انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حدیث کی جمع وتدوین اور اس میں تنوع منکرینِ حدیث یہ کہا کرتے ہیں کہ احادیث تیسری صدی میں مدون ہوئیں، اس لیے ان پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا کہ وہ اصلی صورت میں باقی بھی رہی ہوں؛ لیکن یہ مغالطہ اس وجہ سے درست نہیں کہ کسی چیز کی حفاظت وصیانت کا ذریعہ صرف کتابت یاقیدِ تحریر میں لانا ہی نہیں ہوتا؛ بلکہ سینوں کے مقابل اس کوسفینوں میں محفوظ رکھنا بھی اعتمادکا ذریعہ ہوسکتا ہے؛ اس لیےکہ تحریر شدہ چیزیں آفات سے مامون نہیں ہوسکتی؛ اس لیے سب سے پہلے یہ جان لینا چاہیے کہ دورِ رسالت سے لے کر تدوینِ حدیث کے بعد کے ادوار تک حفظِ حدیث کے کیا کیا ذرائع اور وسائل تھے۔ حفظِ روایت حفاظتِ حدیث کا سب سے بڑا ذریعہ اس دور میں احادیث کویاد کرنے کا تھا اور یہ اس دور کے لحاظ سے نہایت معتمد ذریعہ تھا، اہلِ عرب کواللہ عزوجل نے غیرمعمولی ذہانت وفطانت سے نوازا تھا، یہ لوگ نسب ناموں، جنگوں کے واقعات، خطیبوں کے خطبے اور شعراء کے اشعار کویاد کرنے میں اپنی خدادا ذہنیت پراعتماد کرتے تھے، وہ صرف اپنے ہی نہیں؛ بلکہ اپنے گھوڑوں تک کے نسب نامے ازبر یاد کرلیا کرتے تھے، ایک شخص کوہزاروں اشعار حفظ ہوتے وہ قیافہ شناسی میں بھی کافی شہرت رکھتے تھے، وہ پاؤں کے نشانات سے آدمی اور جانوروں کے رُخ کا پتہ لگالیتے تھے؛ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ جوقوم اتنی معمولی باتوں کواتنے وثوق کے ساتھ یادرکھ سکتی ہو وہ حضورﷺ کے اقوال وافعال کویاد رکھنے کا کتنااہتمام کرے گی، جب کہ وہ انہیں اپنے لیے راہِ نجات سمجھتے تھے، خاص طور سے حضورﷺ کے اس قسم کے ارشادات ان کے سامنے موجود تھے: نَضَّرَ اللَّهُ امْرَأً سَمِعَ مَقَالَتِي فَوَعَاهَا وَحَفِظَهَا وَبَلَّغَهَا۔ (ترمذی،كِتَاب الْعِلْمِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،بَاب مَاجَاءَ فِي الْحَثِّ عَلَى تَبْلِيغِ السَّمَاعِ،حدیث نمبر:۲۵۸۲، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:اللہ عزوجل اس بندے کوتروتازہ رکھے جومیری بات سنے اور اس کومحفوظ کرے اور اس کواسی طرح سے پہونچائے۔ حافظ ابن حجرؒ (۸۷۲ھ) نے اپنی کتاب الاصابۃ میں یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ عبدالملک بن مروان نے حضرت ابوھریرہؓ کے حافظے کا امتحان لینا چاہا اور انھیں بلاکر احادیث بیان کرنے کی درخواست کی، حضرت ابوھریرہؓ نے بہت سی احادیث سنائیں، ایک کاتب ان کولکھتا رہا؛ یہاں تک کہ حضرت ابوھریرہؓ چلے گئے، عبدالملک بن مروان نے انھیں اگلے سال پھربلایا اور ان سے کہا جواحادیث آپ نے مجھے پچھلے سال لکھوائی تھی وہ احادیث اسی ترتیب سے سنائیے، حضرت ابوھریرہؓ نے پھراحادیث سنانی شروع کی، کاتب مقابلہ کرتا رہا، کسی جگہ ایک حرف، ایک نقطہ، ایک شوشہ کی تبدیلی نہیں ہوئی، ترتیب بھی وہی تھی، کوئی حدیث مقدم یامؤخر نہیں ہوئی، اس سے پتہ چلا کہ اللہ عزوجل نے حضراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم کوحفاظتِ حدیث کے لیے جس طرح کے حافظے سے نوازا تھا وہ کتابت ہی کی طرح قابل اعتماد ذریعہ تھا۔ دوسرا طریقہ تعامل حفاظتِ حدیث کا دوسرا ذریعہ جوصحابہ کے درمیان رائج تھا وہ تعامل کا تھا، یعنی وہ آپ کے اقوال وافعال پربنفسھا عمل کرکے اُسے یاد کرتے تھے، بہت سے صحابہ سے منقول ہے کہ انھوں نے کوئی عمل کیا اور اس کے بعد فرمایا: ھکذا رأیت رسول اللہ یفعل یہ طریقہ نہایت ہی قابل اعتماد تھا؛ اس لیے کہ جس بات پرانسان خود عمل کرے وہ بات ذہن میں کالنقش علی الحجر ہوتی ہے۔ تیسرا طریقہ کتابت احادیث کی حفاظت کتابت اور قیدِ تحریر میں لاکربھی کی گئی، تاریخی طور پر کتابت حدیث کوچار مراحل میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: (۱)متفرق طور سے احادیث کوقلم بند کرنا۔ (۲)کسی ایک شخص کا صحیفہ میں احادیث کوجمع کرنا، جن کی حیثیت ذاتی یادداشت کی ہو۔ (۳)احادیث کوکتابی صورت میں بغیرتبویب کے جمع کرنا۔ (۴)احادیث کوکتابی صورت میں تبویب کے ساتھ جمع کرنا۔ متفرق طور سے احادیث کوقلمبند کرنا یاکسی شخص کا ذاتی یادداشت کو صحیفہ کی شکل میں جمع کرنا، یہ طریقے عہدِ رسالت اورعہدِ صحابہ میں خوب رائج تھے، منکرینِ حدیث عہدِ رسالت میں کتابتِ حدیث کوتسلیم نہیں کرتے اور مسلم وغیرہ کی اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں جوابوسعید خدریؓ سے مروی ہے: لَاتَكْتُبُوا عَنِّي وَمَنْ كَتَبَ عَنِّي غَيْرَ الْقُرْآنِ فَلْيَمْحُهُ۔ (مسلم، كِتَاب الزُّهْدِ وَالرَّقَائِقِ،بَاب التَّثَبُّتِ فِي الْحَدِيثِ وَحُكْمِ كِتَابَةِ الْعِلْمِ،حدیث نمبر:۵۳۲۶، شاملہ، موقع الإسلام) منکرینِ حدیث کا کہنا ہے کہ حضورِاکرمﷺ کا کتابتِ حدیث سے منع کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اس دور میں حدیثیں نہیں لکھی گئیں؛ نیز یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ احادیث حجت نہیں؛ ورنہ آپ اسے قرآن کی طرح اہتمام کے ساتھ قلمبند فرماتے؛ حالانکہ یہ حقیقت ہے کہ کتابتِ حدیث کی یہ ممانعت ابتدائے اسلام میں تھی، اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت قرآن کریم کسی ایک نسخہ میں مدوّن نہ ہوا تھا؛ بلکہ متفرق طور سے صحابہ کے پاس لکھا ہوا تھا، دوسری طرف صحابہ بھی اسلوب قرآن سے ایسے مانوس نہ تھے کہ وہ قرآن اورغیرقرآن میں اوّلِ نظرمیں تمیز کرسکیں، ان حالات میں اگراحادیث لکھی جاتیں توخطرہ تھا کہ وہ قرآن کے ساتھ گڈمڈ ہوجائیں، اس خطرہ کے پیشِ نظراور اس کے انسداد کے لیے آپ نے کتابتِ حدیث کی ممانعت کردی؛ لیکن جب صحابہ اسلوب قرآن سے واقف ہوگئے توآپ نے کتابتِ حدیث کی اجازت مرحمت فرمادی، جس کے متعدد واقعات کتبِ حدیث میں موجود ہیں اور خصوصاً یہ وہ صحابہؓ تھے جن کے تیقظ اور غیرقرآن کے درمیان تمیز پررسول اللہؐ کواعتماد تھا؛ اس لیے بعض علماء کا کہنا ہے کہ کتابتِ حدیث کی اجازت کی حدیثیں ناسخ ہیں، ممانعت کی احادیث کے لیے؛ کیونکہ بعد میں قرآن کے غیرقرآن کے ساتھ گڈمڈ ہوجانے کے یہ خدشات ختم ہوگئے تھے۔ (۱)حضرت عبداللہ بن عمروبن العاصؓ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہﷺ سے جوکچھ سنتا تھا اسے محفوظ رکھنے کی غرض سے لکھ لیا کرتا تھا، قریش کے لوگوں نے مجھے منع کیا کہ تم ہربات رسول اللہﷺ کی لکھ لیا کرتے ہو؛ حالانکہ رسول اللہﷺ ایک انسان ہیں، ان پرخوشی اور غصہ دونوں حالتیں طاری ہوتی ہیں؛ چنانچہ میں لکھنے سے رک گیا فَأَمْسَكْتُ عَنْ الْكِتَابِ رسول اللہﷺ کے پاس جاکر یہ بات عرض کی گئی توآپ نے اپنی انگشتِ مبارک سے اپنے دہنِ مبارک کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: اكْتُبْ فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَايَخْرُجُ مِنْهُ إِلَّاحَقٌّ تم لکھتے رہو؛ کیونکہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، میرے منہ سے حق ہی صادر ہوتا ہے۔ (ابوداؤد، كِتَاب الْعِلْمِ،بَاب فِي كِتَابِ الْعِلْمِ،حدیث نمبر:۳۱۶۱،شاملہ، موقع الإسلام) (۲)حضرت ابوھریرہؓ سے منقول ہے کہ ایک شحص حضوراکرمﷺ کی مجلس کے حاضر باش تھے، وہ حضورﷺ کے کلام کوسنتے تووہ اچھا لگتا؛ لیکن وہ اسے یاد نہیں رکھ پاتے تھے؛ انہوں نے اپنے حافظہ کی کمزوری کی شکایت حضورﷺ سے کی توآپ نے فرمایا: اسْتَعِنْ بِيَمِينِكَ ترجمہ:یعنی اسے لکھ لو۔ (ترمذی، كِتَاب الْعِلْمِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،بَاب مَاجَاءَ فِي الرُّخْصَةِ فِيهِ،حدیث نمبر:۲۵۹۰، شاملہ، موقع الإسلام) (۴)مستدرک حاکم میں حضرت عبداللہ بن عمروسے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: قيدوا العلم قلت: وماتقييده: قال: كتابته۔ (مستدرک، كتاب العلم،حدیث نمبر:۳۶۲، شاملہ،الناشر:دارالكتب العلمية،بيروت، الطبعة الأول) ترجمہ:علم کوقید کرو، میں نے کہا:علم کوقیدکرنا کیا ہوتا ہے، آپ نے فرمایا: اس کولکھ لینا۔ (۵)حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ قیدوا العلم بالکتابۃ۔ (جامع بیان العلم لابن عبدالبر:۸۷) ترجمہ:حدیث کوکتابت وتحریر کے ذریعہ مقید کردیا کرو۔ (۶)فتح مکہ کے موقع سے آپ نے خطبہ دیا توایک یمنی صحابیؓ جن کا نام ابوشاہ تھا، درخواست کی کہ ان کے واسطے یہ خطبہ لکھ دیا جاے، حضورﷺ سے اجازت چاہی گئی توآپ نے فرمایا: اكْتُبُوا لِأَبِي شَاهٍ۔ ترجمہ:ابوشاہ کے لیے لکھ دو۔ (بخاری،كِتَاب فِي اللُّقَطَةِ، بَاب كَيْفَ تُعَرَّفُ لُقَطَةُ أَهْلِ مَكَّةَ،حدیث نمبر:۲۲۵۴، شاملہ، موقع الإسلام) علامہ نووی نے منع کتابتِ حدیث کی ایک اور توجیہ ذکر کی ہے، وہ یہ کہ مطلقا کتابت کسی بھی زمانہ میں ممنوع نہیں ہوتی؛ بلکہ بعض حضراتِ صحابہ ایسا کرتے تھے کہ آیاتِ قرآنی لکھنے کے ساتھ حضورﷺ کی تشریح وتفسیر بھی اسی جگہ لکھ لیا کرتے، اس لیے اس صورت کی ممانعت کی گئی، قرآن سے الگ احادیث کولکھنے کی کوئی ممانعت نہیں تھی، اس کی تائید سنن نسائی کی ایک روایت سے بھی ہوتی ہے، جوامام نسائی نے (کتاب الصلوۃ، باب المحافظۃ علی صلاۃ العصر، حدیث نمبر:۴۷۲) میں نقل کی ہے، حضرت عائشہؓ نے اپنے ایک غلام کوقرآن کریم لکھنے کا حکم دیا اور جب وہ اس پرپہونچا کہ حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى (البقرۃ:۲۳۸) توحضرت عائشہؓ نے لفظ وسطیٰ کے بعد صلوٰۃ العصر بڑھانے کا حکم دیا، ظاہر ہے کہ لفظ العصر قرآنِ کریم کاجزنہیں تھا؛ بلکہ بطورِ تشریح کے بڑھایا ہوا تھا، اس زمانہ میں چونکہ متن اور شرح میں امتیاز کی وہ علامات رائج نہیں تھی جوبعد کورائج ہوئیں؛ اس لیے یہ لفظ متن ہی کے ساتھ لکھ دیا گیا، اس سے معلوم ہوا کہ دوسرے صحابہ بھی آپ کی بیان فرمودہ تشریح اسی طرح لکھ لیتے ہوں گے، ظاہر ہے کہ اگراس رواج کوعام ہونے دیا جاتا تومتنِ قرآن کی تعیین اور حفاظت ایک دردِ سربن جاتی، درحقیقت ممانعتِ کتابتِ حدیث کے ذریعہ اسی عظیم خطرہ کا سدباب کیا گیا تھا؛ لیکن قرآن کریم سے الگ احادیث لکھنے کا رواج ہردور میں رہا؛ چنانچہ صحابہ نے ذاتی طور پرحدیث کے کئی مجموعے تیار کرلیے تھے۔ کتابتِ حدیث بشکلِ صحائف (۱)الصحیفۃ الصادقہ: مسنداحمدمیں روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمروبن العاص نے احادیث کا جومجموعہ تیار کیا تھا اس کا نام الصحیفہ الصادقہ رکھا گھا، یہ عہدِ صحابہ کے حدیثی مجموعوں میں سب سے بڑا اور ضخیم مجموعہ تھا، اس کی احادیث کی کل تعداد کیا تھی، یقینی طور پر اس بارے میں کچھ پتہ نہیں چلتا؛ لیکن حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت جو صحیح بخاری میں موجود ہے اس سے کچھ روشنی پڑتی ہے، وہ فرماتے ہیں: مَامِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدٌ أَكْثَرَ حَدِيثًا عَنْهُ مِنِّي إِلَّامَاكَانَ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو فَإِنَّهُ كَانَ يَكْتُبُ وَلَاأَكْتُبُ۔ (بخاری،کتاب العلم، باب کتابۃ العلم، حدیث نمبر:۱۱۰، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:نبی کریمﷺ کے اصحاب میں کوئی بھی شخص مجھ سے کثرتِ حدیث میں بڑھا نہیں تھا؛ سوائے عبداللہ بن عمروبن العاصؓ کے کہ وہ لکھ لیتے تھے اور میں لکھتا نہیں تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضرت عبداللہ بن عمرورضی اللہ عنہ کی احادیث حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کی احادیث سے زیادہ تھی، حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کی روایات کی تعداد پانچ ہزار تین سوچونسٹھ (۵۳۶۴) یاپانچ ہزار تین سوچوہتر (۵۳۷۴) ہے؛ لہٰذاعبداللہ بن عمروؓ کی احادیث ان سے یقیناً زیادہ ہونگی؛ بہرِکیف الصحیفۃ الصادقۃ اس دور کا ضخیم ترین مجموعہ احادیث تھا، حضرت عبداللہ بن عمروؓ اسے نہایت حفاظت سے رکھتے تھے، ان کی وفات کے بعد یہ صحیفہ ان کے پڑپوتے حضرت عمروبن شعیب کے پاس منتقل ہوا جواکثر عن أبیہ عن جدہ کی سند سے احادیث روایات کرتے ہیں؛ بلکہ حافظ ابنِ حجرؒ نے تہذیب التہذیب میں امام یحییٰ بن معین اور علی بن مدینی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ جوحدیث بھی عن عمروبن شعیب عن أبیہ عن جدہ کی سند سے آئے تو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ صحیفہ صادقہ کی حدیث ہے (تہذیب التہذیب:۸/۴۴،دارالفکر، بیروت، الطبعۃ الاولی) امام احمدؒ نے اس صحیفہ کا پورا مضمون مسنداحمد کی جلد:۲، صفحہ:۱۵۸، تا ۲۲۳، میں روایت کردیا ہے۔ (۲)صحیفۂ علی: حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ ارشاد ہے کہ: مَاكَتَبْنَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّاالْقُرْآنَ وَمَافِي هَذِهِ الصَّحِيفَةِ۔ (ابوداؤد، كِتَاب الْمَنَاسِكِ،بَاب فِي تَحْرِيمِ الْمَدِينَةِ،حدیث نمبر:۱۷۳۹،شاملہ، موقع الإسلام) یہی روایت بخاری میں چار مقامات پراور مسلم یں دومقام پر اور نسائی وترمذی میں نقل کی گئی ہے، حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ صحیفہ ان کے نیام میں رہتا تھا اور اس روایت کے متعدد الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں دیات، معاقل فدیہ وقصاص احکامِ اہلِ ذمہ، نصاب زکوٰۃ اور مدینہ طیبہ کے حرم ہونے سے متعلق ارشاداتِ نبوی درج تھے۔ (۳)کتاب الصدقہ:یہ ان احادیث کا مجموعہ تھا جسے حضوراکرمﷺ نے خود نقل کرایا تھا، اس میں زکوٰۃ، صدقات، اور عشروغیرہ کے احکام تھے، ابن عمرؓ کا بیان ہے کہ حضوراکرمﷺ نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں عاملوں کے پاس بھیجنے کے لیے ایک کتاب الصدقہ لکھوائی تھی جس میں جانوروں کی زکوٰۃ سے متعلق احادیث تھیں، لیکن اسے آپ کے بھیجنے کی نوبت نہیں آئی اور آپ اس دنیا سے پردہ فرما گئے۔ (ابوداؤد، باب فی زکاۃ الصائمۃ، حدیث نمبر:۱۵۶۸) آپ کے بعد یہ کتاب حضرت ابوبکرؓ؛ پھرحضرت عمرؓ؛ پھران کے دونوں صاحبزادے عبداللہ اور عبیداللہ سے ہوتے ہوئےحضرت عمربن عبدالعزیزؒ کے پاس منتقل ہوا اور ان سے حضرت سالمؓ کے پاس؛ پھرحضرت سالمؓ سے اسے امام شہاب زہری نے حفظ کیا اور دوسروں کوپڑھایا۔ (۴)صحف انس بن مالک: حضرت سعید بن ہلالیؓ فرماتے ہیں کہ: كنا إذاأكثرنا على أنس بن مالك رضي الله عنه أخرج إلينا محالا عنده، فقال: «هذه سمعتها من النبي صلى الله عليه وسلم فكتبتها وعرضتها عليه۔ (مستدرک حاکم، ذکرانس بن مالک، کتاب معرفۃ الصحابۃ، حدیث نمبر:۶۴۵۲، دارالکتب العلمیۃ، بیروت، الطبعۃ الاولی) (۵)صحیفہ عمروبن حزم: جب حضوراکرمﷺ نے حضرت عمروبن حزم کونجران کا عامل بناکر بھیجا توایک صحیفہ ان کے حوالہ کیا، جوآپ کی احادیث پرمشتمل تھا اور حضرت ابی ابن کعب نے لکھا تھا، اس صحیفے میں فرائض وسنن اور خون بہا کے مسائل تھے (نسائی: کتاب القسامۃ، حدیث نمبر:۴۸۵۳۔ حاکم نے مستدرک میں:۱/۲۹۳) اس نوشتہ سے ۶۳/حدیثیں نقل کی ہیں۔ (۶)صحیفہ ابن عباسؓ: حضرت کریب بن أبی مسلم کا جوابنِ عباسؓ کے مولےٰ تھے یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ انھیں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی کتابوں کا اتنا ذخیرہ ملا تھا جوپورے ایک اونٹ کا بوجھ تھا۔ (طبقات ابن سعد:۵/۲۹۳، الناشر:دارصادر، بیروت، الطبعۃ الاولی) (۷)صحیفہ ابن مسعودؓ: علامہ ابن عبدالبرؒ نے اپنی کتاب جامع بیان العلم وفضلہ میں نقل کیا ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن مسعودؓ نے ایک کتاب نکالی اور فرمایا کہ: میں قسم کھاتا ہوں کہ یہ عبداللہ بن مسعود کی لکھی ہوئی ہے۔ (۸)صحیفہ جابر بن عبداللہ الانصاریؓ: امام ذہبیؒ نے فرمایا کہ یہ صحیفہ مناسک حج پر ہےجوپوری جامعیت کے ساتھ مسلم شریف میں موجود ہے (تذکرۃ الحفاظ:۱/۴۳) یہ ترکی کے کتب خانہ میں موجودہے۔ (۹)صحیفہ سمرہ بن جندبؓ: حافظ ابن حجرؒ نے تہذیب التہذیب میں نقل کیا ہے کہ سلیمان بن سمرہ نے اپنے والد سمرہ بن جندبؓ سے ایک بڑا نسخہ روایت کیا اور امام محمدبن سیرین فرماتے ہیں کہ أنّ الرسالۃ التی کتبہا سمرۃ لاولادہ یوجد فیھا علم کثیر (تہذیب التھذیب:۴/۲۰۷، دارالفکر، بیروت، الطبعۃ الاولی) ترجمہ:سمرہ نے اپنی اولاد کے لیے جو رسالہ تحریر کیا تھا اس میں بہت سارا علم تھا۔ (۱۰)صحیفہ سعد بن عبادہؓ: امام ابن سعد نے طبقات میں نقل کیا ہے کہ حضرت سعد بن عبادہؓ نے ایک صحیفہ مرتب کیا تھاجس میں احادیث جمع تھیں، اس کا ذکر امام ترمذی نےکتاب الاحکام، باب فی الیمین مع الشاھد، حدیث نمبر:۱۳۴۳ میں کیا ہے۔ (۱۱)حضرت ابوھریرہؓ کے پاس بہت سی کتابیں تھیں، جس کوانہوں نے اپنے آخری دور میں خود سے لکھواکر رکھ لیا تھا (حضرت ابوھریرہؓ روایۃ الاسلام یعنی اسلام کا بہت بڑا حصہ تنہا روایت کرنےو الے ہیں) انہیں میں سے الصحیفۃ الصحیحۃ نامی وہ کتاب ہے جس کوان سے ہمام بن منبہ صغانی نے روایت کیا ہے، جوالگ سے ڈاکٹرحمیداللہ حیدرآبادی مرحوم کی تحقیق سے طبع ہوئی؛ نیز مسنداحمد میں وہ پورا صحیفہ موجود ہے۔ (مسنداحمد:۳۱/۴۷۵ تا ۵۴۷، مطبوعہ موسسۃ الرسالۃ) یہ چند مثالیں اس بات کوواضح کرنے کے لیے کافی ہیں کہ عہدِرسالت اور عہدِ صحابہؓ میں کتابتِ حدیث کا طریقہ رائج ہوچکا تھا؛ یہاں ہم نے صرف بڑے مجموعوں کا ذکر کیا ہے، ان کے علاوہ رسولِ کریمﷺ نے جوانفرادی خطوط تحریر فرمائے یاکسی کوکوئی بات لکھ کردی یافرامین جاری کئے، وہ اس کے علاوہ ہیں، مطولات میں ان کی تفصیل دیکھی جاسکتی ہے؛ البتہ تدوینِ حدیث کی یہ ساری کوششیں انفرادی نوعیت کی تھیں اور سرکاری سطح پرخلفاءِ ثلاثہ کے دورمیں تدوین واشاعتِ حدیث کا ایسا اہتمام نہیں ہوا جیسا کہ جمع قرآن کا ہوا، حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ دونوں نے اپنے اپنے زمانے میں یہ ارادہ کیا کہ قرآن کریم کی طرح احادیث کا ایک مجموعہ بھی سرکاری نگرانی میں تیار کرایا جائے؛ لیکن دونوں اس کام سے رک گئے، جس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت تک قرآنِ کریم کا صرف ایک نسخہ سرکاری نگرانی میں تیار ہوا تھا؛ اگرحدیث کا کوئی مجموعہ اسی طرح تیار ہوتا تو اس کے ساتھ بعد کے مسلمانوں کا احترام وعقیدت قریب قریب قرآن ہی کے درجے میں پہنچ جاتا، اس کے علاوہ خطرہ تھا کہ لوگ قرآنِ کریم کوفراموش کرکے اس کی حفاظت واشاعت میں لگ جاتے، اس خطرہ کا اظہار حضرت عمرؓ نے ان الفاظ میں کیا: إني كنت أردت أن أكتب السنن وإني ذكرت قوما كانوا قبلكم كتبوا كتبافأكبوا عليها وتركوا كتاب الله تعالی۔ (تقییدالعلم، باب ذكر الرواية عن التابعين في ذلك،حدیث نمبر:۶۳، صفحہ نمبر:۱/۷۶، شاملہ، موقع جامع الحديث) ترجمہ:میں نے یہ ارادہ کیا کہ حدیثوں کوبشکل کتاب جمع کردوں؛ لیکن مجھے تم سے پہلے اقوام کی حالت یادآگئی کہ انہوں نے کچھ تحریریں لکھ کراس کے درپے ہوگئے اور کتاب اللہ کوانہوں نے پسِ پشت ڈال دیا۔ البتہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی یہ ممانعت سرکاری سطح پرتدوینِ حدیث کی ممانعت کی تھی؛ انفرادی کتابت کی نہیں؛ پھرحضرت عثمان غنیؓ کے دور میں بھی تدوینِ حدیث کا کام اسی مرحلہ میں رہا، جس مرحلہ میں شیخین کے عہد میں تھا۔ حضرت علی اور خدمت علمِ حدیث حضرت علیؓ بھی اپنے ابتدائے دورِ خلافت میں تکثیرِروایت کے مخالف تھے اوراپنا صحیفہ بھی بمشکل لوگوں کودیکھاتے تھے؛ لیکن جب ان کے زمانے میں عبداللہ بن سبا کی سرکردگی میں فتنۂ سبائیہ کا ظہور ہوا جواسلام کے خلاف یہودیوں کی ایک سازش تھی؛ انہوں نے مسلمانوں میں گھل مل کراسلام کوختم کرنے کی کوشش کی اور اس مقصد کے لیے پہلا طریقہ تویہ اختیار کیا کہ لوگوں کوصحابہ سے برگشتہ کرنے لگے، دوسرے جھوٹی احادیث کوگھڑکرایک نیانظام عقائد تیار کرنے لگے جس میں انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کوالوہیت کے مقام پرپہونچادیا، حضرت علی رضی اللہ عنہ کواس عظیم فتنہ کا احساس اس وقت ہوا جب اس جماعت کے لوگ مسلمانوں میں خوب گھل مل گئے، اس موقع پرحضرت علیؓ نے ارشاد فرمایا تھا: قاتلهم الله اي عصابة بيضاء سودوا، واي حديث من حديث رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم افسدوا۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۲، موقع یعسوب) چنانچہ حضرت علیؓ نے اس فتنہ کے انسداد کے خاطر ایک طرف توفضائلِ صحابہ کی اشاعت کی اور دوسری طرف حدیث کے سلسلے میں اپنا طرزِ عمل بدل دیا، اب اقلالِ روایت کے بجائے اکثارِ روایت کواختیار کیا گیا، جس کا طریقہ یہ تھا کہ بقول ام ابن سعد آپ منبر پرچڑھ جاتے اور یہ اعلان فرماتے کہ من يشتري علما بدرهم؟ فاشترى الحارث الأعور صحفا بدرهم ثم جاء بها عليا فكتب له علما كثيرا (الطبقات الکبری لابن سعد:۶/۱۶۸،شاملہ، موقع الوراق) اس طرح حضرت علیؓ نے صحیح احادیث کوکثرت کے ساتھ روایت کرکے سبائی موضوعات کا مقابلہ فرمایا؛ چنانچہ آپ کے شاگردوں میں کئی حضرات کے پاس آپ کے روایت کردہ مجموعے تھے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ اور تدوینِ حدیث کا کارنامہ حضرت عمربن عبدالعزیزؒ کے زمانے تک کتابتِ حدیث اپنے دومرحلوں میں تھی؛ لیکن اب وہ وقت آچکا تھا کہ احادیث کی باقاعدہ تدوین ہو؛ کیونکہ اب قرآن کریم کے ساتھ اس کے اختلاط والتباس کاکوئی اندیشہ نہیں تھا؛ چنانچہ صحیح بخاری میں تعلیقاً مروی ہے کہ حضرت عمربن عبدالعزیزؒ نے مدینہ طبیہ کے قاضی ابوبکربن حزم کے نام ایک خط لکھا، جس میں ان کوحکم دیا کہ: انْظُرْ مَاكَانَ مِنْ حَدِيثِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاكْتُبْهُ فَإِنِّي خِفْتُ دُرُوسَ الْعِلْمِ وَذَهَابَ الْعُلَمَاءِ۔ (بخاری، كِتَاب الْعِلْمِ،بَاب كَيْفَ يُقْبَضُ العلم:۱/۱۷۵،شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:حضوراکرمﷺ کے احادیث کوحاصل کرکے لکھو؛ کیونکہ مجھے حدیث کا علم ختم ہوجانے اور اس کے جاننے والوں کے فنا ہوجانے کا اندیشہ ہے۔ موطامالک میں بھی یہ خط مروی ہے اور اس میں احادیث نبوی کے ساتھ سنت خلفائے راشدین کے جمع کرنے کا بھی حکم مذکور ہے؛ لیکن ان دونوں کتابوں میں صرف قاضی مدینہ کا نام آیا ہے؛ لیکن حافظ ابن حجرؒ نے فتح الباری میں نقل کیا ہے کہ یہ خط صرف قاضی مدینہ کے نام نہیں؛ بلکہ مملکت کے ہرصوبہ کے قاضی کے نام بھیجا گیا، اس کے الفاظ یہ ہیں: وَقَدْ رَوَى أَبُو نُعَيْمٍ فِي تَارِيخ أَصْبَهَان هَذِهِ الْقِصَّة بِلَفْظِ :كَتَبَ عُمَر بْن عَبْد الْعَزِيز إِلَى الْآفَاق اُنْظُرُوا حَدِيث رَسُول اللَّه صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاجْمَعُوهُ ۔ (فتح الباری:۱/۱۹۵، دارالمعرفۃ، بیروت) جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمربن عبدالعزیزؒ نے اپنے پورے قلم رومیں بڑے پیمانے پرتدوینِ حدیث کا کام شروع کیا تھا؛ چنانچہ آپ کے حکم کے ماتحت پہلی صدی ہجری کے آخر میں مندرجہ ذیل کتبِ حدیث وجود میں آچکے تھے: (۱)کتبِ ابی بکر: قاضی ابوبکر کوجوحکم دیا گیا تھا اس کے بارے میں علامہ ابن عبدالبر نے اپنی کتاب التمھید میں امام مالکؒ سے نقل کیا ہے کہ ابوبکر ابنِ حزم نے حدیثیں لکھواکر بھیجا بھی؛ مگراس کے پہونچنے سے پہلے حضرت عمربن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کی وفات ہوچکی تھی۔ (۲)رسالہ سالم بن عبداللہ فی الصدقات: علامہ جلال الدین سیوطیؒ نے تاریخ الخلفاء میں نقل کیا ہے کہ یہ رسالہ حضرت عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی فرمائش پرلکھا گیا تھا۔ (تاریخ الخلفاء:۱/۲۰۱، مطبعۃ السعادۃ، مصر، اطبعۃ الاولی) (۳)دفاترالزھری:علامہ ابن عبدالبر نے جامع بیان العلم میں امام زہریؒ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ہمیں عمروبن عبدالعزیزؒ نے تدوینِ حدیث یاسنن کا حکم دیا توہم نے دفتر کے دفتر لکھ ڈالے (جامع بیان العلم:۱/۳۵۴) اور یہ واقعہ ہے کہ اس زمانہ میں حضرت امام زہریؒ سے زیادہ تدوینِ حدیث کی خدمت شاید ہی کسی نے انجام دی ہو؛ پھرحضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے ملک کے ہرحصہ میں ان دفاتر میں سے ایک دفتر بھیجا ۔ (۴)کتاب السنن لمکحول:یہ کتاب ابن مکحولؒ نے تحریر فرمائی تھی؛ گویا اس کتاب کی تالیف سے کتابتِ حدیث اپنے چوتھے مرحلے میں داخل ہوئی، علامہ ابن ندیم نے الفہرست میں اس کا ذکر کیا ہے، بظاہر یہ کتاب بھی حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے فرمان سے لکھی گئی؛ کیونکہ حضرت مکحولؒ ان کے زمانے میں قاضی تھے۔ (الفھرست، لابی الفرج ندیم:۱/۳۱۸، دارالمعرفۃ، بیروت) (۵)ابواب الشعبیؒ: حضرت عامر بن شرحبیل کی تالیف ہے اور علامہ سیوطیؒ نے تدریب الراوی میں حافظ ابنِ حجرؒ کے حوالہ سے ذکر کیا ہے کہ یہ علم حدیث میں پہلی مضبوط کتاب ہے، حضرت شعبیؒ چونکہ کوفہ میں حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کے قاضی تھے؛ اس لیے بظاہر یہ کتاب بھی انہیں کے ارشاد پرلکھی گئی ہے۔ حضرت عمربن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کی وفات سنہ۱۰۱ھ میں ہوئی؛ لہٰذا یہ سب کتابیں اس سے پہلے لکھی جاچکی تھیں۔ دوسری صدی ہجری یہ مبوب کتب حدیث کی محض ابتدا تھی، دوسری صدی ہجری میں تدوینِ حدیث کا کام زیادہ قوت کے ساتھ شروع ہوا اس دور میں جوکتب لکھی گئیں، ان کی تعداد بیس سے زیادہ ہے، ان میں سے چند مشہور کتابیں یہ ہیں: (۱)کتاب الآثارلابی حنیفہ: اس کتاب میں پہلی بار احادیث کوفقہی ترتیب پرمرتب کیا گیا، علم حدیث میں اس کا پایہ بہت بلند ہے، امام ابوحنیفہؒ نے چالیس ہزار احادیث سے اس کتاب کا انتخاب فرمایا ہے۔ (مناقب الامام ابی حنیفۃ:۱/۹۵) (۲)الموطا للامام مالک: اس کتاب کواپنے زمانے میں اصح الکتب بعدکتاب اللہ کہا جاتا تھا اس کے بعد یہ درجہ صحیح بخاری کوملا؛ اس لیے کہ اس میں مؤطا کی تقریباً تمام احادیث کے ساتھ دیگرصحیح احادیث بھی موجود ہیں۔ (۳)جامع معمربن راشد (۱۵۳ھ): یہ بھی امام مالکؒ کے ہم عصر ہیں اور اپنے دور میں ان کی کتاب بھی بہت مقبول ہوئی ۔ (۴)جامع سفیان ثوریؒ (۱۶۱ھ): امام شافعیؒ نے اس کتاب سے استفادہ کیا ہے۔ (۵)السنن لابن جریج (۱۵۰ھ): اسے سنن ابوالولید بھی کہتے ہیں۔ (۶)السنن لوکیع ابن الجراح (۱۹۷ھ): (۷)کتاب الزھد لابن مبارک (۱۸۱ھ): (۸)مصنف عبدالرزاق بن ہما م الصغانی (۲۱۱ھ): (۹)مصنف ابن أبی شیبۃ (۲۳۵ھ): اس دور میں مصنفین کا اندازِ تصنیف یہ تھا کہ کسی ایک باب سے متعلق حدیثوں کوایک باب میں جمع کرتے؛ پھرمختلف ابواب کواپنے اپنے ذوق سے مرتب کرتے، حدیثوں کے بارے میں مرفوع ہی کا التزام نہیں تھا؛ بلکہ مرفوع کے ساتھ اقوالِ صحابہ، فتاویٰ تابعین وغیرہ بھی جمع کردیئے گئے تھے، اس دور میں جوکتابیں تصنیف کی گئیں ہیں وہ مصنف مؤطا اور جامع کے ناموں سے جانی جاتی ہیں اور ان کامواد ان اجزاء وصحف سے حاصل کیا ہوا ہے جوباضابطہ تصنیف کے دور سے پہلے لکھے گئے تھے۔ تیسری صدی ہجری دوسری صدی ہجری کے اواخر اور تیسری صدی کے اوائل میں جمع وتدوین کے ذوق میں ایک نئی تبدیلی پیدا ہوئی؛ چنانچہ ایسی کتابیں تصنیف کی جانے لگیں جوصرف احادیثِ مرفوعہ پرمشتمل ہوں اور بیشتر ان کی ترتیب مسانید صحابہ پررکھی گئی یعنی ایک صحابی سے منقول جتنی حدیثیں مصنف کوملیں ان کواس نے اس صحابی کا عنوان لگاکر جمع کردیا قطع نظر اس سے کہ ان سب کا مضمون ایک ہویاالگ الگ، قوت وضعف کے اعتبار سے وہ مساوی ہوں یامختلف، اس طرح کی کتابوں کومسند کہا جاتا ہے، کچھ اہم مسانید ان کے مصنفین کے ناموں کے ساتھ یہ ہیں: (۱)مسند عبدالملک بن عبدالرحمن الذماری (۲۰۰ھ) (۲)مسند ابوداؤد الطیالسی (۲۰۴ھ) اس میں درج صحابہ کی تعداد ۱۷۷/ ہے اور کل احادیث کی تعداد ۲۷۶۷/ ہے (۳)مسندمحمدبن یوسف فریابی (۲۱۲ھ) (۴)مسنداسدبن موسیٰ الاموی (۲۱۲ھ) (۵)مسندعبیداللہ بن موسی العبسی (۲۱۳ھ) (۶)مسند عبداللہ بن زبیر الحمیدی (۲۱۹ھ) اس میں ۱۸۰/صحابہ کی حدیثیں ہیں جن کی تعداد کل ۱۳۰۰/ ہے، (۷)مسنداحمد بن منیع بغوی (۲۲۴ھ)، (۸)مسند نعیم بن حماد خزاعی(۲۲۸ھ) (۹)مسند مسددبن مسرہدبصری (۲۲۸ھ) (۱۰)مسند علی بن الجعد الجوھری (۲۳۰ھ) (۱۱)مسند عبداللہ بن محمدجعفی مسندی (۲۲۹ھ) (۱۲)مسند یحییٰ بن معین (۲۳۳ھ) (۱۳)مسندابوخیثمہ زبیربن حرب (۲۳۴ھ) (۱۴)مسندابی عبداللہ بن محمدبن ابراہیم، ابن ابی شیبہ (۲۳۵ھ) (۱۵)مسنداسحاق بن راہویہ (۲۳۸ھ) (۱۶)مسند امام احمد بن حنبل (۲۴۰ھ) اس میں ۱۰۵۶/صحابہؓ اور صحابیاتؓ کے مسانید ہیں، اس میں احادیث کی تعداد مکررات کے ساتھ چالیس ہزار ہے۔ (۱۷)مسند خلیفہ بن خیاط (۲۳۰ھ) (۱۸)مسنداسحاق بن ابراہیم السعدی (۲۴۲ھ)، (۱۹)مسند عبد بن حمید (۲۴۹ھ)، (۲۰)مسنداسحاق بن ابراہیم السعدی (۲۴۲ھ)، (۲۱)مسند محمدبن ہشام سدوسی (۲۵۱ھ)، (۲۲)مسند عبداللہ بن عبدالرحمن دارمی(۲۵۵ھ)، (۲۳)مسنداحمد بن سنان واسطی (۲۵۵ھ)، (۲۴)مسندمحمدبن مہدی (۲۷۲ھ)، (۲۵)مسند بقی بن مخلد اندلسی (۲۷۶ھ) کہا جاتا ہے کہ دنیا کے مسانید میں یہ سب سے بڑا مسند ہے، جس میں ۱۰۳۰/سے زائد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی حدیثیں ہیں، یہ مسند بھی ہے اور مصنف بھی، (۲۶)مسند ابومحمدالحارث بن ابی اسلم تمیمی (۲۱۲ھ) اس کے زوائد کوابنِ حجرؒ نے المطالب العالیہ میں اور بوصیری نے اتحاف المہرہ میں جمع کیا ہے، (۲۷)مسندابوبکر احمد بن عمروالبزار(۲۹۲ھ) (۲۸)مسند ابراہیم بن معقل نسفی(۲۹۵ھ) (۲۹)مسندابی یعلیٰ احمد بن علی بن مثنی الموصلی (۳۰۷ھ) (۳۰)مسند ابوبکر بن محمد بن ہارون الرویانی(۳۰۷ھ) (۳۱)مسند ابوحفص عمر بن بحیر الہمدانی(۳۱۱ھ) (۳۲)مسند ابوالعباس محمد بن اسحاق السراج(۳۱۳)یہ بھی مسند ہے لیکن ابواب پر مرتب ہے (۳۳)مسند ابومحمد عبدالرحمن بن ابی حاتم الرازی (۳۲۷ھ) (۳۴)مسند ابومحمد عبدالرحمن بن کلیب بن شریح الشاشی(۳۳۵ھ) تدوینِ حدیث کی تکمیل کا دور تیسری صدی کا دور حدیث کے کمال اور پختگی کا دور ہے، اس دور میں مکمل احادیث مرتب ومدون شکل میں موجود ہوگئی؛ چنانچہ اس کے بعد کے دیگر مصنفین نے تصنیف کا ایک نیا باب کھولا اور پورے ذخیرہ کوچھان پھٹک کرصحیح کوغیرصحیح سے الگ کرنے اور ہرباب سے متعلق قابل عمل حدیثوں کوجمع کرنے کی کوشش کی، اس طرح کی کوشش کرنے والوں میں سب سے مقدم ائمہ ستہ ہیں، جن کی تصنیفات شہرۂ آفاق ہیں۔ (۱)امام بخاریؒ (۲۵۶ھ): نے ایک ایسی کتاب جوجمیع ابواب دین پرحاوی ہومختصر ہو اور صحیح احادیث کا ذخیرہ ہوجمع کرنے کا بیڑا اُٹھایا۔ (۲)امام مسلم (۲۶۱ھ): امام بخاری کے شاگرد مسلم بن حجاج قشیری ہیں؛ انہوں نے ایسی احادیث جمع کی ہیں جس میں صحت کی تمام متفق علیہ شرائط پائی جاتی ہیں۔ (۳)امام نسائی، ابوعبدالرحمن بن احمد بن شعیبؒ (۳۰۳ھ) آپ نے سنن جمع کی اور اس میں امام بخاریؒ ومسلمؒ کی اتباع کے ساتھ حدیث کی بہت ساری علتیں بیان کیں۔ (۴)امام ابوداؤد سلیمان بن اشعث سجستانی (۲۷۵ھ) آپ نے ان احادیث کوجمع کرنے کا اہتمام کیا ہے جن سے ائمہ و فقہا نےاستدلال کیا ہے، آپ نے حسن صحیح اور اپنی نظر میں قابل عمل حدیثوں کوجمع کیا ہے۔ (۵)امام ترمذی محمدبن عیسیٰ ابوعیسی (۲۷۹ھ) آپ نے امام ابوداؤد رحمۃ اللہ علیہ کی طرح مستدلات فقہاء کوجمع کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے شیخ امام بخاری رحمہ اللہ کی اتباع میں جمیع ابواب دین پرمشتمل حدیثوں کوجمع کیا؛ مزید صحابہ، تابعین، فقہاء کے مذاہب اور حدیثوں کے درجوں کوبیان کرنے کا بھی اہتمام کیا ہے۔ (۶)امام ابن ماجہ قزوینی (۲۷۳ھ) آپ نے اپنی سنن کوبڑے اچھے انداز سے مرتب کیا اور اس میں اپنے شیخ ابن ابی شیبہ کی اتباع کی۔ تیسری صدی ہجری کے بعد (۱)تیسری صدی ہجری کے ساتھ تدوینِ حدیث نبوی کا عمل بھی انتہا کوپہونچ گیا؛ لیکن اس کے بعد مدون احادیث پرمختلف پہلوؤں سے کافی کام ہوتا رہا: (۱)صحیح ابنِ خزیمہ: ازمحمد بن اسحاق بن خزیمہ نیساپوری (۳۱۱ھ) کی کتاب ایک عرصہ تک متداول رہی؛ پھرحوادثِ زمانہ کے نذر ہوگئی، شروع کا آدھا حصہ ڈاکٹرمصطفی اعظمی کی تحقیق سے شائع ہوا۔ (۲)صحیح ابنِ السکن: ازحافظ ابوعلی سعید بن عثمان ابن السکن (۳۵۳ھ)۔ (۳)صحیح ابنِ حبان: ازابوحاتم محمدبن حبان البستی (۳۵۴ھ) یہ ابن خزیمہ کے شاگرد ہیں؛ انہوں نے ایک عجیب نرالی ترتیب اپنائی، مثلاً:اوامر کی احادیث ایک جگہ، مناہی کی احادیث ایک جگہ، اخبار وقصص کی احادیث ایک جگہ، اس لیے اس سے استفادہ مشکل ہوگیا؛ چنانچہ علی بن بلبان فارسی (۳۷۹ھ) نے اس کوابواب علمیہ پرمرتب کرکے اس سے استفادہ آسان کیاہے۔ (۲)کتب السنن: بعض مصنفین نے سنن اربعہ کے مصنفین کی اتباع میں احادیث احکام کوجمع کرنے کا کام کیا؛ چنانچہ: (۱)امام دارِقطنی (۳۸۵ھ) نےاپنے سنن میں اپنی دانست کے مطابق صرف ان احادیث کوجمع کیا جن میں کسی طرح کی علت یاضعف نہ پایا جاتا ہو۔ (۲)حافظ ابوبکراحمد بن حسین بیہقی (۴۵۸ھ) نے السنن الکبریٰ مرتب فرمائی، ان کا مقصد خصوصاً کثرت سے مستدلات فقہاء کوجن میں خاص طور سے شوافع کے مستدلات ہیں ان کوجمع فرمایا۔ (۳)مستدرکات: بعض محدثین صحیحین یاان کے علاوہ بعض اہم کتب حدیث کی شرائط اور خصوصیات کوذہن میں رکھ کرکچھ اور حدیثوں پرغور کیا جن میں بظاہر ان کتب کی شرطیں پائی جاتی ہیں؛ چنانچہ مستدرک کے عنوان سے ان حدیثوں کوجمع کیا، مثلاً حاکم ابوعبداللہ نیساپوری کی کتاب المستدرک علی الصحیحین اور دارِقطنی کی الالزامات ہیں۔ (۴)مستخرجات: بعض محدثین نے حدیث کی امہات الکتب پراستخراج کا کام انجام دیا، استخراج اس کوکہتے ہیں کہ کسی کتاب کی کل یابعض حدیثوں کوذہن میں رکھ کرایسے طریق اور ایسی سند سے اس کوروایت کیا جائے جواس مصنف کتاب کوچھوڑ کراس کے شیخ یاشیخ الشیخ یااوپر کی سند میں کہیں بھی جاکر جڑ جائے: (۱)ابوبکر الاسماعیلی (۳۷۱ھ) انھوں نے صحیح بخاری پر مستخرج لکھا۔ (۲)ابوعوانہ یعقوب بن اسحاق الاسفراینی (۳۱۳ھ) ان کی کتاب صحیح ابن عوانہ سے معروف ہے اور مسلم پرمستخرج ہے۔ (۳)ابونعیم الاصفہانی (۴۳۰ھ) کی کتاب صحیحین پرمستخرج ہے۔ (۴)ابوعلی حسن بن علی الطوسی (۳۱۲ھ) ان کی کتاب جامع ترمذی پرمستخرج ہے۔ (۵)معاجم: بعض محدثین نے احادیثِ نبویہ کومعجم کے طریق پرمرتب کرکے کچھ نئے فوائد پہونچانے کی کوشش کی؛ چنانچہ امام ابوالقاسم سلیمان بن احمد الطبرانی (۳۶۰ھ) کے تینوں معاجم الگ الگ نوعیت کے ہیں: (۱)المعجم الکبیر:اس میں امام طبرانی نے تقریباً صحابہ کی مرویات کوحروفِ ہجاء پرجمع کرنے کی کوشش کی ہے اور ہرصحابی کی حدیث کومختلف سندوں سے ذکر کرکے اس حدیث پرحکم لگانے اور اس سے مراد نبوی کوجاننے کے عمل کوآسان کردیا ہے۔ (۲)المعجم الاوسط: اس کتاب کوانہوں نے اپنے شیوخ کی ترتیب پرترتیب ہجائی میں مرتب کیا ہے، اس کا مقصد صرف شیوخ کی احادیث کوبیان کرنا نہیں ہے؛ بلکہ وہ اس کے ہرروایتِ غرابت اور اس کی نوعیت اور منفرد راوی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ (۳)المعجم الصغیر: اس کوامام طبرانی نے صرف اپنے شیوخ کے تعارف کے لیے تصنیف کیا ہے اور شیوخ کوہجائی ترتیب پرذکر کیا ہے۔ (۴)المعجم الصحابۃ لابن قانع: اسی طرح ابوالحسن عبدالباقی بن قانع البغدادی نے صحابہؓ کے حالات میں یہ کتاب لکھی ہے، جس میں حروفِ ہجاء کی ترتیب پر ہرصحابی کے ترجمہ میں اس کی چند حدیثیں تخریج کی ہیں۔ (۶)کتب مجامع: بعض محدثین نے دویادوسے زائد کتابوں کی احادیث کوبیک وقت ایک جگہ استفادہ کے خاطر جمع کیامثلاً: (۱)ابوعبداللہ محمدبن فتوح الاندلسی الحمیدی (۵۸۸ھ)، (۲)ابومحمدعبدالحق بن عبدالرحمن الاشبیلی (۵۸۱ھ)، (۳)ابوالفضائل الحسن بن محمد الصنعانی (۶۵۰ھ) اول الذکردونوں نے اپنے طور پر صحیحین کویکجا کرنے کاکارنامہ انجام دیاجو الجمع بین الصحیحین کے نام سے معروف ہیں اور ثالث الذکر کی کتاب کا نام مشارق الانوار ہے۔ (۴)رزین بن معاویہ السر قسطی العبدری (۵۳۵ھ) ان کی کتاب تجرید الصحاح والسنن ہے، جوکتب ستہ کا مجموعہ ہے، اس میں چھٹی کتاب مؤطا مالک ہے،اس میں ابن ماجہ کی حدیثیں شامل نہیں ہیں ۔ (۵)جامع الأصول من احادیث الرسول:ازابوالسعادات مجدالدین مبارک بن محمدالمعروف بابن اثیر جزری (۶۰۶ھ) یہ کتاب دراصل رزین کی ترتیب جدید ہے، مزید اس میں الفاظ کی تشریح اور اخیر میں اعلام کے تراجم بھی شامل ہیں۔ (۶)جمع الفوائد من جامع الاصول ومجمع الزوائد: ابوعبداللہ محمدبن محمدبن سلیمان مغربی (۱۰۹۴ھ) کی کتاب ہے انہوں نے جامع الاصول اور مجمع الزوائد دونوں کوجمع کردیا ہے مجمع الزوائد چھ اہم کتب حدیث: مسنداحمد، مسندابویعلی، مسندبزار اور طبرانی کے تینوں معاجم کی احادیث کامجموعہ ہے، جوکتب ستہ سے زائد ہیں، مزید مصنف نے جمع الفوائد میں ابن ماجہ اور دارمی کی ان احادیث کو بھی شامل کیا ہے جوجامع الاصول اور مجمع الزوائد میں نہیں تھیں؛ اس طرح یہ کتاب ۱۴/کتب کا مجموعہ ہے۔ (۷)کنزالعمال فی سنن الاقوال والافعال: علاء الدین علی بن حسام الدین متقی ہندی برہان پوری (۹۷۵ھ) کی تصنیف جودرحقیقت حافظ سیوطیؒ (۹۱۱ھ) کی تین کتابیں جمع الجوامع، جامع کبیر، جامع صغیر اور زیادات الجامع الصغیر کا مجموعہ ہے اور سیوطی کی یہ کتابیں خود مختلف کتب حدیث کا مجموعہ ہیں، علامہ سیوطی کی ان کتب سے ان کے اقوال وافعال کی ترتیب پرتقسیم کی وجہ سے اس سے استفادہ مشکل تھا، شیخ علی متقی نے ان تینوں کومضامین علمیہ پرجمع کرکے استفادہ کوآسان بنایا ہے۔ (۷)کتب زوائد: کئی ایک محدثین نے کسی ایک یاچند کتابوں کوذہن میں رکھ کردوسری کسی ایک یاچند کتابوں کی ان حدیثوں کوالگ کرنے کا بیڑہ اٹھایا جواوّلذکر کتابوں میں نہیں تھیں: (۱)مواردالطماٰن الی زوائد ابن حبان: ازنورالدین علی بن ابی بکر ہیثمیؒ (۷۰۸ھ) یہ کتاب صرف ان حدیثوں کا مجموعہ ہے جوصحیح ابن حبان میں بخاری ومسلم کے علاوہ وارد ہوئی ہیں۔ (۲)مجمع الزوائد ومنبع الفوائد: یہ بھی حافظ نورالدین ہیثمی کی تالیف ہے، اس میں انھوں نے کتب ستہ، صحیحین اور سننِ اربعہ میں موجود حدیثوں کے علاوہ صرف ان احادیث کوجمع کیا ہے جواہم مصادر حدیث، مسنداحمد، مسندابویعلی، مسندبزار اور طبرانی کی تینوں معجم میں موجود تھیں، جن کوزوائد سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ (۳)اتحاف السادۃ المھرۃ الخیرۃ لزوائدالمسانید العشرۃ: یہ کتاب ابوالفضل احمد بن محمدبوصیری (۸۴۰ھ) کی ہے جس میں دس مسانید کی ان حدیثوں کوجمع کیا گیا ہے جوکتب ستہ سے زائد ہیں، مسند ابوداؤد الطیالسی، مسند حمیدی، مسند مسدد، مسند اسحاق بن راہویہ، مسند ابوبکر ابن ابی شیبہ، مسنداحمد بن منیع، مسندعبد بن حمید، مسند حارث بن محمد، مسند ابویعلی الموصلی۔ (۴)المطالب العالیہ فی زوائد المسانید الثمانیہ: یہ کتاب حافظ الدنیا ابن حجرعسقلانی (۸۵۲ھ) کی تالیف ہے، یہ بھی مذکورہ بالامسانید کے زوائد کا مجموعہ ہے۔ (۸)کتب مشکل الحدیث ومختلف الحدیث: بعض محدثین نے ایک موضوع سے متعلق متعارض احادیث (جن کومختلف الحدیث کہا جاتا ہے) کے درمیان جمع وتطبیق کا یاراجح ومرجوح کی تعیین کی نشاندہی کا کام انجام دیا یاوہ احادیث جن کی مراد کسی عارض کی وجہ سے ظاہر نہیں تھی، جنھیں مشکل الحدیث کہا جاتا ہے، ان کی تفہیم وتشریح کا کام انجام دیا۔ اِن میں سب سے نمایاں مقام امام ابوجعفر احمد بن محمدبن سلامہ الازدی الحجری الطحاوی (۳۲۱ھ) کوحاصل ہے؛ چنانچہ ان کی دونوں کتابیں بیان مشکل الآثار اور شرح معانی الآثار لاجواب ہیں؛گرچہ ان سے پہلے امام شافعی کی اختلاف الحدیث اور ابن قتیبہ دینوری کی کتاب تاویل مختلف الحدیث ایک خاص نقطہ نظر سے محدود دائرہ میں لکھی گئیں تھی ۔ اس کے علاوہ مختلف کام ہوئے کسی نے موضوع ومن گھڑت احادیث کی نشاندہی کی، کسی نے زبان زداحادیث میں حدیث کوغیرحدیث سے ممتاز کیا؛ کسی نے تفسیری روایات کوالگ کیا، توکسی نے فقہ، تاریخ، عربیت کی کتابوں میں موجود احادیث کی تخریج اور ان پرحکم لگانے کا کام انجام دیا؛ کسی نے مشکل الفاظ کی تشریح کی توکسی نے شرح وتحشیہ کا کام کیا؛ اس طرح تدوینِ حدیث کا کام مکمل ہوا۔