انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** تجدید واصلاح عقائد واعمال کی تجدید اورمذہب اوراخلاق کی اصلاح صحابہ کرام کا سب سے بڑا فرض تھا اورانہوں نے ہر موقع پر نہایت سرگرمی کے ساتھ اس مقدس فرض کو ادا کیا۔ رسوم جاہلیت کا انسداد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمانہ جاہلیت کے جن عقائد و اعمال کو مٹادیا تھا،جب وہ کبھی رونما ہوتے تھے تو صحابہ کرام نہایت سختی کے ساتھ ان کی مخالفت کرتے تھے، جاہلیت کے زمانہ میں بچوں کے سرہانے استرار کھدیتے تھے اور سمجھتے تھے کہ اس کے ذریعے سے بچے جنوں کے آسیب سے محفوظ رہیں گے، حضرت عائشہؓ نے ایک بار کسی بچے کے سرہانے استرا دیکھا تو منع فرمایا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ٹوٹکے کو سخت ناپسند فرماتے تھے۔ (ادب المفرد باب الطیرۃ من الجن) عرب میں قاعدہ تھا کہ مرد ے کی لاش پر نوحہ کرتے تھے، اسلام نے اس کی ممانعت کی ؛لیکن بعد کو کوفہ والوں نے جاہلیت کی اس رسم کو تازہ کیا اور قرظہ بن کعب کی لاش پر اسی طریقہ سے نوحہ وبکا کیا، حضرت مغیرہ بن شعبہؓ کو معلوم ہوا توکہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: من ینح علیہ فانہ یعذب بماینح علیہ یوم القیامہ (مسلم کتاب الجنائز باب المیت یعذب ببکاراہلہ علیہ) جس شخص پرنوحہ کیا گیا اس پر قیامت کے دن اس کی وجہ سے عذاب کیا جائے گا۔ ایک بارحضرت ابوبکرؓ نے ایک عورت کو دیکھا کہ خاموش ہے، وجہ پوچھی تو معلوم ہوا کہ اس نے خاموش حج کیا ہے اس کو فوراً ممانعت کی اورکہا کہ یہ جائز نہیں ہے یہ جاہلیت کا کام ہے،(بخاری باب ایام الجاہلیۃ) حضرت عروہ بن مسعودؓ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت سے واپس ہوکر اپنے وطن طائف آئے تو ان کے قبیلے کے تمام لوگ ملاقات کو آئے اور جاہلیت کے طریقے پر سلام کیا انہوں نے اس پر سختی سے اعتراض کیا اور کہا کہ تم کو اہل جنت کی طرح سلام کرنا چاہئے۔ (طبقات ابن سعد تذکرہ حضرت عروہ بن مسعودؓ) شرک و بدعت کا استیصال خلفائے راشدینؓ کے عہد تک یہ معمول تھا کہ خطبۂ عیدین نماز کے بعد دیا جاتا تھا؛لیکن جب مروان نے اس سنت کو بدل دیا اور خطبہ کے بعد نماز پڑھانا شروع کی تو اسی وقت ایک شخص نے مخالفت کی اورحضرت ابو سعید خدری نے اس کی تائید کی ،دوسرے سال مروان عیدگاہ میں حضرت ابو سعید خدریؓ کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے ہوئے آیا اور ان کو پہلے منبر کی طرف لیجانا چاہا؛ لیکن انہوں نے اس کو نماز کے لئے گھسیٹا اور کہا کہ ابتداء نماز کیا ہوئی؟ اس نے کہا آپ کو اس مسئلہ میں جو کچھ معلوم ہے وہ تو ترک کردیا گیا؛ لیکن انہوں نے تین بار فرمایا کہ مجھ کو جو کچھ معلوم ہے تم اس سے بہتر روش قائم نہیں کرسکتے۔ (مسلم کتاب الصلوٰۃ العیدین وبخاری کتاب العیدین) صحابہ کرام کو بدعات و محدثات کے استیصال کا اس قدر خیال تھا کہ نہایت چھوٹی چھوٹی باتوں پر دارو گیر کرتے تھے، ایک بار حضرت عبداللہ بن مفضل کے صاحبزادے نے نماز میں سورۂ فاتحہ کے ابتداء میں بسم اللہ پڑھ لیا، انہوں نے سنا تو فوراً بول اٹھے کہ بیٹا یہ بدعت ہے اس سے بچو۔ شرک و بدعات کی تولید اکثر مذہبی عظمت سے ہوتی ہے جس کے مظہر صحابہ کرام کے زمانہ میں نہایت کثرت سے موجود تھے؛لیکن جب کبھی صحابہ کرام کو یہ خطرہ پیدا ہوا کہ اس عظمت کا عملی اعتراف شرک و بدعت کی صورت اختیار کرلے گا تو فوار اًاس کی مخالفت کی ،ایک بار حضرت عمرؓ سفر حج سے واپس آرہے تھے راستہ میں دیکھا کہ لوگ ایک مسجد کی طرف دوڑے ہوئے جارہے ہیں پوچھا یہ کیا ہے ،لوگوں نے کہا ایک مسجد ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علہ وسلم نے نماز پڑھی تھی، بولے تم سے پہلے اہل کتاب اسی طرح مشرک ہوگئے جس کو نماز پڑھنا ہو وہ نماز پڑھ لے ورنہ آگے بڑھے۔ (وفاء الوفاء ،صفحہ ۴۴۹) حضرت عمرؓ کے زمانے تک شجرۃ الرضوان قائم تھا اورلوگ متبرک سمجھ کر اس کی زیارت کوآتے تھے یہ دیکھ کر انہوں نے اس کو جڑ سے کٹوادیا، (ازالۃ الخفاء جلددوم ،صفحہ ۹۱) مسلمانوں میں غلافِ کعبہ کی جو عزت و حرمت ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جب نیا غلاف چڑھایا جاتا ہے تو پرانا غلاف چراچھپا کر، خادموں کو کچھ دے دلا کر لے لیتے ہیں اوراس کو تبرک سمجھ کر گھر لے آتے ہیں، اس کو مکانوں میں رکھتے ہیں، دوستوں کو بطور سوغات کے تقسیم کرتے ہیں، قرآن میں رکھتے ہیں مسجدوں میں لٹکاتے ہیں اور مریض کو اس سے ہوا دیتے ہیں؛ لیکن قرن اول میں یہ حالت نہ تھی، متولی کعبہ صرف یہ کرتا تھا کہ غلاف کو زمین میں دفن کردیتا تھا کہ وہ ناپاک انسانوں کے مصرف کا نہ رہے، شیبہ بن عثمان نے جو اس زمانہ میں کعبہ کے کلید بردار تھے، حضرت عائشہ ؓ سے یہ واقعہ بیان کیا تو انہوں نے سمجھ لیا کہ یہ تعظیم غیر شرعی ہے، خدا اور رسول نے اس کا حکم نہ دیا اور ممکن ہے کہ آئندہ اس سے سوء اعتقاد اوربدعات کا سرچشمہ پھوٹے، اس لئے شیبہ سے کہا یہ تو اچھی بات نہیں تم برا کرتے ہوجب غلاف کعبہ سے اتر گیا اور کسی نے اس کو ناپاکی کی حالت میں استعمال بھی کرلیا تو کوئی مضائقہ نہیں تم کو چاہئے کہ بیچ ڈالا کرو اوراس کی قیمت غریبوں اورمسافروں کو دے دیا کرو۔ (عین الاصابہ بحوالہ ،سنن بیہقی) اصلاح اخلاق اسلام میں ہر مصلح اخلاق کا پہلا فرض یہ ہے کہ وہ خالص اسلامی اخلاق کو قائم رکھے، اوران کو غیر قوموں کے اخلاق کے ساتھ مخلوط نہ ہونے دے، دوسرے یہ کہ جو اخلاق اصول مذہب اصول انسانیت اوراصول شرافت کو صدمہ پہنچاتے ہیں، ان کا استیصال کرے ،صحابہ کرام نے اپنے دور خلافت میں یہ دونوں فرض نہایت مستعدی کیساتھ ادا کئے، حضرت عمرؓ نے تمام عمال کو تحفظ اخلاق عرب کی ہدایت فرمائی اور لکھا کہ: ادنوا انحیل وانتظلواوایاکم واخلاق الا عاجم وان لا تجلسوا علی مائدۃ یشرب علیھا الخمر ولا یحل لمومن ولا مومنۃ تدخل الحمام الا بمیزرالا من سقم (اسد الغابہ تذکرہ حضرت عائشہ صدیقہؓ) گھوڑوں کو قریب رکھو، تیر اندازی کرو اوراخلاق عجم کے اختیار کرنے اورایسے دسترخوان پر بیٹھنے سے جس پر شراب پی جائے احتراز کرو، کسی مسلمان مرد یا عورت کے لئے یہ جائز نہیں کہ بغیر کسی بیماری کے حمام میں بلا تہ بند باندھے نہائے۔ ایک دفعہ کسی عورت نے حضرت عائشہؓ سے کہا کہ میری بیٹی دلہن بنی ہے، لیکن بیماری سے اس کے بال گر گئےہیں کیا مصنوعی بال جوڑدوں؟ فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کی عورتوں پر لعنت بھیجی ہے۔ (مسند ،جلد۶،صفحہ:۱۱۱) عرب میں جو بداخلاقیاں پھیلی ہوئی تھیں ،وہ بہت کچھ تو خود بخود اسلام کے اثر سے مٹ گئیں اورجو رہ گئی تھیں ، ان کو صحابہ کرام نے بالکل مٹادیا، مثلاً فخر و غرور کہ اس کے اظہار کی ایک صورت یہ تھی کہ لوگ لڑائیوں میں قبائل کی جے پکارتے تھے،حضرت عمرؓ نے اس کو حکماً منع کردیا۔ (کنز العمال) اس سلسلے میں سب سے مقدم چیز شاعری کی اصلاح تھی، کیونکہ شعراء لوگوں کی ہجویں لکھتے تھے اوران سے سینکٹروں اخلاقی خرابیاں پیدا ہوتی تھیں، حضرت عمرؓ نے اس کو جرم قراردیا اورہجو گوئی پر شعرا ءکو سزادی ،چنانچہ ایک بار نجاشی نے تمیم بن مقبل کی ہجو لکھی، انہوں نے حضرت عمرؓ کی خدمت میں استغاثہ کیا تو حضرت عمرؓ نے اور اشعار پر تو کوئی گرفت نہیں کی لیکن جب یہ شعر سنا: اولئک اولاد الھجین واسرۃ اللیم ورھط العاجز المتذلل یعنی یہ لوگ دوغلے کمینہ خاندان اورعاجز اورذلیل قبیلہ کے ہیں۔ تو فرمایا کہ اب اس شعر پر معاف نہیں رکھ سکتا، چنانچہ اس کو قید کیا اور کوڑے لگائے۔ (اصابہ تذکرہ تمیم بن مقبل) حطیہ مشہور ہجو گو شاعر تھا ایک بار اس نے زبر قان بن بد کی ہجو کہی جس کا ایک شعر یہ تھا۔ وع المکارم لا ترحل لبغتیھا واقعد فانک انت الطاعم الکاسی فضائل چھوڑدے اس کے حاصل کرنے کے لئے سفر نہ کرے اوربیٹھ جا کیونکہ تو صرف کھانے اورپہننے والا آدمی ہے۔ زبرقان نے حضرت عمرؓ سے شکایت کی تو انہوں نے حضرت ابن عباسؓ سے پوچھا کہ یہ ہجو ہے، انہوں نے کہاہاں اس پر انہوں نے حطیہ کو تہ خانہ میں قید کردیا اورجب حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ اورحضرت زبیرؓ نے سفارش کی تویہ قول لے کر چھوڑا کہ پھر کسی کی ہجو نہ کہے گا۔ (اسد الغابہ تذکرہ زبرقان) ہجو کے علاوہ شعراء اشعار میں علانیہ اپنے معشوقوں کے نام لیتے تھے اوران کے حسن کی تعریف کرتے تھے،جس کو عربی میں تشبیب کہتے ہیں، حضرت عمرؓ نے تمام شعراء کو حکم دیا۔ لا یشیب احد بامراۃ الا جلدہ (اسد الغابہ تذکرہ حمیدبن ثور) کوئی شخص کسی عورت کی تشبیب نہ کرے ورنہ اس کو سزادیجائے گی۔ اصلاح بین الناس اسلام نے عرب کے قدیم بغض و کینہ کو مٹاکر تمام مسلمانوں کو اتحاد واتفاق کی جس سنہری زنجیر میں جکڑ دیا تھا، صحابہ کرام نے حتی المقدور کبھی اس کی کڑیوں کو جدا نہیں ہونے دیا، حضرت عروہ بن مسعودؓ کے قبیلے کے لوگوں نے جب ان کے خون کا بدلہ لینا چاہا تو انہوں نے خود نہایت ایثار نفسی کے ساتھ فرمایا۔ لا تقتلوانی قد تصدقت بدمی علی صاحبہ لا صلح بذالک بینکم (طبقات ابن سعد تذکرہ حضرت عروہ بن مسعودؓ) میرے بارے میں جنگ وجدل نہ کرو، میں نے اپنا خون معاف کردیا تاکہ اس ذریعے سےتم لوگوں میں مصالحت ہوجائے۔ ان کے اصل قاتل حضرت اوس بن عوفؓ تھے، اس لئے مدت تک ان کو عروہ کے بیٹے حضرت ابو ملیح بن عروہؓ اوران کے بھتیجے حضرت قارب بن اسودؓ کی طرف سے انتقام کا کھٹکا لگا رہا؛ چنانچہ انہوں نے حضرت ابوبکرؓ سے اس کی شکایت کی تو انہوں نے ان دونوں صاحبوں کو انتقام سے روکا اوران سب کو باہم ملادیا اورسب نے ایک دوسرے سے ہاتھ ملایا۔ (طبقات ابن سعد تذکرہ اوس بن عوف) حضرت عمرؓ نے ہجویہ اشعار کہنے پر اس قدر سختی اس لئے کی تھی کہ باہم لوگوں میں ناچاقی نہ ہونے چاہئے، چنانچہ حضرت حسان بن ثابتؓ نے قریش کی ہجو میں جو اشعار خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد سے کہے تھے قریش کے اسلام لانے کے بعد ان کے پڑھنے کی ممانعت کردی کہ اس سے پرانی رنجشیں تازہ ہوتی ہیں۔ (اغانی تذکرہ حضرت حسانؓ بن ثابت) اصلاح معاش اصلاح معاش کے یہ معنی ہیں کہ معاش کے ناجائز طریقوں کو مٹا کر جائز طریقوں کو ترقی دی جائے،اور صحابہ کرام نے یہ دونوں فرض ادا کئے۔ ایک بار حضرت فضالہ بن عبیدؓ کو ایک مجمع میں معلوم ہوا کہ کچھ لوگ کو یہ کھیل رہے ہیں، برہم ہوکر اٹھے اورفرمایا کہ جو لوگ اس کی کمائی کھاتے ہیں سور کا گوشت کھاتے ہیں اور خون سے وضو کرتے ہیں۔ (ادب المفرد باب الغناء واللہو) ایک بار دو شخصوں نے ایک مرغ پر بازی لگائی، حضرت عمرؓ کو خبر ہوئی تو مرغ کو مارڈالنا چاہا، ایک شخص نے کہا ایسی امت کو قتل کرتے ہو جو خدا کی تسبیح خواں ہے اس لئے چھوڑدیا۔ (ادب المفرد باب قمار الدیک) ایک شخص کا یہ معمول تھا کہ جب اس کی گھوڑیاں بچھڑے جنتیں تو اس خیال سے ذبح کردیتا کہ جب تک یہ سواری کے قابل ہوں گے میں زندہ کب رہونگا؟ حضرت عمرؓ کو خبر ہوئی تو ایک تحریر حکم بھیجا کہ۔ اصلحوامارزقکم اللہ فان فی الابرتقسا خدا تم کو جو کچھ دے اس کی اصلاح کرو کیونکہ زندگی میں بڑی وسعت ہے۔ حضرت عبداللہ بن سلامؓ نے ایک شخص کو ہدایت کی کہ اگر تم سنو کہ دجال نمودار ہو گیا ہے اور تمہارے ہاتھ میں کھجور کا ایک پودا ہو تو اطمینان سے اس کو لگاؤ کیونکہ اس کے بعد بھی لوگ زندہ رہیں گے۔ (ادب المفرد باب اصطناع المال)