بڑا اعلان تھا، سلطان محمد خاں ثانی فاتح قسطنطنیہ نے قسطنطنیہ کو فتح کرکے اور عیسائی سلطنت کو مٹاکر ایک حد تک اطمینان کی شکل پیدا کردی تھی لیکن پھر بھی ایشیائے کوچک کی بغاوتیں سلاطین عثمانی کو پریشان رکھتی تھیں،اسمعیل صفوی کی رویشہ دوانیوں اورشرانگیزیوں نے سلیم عثمانی کو تخت نشین ہوتے ہی اپنی طرف متوجہ کرلیا تھا،لہذا اس نے سب سے پہلے تو ایران کی شیعہ سلطنت کو سزادے کر اوراس کے ضروری صوبوں کو اپنی سلطنت میں شامل کرکے مشرقی خطرے کا بندوبست کیا،اب ایرانیوں کی طرف سے کسی حملہ آوری کا کوئی خوف واندیشہ باقی نہ تھا اور شیعوں کے ایشیائے کوچک میں قتل کرادینے سے کسی خطرناک سازش کا بھی اندیشہ نہ رہا، مصرکی اسلامی سلطنت نے چونکہ شہزادہ مصطفیٰ کے معاملے میں سلطنتِ عثمانیہ کے خلاف طاقت کا استعمال کیا تھا اس لئے مصر کا خطرہ بھی ایرانی خطرے سے کم نہ تھا، سلطان سلیم نے مناسب نہ سمجھا کہ مصریوں کو نیچا دکھائے بغیر عیسائی ممالک پر حملہ آور ہو کیونکہ عیسائی سلاطین مصری سلاطین کو عثمانیہ سلطنت کے خلاف ابھارنے کی کوششیں کرسکتے تھے مصر کو فتح کرنے کے بعد سلطان سلیم کے لئے اصل کام یعنی یورپ کا فتح کرنا باقی تھا،سلطان سلیم کی مآل اندیشی ودوربینی بے حد قابل تعریف ہے کہ اس نے مصر سے واپس آکر عیسائی ممالک پر حملہ آور ہونے میں جلدی نہیں کی ؛بلکہ سلطنت کے اندرونی انتظام و استحکام میں مصروف ہوکر ساتھ ہی ساتھ جنگی تیاریوں میں مصروف ہوگیا اوراس حالت میں جس عیسائی بادشاہ نے صلح کی خواہش ظاہر کی فوراً اس سے صلح کرلی،مگر جنگی تیاریاں اس سر گرمی اورعجلت کے ساتھ جاری تھیں کہ اس سے پیشتر ایسی تیاریاں کبھی نہ دیکھی تھیں،مصر سے واپس آکر سلطان سلیم نے جنگی جہازوں کے بننے کا حکم دیا، کئی کارخانے جہاز سازی کے قائم کئے گئے؛چنانچہ ڈیڑھ سو جنگی جہاز جن میں سے ہر ایک کا وزن سا ت سات سو ٹن تھا تیار ہوگئے،ان کے علاوہ سو چھوٹے جہاز بھی تیار ہوئے، ان جہازوں کوتیار رکھے جاتے تھے،ایک مرتبہ سلطان نے ایک جنگی جہاز کو ساحل قسطنطنیہ کے قریب سمندر میں گشت لگاتے اورچلتے پھرتے ہوئے دیکھا تو سخت ناراض ہوا اورقریب تھا کہ وہ امیرالبحر کو قتل کرنے کا حکم دیتا مگر دوسرے سرداروں نے اوروزیروں نے بہ مشکل سلطان کے غصہ کو یہ کہہ کر فرو کیا کہ یہ جہاز ابھی تیار ہوکر تکمیل کو پہنچا ہے اور قاعدہ کے موافق اس کو سمندر میں چلا کر دیکھنا اور اس کی رفتار کا اندازہ کرنا ضروری تھا اس لئے اس کو سمندر میں نکالا گیا ہے۔ جہازوں کے علاوہ سلطان سلیم نے توپوں اوربندوقوں کے بہت سے کارخانے قائم کئے،بارود سازی کے کارخانے بھی بڑی تیزی اور مستعدی سے اپنے کام میں مصروف تھے فوجی بھرتی بھی برابر جاری تھی اور ایشیائے کوچک میں ایک جدید مصلح فوج اس طرح مستعد رکھی گئی تھی کہ حکم سنتے ہی ایک منٹ کا توقف کئے بغیر کوچ یا جنگ میں مصروف ہوجائے،سلطان سلیم کے وزراء اس بحری وبری طاقت کی روز افزوں ترقی کو دیکھ دیکھ کر منتظر تھے کہ کوئی بڑی مہم پیش آنے والی ہے مگر ان کو مطلق اطلاع نہ تھی کہ یہ تیاریاں کس لئے ہو رہی ہیں سلطان سلیم اپنے وزیروں اورمُشیروں سے مشورے بھی لیتا تھا لیکن وہ اپنے خاص الخاص اوراہم ارادوں کی کسی کو اطلاع نہ دیتا تھا، وہ شتاب زدگی اورجلد بازی کے ساتھ کوئی قدم نہیں اٹھا تا تھا لیکن جب کوئی ارادہ مصمم کرلیتا تھا تو پھر فسخ عزم کرنا اورقدم پیچھے ہٹانا ممکن نہ تھا، وہ اپنے ارادے کا پختہ اورہمت وشجاعت کا دھنی تھا جو کوئی اس کو فسخِ عزم پر مجبور کرنا چاہتا تھا وہ اپنی جان گنوادیتا تھا، اس ذی حوصلہ باہمت سلطان نے اپنے مسلمان بھائیوں کو نیچا دکھانے اوران کے خطرے کو مٹانے کے بعد اب یہ جنگی تیاریاں یقیناً عیسائیوں کے خلاف شروع کی تھیں اور اس کے نزدیک یہ تیاریاں ابھی بہت ناقص ونا تمام تھیں کیون کہ وہ یورپ پر ایک ایسیا حملہ کرنا چاہتا تھا جس میں شکست وناکامی کو مطلق دخل نہ مل سکے۔ سلطان سلیم اپنی جنگی تیاریوں میں بڑی مستعدی کے ساتھ مصروف تھا کہ ۶ شوال ۹۲۶ ھ مطابق ۲۲ ستمبر ۱۵۱۶ء شب جمعہ کو اس نے وفات پائی اور عیسائی ملکوں کی فتح کا کام اپنے بیٹے سلطان سلیمان اعظم کے لئے چھوڑ گئے،سلطان سلیم نے یکم شوال ۹۲۶ھ کو قسطنطنیہ سے ایڈریا نوپلکی طرف کوچ کیا، ابھی وہ ایڈریا نوپل تک نہیں پہنچا تھا ؛بلکہ راستے میں اس مقام پر خیمہ زن تھا جہاں وہ ایک مرتبہ اپنے باپ سے لڑا تھا کہ مرض کے اشتداد سے آگے بڑھ سکا اوروہیں فوت ہوگیاسلطان سلیم کی ران میں ایک پھوڑا نکلا تھا طبیبوں نے گھوڑے کی سواری سے منع کیا لیکن سلطان سلیم نے گھوڑے کی سواری ترک نہ کی اورپھوڑا دم بدم خطرناک شکل اختیار کرتا گیا حتیٰ کہ سلطان کی موت کا باعث ہوا۔