انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت جنید بغدادیؒ (م:۲۹۷ھ) سید الطائفہ حضرت جنید بن محمد بغدادی ؒ کی ذات بابرکات کا نام سن کر ایک مقدس ومحترم شخصیت کا تصور ذہن میں گردش کرنے لگتا ہے،سلوک وتصوف کے حوالہ سےآپ کسی تعارف کے محتاج نہیں،آپ حضرت سری سقطی ؒ کے بھانجے بھی ہیں اورخلیفہ بھی،آپ کے آباؤواجداد نہاوند(ہمدان) کے باشندے تھے لیکن آپ کی ولادت اورنشوونما عراق میں ہوئی،آپ صوفیاء کرام کے سرخیل ہونے کے ساتھ ساتھ علوم ظاہرہ پر بھی دسترس کامل رکھتے تھے،فقہ میں عموما ًامام ابو ثورؒ کے مذہب پر فتویٰ دیتے تھے جو امام شافعیؒ کے شاگرد ہیں، تصوف اورعلم میں امامت کا درجہ رکھنے کے بسبب آپ کو"سید الطائفین"یعنی شریعت وطریقت کا سردار کہاجاتا ہے۔ آپ کے بے شمار ملفوظات اولیاء کرام نے محفوظ کرکے ہم تک پہنچائے ہیں جن میں علم و حکمت اورفراست ایمانی کے موتی پنہاں ہیں،امام ابو نعیم اصفہانیؒ نے حلیۃ الاولیاء کی دسویں جلد میں آپ کا مفصل ذکر کیا ہے اورآپ کے بے شمار قیمتی اورپر اثر ملفوظات ذکر فرمائے ہیں،جن میں کچھ یہاں ذکر کئے جاتے ہیں: ۱۔جو شخص یہ سمجھتا ہو کہ وہ اپنی کوشش سے اللہ تعالی تک پہنچ جائے گا،وہ خواہ مخواہ اپنے آپ کو مشقت میں ڈال رہا ہے،جو یہ سمجھتا ہے کہ وہ بغیر محنت اورکوشش کے اللہ تعالیٰ تک پہنچ جائے گا،وہ خواہ مخواہ آرزوئیں باندھ رہا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ بے عملی کے ساتھ آرزوئیں لگانا بھی غلط ہے اور محنت وکوشش کرکے اس پر ناز کرنا بھی غلط ہے،صحیح راستہ یہ ہے کہ کوشش میں لگارہے اور اللہ تعالیٰ سے اس کے فضل اوررحمت کا طلب گار ہو؛کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم ورحمت ہی سے وصول الی اللہ ہوتا ہے۔ ۲۔جب تک تم اپنے گناہوں سے خائف ہو اور اگر کوئی گناہ سرزد ہوجائے تو اس پر ندامت محسوس کرتے ہو،اس وقت تک اپنے آپ سے مایوس نہ ہو۔ ۳۔آپ کے شیخ حضرت سری سقطیؒ نے آپ سے پوچھا "شکر کی حقیقت کیا ہے؟" آپ نے جواب دیا: ((الایستعان بشی ء من نعمہ علی معاصیہ)) "شکر یہ ہے کہ اللہ تعالی کی کسی نعمت کو اس کی معصیتوں میں استعمال نہ کیا جائے" حضرت سری ؒ نے اس جواب کو بے حد پسند فرمایا: ۴۔جو شخص حافظ قرآن نہ ہو،اس نے کتابت احادیث کا مشغلہ نہ رکھا ہو اورعلم فقہ حاصل نہ کیا ہو،وہ اقتداء کے قابل نہیں۔ ۵۔جب تک کوئی بری بات انسان کی طبیعت (دل) میں رہے،اس وقت تک وہ کوئی عیب نہیں، ہاں جب وہ طبیعت کی اس بات پر عمل کرنے لگے تو یہ عیب کی بات ہے۔ یہی بات حضرت تھانویؒ کے مواعظ میں ملتی ہے کہ جب تک رزائل کے مقتضا پر عمل نہ کیا جائے، اس وقت تک وہ رزائل مضر نہیں ہوتے۔ ۶۔مجھے دنیا میں پیش آنے والا کوئی واقعہ ناگوار نہیں ،اس لئے کہ میں نے یہ اصول دل میں طے کر رکھا ہے کہ یہ دنیا رنج و غم، بلاء اورفتنہ کا گھر ہے،لہذا اس کو تو میرے پاس برائی ہی لے کر آنا چاہیے،لہذا اگر کبھی وہ کوئی پسندیدہ بات لے کر آئے تو یہ اللہ تعالی کا فضل ہے ورنہ اصل وہی پہلی بات ہے۔ ۷۔ایک مرتبہ کسی نے آپ سے سوال کیا"دنیا (جس سےپرہیز کی تاکید کی جاتی ہے) کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ((مادنا من القلب،وشغل عن اللہ)) "جو دل کے قریب آجائے اوراللہ تعالی سے غافل کردے" ۸۔ایک مرتبہ ایک شخص نے آپ سے پوچھا: ((متی تصیر النفس داء ھا دواءھا)) "ایسا کب ہوتا ہے کہ نفس کے امراض خود اس نفس کا علاج بن جائیں ؟" آپ نے برجستہ جواب دیا: ((اذا خالفت ھواء ھا صار داء ھادواءھا)) "جب تم نفس کی مخالفت کرو تو اس کی بیماری ہی اس کا علاج بن جاتی ہے" (حلیۃ الاولیاء:۱۰/۲۵۵،۲۷۴،ملخصاً) ۹۔میں اگر ہزار سال بھی زندہ رہوں تو اپنے اختیار سے طاعات وعبادات میں سے ایک ذرہ بھی کم نہ کروں، ہاں مغلوب ومجبور ہوجاؤں تو دوسری بات ہے۔ (ثمرات الاوراق،ص:۷۸،کتاب الاعتصام:۱/۱۰۹) ۱۰۔وصول الی اللہ کے جتنے راستے عقلاً ہوسکتے ہیں وہ سب کے سب بجز اتباع سنت کے مخلوق پر بند کردیئے گئے ہیں (یعنی بغیر اقتداء رسول ﷺ کے کوئی شخص ہرگز تقرب حاصل نہیں کرسکتا)اورجودعوی کرے وہ کاذب ہے۔ (ثمرات الاوراق،ص:۷۸،کتاب الاعتصام:۱/۱۱۰) ۱۱۔حضرت جنید بغدادیؒ سے توحید کے بارے میں سوال کیا گیا تو فرمایا‘‘موحد کا وحدانیت کی حقیقت اورکمال احدیت کے ساتھ اس بات کو جاننا کہ وہ ذات باری تعالیٰ واحد ویکتا ہے،نہ اس نے کسی کو جنا، نہ وہ جنا گیا، اس کا نہ تو کوئی مد مقابل ہے نہ نظیر نہ تو اس کی صورت بیان ہوسکتی ہے،نہ تشبیہ، نہ کیفیت، نہ تمثیل۔ (الرسالۃ القشیریۃ،ص:۲) ۱۲۔تمام مخلوق کے لئے اللہ تک پہنچنے کے راستے بند ہیں، ماسوائے ان لوگوں کے جو رسول اللہﷺکے نقش قدم پر چلیں۔ (الرسالۃ القشیریۃ،ص:۴۴) ۱۳۔جن چیزوں سے تمہارا ہاتھ خالی ہے، ان سے دل کے خالی ہونے کا نام زہد ہے۔ ۱۴۔دنیا کو حقیر جاننے اوراس کے آثار کو دل سے محو کردینے کا نام زہد ہے۔ (الرسالۃ القشیریۃ،ص:۱۶۲) ۱۵۔صدق کی حقیقت یہ ہے کہ تو ان مواقع پر بھی سچ بولے جن میں جھوٹ کے بغیر تمہاری نجات نہیں ہوسکتی۔ (الرسالۃ القشیریۃ،ص:۲۹۵) ۱۶۔ہر وہ محبت جو کسی غرض کے لئے ہے،جب وہ غرض جاتی رہے گی تو محبت بھی جاتی رہے گی۔ (الرسالۃ القشیریۃ،ص:۴۵۱) (۱)زہد کی حقیقت یہ ہے کہ جس چیز سے آدمی کا ہاتھ خالی ہو اس سے اس کا دل بھی خالی ہو ۔ (۲)ہماری کتاب یعنی قرآنِ مجید تمام کتابوں کی سردار اور جامع ترین کتاب ہے، پس جس نے نہ قرآنِ پاک کو پڑھا اور نہ حدیث رسول کو یاد کیا اور نہ ہی ان دونوں کے معانی کو سمجھا اس کی اقتداء ہرگز جائز نہیں (۳)اگر کسی آدمی کو دیکھو کہ ہَوا میں چار زانو بیٹھا ہوا ہے تب بھی جب تک کہ اللہ تعالیٰ کے امر و نہی سے متعلق اس کا عمل نہ دیکھ لو اس کی پیروی ہرگز نہ کرو ؛ جب دیکھ لو کہ اوامر کا امتثال کرنے والا اور مناہی سے بچنے والا ہے تو اس پر اعتقاد جماؤ اور اس کی پیروی کرو ، اور اگر اسے دیکھو کہ اوامر کے امتثال میں کوتاہی کرتا ہے اور منہیات سے پرہیزنہیں کرتا تو اس سے اجتناب کرو ۔ (۴)انسان کا دنیا سے علیٰحدہ رہنا اس کے جمع کرنے اور اس کے خرچ کرنے سے افضل ہے ۔ (۵)اللہ تعالیٰ کے ساتھ صفائی قلب کا نام تصوف ہے اور اصل اس کی دنیا سے صرفِ نظر ہے ۔ (۶)اللہ تعالیٰ سے غفلت دخولِ جہنم سے بھی زیادہ سخت ہے ۔ (۷)آپ سے عارف کے متعلق پوچھا گیا تو فرمایا کہ پانی کا رنگ اس کے برتن کے رنگ کے تابع ہوتاہے یعنی اس کا عمل وقت کے تقاضے کے مطابق ہوتا ہے ۔ (۸)میں نے کسی کو نہیں دیکھا کہ اس نے دنیا کی تعظیم کی ہو اور اس کی آنکھیں ٹھنڈی ہوئی ہوں ، دنیا میں تو اس کی آنکھیں ٹھنڈی ہوتی ہیں جو اس کو حقیر سمجھتا ہے اور منہ موڑ لیتا ہے ۔ (۹)فرماتے ہیں کہ تصوف کی بنیاد انبیاء علیھم الصلوۃ و السلام کے ان آٹھ صفات پر ہے:سخاوت (حضرت ابراہیم ؑ کا)، رضا (حضرت اسحق ؑ کا )، صبر (حضرت ایوب ؑ کا )، اشارہ (حضرت زکریا ؑ کا )، غربت (حضرت یحیؑ کا)، اون کا پہننا (حضرت موسیٰ ؑ کا )، سیاحت (حضرت عیسیؑ کا)، اور فقر (حضرت سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا)مخصوص وصف تھا ۔ (۱۰)جو شخص اچھی نیت کا دروازہ اپنے اوپر کھولتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر توفیق کے ستّر ابواب کھول دیتے ہیں ، اور جو شخص بری نیت کا دروازہ کھولتا ہے تو اللہ تعالیٰ ذلّت و خذلان کے ستّر دروازے کھول دیتے ہیں جن کو وہ جانتا بھی نہیں ۔ (۱۱)علم کی ایک قیمت ہے لہٰذا اس کو بغیر قیمت کے نہ دیا کرو ، آپ سے دریافت کیا گیا کہ علم کی قیمت کیا ہے ؟ تو فرمایا کہ اس کو ایسے شخص کو دو جو خیر و خوبی کے ساتھ اس کا حامل ہو اور اس کو ضائع نہ کرے ۔