انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** عمرو بن العاص کا قبول اسلام مدینہ منورہ میں تشریف لائے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چند ہی روز ہوئے تھے کہ مکہ میں حضرت عمرو بن العاص نے مسلمان ہونے اور مکہ سے ہجرت کرنے کا ارادہ کیا، عمرو بن العاص کی نسبت اوپر بیان ہوچکا ہے کہ قریشِ مکہ نے ان کو مسلمانوں کے خلاف نجاشی شاہِ حبش کے پاس سفیر بناکر بھیجا تھا کہ مسلمان مہاجرین کو حبش میں پناہ نہ مل سکے، نجاشی کے دربار میں اُن کو خفت وناکامی حاصل ہوئی تھی اُس نے اُن کے دل پر اسلام کی صداقت کا سکہ بٹھا دیا تھا وہ اثر برابراندر ہی اندر اپنا کام کرتا رہا اوربعد کے حالات نے اس کی تائید وتصدیق کی، لہذا اب عمرو بن العاص سے ضبط نہ ہوسکا،خالد بن ولید ان کے بڑے گہرے دوست تھے،سفر حدیبیہ میں بہ مقام غضبان رات کے وقت نمازِ عشاء میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے قرأتِ کلام مجید سُن کر خالد بن ولید کا دل نرم ہوگیا تھا اسی روز سے ان کو اسلام سے محبت تھی ،عمرو بن العاص نے خالد بن الولید سے اپنا ارادہ ظاہر کیا تو خالد بن ولیدؓ فوراًعمروبن العاصؓ کی ہمراہی پر آمادہ ہوگئے،اس کے بعد دونوں نے اپنے تیسرے دوست عثمان بن طلحہؓ کو اپنے ارادے سے مطلع کیا وہ بھی بلا تامل ان کا ساتھ دینے کو تیار ہوگئے،قریش کے یہ تینوں سردار مکہ سے روانہ ہوکر مدینہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر مسلمان ہوگئے تھے،اُن کے مسلمان ہوجانے سے اسلام کو بڑی تقویت پہنچی،خالد بن ولیدؓ اورعمروبن العاصؓ کو مسلمان ہوتے وقت جب یہ معلوم ہوا کہ مسلمان ہونے سے پچھلے تمام گناہوں کی معافی ہوگئی تو وہ بہت ہی خوش ہوئے۔